Mualim-ul-Irfan - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر اللہ تعالیٰ جلدی کرے لوگوں کے برائی کو جیسا کہ وہ جلدی طلب کرتے ہیں خیر کو ، تو البتہ فیصلہ کردیا جائے ان کی طرف ان کی عمروں کا۔ پس ہم چھوڑتے ہیں ان کو جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی وہ اپنی سرکشیوں کے ۔۔ ہی سرگردان ہو رہے ہیں
ربط آیات۔ قرآن کریم کی حقانیت اور پھر رسالت کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے توحید کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے۔ اس کے بعد قیامت کا مسئلہ بھی بیان فرمایا اور ایمان والوں کی اس کامیابی کا ذکر کیا جو انہیں اللہ کے ہاں حاصل ہونے والی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کا ذکر کای جو اسی دنیا پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں اور اسی کو اپنا منتہائے مقصود سمجھ رہے ہیں۔ اللہ نے ان کی ناکامی اور ان کو ملنے والی سزا کا ذکر بھی کیا۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کا شکوہ بیان کیا ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں ، مگر جب اللہ اس تکلیف کو دور فرما دیتا ہے تو اللہ کا شکریہ تک ادا نہیں کرتے بلکہ اس طرح گزر جاتے ہیں۔ جیسے انہوں نے کسی تکلیف کے ازالے کے لیے کوئی دعا کی ہی نہ ہو۔ جلد بازی کا نتیجہ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولو یعجل اللہ للناس الشرا ستعجالھم بالخیر “ اور اگر اللہ تعالیٰ جلدی کرے لوگوں کے لیے برائی کو جیسا کہ وہ خیر کو جلدی طلب کرتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مطلوبہ چیز انہیں جلدی سے مہیا ہوجائے اللہ تعالیٰ اکثر جلدی بھی عطا کردیتا ہے۔ پھر بعض اوقات انسان حالات سے بددل ہو کر برائی کے لیے بھی ہاتھ اٹھا دیتے ہیں اور اس کے لیے بھی وہ جلدی کرتے ہیں ، تو ایسے معاملات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس طرح انہیں اچھی چیز جلدی مل جاتی ہے اسی طرح اگر بری چیز بھی فورا دے دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو (آیت) ” لقضی الیھم اجلھم “ تو ان کی عمروں کا فورا ہی خاتمہ ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائیں۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناشکری ، کفران نعمت اور جلد بازی کا ذکر فرمایا ہے اپنے حق میں بدعا کرنے کے ذکر سورة انفال میں بھی ہوچکا ہے اللہ کا فرمان ہے کہ کفار ومشرکین پیغمبر اور قرآن پاک کی مخالفت میں اس حد تک دور نکل جاتے تھے کہ وہ ان الفاظ کے ساتھ اپنے حق میں بددعا کرتے تھے (آیت) ” واذقالوا اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوائتنا بعذاب الیم “ کہتے تھے کہ ائے اللہ ! اگر یہ پیغمبر اور قرآن حکیم برحق ہیں تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دے۔ سورة بنی اسرائیل میں یہ بھی موجود ہے (آیت) ” اوتسقط السماء کما زعمت علینا کسفا “ ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے کیونکہ محمد ﷺ اور اس کے لائے ہوئے دین کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نبی (علیہ السلام) سے کہتے کہ اگر آپ دعوی نبوت و رسالت میں سچے ہیں ، اگر واقعہ قیامت آنیوالی ہے تو پھر ہمارے سروں پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے تا کہ تیری صداقت واضح ہوجائے اس آیت کریمہ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا کہ انسان بھلائی کا تو ہر وقت طلب گار رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو۔ ہر طرح کا آرام و راحت حاصل ہو مگر جب تنگ دل ہو کر کسی وقت سزا کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جلد بازی نہیں کرتا ، وگرنہ وہ ہلاک ہوجائے۔ دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہوں کے سبب ان کو فورا پکڑ لے تو زمین پر چلتا پھرتا کوئی انسان اور جانور نظر نہ آئے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی اور لطف وکرم ہے کہ وہ فورا گرفت نہیںٰ کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر انسانوں کی طرح وہ بھی جلد بازی کرے تو سب کو ہلاک کر دے۔ بددعا کی ممانعت : حدیث شریف میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تنگ دل ہو کر اپنے خلاف ، اپنی اولاد کے خلاف اور اپنے اموال کے خلاف بددعا نہ کیا کرو ، کہیں یہ بددعا اس گھڑی کے موافق نہ ہوجائے جس میں دعا قبول ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے بھی ہیں کہ انسان دعا کرتا ہے تو ضرور قبول ہوجاتی ہے اسی لیے فرمایا ” لا تدعوا علی انفسکم ولا علی اولادکم ولا اموالکم لا یوافق ساعۃ فیستجاب (مسلم شریف) بہرحال حضور ﷺ نے بددعا کرنے سے منع فرمایا ہے ، کیونکہ اگر ایسی دعا قبول ہوگئی تو نقصان ہوجائے گا۔ قانون امہال و تدریج۔ آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فنذر الذین لا یرجون لقآء نا “ ہم چھوڑتے ہیں اور مہلت دیتے ہیں ان لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ ملاقات سے مراد مرنے کے بعد زندہ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور پیشی ہے۔ فرمایا جو لوگ قیامت کے عمل کے منکر ہیں ہم ان کو چھوڑتے ہیں اس حال میں (آیت) ” فی طغیانھم یعمھون “ کہ وہ اپنی سرکشیوں میں ہی سرگردان ہو رہے ہیں۔ یہ مہلت دینے کی بات ہو رہی ہے جسے قانون امہال و تدریج سے تعبیر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اکثر مہلت دیتا ہے کیونکہ وہ حلیم اور غفور ہے۔ یہ اس کی مہربانی اور لطف کا نتیجہ ہے کہ اس دنیا میں مجرم بھی پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور پھر خدا ت تعالیٰ خاص وقت پر انکی گرفت کرتا ہے کیونکہ (آیت) ” ان بطش ربک لشدید “ (البروج) فرمایا تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ مولانا روم بھی تو کہتے ہیں ؎ تو مشو مغرور بر حلم خدا دیر گیرد سخت گیرد مرترا اللہ تعالیٰ کی بردباری پر تمہیں مغرور نہیں ہونا چاہیے۔ وہ دیر سے پکڑتا ہے مگر سختی سے پکڑتا ہے۔ اللہ کے اس قانون امہال و تدریج کو قرآن پاک میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی لی فرمایا کہ نافرمانوں کی مہلت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ انہیں اللہ کا محبوب سمجھنا چاہیے بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص نافرمانی میں بڑھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ اسے انعام واکرام سے نواز رہا ہے تو ہرگز دھوکا نہ کھانا کیونکہ یہ تو استدراج ہے۔ کسی نہ کسی وقت یہ آدمی ضرور پکڑا جائے گا۔ اگر اس زندگی میں اس کی گرفت نہ بھی ہوئی تو مرنے کے بعد فورا گرفت ہوجائے گی۔ بہرحال نافرمانوں کے لیے مہلت اللہ تعالیٰ کی بردباری اور تحمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شرک پر اصرار۔ فرمایا دیکھو ! انسان کا حال یہ ہے (آیت) ” واذا مس الانسان الضر “ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے (آیت) ” دعانا لجنبہ او قاعدا او قآئما “ تو پھر وہ ہمارے سامنے دعا کرنا ہے خواہ گروٹ کے بل ( لیٹا ہوا) ہو یا بیٹھا ہوا یا کھڑا ہو ، یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور ظاہری اسباب ناکام ہوجاتے ہیں تو پھرا نسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ انسان اس پر قائم رہے اور مصیبت میں اللہ ہی کو پکارے ، اس کو نافع اور رضا سمجھ کر مشکل کشائی کی درخواست کرے۔ مگر افسوس کہ انسان کی یہ حالت قائم نہیں رہتی (آیت) ” فلما کشفنا عنہ ضرہ “ جب ہم اس کی تکلیف کو رفع کردیتے ہیں (آیت) ” مرکان لم یدعنا الی ضر مسہ “ تو وہ ایسے گزر جاتا ہے کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے وقت پکارا ہی نہیں۔ تکلفی کے دور ہوجانے پر وہ اس طرح بھول جاتا ہے کہ نہ اسے کبھی تکلفی آئی اور نہ اس نے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ یہ انسان کی خود غرضی اور لاپرواہی کی انتہا ہے۔ سورة نحل میں اس طرح آتا ہے۔ (آیت) ” ثم اذا کشف عنکم اذا فریق منکم بربھم یشرکون “ پھر جب تم سے تکلیف دور ہوجاتی ہے تو تم میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے جب مشکل پیش آتی ہے تو خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ مہربانی فرما کر تکلیف کو رفع کردیتا ہے تو اس کا اعزاز غیر اللہ کو دیتے ہیں اور ان کے نام کی نذر ونیاز دینے لگتے ہیں اور پھر وہی کفریہ اور شرکیہ رسوم شروع کردیتے ہیں۔ آپ کے سامنے مثالیں موجود ہیں۔ تکلیف رفع ہوئی تو فورا دیگ پکا کر داتا صاحب کا ادا کیا جا رہا ہے۔ سورة عنکبوت میں موجود ہے کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو بحفاظت پار اترنے کے لیے خالص اللہ کو پکارتے ہیں (آیت) ” فلما نجٰھم الی البر اذا ھم یشرکون “ پھر جب خشکی پر پہنچ جاتے ہیں تو اللہ کے شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔ کبھی خواجہ اجمیری (رح) کے نام کی نذر ہوتی ہے اور کبھی پیران پیر کو نیاز پیش کی جاتی ہے۔ یہ شرک پر اصرار نہیں تو اور کیا ہے اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ تا ہم بعض کا مل الایمان لوگ بھی ہیں جو ہر خیر وشر کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ تکلیف میں اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں اور راحت میں اسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” عجبالامر المومن “ مومن کی حالت عجیب ہے کہ ” امر المومن کلہ خیر “ مومن کے لیے ہر حالت ہی بہتر ہوتی ہے (آیت) ” اذا اصابتہ ضرا “ ” فصبر “ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے (آیت) ” واذا اصابتہ سرافکان خیرا لہ “ اور جب اسے کوئی راحت اصل ہوتی ہے تو یہ اس کیلیے بہتر ہوتی ہے وہ دونوں حالتوں میں اپنا توازن قائم رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو کسی وقت بھی نہیں بھولتا۔ مسرفین سے شکوہ۔ فرمایا (آیت) ” کذلک زین للمسرفین ما کانوا یعملون “ اسی طرح مزین کیا گیا ہے مسرفوں کے لیے جو کچھ وہ کام کرتے ہیں۔ کفر ، شرک ، اور بدعت کا ارتکاب کرنے والوں کو شیطان ان کے کام مزین کر کے دکھاتا ہے۔ یہ لوگ حد سے بڑھے ہوئے ہیں جو ایمان کو چھوڑ کر کفر اختیار کر رہے ہیں۔ شکر کی بجائے ناشکری کو اپنا رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کو بالکل فراموش کرچکے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے برے اعمال کو ہی خوشنما سمجھ کر ان پر عمل کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے یہ شکوہ کیا ہے۔ سابقہ اقوام کی ہلاکت۔ فرمایا (آیت) ” ولقد اھلکنا القرون من قبلکم “ اسی طرح ہم نے تم سے پہلی قوموں کو ہلاک کیا (آیت) ” لما ظلموا “ جس وقت انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ قرون قرن کی جمع ہے جس کا معنی طبقہ ، سنگت ، قوم یا جماعت ہے ۔ تو مطلب یہ ہے کہ ہم نے بہت سی پہلی قوموں فرقوں یا پارٹیوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کیا۔ یادرکھو ! اگر تم بھی ظلم کا ارتکاب کرو گے تو خدا کا قانون وہی ہے ، وہ تمہیں بھی ہلاک کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے مہلت دے دے۔ مگر ظلم کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی نکلے گا۔ کفر ، شرک ، بدعت اور معاصی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلے گا ، فرمایا جنہوں نے ظلم کیا ، ان کو ہم نے ہلاک کیا (آیت) ” وجاء تھم رسلھم بالبینت “ ان کے پاس ہمارے رسول کی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ ان کو واضح ہدایات اور معجزات پیش کیے۔ انبیاء کرام نے اپنی تقاریر ومواعظ میں بڑے واضح دلائل کے ساتھ خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت دی (آیت) ” وما کانوا لیومنوا “ مگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ انہوں نے خدا کے انبیائ ، کتب ، ملائکہ اور معاد کا انکار ہی کی۔ اپنی زبانوں سے کہتے تھے کہ جائو۔ ہم نہیں مانتے ، جو قیامت یا عذاب ہم پر لانا ہے لے آئو۔ فرمایا (آیت) ” کذلک نجزی القوم المجرمین “ ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ جو لوگ برائی پر ڈٹ جاتے ہیں ، ظلم کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں ، شقاوت میں پختہ ہوجاتے ہیں اور سعادت سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کو سزا بھی ایسی ہی ملتی ہے اچھائی کی توفیق سلب ہوجانا بذات کود بہت بڑی سزا ہے۔ اور پھر آگے چل کر خدا کے ہاں سخت ترین عذاب ہے جو مجرمین کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ موجودہ قوم کی آزمائش۔ سابقہ اقوام کا حال اللہ نے بیان فرمایا کہ نافرمانی کی بناء پر بعض لوگ ہلاک ہوئے اور بعض طبعی موت مرکر ختم ہوگئے اور اب ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا۔ فرمایا اے موجودہ وقت کے لوگو ! (آیت) ” ثم جعلنٰکم خلئف فی الارض من بعدھم “ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں نائب بنایا۔ اب تمہیں اللہ نے موقع دیا ہے۔ آج سے سو سال پہلے جو لوگ تھے ، وہ تو ختم ہوگئے۔ اب تم ان کے جانشین ہو ، ان کی جگہ تمہٰں لا کر اللہ تعالیٰ اب تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ حکومتوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پہلے حکمران ختم ہوگئے۔ ان کی جگہ حکومت کی باگ ڈور نئے لوگوں نے سنبھالی ، اب یہ ان کا امتحان ہے۔ اللہ نے فرمایا ، ہم نے زمین کی خلافت اب تمہیں دی ہے (آیت) ” لننظر کیف تعملون “ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ کیا تم بھی پہلے لوگوں کا راستہ اختیار کر کے ہلاکت کی طرف جاتے ہو یا نیک اعمال کر کے خلافت کا صحیح حق ادا کرتے ہو (آیت) ” لننظر “ کا معنی ہے تا کہ ہم دیکھیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے دیکھ رہا ہے اور ابد تک ہر چیز اس کی نگاہ میں رہے گی۔ اس لیے یہاں پر دیکھنے کا معنی ظاہر کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ پہلے لوگوں نے ایسے کام کیے اور اب تم نے یہ کچھ کیا ہے۔ دنیا اور عورت کا فتنہ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” اتقوا الدنیا واتقوا النسائ “ اے لوگو ! دنیا سے بچتے رہو اور عورتوں کے معاملات سے بچتے رہو۔ کیونکہ (آیت) ” ان اول فتنۃ فی بنی اسرائیل فی النسائ “ کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے فتنہ عورتوں ہی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ عورتوں کے حقوق ادا کرو ، ان کو فحاشی کے راستے پر مت ڈالو ، یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ آج عورتوں کو ممبر بنایا جا رہا ہے۔ وزارتیں پیش کی جاتی ہیں۔ آج کی عورتیں کھیل تماشے کے تھیڑوں کی زینت بن رہی ہیں مگر کسی کو کچھ پروا نہیں۔ ادھر جب قرآن وسنت کی بات آتی ہے قانونِ شہادت کا اسلامی قانون نافذ ہوتا ہے تو عورتیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں بھی مردوں کے برابر گواہی کا حق ملنا چاہیے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ شہادت کے معاملہ میں دو عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں اور یہ بھی دیوانی مقدمات میں ہے ورنہ عائلہ معاملات اور فوجداری مقدمات میں عورت کی شہادت بالکل قابل قبول نہیں۔ اللہ نے مرد کے مقابلے میں عورت کی آدھی شہادت کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ فطرتا نسیان والی ہیں ، اس لیے دو عورتوں کی شہادت بدیں وجہ ضروری ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ مگر عورتوں کو اللہ کا حکم پسند نہیں ، وہ احکام خداوندی کے خلاف احتجاج کرکے خدا کے غضب کو دعوت دے رہی ہیں۔ عورتوں کو اس مقام تک پہنچانے میں مردوں ہی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے عورتوں کو اس راستے پر ڈالا۔ وہی انہیں دنیا کی نصف آبادی اور ایک گاڑی کے دو مساوی پہلے بتاتے ہیں اور پھر خود ہی ان کے نام نہاد حقوق کے پاسبان بن جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے بھائی ! جو حقوق اللہ اور اس کے رسول نے عورت کو نہیں دیے وہ تم دلا دو اور پھر اس کا نتیجہ بھی تمہارے سامنے ہے کہ ہر طرف بےحیائی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ دنیا اور عورتوں کے فتنے سے بچتے رہو۔ تمہارے سامنے انگریزوں اور یورپین اقوام کی مثالیں موجود ہیں۔ کیا وہ عورت کو حد درجہ آزادی دے کر کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں ؟ اس میں بیشمار قباحتیں ہیں۔ ہمارے ہاں تو پھر بھی کسی حد تک سکون ہے ، یہاں پر اللہ اور اس کے دین کے نام لیوا موجود ہیں جو عورت کی بےراہ روی اور نام نہاد آزادی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں مگر امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اطمینان اور سکون قلب نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہ محلات میں رہتے ہوں یا بڑے بڑے ہوٹلوں کی زینت ہوں ، جدید تمدن نے انہیں بہت صلیل کیا ہے۔ ان کے اپنے فلاسفر اپنی تہذیب پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ وہاں نیکی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ، بدکاری کی وجہ سے نسلیں خراب ہوچکی ہیں اور بداخلاقی حد کو پہنچ چکی ہے۔ حکومت بطور امانت۔ بہرحال جس جماعت کو یا قوم کو حکومت مل جائے ، وہ اس کے پاس بطور امانت ہوتی ہے ۔ حکومتی معاملات میں من مانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ کے دین کو نافذ کرنا چاہیے۔ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگوں کے حقوق کس حد تک ادا کرتے ہو اور حکومت کی ذمہ داری کیسے نبھاتے ہو ؟ فرمایا تم دنیا کے نظام حکومت میں ممبر بن جائو ، وزیر یا صدر بن جائو (آیت) ” ثم تکون حسرۃ یوم القیمۃ “ پھر یہ چیزیں قیامت کو تمہارے لیے حسرت کا باعث ہوں گی۔ تم افسوس کرو گے کہ یہ ذمہ داری نہ اٹھائی ہوتی۔ ہماری زندگی ہمارے پاس امانت ہے پہلوں نے اس امانت کا حق دار نہیں کیا تو وہ ہلاک ہوئے۔ اب تم ان کے جانشین ہو۔ تمہارے اعمال کی بھی آزمائش ہوگی اور پھر تم پر واضح کردیا جائے گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے۔
Top