Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
سورة توبہ مدینہ میں نازل ہوئی اس میں ایک سو انتیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں بیزاری کا حکم سناتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا (اور وہ قائم نہ رہے)
خواص القرآن : اس سورة کو سات مرتبہ اعتقاد دل سے پڑھنا بادشاہ کے قہر کو دور اور تمام ہجوم اور غم سے علیحدہ کرتا ہے بشرطیکہ صدق دل سے پڑھے۔ اس سورة کی نسبت حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو نفاق سے بچاتی ہے۔ (خازن) فضائل القرآن : آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورة انفال اور سورة توبہ پڑھا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور جب تک دنیا میں زندہ رہے گا عرش اور اس کے اٹھانے والے فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے رہیں گے۔ بسم اللہ کے نہ ہونے کی وجہ سورۃ روبہ مدنی ہے اس سورة میں چھ رکوع ایک سو انتیس آیتیں، چار ہزار اٹھتر کلمے دس ہزار چار سو اٹھاسی حروف ہیں۔ اس سورة کے دس نام ہیں ان میں سے توبہ اور برات دو نام مشہور ہیں۔ اس سورة کے اول میں بسم اللہ نہیں لکھی گئے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اس سورة کے ساتھ بسم اللہ لے کر نازل ہی نہیں ہوئے تھے، اور حضور ﷺ نے بسم اللہ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے مروی ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور یہ سورة تلوار کے ساتھ امن ٹھادینے کے لئے نازل ہوئی۔ قرآن کریم کی سورتوں میں سب سے آخر یہی سورة نازل ہوئی۔ عرصہ عہد کے بعد کفار کو قتل کرنے کا حکم مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ چار مہینے کی مدت مقرر کردی تھی جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عہد کیا تھا، اور جب لوگوں سے کچھ عہد نہیں تھا ان کے واسطے پچاس رات کی حد باندھی۔ اور اللہ نے رسول کو یہ حکم دیا کہ جن کفار سے تمہارا عہد نہیں ہے ان سے دسویں ذی الحجہ سے لے کر آخر محرم تک نہ لڑو۔ ماہ محرم کے ختم پر ان سے لڑو، اگر وہ مسلمان ہوجاویں تو بہتر ہے وربہ ان کو قتل کرو، اور جن سے عہد ہے ان سے چار مہینے دسویں ذی الحجہ سے ربیع الآخر کی دسویں تاریخ تک نہ لڑو۔ اس کے بعد ان سے جہاد کرویہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجاویں۔ 6 ھ میں حج فرض ہوا۔ 8 ھ میں مکہ فتح ہوا۔ اور آنحضرت ﷺ نے 9 ھ میں حضرت ابوبکر ؓ کو بھیجا اور ان کے پیچھے حضرت علی ؓ کو دس آیتیں سورة برات کی دے کر روانہ فرمایا کہ مشرکوں کو جاکر یہ آیتیں سنادو اور یہ بھی جتادو کہ 10 ھ سے کوئی مشرک یا ننگا شخص طواف نہ کرنے پاوے گا پھر اس سال آپ نے حج کیا اس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ اسی حکم میں یہ بھی تھا کہ دسویں ذی الحجہ سے دسویں ربیع الآخر تک تمہیں مہلت دی گئی ہے، پھر کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ اگر ایمان لائے تو خیر ورنہ آمادہ جنگ ہوجاؤ۔ یہ حکم حضرت علی ؓ نے سب کو سنادیا اور اعلان جنگ دے دیا۔
Top