Mazhar-ul-Quran - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ1 لوگ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے ۔
(ف 1) ابرار کے ثواب بیان فرمانے کے بعد ان کے اعمال کا ذکر فرمایا جاتا ہے جن عملوں کے سبب سے ان کو یہ درجہ ملا ہے وہ تفصیل یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی فرض کی ہوئی عبادت کو پوری طور پر ادا کرتے ہی ہیں لیکن جو طاعت غیرواجب اپنے اوپرنذر سے واجب کرلیتے ہیں اس کو بھی ادا کرتے ہیں غرض اپنی مانی ہوئی نذر کو اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کی نیکی کو بھی باوجود تنگدست ہونے ، خالص عقبی کے ثواب کی نیت سے پورا کرتے ہیں منت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے وہ کسی شرط سے اپنے اوپر واجب کرلے مثلا یہ کہے کہ اگر میرا مریض اچھا ہو یا میرا مسافر بخیر واپس آئے تو میں راہ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعتیں نماز پڑھوں گا اس نذر کی وفا واجب ہوتی ہے۔ شان اہل بیت کرام علیہم الرضوان۔ شان نزول : یہ آیت حضرت علی اور حضرت فاطممہ اور ان کی کنیز فضہ کے حق میں نازل ہوئی حسنین کریمین بیمار ہوئے ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذرمانی اللہ نے صحت دی نذر کی وفا کا وقت آیا سب صاحبوں نے روزے رکھے ، حضرت علی ایک یہودی سے تین صاع جو لائے حضرت خاتون جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین ایک روز یتیم ایک روز قیدی آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دیدی گئیں، اور صرف پانی سے افطار کرکے اگلاروزہ رکھ لیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top