Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 90
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ( کچھ تمہارے پاس) بہانہ کرنے والے صحرا نشین لوگ (یعنی گنوار لوگ) تاکہ ان لوگوں کو (گھروں میں) بیٹھ جانے کی اجازت دی جائے، اور بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا (یعنی اسلام ظاہر کرکے) ان میں سے جو کافر ہوئے ان کو جلد عذاب پہنچے گا درد دینے والا
منافقین کا جھوٹا عذر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان دو گروہ کا ذکر فرمایا جو لوگ جھوٹا عذر کر کے جہاد میں شریک نہ ہوئے، اور جنہوں نے عذر بھی نہیں کیا خدا اور رسول کے وعدوں کو جھوٹا جان کر گھروں میں بیٹھے رہے۔ پہلا گروہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی، انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہا اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلہ طے کے گنوار ہماری بی بی بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے ''۔ حضور ﷺ نے فرمایا :'' مجھے اللہ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بےنیاز کرے گا ''۔ عمرو بن طلاء نے کہا کہ ان لوگوں نے عذر باطل بنا کر پیش کیا تھا یہ دو سے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے یہ منافقین تھے، انہوں ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا ان کو سخت عذاب پہنچے گا۔
Top