عظمت قرآن۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، فبای حدیث بعدہ یومنون (الاعراف) اگر نزول قرآن کے بعد لوگ اس پر ایمان نہیں لائیں گے تو پھر اس کے بعد کون سی چیز آئے گی۔ جس پر وہ ایمان لائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جسے اس نے انسانیت کی فلاح اور کائنات کی بہتری کے لیے نازل ہوئی ہے اب نہ کوئی نیا نبی آنے والا ہے اور نہ کوئی شریعت نازل ہوگی ۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نوشتہ یا صحیفہ نازل نہیں ہوگا لہٰذ اتمام انسانیت کا فرض ہے کہ وہ اس آخری کتاب پر ایمان لے آئیں کہ اسی میں ان کی فلاح ہے۔
قرآن پاک میں اللہ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ قیامت کے دن جب محاسبے کی منزل آئیگی تو اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کریگا و قال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا ( الفرقان ) رسول عرض کریگا اے پروردگار ! میری اس قوم نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا یعنی نظر انداز کردیا ۔ نظر انداز کرنے سے مراد یہ ہے کہ کافر لوگ تو اس پر ایمان نہیں لاتے مگر جو لوگ زبانی تسلیم بھی کرتے ہیں وہ لاپرواہی سے کام لیتے ہیں اس کی تعلیمات کو قبول نہیں کرتے اور نہ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
جہاد کبیر
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی قرآن کریم میں موجود ہے فلاتطع الکفرین وجاھدھم بہ جھادا کبیرا (الفرقان) اے پیغمبر ! آپ کافروں کی بات نہ مانیں اور ان کے خلاف اس قرآن کے ذریعے بڑا جہاد کریں گویا جہاد بالسیف کو جہاد صغیر فرمایا قرآن کے ذریعے دنیا میں انقلاب پر پا کرنے کو جہاد کبیر کہا گیا ہے ، قرآن پاک تمام باطل ادیان و مذاہب تمام باطل رسومات کفر شرک اور الحاد کے خلاف تعلیم دیتا ہے اللہ کی یہ آخری کتاب صرف اسی چیز کی تعلیم دیتی ہے جو اللہ کے نزدیک برحق ہے لہٰذ ا اس کی تعلیمات کو دنیا میں عام کرنا بہت بڑا جہاد ہے جہاد بالسیف تو کسی نہ کسی وقت پر ختم ہو کر امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے مگر جہاد بالقرآن ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی الفوز الکبیر ہیں لکھتے ہیں (1) (الفوزالکبیر فارسی ج 3 باب اول مطبع مجتبائی دہلی ) کہ قرآن میں سزا کی وعید سے متعلق جتنی آیات موجود ہیں ان کا شان نزول یہ ہے کہ دنیا میں جب تک برائی موجود ہے یہ آیات اس کو وعید سناتی رہیں گی اسی طرح اس کتاب میں بشارت والی تمام آیات دنیا میں پائی جانے والی ہر نیکی کے حق میں نازل ہوئی ہیں ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ قرآنی آیات کی شان نزول کے لئے کوئی لمبے چوڑے قصے کہانیوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر برائی کے لئے وعید والی آیت نازل ہوئی ہے اور ہر نیکی کے کام کے لیے بشارت والی آیت اللہ نے نازل فرمائی ہے۔
اب جن برائیوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں اعتقادی عملی اخلاقی انفرادی اور اجماعی ہر قسم کی برائیاں شامل ہیں قرآن پاک ان تمام برائیوں کی مذمت کرتا ہے اور اپنے نبی کو ان کے خلاف جہاد کبیر کا حکم دیتا ہے ۔ لوگوں کو برائی سے ہٹا کر نیکی کی طرف لے آنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جوامع الکلم والی حدیث حضور ﷺ کا یہ فرمان (1) (مسلم 118 ج 1 کتاب الطہارت ب 2 مسند احمد ص 391 ج 1 وص 452 ج 1) موجود ہے القراٰن حجۃ لک اوعلیک یعنی قرآن پاک تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف دلیل بنے گا اگر تم قرآن پر ایمان لے آئے اسے اپنا لیا اور اس کے احکام پر عمل کیا تو یہ تمہارے حق میں دلیل بنے گا اور تمہارے حق میں گواہی دے گا اور اگر اس کو قبول نہ کیا اس میں کوتاہی کی یا عملی طور پر اسے پس پشت ڈال دیا تو یہی قرآن پاک تمہارے خلاف گواہی دے گا۔
قرآن بطور بہار دل
قرآن حکیم کی حیثیت اور عظمت حضور ﷺ کی اس دعا سے واضح ہوتی ہے جس میں آپ نے اس صحیفہ آسمانی کو آنکھوں کا نور اور دل کا سرور فرمایا ہے (2) (ا مسلم ص 118 ج 1 کتاب الطہارت ب 2 احمد ص 391 ج 1 ص 452 ج 1) اللہم اسئلک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور بصری وجلاء حزنی وذھاب ہمی۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جس کے ساتھ تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے یا اس کو کسی کتاب میں نازل فرمایا ہے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتایا ہے یا اسے اپنے ہی پاس رکھا ہے یا تیرے علم میں ہے میں ہر اس اسم کے واسطے سے درخواست کرتا ہوں کہ قرآن پاک کو میرے دل کی بہار بنا دے یعنی جس طرح موسم بہار کے سبز پھول اور پھلوں کو دیکھ کر لوگوں کے دل مسرور ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اس قرآن پاک کو تیرے دل کی بہار بنا دے کہ یہ اسے دیکھ کر باغ باغ ہوجائے ۔ پھر عرض کیا اس قرآن کو میری آنکھوں کا نور بنادے ۔ اس کے ذریعے میرے غم اور اندیشوں کو دور فرمادے ۔ حضور ﷺ کو قرآن پاک کے ساتھ اس قدر محبت تھی اور آپ کے دل میں اتنی عظمت تھی کہ آپ اس کیلئے دعا فرمایا کرتے تھے۔
قرآن بطور معجرہ
حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (1) (بخاری ص 744 و 1080 ج 2 ۔ مسلم ص 86 ج 1) کہ ہر نبی کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا کیا گیا مگر اکثر انبیاء کے معجزات وقتی طور پر ظاہر ہوئے لوگوں نے دیکھ لیا تو ختم ہوگئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصی معجزہ فرمایا وحی اوحی اللہ الی یہ قرآن پاک ہے جو بذریعہ وحی مجھ پر نازل کیا ہے اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے کیونکہ میرا معجزہ بھی دائمی ہے حضور ﷺ خود تو تریسٹھ سالہ زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر آپ پر نازل ہونے والا قرآن بطور معجزہ تا قیام قیامت موجود رہے گا اللہ کا یہ کلام حرف بہ حرف قائم و دائم رہیگا جس طرح حضور خاتم النبیین ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے پڑھ کر سنایا چناچہ سلیم الفطرت لوگ اس قرآن پاک کو پڑھ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم ابتداء سے انتہا تک وحی الٰہی اور حضور ﷺ کا زندہ معجزہ ہے سورة جن میں موجود ہے کہ جب جنوں نے اس کلام الٰہی کو سنا تو پکار اٹھے انا سمعنا قراٰنا عجبا (الجن) ہم نے عجیب قرآن سنا فاٰمنا بہ پس اس پر ایمان لے آئے شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ قرآن پاک عجیب اسلئے ہے کہ عام کتب میں تو معلومات ہوتی ہیں مگر قرآن پاک میں معلومات کے علاوہ بیشمار ایسے معارف بھی موجود ہیں جنہیں لوگ ابدالآباد تک تلاش کرکے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہیں گے مگر معارف ختم نہیں ہوں گے کیونکہ وہ غیر محدود ہیں ۔
قرآن ذکر الٰہی ہے
ذکر ایک بہترین عبادت ہے جسکی کوئی تحدید نہیں ہر عبادت کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے مگر ذکر الٰہی غیر محدود ہے قرآن کریم کی ایک حیثیت ذکر الٰہی کی بھی ہے ۔ سورة جمعہ آتا ہے واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے (1) ترمذی ص 175 ج 2 باب ماجا فی فضل الذکر) لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللہ کسی شخص نے عرض کیا حضور ! کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیں جس کو ہمیشہ پڑھتا رہوں آپ نے فرمایا کہ تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیئے زبانی ذکر سب سے آسان ذکر ہے خالی اللہ اللہ کرتا رہے یا سبحان اللہ کہتا رہے ۔ یا رحمن یا رحیم کا ورد ہو یا حی یاقیوم پڑھتا رہے۔ الحمدللہ ، اللہ اکبر استغفر اللہ لا الہ اللہ ذکر کی مختلف صورتیں ہیں ۔
قرآن حکیم کی حیثیت علم کی بھی ہے اور ذکر کی بھی چناچہ قرآن پاک تلاوت افضل اذکار میں سے ہے۔ سوائے ان اذکار کے جن کے متعلق خاص طور پر آگاہ فرمایا ہے قرآن کے برابر کوئی دوسرا ذکر نہیں ہے چناچہ جزائے عمل کے وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو دیگر اذکار کی نسبت زیادہ اجر وثواب حاصل ہوگا بہرحال قرآن پاک ذکر بھی ہے۔
تلاوت قرآن کا اجر
بیہقی شریف (1) فیض القدیر شرح جامع صغیر ص 513 ص ج 4 بحوالہ بیہقی شعب الایمان ب 2 نسائی ص 311 ج 1 بخاری ص 254 ج 1 وفیض القدیر شرح جامع صغیرص 442 ج 4 بحوالہ طبرانی کبیر ب 3 مشکوۃ ص 192 کتاب فضائل القرآن بحوالہ بیہقی شعب الایمان ) اور دیگر کتب میں یہ حدیث موجود ہے کہ سب سے زیادہ افضل قرآن پاک کی وہ تلاوت تسبیح وتحمید سے افضل ہے یعنی ایک شخص سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر وغیرہ کا ذکر کرتا ہے اور دوسرا قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو تلاوت کرنے والا افضل ہے فرمایا تسبیح وتحمید صدقے سے زیادہ افضل ہے اور صدقہ روزے سے افضل ہے کیونکہ روزہ کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے جب کہ صدقہ اجتماعی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس میں اللہ کی رضا بھی ہوتی ہے اور محتاج کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے۔ آپ نے روزے کے متعلق فرمایا (2) الصوم جنتہ یسجن بھا العبد من النار۔ خالص اللہ کی رضا کے لیے رکھا جانے والا روزہ دوزخ کے سامنے ڈھال بن جائیگا ۔ بہرحال معلوم ہوا کہ مذکورہ تمام امور میں تلاوت قرآن پاک کو اول درجے کی حیثیت حاصل ہے آداب قرآن کے سلسلہ میں حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان (3) ہے یا اھل القران لاتتوسدوا القران یعنی اے قرآن پاک کے ماننے والو ! قرآن کو سرہانے کے نیچے نہ رکھا کرو ۔ اس کو پس پشت نہ ڈالو بلکہ واتلوہ اس کو پڑھاؤ وافشوہ اور اس کو پھیلاؤ نیز فرمایا اس کے ثواب میں جلد بازی نہ کرو ، اس کا ثواب یقینا ملے گا مقصد یہ ہے کہ قرآن پاک فلاح کا پروگرام ہے تمام لوگوں کو چاہیے کہ اس پر اعتقاد قائم کریں اس کو پڑھیں اس کو سمجھیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔
قرآن حکیم کے متعلق تمہیدی طور پر چند کلمات میں نے عرض کردیے ہیں اس کے بعد انشاء اللہ اعوذباللہ کے متعلق تھوڑا عرض کریں گے پھر بسم اللہ کا بیان ہوگا اور پھر سورة فاتحہ کے متعلق تھوڑا تھوڑا بیان ہوگا۔
سورۃ الفاتحۃ ا درس دوم
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
میں پنا ہ حاصل کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے
ارشاد خداوندی ہے فاذا قرات القراٰن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم (النحل)
تعوذ بطور ذکر
جب آپ قرآن پاک پڑھیں تو پہلے اللہ کی ذات کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگیں تعوذ کا معنی پناہ طلب کرنا ہے قرآن وسنت میں مختلف شرور اور فتنوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے چناچہ قرآن پاک کی تلاوت سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا سنت ہے۔
تعوذ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ایک قسم ہے ۔ سب سے آسان ذکر لسانی یعنی زبانی ذکر ہے۔ اس کی کل دس اقسام ہیں جن میں سے تعوذ بھی ایک قسم ہے ذکر الٰہی کی قرآن وسنت میں بڑی فضیلت آئی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ فاذکرونی اذکرکم (البقرہ) تم میرا ذکر کرو میں تمہیں یادکروں گا حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے (1) (امسلم ص 341 ج 2 باب الذکر 2 احکام القرآن الجصاص ص 93 ج 1) کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے ان ذکرتنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی جو مجھے اپنے جی میں یاد کریگا میں بھی اسکو اپنی جی میں یاد کرونگا وان ذکرتنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاء ھم خیر منھم جو آدمی مجھے کسی مجلس یا گروہ میں یاد کریگا تو میں اس کا ذکر ان سے بہتر گروہ میں کرونگا ذکر قلبی ہوتا ہے اور لسانی بھی تاہم لسانی ذکر آسان ہے ۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں (2) کہ قلبی یا نفسی ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے قلب اور ذہن سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد کرے اور پھر اس کا شکر ادا کرے یہ قلبی ذکر کا علمی انداز ہے البتہ اصحاب طریقت لوگوں کا معمول یہ ہے کہ وہ اندر جانے والے اور باہر آنے والے ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالے کا ذکر کرتے ہیں ان کا قلب خدا کا ذکر کرتا ہے مگر یہ چیز بڑی تربیت اور مشق کے بعد حاصل ہوتی ہے چونکہ لسانی ذکر ہی آسان تر ہے اس لیے عام لوگوں کو اسی ذکر کی تلقین کی جاتی ہے لسانی ذکر کی دس اقسام بیان کی جاتی ہیں جن میں پہلی قسم تسبیح ہے۔
اقسام ذکر ا۔ تسبیح۔
یہ اللہ تعالیٰ کا بلند ترین ذکر ہے ۔ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یا ایھا الذین امنوا اذکرو اللہ ذکراکثیرا وسجوہ بکرۃ واصیلا اے ایمان والو ! اللہ کا خوب ذکر کرو اور اس کی تسبیح بیان کرو صبح بھی اور شام کے وقت بھی سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہے وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولٰکن لا تفقہون تسبیحھم ہر چیز خدا تعالیٰ تسبیح بیان کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے ، وہ اللہ ہی جانتا ہے غرضیکہ شجر اور کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ رب العزت کی تسبیح بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور فہم و فراست عطا کرکے اسے قانون الٰہی کا پابند (مکلف) بنایا ہے لہذا اس پر بطریق اولی لازم ہے کہ نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرے اپنی زبان سے سبحان اللہ کہے یعنی اے پروردگار تو ہر ساجھی شریک عیب نقص کمزوری اور ضعف سے پاک اور منزہ ہے
2۔ تحمید
ذکرکی دوسری قسم تحمید ہے یعنی بندہ اپنے رب تعالیٰ کی تعریف بیان کرے اور کہے الحمد اللہ تمام تعریفوں کا مستحق صرف خدا تعالیٰ ہے کیونکہ تمام داخل اور خارجی انعامات کو وجود دینے والا وہی ہے تحمید نماز میں بھی کی جاتی ہے الحمد للہ رب العلمین چناچہ نماز میں تسبیح کے بعد تحمید انہی الفاظ سے کی جاتی ہے پھر جب ایک رکعت کی قرات مکمل ہوجاتی ہے تو رکوع سے اٹھ کر کہتے ہیں ربنالک الحمد اے پروردگار ! تعریف تیرے ہی لیے ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا بلند ترین اذکار میں سے ہے تکبیر بھی ذکر ہے جس کے ذریعے اللہ کی بڑائی اور عظمت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
3۔ تکبیر۔
تکبیر بھی ذکر ہے جس کے ذریعے اللہ کی بڑائی اور عظمت کا اظہار کیا جاتا ہے جب کوئی اہم کام انجام دیا جائے تو اپنے ضعف کے پیش نظر زبان سے کہتے ہیں اللہ اکبر اللہ بڑا ہے۔ اس کے سوا کسی کے لیے بڑائی نہیں ہے ۔ سورة مدثر میں ارشاد ہے وربک فکبر اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو چناچہ نماز کی ابتدا ہی اس لفظ سے ہوتی ہے اللہ اکبر اور پھر نماز میں ایک حرکت سے دوسری حرکت کی طرف جاتے ہوئے اس لفظ کو دہرایا جاتا ہے اور اس طرح اللہ رب العزت کی بڑاٹی بیان کی جاتی ہے۔
4۔ تہلیل۔
لا الہ الا اللہ بھی ذکر ہے۔ اس کے ذریعے شرک کی نفی اور خدا تعالیٰ کی الوہیت کو ثابت کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کے سوا کوئی خالق ، مالک اور مربی نہیں ۔ وہ ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ تہلیل کے ساتھ توحید کا کلمہ بھی آتا ہے وحدہ لا شریک لہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ یہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے۔
5۔ حوقلہ۔
حوقلہ یعنی لاحول ولا قوۃ الا باللہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے یہ تفویض اور توحید کا کلمہ ہے اور حضور ﷺ کے ارشاد (1 مسلم ص 346 ج 2) کے مطابق عرش الٰہی کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان خدا تعالیٰ کے سامنے اقرار کرتا ہے کہ برائیوں سے باز رہنے اور نیکی کو انجام دینے کا عمل محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی مکن ہوتا ہے۔ اس کلمے کا ورد کرنے سے بہت بڑا اجر حاصل ہوتا ہے۔
6۔ حسبلہ۔
ذکر کی ایک قسم حسبلہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مفرد کلمہ حسبی اللہ اور جمع کا کلمہ حسبنا اللہ آتا ہے ۔ ہر مشکل وقت میں اس کلمہ کا ورد خیر و برکت کا باعث ہوتا ہے۔ احد کے موقع پر جب صحابہ کو سخت دشواری پیش آئی تو انہوں نے یہی کہا تھا قالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (آل عمران ایت 173) ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی ہمارا کار ساز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر لوگ آپکی بات انکار کرتے ہیں فقل حسبی اللہ لا الہ الا ھو (توبہ) تو آپ کہہ دیں کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ وہی معبود برحق اور میرا اسی پر بھروسہ ہے۔
7۔ بسملہ۔
بسملہ بھی ذکر ہی کی ایک قسم ہے ہم ہر کار خیر کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتے ہیں ۔ سورة مزمل میں ارشاد ہے واذکر اسم ربک یعنی اپنے رب کا ذکر کرو ۔ غار حرا میں سب سے پہلی وحی کا نزول بھی اسی طرح ہوا اقرا باسم ربک الذی خلق آپ اس پروردگار کا نام لے کر پڑھیں جس نے پیدا کیا ۔ چناچہ ہر اچھا کام کرتے وقت بسم اللہ کہنا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے
8۔ 1۔ استعانت۔
استعانت یعنی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا بھی ذکر میں شامل ہے ۔ ہم ہر نماز میں کہتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد کے طالب ہیں ۔ مافوق الاسباب اعانت خدا تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ اسی لیے فرمایا المستعان مدد کرنے والی ذات اللہ کی ہے لہذا مدد اسی سے طلب کی جاسکتی ہے ۔
9۔ تبارک ۔
اللہ کا ذکر لفظ تبارک کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسے فرمایا تبرک الذی بیدہ الملک (ملک) بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے نیز یہ بھی فرمایا فتبرک اللہ احسن الخلقین (المومنون) بڑی برکتوں والی ہے وہ ذات جو بہترین تخلیق کرنیوالی ہے ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جس نے قرآن جسیی عظیم کتاب اپنے بندے پر نازل فرمائی تاکہ اس کے ذریعے وہ تمام انسانوں کو خبردار کردے برکت کا معنی ایسی زیادتی ہوتا ہے جس میں تقدس کا معنی پایاجائے چناچہ جب بھی کوئی اچھی چیز دیکھی جائے تو کہنا چاہیے بارک اللہ۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا کرے یہ ذکر ہے عرب اسے محاورے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں ۔
10۔ تعوذ ۔
ذکر کی دسویں قسم تعوذ یعنی اعوذ باللہ کہنا ہے۔ اس کے لیے قرآن وسنت میں مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر اس طرح کرو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم چناچہ آج تعوذ کے بارے میں کچھ عرض ہوگا۔
تعوذ کی ضرورت
اس دنیا میں انسان کوئی بھی کام کرنا چاہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا برائی کا توفیق ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کوئی کام ازخود انجام دے سکتا ہے مگر یہ کہ ہر قدم پر نصرت خداوندی کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر جب کوئی آدمی نیک کام انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں تاکہ یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے ۔ طرح طرح کے شرور اور فتنے راستے میں حائل ہوتے ہیں اسی لئے انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی بھی اچھائی کا کام شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرلے انسان کے حق میں علم اور عمل دو مفید ترین چیزیں ہیں اور ہر انسان ان دونوں چیزوں کا محتاج ہے۔ علم میں عقیدہ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا عقیدہ اور فکر پاک ہو مگر تمام انسان اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ ہر انسان اپنی قوت کے بھروسے پر یہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال نہ ہو عمل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی اچھا عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی اعانت ونصرت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔
حواس ظاہرہ و باطنہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں بہت سے حواس ظاہرہ اور باطنہ ودیعت فرمائے ہیں جو اس ظاہرہ میں قوت باصرہ (دیکھنے کی طاقت ) قوت سامعہ (سننے کی طاقت) قوت ذائقہ (چکھنے کی طاقت ) قوت لامسہ (ٹٹولنے کی طاقت) اور قوت شامہ (سونگھنے کی طاقت) شامل ہیں اسی طرح حواس باطنہ میں وہم خیال جس مشترک قوت متفکرہ ذہانت اور قوت عاقلہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دماغ میں رکھی ہیں ۔ ان ظاہری اور باطنی حواس کے علاوہ انسان میں شہوت اور غضب کا مادہ بھی ہے قوت جاذبہ جس کے ذریعے انسانی جسم غذا کو جذب کرتا ہے ۔ قوت ہاضمہ ہے جس کے ذریعے کھائی جانے والی خوراک ہضم ہوتی ہے ۔ یہ عمل معدے آنتوں اور جگر میں انجام پاتا ہے پھر قوت غاذیہ ہے جو غذاکو ٹھکانے پر پہنچاتی ہے ۔ قوت دافعہ فضلات کو جسم سے باہر نکالتی ہے اگر یہ چیزیں اندر رک جائیں تو صحت بگرجائیگی ۔ انسانی جسم میں قوت نامیہ بھی ہے جس کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لیدی مادہ کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لید مادہ کے ذریعے نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔
شیطان سے پناہ طلبی
ان تمام قویٰ کا رخ عام طور پر نفس کی طرف ہوتا ہے اور نفس کا رخ شر کی طرف سورة یوسف میں جو ہے ان النفس لامارۃ بالسوئ (یوسف) نفس انسان کو اکثربرئی کی طرف مائل کرتا ہے مثلا آنکھ کا کام دیکھنا ہے مگر اچھی اور جائز چیز دیکھنے کی بجائے نفس اسے ناجائز حرام چیز دیکھنے پر آمادہ کریگا ۔ اسی طرح جب انسان کوئی عبادت یا دیگر نیک کام انجام دینا چاہتا ہے اور اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرتا ہے تو آزادی پسند نفس نہ تو ایسی پابندیوں کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی مشقت برداشت کرنا پسند کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اند رونی طور پر نفس اور بیرونی طور پر شیطان اس نیک کا م کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان اندورنی اور بیرونی شرور سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کام شروع کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی پنا ہ میں چلا جائے اور یہ پناہ تعوذ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔ جب کوئی شخص اعوذ باللہ کہتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے میرے شدید دشمن شیطان سے پناہ میں رکھے تاکہ میں عبادت تلاوت یاد یگر نیکی کا کام انجام دے سکوں ۔
شیطان کے مادے سے مشتق ہے اور اس کے دو معانی آتے ہیں اس کا ایک معنی دوری ہے گویا شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے اسی لیے اس کو رحیم یامردود اور لعین بھی کہا جاتا ہے شطن کا دوسرامعنی ہلاکت ہے اور یہ بھی شیطان پر صادق آتا ہے کیونکہ وہ اپنے غرور وتکبر کی وحسد سے بالاخرہلاک ہونے والا ہے چونکہ شیطان ہر اچھے کام میں داخل ہوتا ہے اس لیے اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا ضروری ہے حضور ﷺ پر سب سے پہلی وحی غارحرا میں نازل ہوئی ۔
۔ تعوذ کی تعلیم ۔
جبرائیل (علیہ السلام) نے سورة علق کی پہلی پانچ آیات آپ کو پڑھا ہیں (ب بخاری ص 739 ج 2) اقراباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الا کرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم مفسر قرآن امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس روایت نقل کی (2 ہسلم ص 88 ج 1) ہے اول مانذل جبدیل علی النبی ﷺ قال یا محمد استعذ ثم قال قل بسم اللہ الرحمن الرحیم یعنی پہلی آیات کے نزول سے متصلا اسی دن جبرائیل (علیہ السلام) حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے محمد ! اللہ تعالیٰ سے پنا ہ حاصل کریں اور بسم اللہ الر حمن الرحیم پڑھیں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بھی پڑھا دیا گیا ۔ پھر آپ کو سورة فاتحہ کی تعلیم دی گئی اور وضوکا طریقہ بتلایا گیا اور پھر آپ کو نماز کے لیے کھڑا ہونے کا حکم ہوا چناچہ روایات (3 تفسیر ابن جریر طبری ص 50 ج 1) سے ثابت ہے کہ وحی کے دوسرے دن (علیہ السلام) نے نماز باجماعت ادا کی۔ آپ کے پیچھے حضرت ابوبکر صدیق حضرت علی اور حضرت خدیجہ تھیں بعض روایات میں حضرت زید کا ذکر بھی ملتا ہے۔
شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ قرات کے علاوہ باقی عبادات شروع کرتے وقت صرف بسم اللہ پڑھنا چاہیے جبکہ قرات سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا ضروری ہے ۔ امام جعفر صادق اس کی وجہ یہ بیان (4) کرتے ہیں کہ انسان کی زبان جھوٹ غیبت اور غلط باتوں سے اکثر ناپاک رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے قبل زبان کا پاک ہونا ضروری ہے اس تعوذ کی تعلیم دی گئی ہے۔
ممنونہ تعوذات
روایات میں تعوذ (1 تفسیر کثیر ص 14 ج 1 ب 2) کے مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ جیسے اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم یا اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم یا اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم ۔ بعض روایات میں من الشیطن اللعین الرجیم کے الفاظ بھی آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ استعیذباللہ اور نستعیذ باللہ بھی آتا ہے ۔ حمید ابن قیس کی روایت میں یعنی میں اللہ کی پناہ حاصل کرتا ہوں جو قادر ہے شیطان سے بچنے کے لیے جو غدار ہے بعض محدثین نے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں اعوذ باللہ القوی من اشیطان الغوی میں قوی اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس شیطان سے جو خود گمراہ کنندہ ہے۔
حضور کریم صلی علیہ وسلم جب حضرت حسن اور حسین کو دم کرتے تو یہ الفاظ ادا فرماتے (3 ترمذی ص 57 ج 1) اعیذ کما بکلمت اللہ التامات من کل شیطن وھامۃ و من کل عین لا مۃ میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان سے اور کیڑے سے اور ہر نظربد لگانے والی آنکھ سے حضور ﷺ جب کسی منزل پر اترتے تو یوں (4 عمل الیوم واللیلۃ مع ترجمہ نبوی لیل ونہارص 591 عمل الیوم والیۃ نبوی لیل ونہارص 341) کہتے اعوذ بکلمت اللہ التامات کلھا من شد ما خلق میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ساتھ ہر اس پرائی سے پناہ چاہتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے آپ نیند سے پیدا ہونے پر یہ کلمات ادا فرماتے ۔ اعوذ بکلمت اللہ التامات من غضبہ و عقابہ ومن شدعبادہ ومن ھمذات الشیطین میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ساتھ اس کے غضب سے عقاب سے اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کی چھڑجھاڑ سے پناہ پکڑتا ہوں ۔ حضور ﷺ (1 ترمذی ص 57 ج 1) نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس طرح استعاذہ فرماتے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم من ھمذہ ونفخد ونفثہ میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں شیطان مردود کی چھڑچھاڑ سے اس کے تکبر سے اور اس کے سحر سے آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا (2 عمل الیوم واللیل نبوی لیل ونہارص 65 ترمذی ص 7 ج 1) کہ بیت الخلا ہیں داخلے سے پہلے کہو اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث اے اللہ میں نر اور مادہ شیاطین سے تیری ذات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ۔ فرمایا جو شخص یہ کلمات ادا نہیں کرتا شیطان اس کے اعضائے مستورہ کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں ۔ آپ نے یہ بھی سکھلایا کہ بیت الخلاء سے باہر آ کر کہو غفرانک الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذی وعافانی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میرے جسم سے اذیت ناک چیز نکال دی اور مجھے عافیت عطافرمائی۔
حضور ﷺ نے سفر پر جانے کی یہ دعا سکھائی ہے (3 عمل الیوم واللیل نبوی ونہارص 34 ، ترمذی ص 182 ج 2 کتاب الدعوات ) اللھم انی اعوذبک من وعثاء السفد وکابۃ المنقلب ومن الحور بعد الکور اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ سفر کی مشقت سے واپس پلٹ کر غمگین منظر دیکھنے اور ترقی کے بعد تنزلی میں جانے سے پناہ مانگتا ہوں ۔ جب کسی کو غم واندیشہ لا حق ہوجائے تو نبی (علیہ السلام) نے اس طرح سکھایا (1 بخاری ص 941 ج 2) اللھم انی اعوذ بک من الھم والحزن والعجز ولکسل خداوندتعالیٰ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں غم کے اندیشے سے عاجزی سے اور کم ہمتی سے آپ نے اس طرح بھی استعاذہ فرمایا ہے (2 ترمذی ص 186 ج 2 کتاب الدعوت) اللھم الہمنی رشدی واعذنی من شد نفسی اے اللہ ! مجھے میری نیکی کی بابت الہام فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا۔ حضور ﷺ سے یہ دعائیں بھی ثابت ہیں (3 بخاری ص 943 ج 2 ومسلم ص 347 ج 2) اللھم انی اعوذ بک من عذاب جھنم اے اللہ ! جہنم کے عذاب سے تیری ذات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں اعوذ بک (سنن نسانی ص 329 ج 2) من عذاب القبر میں قبر کے عذاب سے پنا ہ چاہتا ہوں اعوذبک من فتنۃ المحیا والممات 5 سنن نسائی ص 346 ج 2) ومن الماثم والمغرم میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے اور گناہ اور تاوان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ جب بھی نماز پڑھتے تو قبر کے عذاب اور فتنہ سے پناہ مانگنے اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر والفتنۃ القبر اور دوسروں کو بھی تلقین فرماتے ۔ آپ نے اس الفاظ کے ساتھ استعاذہ فرمایا اللھم انی اعوذ بک من شد فتنۃ الغنی ومن شد فتنۃ الفقیہ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ دولت مندی فقر کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں غنی اور فقر دونوں باعث آزمائش ہیں ۔ بسا اوقات لوگ ان کے وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا آپ نے ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے استعاذہ فرمایا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا میں پناہ چاہتا ہوں من شد ماعلمت ومن شد مالم اعلم اس چیز کے شر سے جس کو میں جانتا ہوں اور اس چیز کے شر سے بھی جس کو میں نہیں جانتا ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا (2 سنن نسائی ص 320 ج 2) من شد ما عملت ومن شدمالم اعمل میں ہر اس عمل کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں جس کو میں نے کیا ہے اور جس کو میں نے نہیں کیا حضور ﷺ نے ہر قسم کے دشمن کے شر و سرور سے اس طرح پناہ سکھلائی (3 عمل الیوم واللیہ امام نسائی ص 325) اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم اے اللہ ہم تجھے دشمنوں کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ نے رات کو پیش آنے والے فتنوں سے بھی پناہ سکھائی اعوذ باللہ من طوارق اللیل میں رات کو آنے والے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں ۔
قرآنی تعوذات
قرآن پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیاء (علیہم السلام) نے بھی بعض مواقع پر تعوذ کیا ۔ سورة بقرہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ موجود ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے قوم نے کہا ، کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین میں اللہ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ۔ فرمایا ٹھٹھہ کرنا جاہلوں کا کام ہے میں تو تمہیں اللہ کا کلام سنارہا ہوں ۔ حضرت نوح علیہ اسلام کے واقعہ میں آتا ہے کہ جب ان کی لغزش پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی تو کہنے لگے انی اعوذبک ان اسئلک ما لیس لی بہ علم (سورۃ ہود) اے اللہ ! تیری ذات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کا مطالعہ کیجئے ۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے آپ کو برائی کی ترغیب دی تو آپ نے فرمایا معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای (سورۃ یوسف ) پناہ بخدا ، وہ میرامربی ہے اس نے مجھے عزت دی ہے میں اس کے ناموس میں کیسے خیانت کرسکتا ہوں ۔ پھر جب یوسف (علیہ السلام) کے ایک بھائی کو چوری کے الزام میں روک لیا گیا تو بھائیوں نے کہا کہ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو روک لو اور اس کو چھوڑدو۔ اس کے جواب میں بھی یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا معاذ اللہ ان ناخذالا من وجد نامتاعنا عندہ پناہ بخدا ! ہم تو صرف اسی شخص کو روکیں گے جس کے ہاں سے ہمارا سامان برآمد ہوا ہے حضرت مریم کے حجرہ میں تنہائی کے دوران ایک فرشتہ انسانی شکل میں پہنچ گیا ۔ آپ آگئیں اور کہنے لگیں اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا (سورۃ مریم) میں خدائے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں تجھ سے اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے۔ اور جب مریم پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے ان القاظ کے ساتھ خدا تعالیٰ سے استعاذہ کیا انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم (آل عمران) اے خدایا ! میں اس بچی اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں پناہ میں دیتی ہوں جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہلاک کرنے کی دھمکی دی تو آپ نے کہا وانی عذت بربی وربکم ان ترجمون (الدخان) میں اپنے اور تمہارے رب سے اس بات کی پناہ پکڑتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کردو۔
سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذباللہ انہ سمیع علیم جب کبھی شیطان کی طرف سے چھیڑچھاڑہو تو اللہ کی پناہ طلب کرو بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے قرآن پاک میں یہ حکم بھی موجود ہے قل رب اعوذبک من ھمذت الشیطن واعوذبک رب ان یحضرورن خداوندکریم ! تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں شیاطین کی چھیڑچھاڑ سے اور اس بات سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے نیک کام میں خلل اندازی کے لیے حاضر ہوں ۔ قرآن پاک کی آخری دوسورتیں جن کا حال میں درس ہوا ہے استعاذہ کے مضمون پر ہی ہیں قل اعوذ برب الناس کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں غرضیکہ ان دوسورتوں میں مختلف قسم کی برائیوں سے پناہ پکڑنے کا طریقہ سکھلایا گیا ہے۔
قرآن وسنت میں تعوذ کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں جن میں سے کچھ عرض کردیے گئے ہیں ۔ قرآن پاک ایک عظیم نعمت ہے جب کوئی شخص اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہے گا تو شیطان ضرور اس کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لیا کرو ۔
سورۃ الفاتحۃ ا درس سوم 3
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بیحد مہربان اور رحم کرنیوالا ہے
ربط مضامین
کل تعوذ کے بارے میں تھوڑا سا بیان ہوا تھا ۔ قرآن پاک تلاوت شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا ضروری ہے اس کی تھوڑی سی حکمت بھی عرض کی تھی ۔ مفسرین کرام فرماتے (1 تفسیرابن کثیرص 15 ج 1) ہیں کہ تعوذ میں اعتصام باللہ پایا جاتا ہے ۔ جب کوئی اعوذ باللہ پڑھتا ہے تو وہ گو یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ چنگل مارتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے تمام فتنوں اور خاص طور پر شیطان کے فتنہ سے اپنی پناہ میں لے لے ۔ اب آج بسم اللہ الرحمن الرحیم کے متعلق مختصر گفتگو ہوگی ۔
بسم اللہ سے ابتدا
مفسرسین کرام فرماتے ہیں (2) ہیں کہ بسم اللہ میں دوچیزین بطور خاص پائی جاتی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور دوسرے اس پر توکل جب کوئی شخص کسی کا رخیر کو شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے پروردگار اللہ جل جلالہ پر ایمان رکھتا ہوں اور اسی کے بھروسے پر یہ کام شروع کرتا ہوں۔
قدیم زمانہ سے لے کر آج تک کافر اور مشرک ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے والے اقل من القلیل یعنی قلیل تعداد میں رہے ہیں ۔ آج بھی دنیا کی کل آبادی کا غالب حصہ کفار مشرکین پر ہی مشتمل ہے مشرک لوگ کوئی کام شروع کرنے سے پہلے اپنے معبودان باطلہ کا نام لیتے ہیں ۔ پرانے زمانے کے عرب کے مشرکین اپنے معبودان لات منات اور عزی وغیرہ کا نام لیتے تھے حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے لوگ ودا ، سواع نسر وغیرہ کا نام لے کر کام کی ابتداء کرتے تھے ۔ عیسائی آج بھی باپ بیٹا اور روح القدس کا نام لیتے ہیں ۔ اس کے برخلاف جب دنیا میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اس کے ماننے والے اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ وہ ہر کام اللہ تعالیٰ کا نام لے کر شروع کیا کریں جو کہ معبود برحق اور وحدہ لاشریک ہے ۔ چناچہ حضور ﷺ پر جو سب سے پہلی آیات نازل ہوئیں ان کی ابتداء بھی اسی حکم کے ساتھ ہوئی (1 بخاری ص 2 ج 1 ہلم ص 88 ج 1) اقراباسم ربک الذی خلق اس پروردگار کا نام لے کر پڑھیے جس نے پیدا کیا ۔ قرآن پاک میں اللہ کے اسم پاک کے ذکر کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ سورة مزمل میں فرمایا واذکراسم ربک اپنے رب کے نام کا ذکر کرو ۔ سورة اعلیٰ میں ہے وذکراسم ربہ فصلی اپنے رب کا نام لیا پھر نماز پڑھی اسی طرح سورة احزاب میں ہے اے ایمان والو ! اذکروا اللہ ذکراکثیرا وسحبوہ بکرۃ واصیلا اللہ تعالیٰ کا خوب ذکر کرو صبح شام اس کی تسبیح بیان کرو۔ بہرحال اہل ایمان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر اچھے کام کی ابتداء بسم اللہ سے کریں ۔ امام ابوبکرجصاص (2 احکام القرآن ص 17 ج 1) اور دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ ہر اچھے کام کے شروع میں خواہ وہ کھانا پیناہی ہو بسم اللہ پڑھنی چاہیے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ السلام کا فرمان بھی ہے (1 فیض القدیرشرح جامع صغیرص 13 ج 5) کل امر ذی بال لم یبداء بسم اللہ فھو اقطع ہر اچھا جائز اور شان والا کام اگر بسم اللہ سے شروع نہیں کیا جائیگا تو وہ کام دم کٹے جانور کی طرح ہوگا یعنی بےبرکت ہوگا نبی کریم (علیہ السلام) کا یہ بھی فرمان ہے کہ جس خطبے کی ابتداء میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے یعنی اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے فھواجذم وہ جذامی آدمی کی طرح ہوتا ہے جس کی انگلیاں وغیرہ گل چکی ہوں لہذا ہر جائز کام کی ابتداء میں بطور تعظیم اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
بسم اللہ جزو قرآن یا سورة ۔
سورۃ نمل کی آیت 30 ہے انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم چناچہ تمام محدثین اور فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کی کم وبیش 6616 آیات میں سے بسم اللہ الر حمن الرحیم ایک آیت ہے اور جزو قرآن ہے ۔ البتہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ ہر سورة کا جزو بھی ہے یا نہیں ۔ امام ابوحنیفہ اور آپ کے پیروکار کہتے ہیں (2 احکام القرآن ص 9 ج 1)
قرآن کا جزو تو ہے مگر ہر سورة کا جزو نہیں چناچہ جب قرآن پاک بالجہر پڑھا جاتا ہے تو صرف سورة نمل میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت بالجہر کی جاتی ہے باقی پورے قرآن پاک میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جاتی ہے بجز ایک مرتبہ کے ہر دو سورتوں کے درمیان جو بسم اللہ لکھی جاتی ہے یہ محض سورتوں کے درمیان امتیاز کرنے لیے ہے ۔ ورنہ ابتدائے سورة میں بسم اللہ کسی سورة کا جزو نہیں ہے۔
چونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن پاک کا جزو ہے ۔ اس لیے اس کے بھی وہی احکام ہیں جو قرآن پاک کے ہیں ۔ کوئی جنبی آدمی یا حیض ونفاس والی عورت قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لا یمسہ الا المطھرون (الواقعہ) اس کو وہی ہاتھ لگا تے ہیں جو پاک ہیں حضور ﷺ کا فرمان بھی (1 دارقطنی ص 122 ج 1 فیض القدیرشرح جامع صغیرص 55 ج 2 بحوالہ ابوخاتم دارقطنی عبدالرزاق بہقی طیالسی) لا تمسہ القران الا وانت طاھر یعنی طہارت کے بغیر قرآن پاک کو ہاتھ مت لگاؤچنانچہ قرآن پاک کی کوئی آیت خواہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی ہو اگر کسی علیحدہ کاغذ پر بھی لکھی ہوئی ہو تو شرعی ناپاکی کی حالت میں اسے ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا ۔ اسی طرح قرآن کا کوئی حصہ شبمول بسم اللہ ا لراحمن الرحیم جنبی آدمی یا حیض ونفاس والی عورت کے لیے پڑ ھنا بھی جائز نہیں البتہ ایک بات ہے بسم اللہ لراحمن الرحیم چونکہ ذکر بھی ہے اس لیے ناپاک آدمی بطور ذکر اس کو پڑھ سکتا ہے کیونکہ ذکر ہر حالت میں روا ہے چناچہ ناپاک مردیا عورت کلمہ شریف استغفار کو پڑھ سکتا ہے کیونکہ ذکر ہر حالت میں روا ہے ۔ چناچہ ناپاک مرد یا عورت کلمہ شریف استغفار درودشریف سبحان اللہ الحمد اللہ لا الہ لا اللہ اور بسم اللہ پڑھ سکتا ہے البتہ ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔
نماز میں بسم اللہ ۔
نماز میں سورة فاتحہ سے پہلے اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا ضروری ہے کیونکہ سورة فاتحہ قرآن کا حصہ ہے جس کے متعلق قطعی حکم ہے فاذا قرات القران فاستعذباللہ من الشیطن الرجیم (النحل ) اور اس کے ساتھ بسم اللہ ا لرحمن الرحیم پڑھنا سنت ہے چناچہ امام اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں آہستہ پڑھے گا ۔ اس سلسلے میں حضرت انس کی روایت میں آتا ہے (2 مسلم ص 172 ج 1) کہ میں نے حضور ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی مگر کسی نے بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھی اونچی آواز سے قرأت الحمد اللہ سے شروع کرتے تھے تا ہم بسم اللہ کا پڑھنا ضروری (سنت ہے) اس کے بعد جب سورة فاتحہ پڑھ کر دوسری سورة ملانے لگے تو دونوں سورتوں کے درمیان بھی بسم اللہ پڑ ھنا مستحب ہے اور پڑھنے والا ثواب کا مستحق ہوگا ۔ البتہ اگر دو سورتوں کے درمیان بسم اللہ نہ بھی پڑھی جائے تو نماز میں خلل واقع نہیں ہوتا ۔ احناف اسی بات کا فتویٰ دیتے ہیں ۔
بسم اللہ بوقت ذبح
جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی فرض ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ملت کا شعار ہے ۔ اگر اس موقع پر اللہ کا نام نہیں لے گا بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہے گا تو شعار کے خلاف ہوگا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی موجود ہے فاذکروا اسم اللہ علیھا صوآف (الحج) اونٹوں کی قطاروں کو اللہ کا نام لے کر نحرکرو ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی مو جود ہے ولا تا کلواممالم یذکراسم اللہ علیہ (الا نعام ) جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کو مت کھاؤ وہ مردار کی مانند ہے البتہ اگر کوئی شخص بوقت ذبح بسم اللہ اللہ اکبر کہنا بھول جائے تو اس کے لیے معافی ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ب 2 عمل الیوم واللیلہ للنائی ص 71 رقم الحدیث ترمذی ص 494) کہ اللہ کا نام ہر مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ اور اگر قصدا اللہ کا نام نہیں لیا تو ذبیحہ حرام ہوگا کہ یہ ملت ابراہیمی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ہر کام میں بسم اللہ ۔
کوئی بھی کام ہو طہارت کھانایینا لباس بہننا چلنا سونا تمام کام اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے شروع کرنے چاہئیں حضور ﷺ کا ارشاد ہے (2) کہ جب گھر سے نکلو تو کہو بسم اللہ تو کلت علی اللہ میں اللہ کا نام لے کر اللہ ہی کے بھروسے پر چلا ہوں آپ نے گھر میں داخل ہونے کی دعا اس طرح سکھائی ہے (3 ابوداؤدص 339 ج 2) اللھم انی اسئلک خیرالموالج وخیر المخرج بسم اللہ ولجنا وعلی اللہ ربنا تو کلنا اے اللہ ! میں گھر میں خیریت سے داخل ہونے اور خیریت سے نکلنے کا سوال کرتا ہوں ۔ ہم اللہ کے نام کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے پروردگار اللہ پر ہمارا بھروسہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جب بسم اللہ کہا جاتا ہے تو اس میں فعل محذوف ہوتا ہے ۔ آدمی فعل کی مناسبت سے بسم اللہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے میں کھاتا پیتا ہوں یا پہنتا ہوں یاسواری پر بیٹھتا ہوں یا کوئی دیگر کام کرتا ہوں حضرت ام اسلمہ ؓ کے چھوٹے بیٹے عمربن ابی سلمہ حضور کی پرورش میں تھے ۔ ان کا شمار چھوٹے صحابیوں میں ہوتا ہے ۔ کھانا تیار تھا ۔ بچے نے دور بیٹھے ہی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 بخاری ص 810 ج 2 مسلم ص 172 ج 2) اے بیٹے ! قریب ہو کر بیھٹو بسم اللہ پڑھو کل بیمینک اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ وکل ممایلیک اور اپنے سامنے سے کھاؤ آپ نے کھانے کے متعلق چار چیزوں کی تعلیم دی جس میں بسم اللہ بھی شامل ہے ۔
ب ۔ اور اسم
بسم اللہ اسم کے ساتھ جو ب لگی ہوئی ہے اس کے بہت سے معنی آتے ہیں ۔ اس کا مشہور معنی اتو مصاحبت یا رفاقت ہے مگر یہ تبرک اور استعانت کے لیے بھی آتی ہے تا ہم یہاں پر تینوں معنی مراد ہیں ۔ اس طرح بسم اللہ کا معنی یہ ہوگا کہ میں یہ کام اللہ تعالیٰ کے نام کی رفاقت سے اور اس کے نام کی برکت سے اور اس کی مدد سے شروع کرتا ہوں ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں لفظ اللہ اسم ہے اور رحمان اور رحیم صفات ہیں ۔ اسم تعالیٰ کی ذات کو ظاہر کرتا ہے جب کہ اس کی ہر صفت اس کی کسی نہ کسی تجلی کو ظاہر کرتی ہے امام عبدالکر یم جیلی ؓ نے اپنی کتاب الا نسان الکامل میں لکھا ہے (2 مسلم ص 172 ج 2) کہ اسم وہ شے ہے جو فہم میں معین ہو ، خیال میں مصور ہو ، ہم میں حاضر ہو فکر میں مرتب ، حافظ میں محفوظ ہو عقل میں موجود ہو ۔ فرماتے ہیں اسم بول کر ہی ذات کو سمجھا جاسکتا ہے اس کے بغیر ذات کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اسم کا مفہوم یہی ہے جو عرض کردیا ۔
(اللہ رحمان اور رحیم)
انسان کوئی بھی کام کرنا چاہے ، اسے پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے (1 بیضاوی شریف ص 5 ج 1) اسباب فراہم کرنا (2) انتہا تک پہنچانا (3) ثمرات مرتب کرنا ، جہاں تک اسباب فراہم کرنے کا تعلق ہے اس پر اسم اللہ کا تصرف ہوتا ہے چونکہ اللہ خالق کل شیء ہرچیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے لہذا اسی اسم پاک کے ذریعے سے کسی کام کے اسباب مہیا ہوتے ہیں ۔ ان اسباب کو آخرتک قائم رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ کام ادھورا رہ جائے گا چناچہ ان اسباب کو آخرتک قائم رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ کام ادھوراہ جائے گا چناچہ ان اسباب کو انتہاتک قائم رکھنے میں صفت رحمان کار فرما ہوتی ہے کہ وہ بڑامہربان ہے ۔ پھر جب کام مکمل ہوجاتا ہے تو اس کے ثمرات مرتب کرنے میں صفت رحیم اپنا تقاضاپورا کرتی ہے ۔ لہذاجب کوئی شخص کوئی کام کرنے لگتا ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان تینوں اسمائے پاک کے وسیلے سے کام کی تکمیل چاہتا ہے۔ امام بیضاوی ؓ فرماتے ہیں (1 بیضاوی شریف ص 5 ج 1) رحمان الدنیا ورحیم الاخرۃ یعنی صفت رحمان میں عمومیت پائی جاتی ہے ۔ لہذا دنیا میں اللہ تعالے ہر نیک وبد اور مومن و کافر پر یکسیاں مہربان ہے اور سب کو ضروریات زندگی بہم پہنچاتا ہے۔ البتہ صفت رحیم کا تعلق صرف آخرت سے ہے لہذا آخرت کے انعام واکرام صرف مومنوں پر ہوں گے جب کہ کفار مبتلائے عذاب ہوگے بہرحال بسم اللہ میں یہ تینوں صفات پائی جاتی ۔ اللہ ذاتی نام ہے اور رحمان ورحیم اس کی صفات ہیں ۔ ہر کام کی تکمیل کے لیے ان تنیوں اسمائے پاک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں تینوں نام آگئے ہیں ۔
اسما کو مخفف کرنے کی ریت دنیا میں عام ہوچکی ہے۔ انگریزی تمدن میں اس وباء کو خصوصی پذیرائی ہوئی ہے۔ ڈگریوں کے نام ایم اے بی اے پی ایچ ڈی کی قبولیت کے بعد اپنے ناموں کی تخفیف بھی عام ہے جیسے زعیم الرحمن سلہری کی بجائے زیڈار سلہری لکھا اور بولا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں فقہانے کرام اور محدثین فرماتے ہیں (1 معارف القرآن ص 19 ج 1) کہ جو نام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو اس میں تخفیف کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ جیسے عبدالصمد کو صرف صمد کہنا یا عبد الرحمن کو رحمان اور عبد المجید کو مجید صاحب کہہ دینا غلط ہے یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور ان کا اطلاق کسی مخلوق پر کرنا جائز نہیں ۔ اس لیے یہ نام مکمل عبدالرحمن یا عبدالمجید کہہ کر پکارنے چاہئیں جس سے انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا عبد ظاہر کرے۔
(ٹھوکر لگنے پر بسم اللہ )
اللہ تعالیٰ کے نام کی برکات کا ذکر احادیث میں بھی آتا ہے حضور ﷺ سواری پر سوار تھے ۔ آپ کے پیچھے ایک دوسرے صحابی بھی بیٹھے تھے ۔ اچانک سواری کو ٹھوکر لگی تو پیچھے صحابی نے عربی محاورے کے مطابق کہا تعس اشیطن یعنی شیطان تباہ ہو حضور ﷺ نے فرمایا (2 عمل الیوم واللیلۃ امام نسائی ص 33) ایسا مت کہو کیونکہ ایسا کہنے سے شیطان سمجھتا ہے کہ میری بھی کوئی حیثیت ہے جسکی وجہ سے مجھے برابھلا کہا جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسے موقع پر بسم اللہ کہو مسنداحمد (3 مسنداحمدص 59 ج 5) کی روایت میں آتا ہے اذاقلت بسم اللہ تصاعدجب تم بسم اللہ کہوگے تو شیطان ذلیل و خوار ہوگا ۔ صغیر کا معنی چھوٹا ہوتا ہے۔ فرمایا بسم اللہ کہنے سے شیطان مکھی کے برابر چھوٹا سابن جاتا ہے ۔
(معاہدہ حدیبیہ میں بسم اللہ )
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا تو حضرت علی ؓ کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے کہا گیا (1 مسلم ص 105 ج 2) آپ نے اس کی ابتداء بسم اللہ الر حمن الرحیم سے کی ۔ اس پر کفار نے اعتراض کردیا کہ ہم رحمان اور رحیم کو نہیں جانتے ، لہذا پرانے طریقے کے مطابق بسمک اللھم کے الفاظ لکھے جائیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی قل ادعو اللہ اودعوالرحمن ایاما تدعوافلہ الاسماء الحسنی (بنی اسرئیل) خدا تعالیٰ کو اللہ کے لفظ سے یاد کرو یا رحمان ورحیم کے ساتھ اس کے سارے نام بھلے ہیں ۔ مشرکین محض ہٹ دھرمی کر رہے ہیں کہ رحمان ورحیم کا ذکر پسند نہیں کرتے حالا ن کہ صفت رحمان سے کمالات وجود اور رحیم سے معنوی اور اخروی کمالات آتے ہیں ۔ بہرحال حضور نے فرمایا کہ مشرکین جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح لکھ دو ۔ چناچہ معاہد ہ حدیبیہ کی ابتداء صرف اللہ تعالیٰ کے نام سے کی گئی۔
(اول واخر قرآن )
قرآن کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم کی ب سے ہوتی ہے اور اس کی انہتا والناس کی س پر ہوتی ہے اس کے متعلق غزنی کے مشہور شاعرثنائی جو کہ اولیاء اللہ میں سے تھے فرماتے ہیں ۔
اول وآخر قرآن زیں چہ با و سین یعنی اندر راہ دیں رہبر تو قرآن بس۔ قرآن پاک با سے شروع اور س پر ختم ہوا ہے دین کے راستے میں تیری رہنمائی کے لیے یہی نسخہ کافی ہے ثنائی نے یہ بھی کہا ہے ۔
گرد قرآن گرد زان کہ ہر کہ از قرآں گرفت آں جہاں رست از عقوبت ایں جہاں رست ازفتن قرآن کے گردہی گھومو کیو ن کہ جو شخص قرآن پاک سے ماخوذ کریگا ، وہ اس جہاں میں سزا سے بچ جائے گا اور اس جہاں میں فتنوں سے مامون رہے گا ۔ یہ اس قدر بابرکت کتاب ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں (1) کہ بندے کی تین حالتیں ہیں پہلی حالت اس جہان کی ہے ۔ انسان کا فرض ہے کہ اس جہاں میں معبود برحق کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے انسان کی دوسری حالت برزخ کی ہے۔
انسان کا فرض ہے کہ اس دنیا میں ایسے اعمال انجام دے کہ برزخ کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو ساتھ لے کرجائے نہ کہ خدا تعالے کے غضب کو لے جائے اگر اس نے قرآن پاک سے راہنمائی حاصل کی تو برزخ میں بھی سرخرو ہوگا اور پھر آخرت میں تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہی مہربانی ہوگی یہ اس کی تیسر ی حالت ہے۔ غرضیکہ جس شخص نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم کو پکڑ لیا وہ ہے غرضیکہ جس شخص نے دنیا میں اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کو پکڑ لیا وہ برزخ میں اس کی صفت رحمان سے مستفید ہوگا اور آخرت میں صفت رحیم کا مستحق بن جائے گا۔
سورة الفاتحۃ 1 اسماء القرآن درس چہارم 4
قرآن پاک کی ابتداء سورة فاتحہ سے ہو رہی ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآن کی عظمت کا کچھ بیان ہوا تھا ۔ اس کے بعد تعوذ پر مختصر گفتگو ہوئی اور پھر بسم اللہ کے متعلق مختصر اعرض کردیا ہے اب آج کے درس میں قرآم پاک کے مختلف اسما اور ان کی مختصر تشریح بیان ہوگی۔
(قرآن)
قرآن کا مادہ قرا ہے جس کا لفظی معنی جمع کرنا ہے ۔ چونکہ پڑھنے میں حروف کو جمع کیا جاتا ہے ، اسیلے قرا پڑھنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن سے مراد پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ قرآن پاک کا یہ خود قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ واوحی الی ھذا القران لا نذرکم بہ ومن بلغ (الا نعام ) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعے میں تمہیں اور جس جس تک یہ پہنچے انہیں ڈارؤں ان ھذالقران یھدی للتی ھی اقوم (بنی اسرائیل ) یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔ انا انزلنہ قرانا عربیا لعلکم تعقلون (یو سف) ہم نے یہ قرآن عربی زبان میں نازل کیا ہے تا کہ تم سمجھ سکو۔
(فرقان)
قرآن پاک کا ایک نام فرقان بھی ہے۔ فرقان کا معنی ہے فیصلہ کرنے والی کتاب ۔ قرآن پاک حق و باطل ایمان وکفر اور صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ یہ نام سورة فرقان میں اس طرح آیا ہے تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا اور ڈرانے والا بن جائے۔
(تذکرہ)
تذکرہ کا معنی یادہانی ہے۔ قرآن پاک تمام عہد و پیمان اور دیگر ضروری باتیں انسان کو یاد کراتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے تذکرہ کے نام سے پکارا ہے جیسے ان ھذہ تذکرۃ (المزمل) یہ قرآن یاددہانی ہے ۔ آجکل کی اصلاح میں تذکرہ کا لفظ عربی میں ٹکٹ پر بھی بولا جاتا ہے ، تا ہم اس کا اصل معنی یاددہانی ہی ہے۔
(ہدایت)
قرآن پاک ہدایت بھی ہے جیسے فرمایا کہ یہ قرآن ماہ رمضان میں نازل کیا گیا جو کہ ھدی للناس وبینت من الھدی (البقرہ) لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی کھلی نشانیان ہیں ۔ یہ قرآن تمام عالمین اور بالخصوص انسانوں کے لیے ہدایت ہے ۔ ہدایت کا معنی راہنمائی ہے اور یہ زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کرتا ہے کہ لوگ اپنی مشکلات کو کس طرح حل کریں ۔
(نور) فیصل
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نور بھی فرمایا وانزلنا الیکم نورا مبینا (النسائ) ہم نے تمہاری طرف کھلی روشنی اتاری ۔ نور کا لفظی معنی روشنی ہے اور یہ اللہ کی صفت بھی ہے۔ نور کا اطلاق اس مجازی روشنی پر ہوتا ہے اور روحانی روشنی پر بھی جس کے ذریعے انسان کی روح اور قلب منور ہوتے ہیں ۔ ان کے شکوک و شبہات رفع ہو کر پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
(بصائر)
قرآن پاک کو بصائر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ھذابصائرمن ربکم (الا عراف) یہ تمہارے رب کی طرف سے بصائر ہیں ۔ بصائربصیرت کی جمع ہے جس سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو دل میں روشنی پیدا کرتی ہے بصارت آنکھ کی روشنی کو کہتے ہیں ۔ جب کہ بصیرت دل کی روشنی کو۔
(روح) قرآن پاک کا ایک نام توح بھی ہے۔ وکذلک اوحیناالیک روحامن امرنا (الشوری) اور اس طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح نازل فرمائی۔ عام اصطلاح میں روح اس چیز کا نام ہے کہ جب کسی جاندار میں داخل ہوتی ہے تو اس کو زندگی نصیب ہوتی ہے ۔ اور جب روح الگ ہوجاتی ہے تو انسان یا کوئی بھی جاندار مردہ ہوجاتا ہے ۔ قرآن پاک اس لحاظ سے روح ہے کہ اس کے ذریعے سے انسانوں کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے اور وہ گمراہی سے نکل کر روشنی میں آجاتے ہیں ۔
(رحمت)
قرآن پاک رحمت بھی ہے سورة نحل میں ہے ونزلنا علیک الکتب تبیانالکل شیء وھدی ورحمۃ ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب اتاری جو ہر چیز کی وضاحت کرتی ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ۔ رحمت کا معنی مہربانی ہوتا ہے ۔ چناچہ جو لوگ قرآن پاک کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے ۔ اس لیے قرآن کو رحمت سے موسوم کیا گیا۔
(شفائ)
قرآن حکیم کو شفا بھی کہا گیا ہے وننزل من القران ما ھو شفاء ورحمۃ للمئومنین (بنی اسرائیل ) ہم نے قرآن پاک کو بطور شفا اور رحمت نازل فرمایا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔ جس طرح مادی دوائیں جسمانی بیماریوں کے لیے شفاء کا باعث ہوتی ہیں اسی طرح قرآن پاک روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ ترمذی شریف اور ابن ماجہ شریف۔ کی روایت میں آتا ہے (1 ابن ماجہ ص 246) کہ حضور ﷺ نے فرمایا علیکم بالشفائین یعنی شفاء کے لیے دوچیزوں کو لازم پکڑو۔ ایک قرآن پاک ہے جو روحانی بیماریوں سے شفادیتا ہے اور دوسری شہد ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی جسمانی بیماریوں کی شفاء رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چھوٹی سی مکھی کے پیٹ میں نہایت پکیزہ اور مصفی شہدپیدا کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات مکھی کی فطرت میں ڈال دی کہ وہ ہمیشہ پاک چیز خوشبودار پھول اور صاف ستھری غذا پر بیٹھتی ہے ۔ یہ قانوں قدرت ہے کہ شہد کی مکھی گندگی پر نہیں بیٹھتی ۔ اگر کوئی مکھی نجاست پر بیٹھی یائی جائے تو سخت سزا کی مستحق ٹھہرتی ہے ۔ جن لوگوں نے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں پر تحقیقات کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی سردار ملکہ ہوتی ہے جسے عربی زبان میں یعسوب کہتے ہیں ۔ اگر کوئی مکھی گندگی میں ملوث پائی جائے تو فورا گرفتار کرکے ملکہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر اس کے خلاف جرم ثابت ہوجائے تو ملکہ کے حکم سے اس کا سر تن سے جدا کردیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے شہد کو نہایت ہی پاکیزہ چیز فرمایا ہے ۔ یہ مکھیاں اپنے بچوں کو بھی کھلاتی اور انسان بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا کہ جسمانی بیماریوں کے لیے شہد کو لازم پکڑو اور روحانی بیماریوں کے لیے قرآن کریم کو لازم پکڑو ، یہ دونوں چیزیں باعث شفا ہیں ۔
(موعظت)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو موعظت بھی فرمایا ہے جس کا معنی وعظ ونصیحت والی باتیں ہیں ۔ اس کے ذریعے انسانوں کی جہالت دور ہو کر ان میں اچھی باتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں ۔
قھدالمدارک الظلمانیۃ بانواروعظ کا معنی یہ ہے کہ انسانی ذہن میں تاریکی المعارف القدسانیۃ “ والی باتوں کی جگہ روشنی والی پیدا کی جائیں ۔
قصے کہانیوں ، الٹی سیدھی باتیں فضول محض ہے۔ وعظ ونصیحت بڑی بلند چیز ہے اسی لیے اللہ نے قرآن کا نام موعظمت بھی رکھا ہے۔
(تبیان)
قرآن حکیم کا نام تبیان بھی ہے۔ بیان تو عام وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر بیان کا معنی بہت زیادہ وضاحت ہے ونزلنا علیک الکتب تبیانالکل شیئ (النحل ) ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جو ہر چیز کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ وہ تمام باتیں جن کا تعلق عقیدے سے ہے یا عمل سے ، اخلاق سے ہے یا ذہنی بالیدگی سے فکر کی بلند ی سے ہے یا اللہ کی معرفت سے عالم بالا سے ہے یا برزخ اور حشر سے ان تمام کی وضاحت قرآن پاک موجود ہے ، اس لیے اس کا نام تبیان رکھا گیا ہے۔
(قیم)
قرآن پاک کا ایک نام قیم بھی ہے ۔ قیما لینذر باسا شدیدا من لدنہ (الکھف) اللہ تعالیٰ نے ایسی کتاب نازل کی ہے جو قیم ہے تاکہ ڈرائے سخت عذاب سے جو اللہ کی طرف سے آنے والا ہے ۔ قیم کا معنی نگرانی اور حفاظت کرنے والی بھی ہے۔ یہ کتاب نگرانی کرتی ہے اور غلط چیزوں کو بالکل جدا کردیتی ہے۔ قیم کا معنی الرجال قومون علی النسائ (النسائ) میں بھی ملتا ہے ، یعنی مردعورتوں کے نگران اور محافظ ہیں ۔ عربی زبان میں قیم جماعت سیکرٹری کو کہتے ہیں اس کا نام بھی تمام امور کی نگرانی ہوتا ہے۔
(احسن الحدیث)
قرآن پاک نے اپنا نام احسن الحدیث بھی بتایا ہے ۔ اللہ نزل احسن الحدیث (الزمر) اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی۔ وہ شہنشاہ مطلق اور ملک الملوک ہے ، اس کا کلام بھی بےمثل اور بےمثال ہے اس لیے قرآن کو حسن الحدیث فرمایا گیا ۔ خطبہ جمعہ میں بھی آپ سنتے رہتے ہیں احسن الکلام کلام اللہ سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام ہے۔ اس سے بہتر کائنات میں کوئی کلام نہیں لہذا یہ احسن الحدیث بھی ہے۔
(مثانی)
مثانی کا معنی دہرائی جانے والی کتاب جس کا بکثرت تکرار ہوتا ہے ۔ قرآن پاک یہ نام خود قرآن پاک میں بھی آیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا سورة میں ہے اللہ نے بہترین بات نازل فرمائی جو کہ کتبا متشابھا مثانی جس کی آیتیں ملتی ہیں اور دہرائی جاتی ہیں ۔
(برہان)
قرآن پاک کا ایک نام برہان بھی ہے۔ برہان دلیل کو کہتے ہیں ۔ ہر وعویٰ کی کوئی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے ، اسی طرح قرآن حکیم بھی بیشمار دلائل پر مشتمل ہے۔ تو حید کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں ، اسی طرح شرک کے رد میں دلائل کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ وقوع قیامت کے متعلق مختلف طریقوں سے بےشماردلائل پیش کیے گئے ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم کو برہان بھی کہا گیا ہے۔ سورة نساء میں ہے قدجاء کم برھان من ربکم تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے
الکتاب
قرآن پاک کو الکتاب کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ سورة بقرہ کی ابتداہی اسی لفظ سے ہوئی ہے ذلک الکتب لا ریب بلاشبہ یہی وہ کتاب ہے۔ سورة الحجر میں ہے تلک ایت الکتب وقران مبین یہ الکتاب اور قرآن مبین کی آیتیں ہیں ۔ دراصل الکتاب کہلانے کی حقدار صرف وہی کتاب ہوسکتی ہے جس کی حیثیت بلند وبالا ہو اور جو عیب اور نقص سے پاک ہو اور یہ شرف صرف قرآن پاک کو ہی حاصل ہے۔ بعض نے مجازی عنوان سے بات اس طرح سمجھائی ہے ایں کتاب نیست چیزے دگیراست دنیا میں لا تعدادمضامین پر مشتمل کتابیں موجود ہیں تاریخ جغرافیہ سائنس ٹیکنالوجی نفسیات معاشیات سیاسیات ، دینیات مگر ہر کتاب میں علمی دلائل کی کوئی کمی نہیں ہے یہی الکتاب ہے ۔
(ذکر)
قرآن پاک کا ایک نام ذکر بھی ہے ذکر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ذکر کا ایک معنی وہ علم ہے جس کے ذکر سے انسان میں یاواشت پیدا ہوتی ہے اور دوسرا ذکر وہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے سورة احزاب میں ہے ۔ اے ایمان والو ! اذ کروا اللہ ذکرا کثیرا اپنے اللہ کا کثرت سے ذکر کرو مسندا حمد کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اکثرو اذکر اللہ حتی یقولو امجنون اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ لوگ کہیں کہ یہ دیوانہ ہے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو ذکر کا لقب بھی دیا ہے ۔ جیسا کہ سورة الحجر میں آتا ہے انا نحن نزلنا الذکروانا لہ لحفظون یہ ذکر ہم نے ہی اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
سورۃ الفاتحۃ 1 مسائل تلاوت درس پنجم 5
ربط مضامین
سب سے پہلے عظمت قرآن پاک کا کچھ بیان ہوا تھا۔ اس کے بعداعوذباللہ اور بسم اللہ کے متعلق کچھ مختصر طور پر عرض کیا تھا۔ پھر قرآن حکیم کے اسمائے مبارکہ کی مختصر تشریح پیش کی تھی اور اب آج قرآن پاک کی تلاوت سے متعلق کچھ مسائل کا بیان ہوگا ۔ اس کے بعد طریقہ تفسیر کے متعلق کچھ عرض کیا جائے گا اور پھر انشاء اللہ سورة فاتحہ کی فضیلت بیان ہوگی اور اس کے الفاظ کی تشریح عرض کی جائے گی ۔
(تلاوت قرآن کا اجر)
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ذارئع علم میں سے اہم ترین ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ذریعہ سے مکمل علم قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا ہے جو کہ پوری انسانیت بلکہ پوری کائنات کے لیے ہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ قرآن کریم کو سیکھنا اور پھر اس پر عمل کرنا تو فرض ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کی تلاوت کا مسئلہ بھی خود اسی میں ذکر فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے اتل ما اوحی الیک من الکتب (العنکبوت) جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے الذین اتینھم الکتب یتلونہ حق تلاوتہ (البقرۃ) جو صادق الا یمان لوگ ہیں وہ قرآن پاک کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ۔ یہی لوگ حقیقت میں ایمان والے ہیں اور ایسے ہی لوگ اجر کے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت (1 ترمذی ابواب فضائل القرآن ص 119 ج 2) میں آتا ہے کہ جو شخص قرآن پاک کی ایمان اور سچائی کے ساتھ تلاوت کریگا اسے قرآن کریم ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی ۔ خواہ ان کا مطلب بھی نہ سمجھتا ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا الم تین حروف ہیں اور ان کی تلاوت سے تیس 30 نیکیاں حاصل ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ قرآن کے متعلق پہلے درجے کی بات یہ ہے کہ لوگ اس پر ایمان لائیں اسمیں غوروفکر کریں اور اس کے مطابق عمل کریں یہ ہے تو ضروری ہے ۔ اور پھر دوسرے درجے کی بات یہ ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ کی تلاوت پر بھی اجر وثواب ہے۔ قرآن کے علاوہ کسی دوسرے کلام کی تلاوت پر اتنا اجر نہیں جتنا اس کی تلاوت پر ہے۔ لہذا اس کی تلاوت کرنے والا اگر ایماندار ہے تو یقینا اس کو اجر حاصل ہوگا۔
(ایصال ثواب)
یہ بات تو واضح ہوگئی کہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہے مگر حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ ثواب پڑھنے والے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو بھی حاصل ہوسکتا ہے یا نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں قرآن خوانی کرکے اس کا ثواب دوسروں کو ایصال کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے۔ (1 فتاولسی کبری لابن تمییہ ص 315 ج 24) امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ تلاوت قرآن کا ثواب خود تلاوت کرنے والے حاصل ہوتا ہے کسی دوسرے کو ایصال نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مرنے والوں کو صدقہ خیرات ، استغفار یا دعا کا ثواب تو پہنچتا ہے حج اور عمر ہ کا ثواب بھی ملتا ہے مگر تلاوت قرآن کا ثواب صرف پڑھنے والے کو حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ جس طرح دعا استغفار یا صدقہ وغیرہ کا ثواب دوسروں کو پہنچتا ہے اسی طرح امید ہے کی تلاوت قرآن کا ثواب بھی پہنچے گا۔ فرماتے ہیں کہ تلاوت قرآن ایک نیک عمل ہی اور نیک عمل کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ جس صدقہ خیرات دوسرے کے ساتھ احسان ہے ، اسی طرح تلاوت بھی احسان ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں امید ہے کہ تلاوت کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔ تلاوت کے بعد تلاوت کرنے والا اس طرح دعا کرے کہ جو کچھ میں نے تلاوت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور اس کا اجر اپنے والدین ، اساتذہ کسی بزرگ عزیز رشتہ دار ، دوست یا پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات مبارکہ جس کو بھی چاہے ہبہ کرسکتا ہے۔
(نفلی عبادت کا ثواب )
فقہ کا یہ مشہورو معروف مسئلہ ہے (1 ہدایہ ص 296 ج 2971) کہ ہرایماندار شخص اپنے نفلی عمل میں سے جتنا چاہے دوسرے کو ہبہ کرسکتا ہے ۔ جہاں تک فرائض ، واجبات اور سنن کا تعلق ہے ان عبادات کی ضرورت تو خود انجام دہندہ کو ہوتی ہے۔ ایسے اور کی ادائیگی کے لیے وہ خود جواب دہ ہے ، لہذا ان کو تو ہبہ نہیں کیا جاسکتا ، البتہ نفلی عبادات میں دوسروں کو ہبہ کرنے کی اجازت ہے اسی مسئلہ کے تحت یہ ضمنی مسئلہ بھی آتا ہے کہ فرائض کے علاوہ تلاوت قرآن کا ثواب بھی دوسرے کو بخش سکتا ہے۔ کوئی شخص دوچار رکعت نفل نمازاداکیلے یوں دعا کرسکتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور اس سب اس کے والدین یا دیگر اقرباء کو پہنچائے ۔ اسی طرح روزہ کا مسئلہ بھی ہے فرض روزہ تو انسان خود اپنے لیے رکھے گا اس کا ثواب دوسروں کو نہیں پہنچا سکتا البتہ نفلی روزے کا ثواب ایصال کیا جاسکتا ہے ۔ اگر کسی مرنے والے کا فرض روزہ رہ گیا ہے تو اس کی تلافی اس کا کوئی عزیز نفلی روزے کے ذریعے نہیں کرسکتا اگر کسی شخص کا فرضی یانذر کا روزہ چھوٹ جائے تو حدیث شریف میں ام المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت (1 بخاری ص 262 ج 1) ہے کہ اس کا سرپرست اسکی طرف سے روزے کا فدیہ ادا کرے ۔ ہر روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے مطابق دوسیرگندم یا اس کی قیمت کے برابر ہے۔ ہر نماز کا بھی یہی فدیہ ہے۔ (2 عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ص 59 ج 11) اگر کسی مرنے والے کی نماز ضائع ہوجائے تو اس کے وارثان ہر نماز کے بدلے صدقہ فطر کے برابر فدیہ ادا کریں ۔ اگر مرنے والاوصیت کرگیا ہے تو وصیت نہیں کر گیا تو اس کے عزیز یادوست احباب فدیہ ادا کریں ۔ بہرحال امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک نفلی نماز روزہ یا تلاوت کا ثواب کسی دوسرے کو ایصال کرنا درست ہے اور بالعموم اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ قبرستان جانے والے کو بھی یہی تعلیم دی جاتی ہے کہ سورة فاتحہ اور تین دفعہ قل شریف پڑھے یا سورة یسن پڑھے اور اس کا ثواب اموات کو بخش دے یہ جائز ہے۔
(قرآن کا بھول جانا)
بعض لوگوں پر نسیاں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ قرآن پاک پڑھنے کے بعد بھول جاتے ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے (3 بخاری ص 753 ج 2 مسلم ص 268 ج 1) کہ جس شخص کے ساتھ ایساواقعہ پیش آئے وہ یہ نہ کہے کہ میں نے قرآن پاک بھلادیا ہے اس میں زیادتی پائی جاتی ہے اور ایسا کہنا ناپسند یدہ ہے ایسے شخص کو نہایت عاجزی کے ساتھ کہنا چاہیے کہ مجھ سے قرآن پاک بھلادیا گیا ہے ۔ اس میں عاجزی پائی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے ۔
(تلاوت بطور پیشہ) ایک مسئلہ یہ بھی ہے (4 ہدایہ ص 303 ج 3) کہ قرآن کریم کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہیں بنا نا چاہیے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ امام بخاری شرح بڑے محدث ہوئے ہیں ۔ صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی اور بھی بہت سی تصانیف ہیں مثلا ادب المفرد تاریخ صغیر تاریخ اوسط تاریخ کبیر وغیرہ۔ تاریخ کبیر نوجلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ آپ نے اس کتاب میں روایت نقل کی ہے (1) جسکی سند بھی قابل اعتبار ہے ۔ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی ظالم آدمی کے ہاں اس نیت سے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے کہ اس کے بدلے دس نیکیوں کی بجائے دس لعنتیں پڑتی ہیں ۔ اس نے اللہ کی کتاب کی اس قدرناقدری کی کہ ایک ظالم آدمی کی خوشنودی کے لیے قرآن پاک کی تلاوت کی ہے ۔ یہ قرآن پاک کو پیشہ بنانے کے متراوف ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (2 مسند احمدص 146 ، 397 ج 3) کہ ایسا دور بھی آئے گا جب لوگ قرآن کریم کو کھانے کا ذریعہ بنالیں گے۔ مختلف رسومات کی آڑ میں قرآن پاک کھانے پینے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ یہ درست نہیں ہے ۔
(ختم قرآن پر دعا)
قرآن پاک کی تلاوت کے بعد دعا کرنا مستحب ہے ۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ جب آپ قرآن پاک اول تا آخرختم کرتے تو اپنے گھروالوں کو جمع کرکے دعامانگتے تھے ۔ یہ دعا کی قبولیت کا موقع ہوتا ہے ۔ تراویح میں ختم قرآن پر بھی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھی مستحب ہے قرآن پر ایمان لانا ، اس کے مطابق عقیدہ رکھنا اور اس کے اوامرونواہی پر عمل کرنا تو بہرحال ضروری ہے مگر اس کی خالی تلاوت بھی بڑے اجروثواب کا باعث ہے۔
(قرآن پاک کا سننا) جس طرح قرآن پاک کا پڑ ھنا مسنون ہے اسی طرح اس کا سننا بھی مستحب ہے جو شخص خود نہیں پڑھ سکتا وہ دوسرے سے سنے ۔ ایک موقع پر حضور ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے (3 مسلم ص 270 ج 1 بخاری ص 659 ج 2) آپ نے عبداللہ بن مسعو ؓ د سے فرمایا ، قرآن پڑھو۔
انہوں نے عرض کیا حضور ! قرآن پاک آپ پر نازل ہوا ہے آپ پڑھتے ہیں اور ہم لوگ سنتے ہیں مگر اب آپ ہمیں پڑھنے کے لیے فرمار ہے ہیں ۔ فرمایا انی احب ان اسمع من غیدی یعنی میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ دوسرے کی زبان سے قرآن کریم سنوں ۔ گویا جس طرح خود پڑھنا اعلیٰدرجے کی نیکی ہے اسی طرح سننا بھی پسند ہے ۔ حضور ﷺ کی اور کئی رکوع پڑھ گئے ۔ پھر جب آپ اس آیت پر پہنچے فکیف اذاجئنا من کل امۃ بشھیدوجئنا بک علیٰ ھوئلاء شھیدا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کی آنکھوں سے انسوجاری ہیں ۔ لہذا حضرت ابن مسعود ؓ خاموش ہوگئے ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ خود حضور ﷺ نے تلاوت بند کردینے کا اشارہ فرمایا۔ بہرحال جب کوئی دوسراشخص پڑھ رہا ہو تو قرآن کریم کو سننا چاہیے کہ یہ بھی ایک بہتر بات ہے۔
(تلاوت میں خوش الحانی سے پڑھنا بھی مستحب اور اس کی ترغیب دی گئی ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 فیض القدیر شرح جامع صغیرص 65 ج 2 سجوالہ طبرانی اوسط) کہ عربوں کے لہجہ پر اچھی آواز سے تلاوت کرنی چاہیے ۔ آجکل بعض لوگ شعروشاعری اور عشقیہ گانوں کے طریقے پر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں جو کہ مکر وہ تحریمی اور گناہ کا باعث ہے اسے فقہائے کرام ناجائز قراردیتے ہیں ۔
تلاوت قرآن پاک کے ضمن میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ جس جگہ پر تلاوت کی جائے وہ صاف ستھری اور پاکیزہونی چاہیے ۔ ارد گردکا ماحول بہتر ہو مسجد تو بہر حال پاکیزہ مقام ہوتا ہے۔ اگر گھر میں بھی تلاوت کرے تو ایسی جگہ بیٹھے جہاں قریب گندگی نہ ہو بدبو والی جگہ پر قرآن کی تلاوت سوء ادب ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ تلاوت نہایت عاجزی کے ساتھ کرے اور ممکن ہو تو قبلہ رو ہو کر تلاوت کرے قاری کے اپنے جسم اور لباس کی پاکیزگی بھی ضروری ہے ۔ یہ مسئلہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ قرآن پاک کی افضل ترین تلاوت وہ ہے جو نماز کے دوران کی جائے۔ ایسی تلاوت کا ثواب سے سب زیادہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت سے متعلق یہ چند ایک ضروری مسائل تھے جو میں نے عرض کردیے ہیں۔