Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 108
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا١ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ١ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ
لَا تَقُمْ : آپ نہ کھڑے ہونا فِيْهِ : اس میں اَبَدًا : کبھی لَمَسْجِدٌ : بیشک وہ مسجد اُسِّسَ : بنیاد رکھی گئی عَلَي : پر التَّقْوٰى : تقوی مِنْ : سے اَوَّلِ : پہلے يَوْمٍ : دن اَحَقُّ : زیادہ لائق اَنْ : کہ تَقُوْمَ : آپ کھڑے ہوں فِيْهِ : اس میں فِيْهِ : اس میں رِجَالٌ : ایسے لوگ يُّحِبُّوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَطَهَّرُوْا : وہ پاک رہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : محبوب رکھتا ہے الْمُطَّهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
تم کبھی اس مسجد میں کھڑے نہ ہونا (نماز کے لئے) البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوے پر رکھی گئی ہے (یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی ﷺ) وہ اس قابل ہے کہ تم وہاں (نماز کے لئے) کھڑے ہو۔ اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے
منافقوں کا ذکر اور مسجد نبوی (ﷺ) اور مسجف قبا کی فضیلت شان نزول : جس کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ خزرج میں ایک شخص ابو عامر تھا، جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگیا تھا۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور قبیلہ خزرج کے لوگ اور بہت سے مسلمان ہوئے تو یہ ابو عامر اسلام نہ لایا، اور آنحضرت ﷺ سے ایک طرح کی عداوت رکھنے لگا اور مکہ کو چلا گیا۔ ہر قل بادشاہ روم کے پاس اس ابو عامر نے جا کر مدد کی خواہش کی تو اس نے وعدہ کیا تھا۔ اسی وعدے کے بھروسہ پر اس نے قبیلہ کے چند منافقوں کو خط لکھا تھا کہ : ” تم اپنی جگہ ہتھیار اور سامان سے تیار رہو، میں چند روز میں روم سے فوج لے کر آتا ہوں اور میرے لئے کوئی ٹھکانا ایسا بنا رکھو جہاں میں آن کر اتر سکوں “۔ اسی ارادہ سے چند منافقوں نے مسجد نبوی اور مسجد قبا کے توڑ پر یہ مسجد ضرار بنائی۔ اور جب آنحضرت ﷺ تبوک کی لڑائی کو تشریف لے کو تشریف لے جارہے تھے اس وقت ان منافقوں نے حضور ﷺ سے ایک دفعہ اس نئی مسجد میں چلنے اور نماز پڑھنے کی خواہش کی تھی۔ آپ نے فرمایا : ” اب تو سفر درپیش ہے انشاء اللہ واپسی پر مسجد میں آؤں گا “۔ واپسی کے وقت راستہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور اس مسجد کا فریب ظاہر فرمایا۔ اس پر آپ نے وہ مسجد ڈھوائی، اب وہاں کوڑا پڑتا ہے۔ اس مسجد کی مذمت کے ساتھ جس مسجد کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے وہ مسجد قبا اور مسجد نبوی بدرجہ اولیٰ ہے کیونکہ یہ دونوں مسجدیں آنحضرت ﷺ نے بنوائی ہیں۔ مسئلہ : آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ” جتنی دور کی مسافت طے کر کے دور کی مسجد میں نمازی شخص نماز پڑھے گا اسی قدر اس کو ثواب ملے زیادہ ہوگا “۔ مسئلہ : ڈھیلوں سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا افضل ہے۔ پھر فرمایا کہ آباد رہنے والی نہیں ہے ایک دن گرے گی اور اپنے بد نیت بنانے والوں کو جہنم میں گرا دے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالم منافقوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا نہیں چاہتا۔ اس لئے جیتے جی یہ لوگ شک ونفاق کی حالت میں رہیں گے، مگر مرنے کے بعد ان پر وہ آفت آنے والی ہے جس سے ان کے دل پھٹ کر ٹکڑے اڑ جاویں گے۔ آخر کو فرمایا اللہ کو ان کے سب کام معلوم ہیں، اور اس نے بڑی حمکت اور انصاف سے قیامت کے دن ہر ایک کام کی سزا وجزا ٹھہرائی ہے۔
Top