Mazhar-ul-Quran - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک کہ زمین میں ان کا خون نہ بہائے (مسلمانو ! ) تم چاہتے ہو مال دنیا کا اور اللہ آخرت کی بھلائی چاہتا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے
قیدیوں کے قتل کی بابت اختلاف جب بدر کی لڑائی میں کفار قریش میں سے ستر کافر گرفتار ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ لیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ان پر قدرت دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہوکر کہا کہ : انہیں قتل کرڈالئے۔ آپ نے کچھ خیال نہ کیا پھر دوبارہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! تمہیں ان پر آج قابو ہے، یہ تمہارے بھائی تھے آج قیدی ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا :” ان کی گرنیں ماریئے “ آنحضرت ﷺ نے پھر وہی فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کھڑے ہو کر کہا :” میری رائے ہے کہ ان کو معاف کیجئے اور فدیہ لے کر چھوڑ دیجئے “۔ اس بات پر آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک سے غم کے آثار دور ہوئے اور آپ نے فدیہ لے کر چھوڑدیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ اگر اللہ ایک بات پہلے نہ لکھ چکا ہوتاتو تم پر بہت بڑا عذاب آجاتا۔ اس عتاب کو سن کر مسلمانوں نے فدیہ لینے سے ہاتھ روک لیا اور جی میں ڈرے، تو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کے لکھے ہوئے کے موافق پھر یہ فرمایا کہ جو مال تمہیں غنیمت میں حاصل ہوا ہے وہ بالکل پاک و حلال ہے۔ اسے اچھی طرح کھاؤ پیو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آئندہ خدا سے ڈرتے رہو، پھر کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے کہ حکم الہی کے نازل ہونے سے پہلے کوئی کام کر بیٹھو اور جو باتیں گزر چکیں اللہ غفور الرحیم ہے اس سے مغفرت کی امید رکھو۔
Top