Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان منافقین میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر خدا ہم کو اپنے فضل سے (بہت سا مال) عطا فرمادے گا تو ہم ضرور خوب خیرات کریں گے اور ضرور ہم نیک لوگ ہوجائیں گے
کافروں اور منافقوں کی وعدہ خلافی اور دیگر صفات شان نزول : اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں منافقوں کی وعدہ خلافی کا ذکر فرمایا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ثعلبہ بن حطب انصاری تھا۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے اس عہد پر دعا کرائی تھی کہ اللہ مجھ کو مال دے گا تو میں خیرات دوں گا اور نیکی کروں گا۔ جب آنحضرت ﷺ کی دعا سے اس کے پاس اس قدر بھیڑ بکریاں ہوگئیں کہ مدینہ کے جنگل میں نہ سماسکیں تو دور لے گیا، جمعہ وجماعت ترک کردی۔ پھر جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے دو شخص زکوٰۃ لینے گئے تو نہ دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی پھر تھوڑے دنوں کے بعد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس زکوٰۃ لے کر آیا آپ نے قبول نہ کی، اور آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر ؓ میں بھی اس کا مال زکوٰۃ میں نہ لیا گیا۔ یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں اس کا انتقال ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نفاق جو ان کے دلوں میں جگہ پکڑ گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب باتیں کریں تو جھوٹ بولیں، اور جب وعدہ کریں تو اس کے خلاف کریں اور جب ان کے پاس امانت رکھی جاوے تو خیانت کریں۔ پھر فرمایا یہ منافق اپنے دلوں میں سمجھتے ہوں گے کہ اللہ ان کے دلوں کی دغابازی کو نہیں جانتا۔ وہ تو ظاہر اور چھپی باتوں کو یکساں جانتا ہے وہ بڑا ہی غیب داں ہے۔ اس کے نزدیک کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی، اور جب سب باتوں کو کھلم کھلا وہ جانتا ہے تو وہ ہر ایک عمل مخفی پر بندوں کو جزا سزا بھی دے گا۔
Top