Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 94
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْ١ؕ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ١ؕ وَ سَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يَعْتَذِرُوْنَ : عذر لائیں گے اِلَيْكُمْ : تمہارے پاس اِذَا : جب رَجَعْتُمْ : تم لوٹ کر جاؤگے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف قُلْ : آپ کہ دیں لَّا تَعْتَذِرُوْا : عذر نہ کرو لَنْ نُّؤْمِنَ : ہرگز ہم یقین نہ کریں گے لَكُمْ : تمہارا قَدْ نَبَّاَنَا : ہمیں بتاچکا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنْ اَخْبَارِكُمْ : تمہاری سب خبریں (حالات) وَسَيَرَى : اور ابھی دیکھے گا اللّٰهُ : اللہ عَمَلَكُمْ : تمہارے عمل وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر تُرَدُّوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے اِلٰى : طرف عٰلِمِ : جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
تمہارے روبرو (طرح طرح کے) بہانے پیش کریں گے جب تم (جہاد سے) ان کی طرف لوٹ کر جاؤ کے، (اے محبوب دو عالم ﷺ) تم فرماؤ : ” کچھ بہانے نہ کرو ہرگز ہم تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے، بیشک خدا نے ہم کو تمہاری (اصلی حالت کی) خبریں دے دی ہیں اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارے عمل دیکھیں گے (یعنی دنیا میں) پھر تم لوٹ کر آؤ گے اس کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا “۔ پس وہ تمہیں جتادے گا جو کچھ تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے
ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عقبیٰ کے عذاب وثواب کا یقین نہیں ہے۔ اس لئے رات دن بےدھڑک یہ لوگ طرح طرح کے گناہوں میں گرفتار رہتے ہیں، اور کثرت گناہوں سے ان کے دل پر ایسا زنگ چھا گیا ہے کہ اس زنگ کے سبب سے ان کا دل ناپاک ہوگیا۔ جس سے جہاد کی خوبی کی یا اور کسی نیک بات کے سمجھنے کی صلاحیت ان کے دل میں نہیں رہی ہے۔ پھر فرمایا : ” اے رسول ﷺ اللہ کے ! تم اور تمہارے ساتھ کے مسلمان جب مدینہ میں جاؤ گے تو یہ لوگ طرح طرح کے عذر کریں گے۔ اس پر ان لوگوں کو یہ جواب دینا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کا حال ہم کو بتلا دیا ہے۔ اس لئے اب تو ہم تمہارے عذروں کی صداقت نہیں کرسکتے۔ ہاں تمہاری آئندہ کی حالت پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر ہے، کہ آئندہ تم اسلام کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھتے ہو۔ اور اسلام کے ساتھ جیسا برتاؤ تم لوگ آئندہ رکھو گے، ویسا ہی برتاؤ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ برتے گا۔ کیونکہ سزا وجزا کے لئے ایک دن سب کو اس غیب داں کے روبرو حاضر ہونا ضرور ہے “۔ پھر فرمایا تمہاری واپسی کے وقوت قسمیں کھا کھا کر اس لئے یہ لوگ عذر کریں گے کہ تم ان پر کوئی ظاہری مواخذہ نہ کرو۔ اب ان لوگوں کے دل جب بداعتقادی کے سبب سے ایسے ناپاک ہیں کہ کوئی نصیحت ان کو پاک نہین کرسکتی۔ تو تم بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، کیونکہ علم الٰہی میں جو لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں، ان کے دل پر کسی سرزنش کا کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔
Top