Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(اے مسلمانو ! ) بیشک تمہارے پاس تشریف لائے ہیں تم میں سے وہ رسول (اکرم ﷺ) کہ جن پر تمہارا رنج شاق گزرتا ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر نہایت شفیق (اور) مہربان ہیں
میلاد کا ثبوت یہ اللہ پاک اپنے بندوں پر اپنا احسان جتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایسا رسول بھیجا جو تمہاری طرح ہے۔ تمہاری زبان بولتا ہے سمجھتا ہے، تمہاری تکلیف اور محنت گوارا نہیں کرتا۔ وہ دل سے چاہتا ہے کہ تم سب کے سب سچے دل سے مسلمان ہوجاؤ۔ اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ عرب کے قبیلوں سے حضرت کا رشتہ ملتا ہے۔ اسی لئے اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ایسا رسول آیا جو تم میں سے ہے، بلکہ عرب کے سارے قبیلوں سے آپ حسب نسب میں اچھے ہیں اور صدق وامانت، زہدو تقویٰ طہارت و تقدس اور اخلاق حمیدہ میں بھی سب سے بہتر ہیں اور تم میں سب سے نفیس تر اور اشرف و افضل ہیں۔ اس آیت کریمہ میں سید عالم ﷺ کی تشریف آوری یعنی آپ کے میلاد مبارد کا بیان ہے۔ ترمذی کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ سید عالم ﷺ نے اپنی پیدائش کا بیان قیام کر کے فرمایا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا۔ یہ کمال تکریم ہے اس سرور انور کی، یعنی رءوف اور رحیم۔ دونوں اللہ کے نام ہیں اور دونوں اسی کی صفتیں ہیں۔ آپ کی عزت بڑھانے کے لئے اپنی دونوں صفتوں سے متصف فرمایا۔ انہیں دو صفتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اور کسی نبی کو موصوف نہیں فرمایا۔ یہ حضور ﷺ کی تخصیص ہے۔
Top