Mazhar-ul-Quran - Al-Insaan : 26
وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا
وَمِنَ الَّيْلِ : اور رات کے (کسی حصہ میں) فَاسْجُدْ : پس آپ سجدہ کریں لَهٗ : اس کو وَسَبِّحْهُ : اور اس کی پاکیزگی بیان کریں لَيْلًا : رات کا طَوِيْلًا : بڑا حصہ
اور کچھ رات میں اسے سجدہ کرو۔1 اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کیا کرو۔
گرمی محشر۔ طبرانی ، مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن مسعود سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ نبی نے فرمایا کہ حشر کے میدان میں سورج کے قریب آجانے سے گناہ لوگوں کو پسینے اور گرمی کی ایسی تکلیف ہوگی وہ اس تکلیف سے دوزخ میں جانے کو اچھا گنیں گے اس سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ جب اس دن کی ایک چھوٹی سی تکلیف ایسی بھاری ہوگی اور بڑی تکلیف کا کیا ٹھکانااسی واسطے اس دن کو بھاری فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے بھاری دن سے غفلت میں ہیں اس کی کچھ فکر نہیں بلکہ اس کے آنے کا یقین بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ مر کر جب گل سڑ کے پھر کون دوبارہ ہم کو ایسا ہی بنا کر کھڑا کردے گا، آگے اس کا جواب دیا کہ پانی جیسی پتلی چیز سے جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہڈی پسلی وغیرہ یہ سب مضبوط چیزیں ان کے آنکھوں کے سامنے پیدا کردیں تو وہ جب چاہے ان کے غارت کرنے کے بعد ان جیسی اور مخلوق کو یا حشر کے دن انہی کو پیدا کرسکتا ہے ، آنکھوں کے سامنے جو چیز ایک دفعہ آچکی تو پھر دوبارہ اس کے پیدا ہوجانے کا انکار یہ خلاف عقل سلیم ہے آگے فرمایا کہ یہ قرآن تو اللہ کی طرف سے ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اس نصیحت کو سن کر اس کے موافق عمل کرے تاکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ اچھا ہو مگر اتنی بات ہے کہ جو لوگ راہ پر آنے والے ہیں اور وہ جو ان کے برعکس ہیں وہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کے علم ازلی میں چھانٹے جاچکے ہیں اس کے موافق جن کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے وہ باوجود نصیحت کے کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں اور مجبور کرکے ان کو راہ پر لانا اللہ کو منظور نہیں کیونکہ مجبوری کا ایمان مجبوری کی عبادت کچھ اس کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ اس واسطے نتیجہ یہی ہوگا کہ ان میں کے بعض لوگ حالت کفر میں مریں گے اور اس کی سزا میں ان کو قیامت کے دن سخت سزا بھگتنا پڑے گی یعنی مغرب وعشا کی نمازیں پڑھو، اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر فرمایا گیا اور کچھ رات میں کا مطلب یہ ہے کہ فرائض کے بعد نوافل پڑھتے رہو اس میں نماز تہجد آگئی۔
Top