Mazhar-ul-Quran - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ بات اس لئے ہے کہ اللہ بدلنے والا نہیں کسی نعمت کا کہ کسی قوم کو انعام کی گئی ہو جب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت کو بدل ڈالتے اور بیشک اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ فرمایا کہ ان کفار پر جو عذاب آیا جنگ بدر میں قتل و غارت ہوئے، قید میں آئے، ان کے مال لوٹ لئے گئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حالت خود بدل دی۔ عمرو بن یحییٰ نے ملت ابراہیمی کو بدل کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی، جس میں ان کے بڑے مبتلا ہوئے ۔ حال کے لوگ اپنے بڑوں کے قدم بقدم چلے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے فورا ان کو ہلاک نہیں کیا بلکہ ان کی حالت کو درست کرنے کے لئے نبی آخر الزماں ﷺ کو بھیجا۔ قرآن شریف نازل فرمایا۔ یہ نعمت اہل مکہ کو دی تھی ان لوگوں نے کچھ قدر نہ کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ سے مدینہ انصار کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد پھر اہل مکہ پر بدر کی آفت آئی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک قوم کی باتوں کو سنتا ہے اور ہر شخص کے عمل کو جانتا ہے۔ پھر بطور تاکید کے قوم فرعون اور پہلی امتوں کا حال بیان فرمایا کہ انہیں کفار کی طرح فرعون اور دوسری امتوں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں۔ خیر برکت کا دروازہ ان پر کھول دیا، طرح طرح کی نعمت ان کو عطاکی مگر انہوں نے اس کا شکر ادا نہ کیا۔ اللہ کے رسولوں اور اللہ کے کلام کو جھٹلایا۔ اس لئے اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، کسی کو آدمی سے بندر بنا دیا، کسی پر پتھر برسائے۔ سب سے آخر میں فرعون کو دریا میں غرق کرکے ہلاک کیا، اسی طرح ان کفار مکہ کو تلوار سے قتل کرادیا۔ یہ سب قومیں ظالم تھیں اپنی جانوں پر خود انہوں نے ظلم کیا۔
Top