Mazhar-ul-Quran - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول (ﷺ) سے خیانت نہ کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں (دانستہ خیانت کرو اور تم جانتے ہو (کہ خیانت بری چیز ہے)
خیانت اور حضرت ابولبابہ ؓ کا واقعہ شان نزول جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے یہود بنی قریظہ کا محاصرہ اکیس روز تک کیا اور بنی قریظہ نے آنحضرت ﷺ سے صلح کرنے کی درخواست کی تو آنحضرت ﷺ نے انکار کیا اور یہ فرمایا کہ تم سعد بن معاذ کو اپنا پنچ (منصف) قرار دے کر اپنی گڑھی سے نیچے اتر آؤ۔ بعد اترنے کے سعد بن معاذ جو مشورہ اور رائے تمہارے بارے میں دیں گے، اس کے موافق فیصلہ کیا جاوے گا۔ بنی قریظہ نے کہا :” پہلے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو ہمارے پاس مشورہ کے لئے بھیج دو “۔ آنحضرت ﷺ نے ابولبابہ کو بھیج دیا۔ ابولبابہ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر اشارہ سے بنی قریظہ کو یہ سمجھایا کہ گڑھی سے اتروگے تو قتل کردئے جاؤگے۔ پھر ابولبابہ کو اسی وقت خیال آیا میں نے رسول کی امانت میں خیانت کی کہ لشکر اسلام کا بھید ان پر اشارہ سے ظاہر کردیا۔ اس قصور میں اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور عہد کیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہ فرماوے گا تو میں ستون سے بندھا رہوں گا۔ آخر نو روز بےآب ودانہ ستون سے بندھے رہے، نویں روز غش کھا کر گر پڑے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کی توبہ قبول ہوئی۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ان کی بندش کھولی۔ امانت میں خیانت کرنا منافق آدمی کی عادتوں میں سے ایک عادت ہے اس سے بچو۔
Top