Mualim-ul-Irfan - Yunus : 108
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو قَدْ جَآءَكُمُ : پہنچ چکا تمہارے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنِ : تو جو اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنی جان کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اس پر (برے کو) وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : مختار
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ، اے لوگو ! تحقیق آچکا ہے تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے۔ پس جس نے ہدایت پائی ، بیشک وہ ہدایت پاتا ہے اپنے نف کے فائدے کے لیے اور جو گمراہ ہوا ، پس بیشک وہ گمراہ ہوتا ہے اپنے نفس کے برے کے لیے۔ اور نہیں ہوں میں تم پر کوئی مختار
حق کی آمد سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ نے چار اہم مضامین توحید ، رسالت ، قیامت اور قرآن پاک کی صداقت وحقانیت بیان فرمائے ہیں۔ سورة کی ابتداء میں بھی یہی مضامین بیان ہوئے تھے اور اب آخر میں بھی انہیں مضامین کا خلاصہ بیان ہورہا ہے۔ درمیان میں یہی حقائق مختلف مثالوں کے ذریعے طریقوں سے سمجھائے گئے ہیں۔ ان چاروں مضامین میں سے قرآن پاک کے وحی الٰہی ہونے ، اس کے اتباع اور اس کی صداقت وحقانیت کا حصہ زیاد ہے چناچہ اب آخر سورة میں قرآن پاک ہی سے متعلق ارشاد ہے (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے (آیت) ” یایھا الناس “ اے لوگو ! (آیت) ” قد جاء کم الحق من ربکم “ تحقیق آچکا ہے تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خطاب عام لوگوں سے ہے صرف عربوں یا صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کو خطاب کای گیا ہے۔ اے دنیا جہان کے لوگو ! اور خطاب یہ ہے کہ تمہارے پاس حق آچکا ہے ، حق سے مراد قرآن پاک ہے یا دوسرے لفظوں میں دین حق عقیدہ توحید ، عمل حق اور اخلاق حق ہے۔ اس میں عقائد حقہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ حق کا معنی ثابت چیز ہوتا ہے۔ توحید ، رسالت ، معاد اور نیکی وغیرہ ثابت شدہ چیزیں ہیں لہٰذا ان کو حق سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے برخلاف بدعقیدگی اور بد عملی بری چیزیں ہیں جن کا خمیازہ ہر شخص کو بھگتنا ہوگا۔ مکی زندگی میں زیادہ تر اصلاح عقیدہ کی طرف توجہ دی گئی کیونکہ سب سے پہلے انسان کے عقیدے کی درستگی ضروری ہے۔ عمل اور اخلاق عقیدے کی فرع ہے۔ عقیدے کی اصلاح کے بغیر عمل بےسود ہے۔ اور عقیدے کی فرع ہے۔ عقیدے کی اصلاح کے بغیر عمل بےسود ہے۔ اور عقیدے کی درستگی خدا تعالیٰ کی وحدانیت ، انبیاء کی رسالت ، کتب سماویہ اور معاد پر ایمان لانے سے ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ حق یعنی سچا دین جس میں عقائد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، تمہارے پاس آچکا ہے ، اب اس سے فائدہ اٹھانا تمہارا کام ہے۔ ہدایت کا فائدہ فرمایا ، تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس حق آچکا ہے ، (آیت) ” فمن اھتدی “ پس جس شخص نے اس حق سے ہدایت پالی (آیت) ” فانما یھتدی لفنسہ “ پس بیشک وہ ہدایت پاتا ہے اپنے نفس کے فائدہ کے لیے ، حق کو نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے حجیت تمام کردی ہے اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا ، کتابیں نازل فرمائیں اور مبلغین کے ذریعے سے تمام لوگوں تک پہنچا دیا ، اس کی وضاحت بھی کردی ، صحیح اور غلط باتیں ساری بیان کردیں ، لہٰذا اب جو شخص اس ہدایت کو قبول کرلے گا تو اس کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ اپنے نفع ونقصان کے متعلق سوچنا ہر شخص کا اپنا کام ہے۔ اگر وہ حق کو قبول نہیں کرے گا تو اپنا ہی نقصان کریگا ، (آیت) ” لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “ (البقرہ) انسان نے جو اچھی چیز کمائی وہ اسی کے فائدہ کے یے ہے اور جو بری چیز کمائی اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ گمراہی کا نقصان فرمایا (آیت) ” ومن ضل “ جس نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا (آیت) ” فانما یضل علیھا “ تو اس کا وبال اسی کے نفس پر پڑے گا۔ ملت ابراہیمی کا یہ مسلمہ اصول ہے (آیت) ” الا تزر وازرۃ وزر اخری “ (النجم) کسی ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا۔ بلکہ اپنے انے عقیدے ، عمل اور اخلاق کے مطابق ہر شخص کو بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ نے اپنے پیغمبر کی زبان سے اعلان کروا دیا (آیت) ” وما انا علیکم بوکیل “ میں تم پر کوئی وکیل نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں وکیل کا لفظ ذکر کیا ہے ، کہیں جبار کا اور کہیں مصیطر کا۔ مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں تم پر کوئی داروغہ نہیں ہوں جو تمہیں زبردستی کوئی چیز منوالوں ۔ سورة غاشیہ میں ہے (آیت) ” لست علیھم بمصیطر “ آپ ان پر کوئی داروغہ تو نہیں ہیں۔ سورة ق میں ہے (آیت) ” وما انت علیھم بجبار فذکر بالقران “ آپ کوئی جبار تو نہیں ہیں جو گردن سے پکڑ کر ان کو منوا لیں گے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ قرآن پاک کے ذریعے نصیحت کردیں۔ دین حق کو واضح طور پر پیش کردیا گیا ہے اور اب اس کو قبول کرنا ہر فرد کی اپنی ذاتی ذمہ داری ہے جو شخص اس کو اختیار کرلے گا وہ کامیاب ہوجائیگا اور جو اختیار نہیں کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واضح کردیا (آیت) ” فانما علیک البلغ وعلینا الحساب “ (الرعد) آپ کا کام ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے جب کہ حساب لینا ہمارا کام ہے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہدایت اور گمراہی کا معاملہ بالکل واضح ہے اور اللہ کا نبی بھی صاف صاف کہتا ہے کہ میرا کام تبلیغ کرنا ہے ، کسی کو زبردستی منوانا نہیں۔ اسلام میں جبر نہیں یہ اسلام کا طے شدہ اصول ہے (آیت) ” لا اکراہ فی الدین “ (البقرہ) یعنی دین میں جبر نہیں۔ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کا جاسکتا۔ حق واضح ہوجانے کے باوجود اگر کوئی دین حق کو قبول نہیں کرتا تو اس کے متعلق آپ سے سوال نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے (آیت) ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “ (البقر) آپ سے اہل دوزخ کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ بلکہ یہ سوال خود دوزخ والوں سے ہوگا کہ وہ یہاں کیوں آئے۔ آپ کا کا صرف تبلیغ کا فریضہ ادا کرنا ہے اور آگے معاملہ اسی پر چھوڑ دینا ہے ، وہ خود اپنے عقیدے اور عمل کا ذمہ دار ہوگا۔ دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کی پوزیشن بالکل واضح ہے مسلمانوں نے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا ، البتہ غیر مذہب والے اپنے مذہب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں مشرکوں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا ہے چناچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعہ میں گزر چکا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگوں نے اہل ایمان سے کہا کہ اے شعیب (علیہ السلام) آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والے ہماری بستی سے نکل جائیں (آیت) ” او لتعودن فی ملتنا “ (الاعراف) اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو ہمارے دین میں واپس آجائو۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا (آیت) ” اولوکنا کر ھین “ اگرچہ ہم تمہارے عقائد کو ناپسند کرتے ہوں۔ یعنی اگر ہم تمہارا دین قبول نہ کرنا چاہیں تو کیا تم زبردستی ہمیں منوا لو گے ؟ مکہ کے مشرکین بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کا باطل دین قبول کرلیا جائے۔ مگر اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کو زبردستی دین میں داخل کیا جائے۔ تبلیغ دین کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دینے کے باوجود اگر کوئی قبول نہیں کرتا تو پھر اسلام کا فیصلہ یہ ہے (آیت) ” لکم دینکم ولی دین “ (الکفرون) تم اپنے دین پر چلو ، ہم اپنے دین پر چلتے ہیں۔ کوئی فریق دوسرے پر اپنا دین ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ پیچھے اسی سورة میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اگر منکرین دین حق کو کسی طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر بالآخر یہی فیصلہ ہوگا (آیت) ” فانتطروا انی معکم من المنتظرین “ تم بھی اللہ کے حکم کا انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا جسے بہرصورت ماننا پڑے گا۔ جبر فساد کی جڑ ہے مشرکین اور دیگر باطل پرستوں نے ہمیشہ حق پرستوں پر جبر کیا ہے اور دنیا میں فساد کی جڑ یہی چیز ہے جب بھی اغیار نے اپنا عقیدہ اہل ایمان پر ٹھونسے کی کوشش کی تو فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوا اور پھر اس فتنے کو مٹانے کے لیے اللہ نے جہاد کا حکم دیا (آیت) ” وقتلوھم حتی لا تکون فتنۃ “ (البقرہ) ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے مشرکین شرک کے پروگرام کو غالب کرنا چاہتے ہیں اور عیسائیت کا پروگرام ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اندلس اور سپین میں کیا کیا ؟ لاکھوں مسلمانوں کو یا تو قتل کردیا یا زبردستی عیسائی بنا لیا۔ یونانی عیسائیوں نے قبرصی ترکوں کے ساتھ یہی سلوک کیا اشتراکیت والے اپنا اعتقاد منوانا چاہتے ہیں۔ یہ سب لوگ متشدد ہیں اور اپنی بات زبردستی منوانا چاہتے ہیں اور یہی چیز فساد کا سبب بنتی ہے۔ اس کے برخلاف اسلام کسی غیر مذہب والے پر زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی بخوشی اسلام قبول کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اپنے دین پر قائم رہ سکتا ہے ۔ مسلمانوں میں فرقہ بندی اگرچہ دین متین جبر کی اجازت نہیں دیتا مگر مسلمانوں کی باہمی فرقہ بندی کی وجہ سے یہ چیز ان میں بھی عود کر آئی ہے۔ اسلام تو کسی غیر مسلم کو بھی زبردستی مسلمان نہیں بناتا مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ اپنے عقائد دوسرے پر ٹھونسنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ ہر فرقے کے پیروکار چاہتے ہیں کہ انہی کے عقیدہ کو غلبہ حاصل ہو اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے گالی گلوچ اور قتل و غارت گری سے بھی دریغ نہیں کرتے دین کا اصول تو واضح ہے کہ اپنی بات دوسرے تک پہنچا دو ، پھر اگر وہ نہیں مانتاتو تم اس پر دراوغہ بننے کی کوشش نہ کرو۔ ایک دوسرے کو زبردستی منانے کی وجہ سے ہی ساری خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر جبر کا نظریہ نہ ہوتا تو فرقہ بندی اتنے عروج تک نہ پہنچتی۔ اختلاف ہو سکتا ہے گمرا سے فتنہ و فساد کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جبر اور تعزیر میں فرق ہے کسی شخص کو جبرا دین میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جب کوئی شخص دین میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر اسے دین کے قوانین کی پابندی کرنا ہوگی اگر کوئی شخص قانون شکنی کرے گا تو پھر اس پر تعزیر بھی لگے گی۔ اگر قتل کرے گا تو اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا ، اگر چوری کرے گا تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ زنا کا ارتکاب کرے گا تو سنگسار ہوگا ، کسی کا حق دبائے گا تو اس کا تاوان دینا ہوگا۔ یہ بات الگ ہے۔ ان قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ اس کو جبر نہیں کہ سکتے۔ اتباع وحی فرمایا آپ کہہ دیں کہ میں تم پر مختار نہیں ہوں کہ تم سے کوئی بات جبرا منوا لوں بلکہ میرا کام تو راستہ واضح کرنا ہے ، آگے تمہارا جی چاہے تو مان لو یا انکار کردو۔ دین حق ، توحید ، رسالت اور معاد کے متعلق یہ تمام باتیں وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہوئیں لہٰذا اب آخر میں وحی الٰہی کے اتباع کا حکم دیاجا رہا ہے (آیت) ” واتبع ما یوحی الیک “ اے پیغمبر ! آپ پیروی کریں اس چیز کی جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے۔ کسی رسم ، رواج یا کسی دوسرے قانون ودستور کے اتباع کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وحی الٰہی کا اتباع کریں ، اور وحی الٰہی سے مراد قرآن پاک ہے کہ دین کی اساس قرآن ہی ہے اور حدیث اس کی شرح ہے ، یہی بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے بھی فرمائی ہے۔ (آیت) ” اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم “ تم سب اسی چیز کا اتباع کرو جو اللہ کی جانب سے وحی الٰہی کے ذریعے نازل کی گئی ہے۔ اعتقاد کی پاکیزگی ، صحیح فکر ، صحیح عمل اور صحیح اخلاق وحی الٰہی کے اتباع سے ہی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہی چیز حق ہے جس کے متعلق ابتداء میں فرمایا کہ تحقیق تمہارے پاس حق آگیا ہے ۔ صبر کی تلقین فرمایا تبلیغ حق کے سلسلہ میں آپ کو تکلیف پہنچے گی ، مخالفین آپ کو طرح طرح کی اذیت دیں گے مگر آپ کے لیے حکم یہ ہے (آیت) ” واصبر “ آپ صبر کریں ، راہ حق میں صبر کا دامن تھامے رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت صابروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ آخری دور اس قدر فتنوں کا دور ہوگا کہ دین پر چلنا اتنا مشکل ہوجائے گا جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کو ہاتھ میں پکڑنا۔ اب کوئی آدمی دین پر چلنا چاہے تو چل نہیں سکتا۔ کبھی بھائی بہن کی طرف سے مخالفت ہوتی ہے ، کبھی برادری والے باطل رسومات پر چلنے کے لیے مجبور کرتے ہی۔ شرک و بدعت کا چرچا ہے سنت پر چلنا سخت مشکل ہو رہا ہے ایسے دور میں جو شخص صبر سے کام لے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ (آیت) ” انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب “ (الزمر) صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلا حساب اجر عطا فرمائیگا۔ صبر بہت بڑی حقیقت ہے۔ آپنے آپ کو حق پر قائم رکھنا ، مشکل کو برداشت کرنا ، برائی سے رک جانا ، اطاعت پر جمے رہنا سب صبر کی جزئیات ہیں۔ فرمایا آپ صبر کریں (آیت) ” حتی یحکم اللہ “ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے۔ یہاں اشارۃ قیامت کا ذکر بھی ہوگیا۔ دنیا میں بھی اللہ ہی نے کامیابی عطا کرتی ہے اور آخرت میں بھی اسی نے قطعی فیصلہ کرنا ہے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے فیصلے تک آپ صبر کریں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ اس کا فیصلہ بہترین فیصلہ ہوگا کیونکہ (آیت) ” وھو خیر الحکمین “ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اس کا فیصلہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہوگا آپ وحی الٰہی کا اتباع کریں اور اس سلسلے می آنے والی تکالیف پر صبر کریں اور خدا تعالیٰ کی فیصلے کے منتظر رہیں کیونکہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔
Top