Mualim-ul-Irfan - Yunus : 15
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ١ؕ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر (ان کے سامنے) اٰيَاتُنَا : ہماری آیات بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنے کی ائْتِ : تم لے آؤ بِقُرْاٰنٍ : کوئی قرآن غَيْرِ ھٰذَآ : اس کے علاوہ اَوْ : یا بَدِّلْهُ : بدل دو اسے قُلْ : آپ کہہ دیں مَا يَكُوْنُ : نہیں ہے لِيْٓ : میرے لیے اَنْ : کہ اُبَدِّلَهٗ : اسے بدلوں مِنْ : سے تِلْقَآئِ : جانب نَفْسِيْ : اپنی اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا مَا : مگر جو يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اِنِّىْ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اِنْ : اگر عَصَيْتُ : میں نے نافرمانی کی رَبِّيْ : اپنا رب عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ : دن عَظِيْمٍ : بڑا
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری آئیتیں واضح تو کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی کہ لے آ ہمارے پاس قرآن کے علاوہ یا اس کو تبدیل کر دے۔ اے پیغمبر ! آپ کہ دیں کہ نہیں ہے میرا کام کہ میں اس کو تبدیل کروں اپنی طرف سے۔ نہیں پیروں کرتا میں مگر اس چیز کی جو وحی کی جاتی ہے میری طرف۔ میں خوف کھاتا ہوں بڑن دن کے عذاب سے اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی
ربط آیات۔ سورۃ یونس مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی اس کا مرکزی مضمون قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت ہے۔ سورة کی ابتدائی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت کا ذکر فرما دیا تھا۔ اس کے بعد دو مسئلے بیان ہوئے۔ ایک توحید کے عقلی دلائل کا اور دوسرا قیامت اور جزائے عمل کا اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت بیان کی ہے اور اس کے ساتھ رسالت کی صداقت کو بھی عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے۔ آیات بینات۔ چنانچہ قریش مکہ کے ساتھ مکالمے کا ذکر ہور ہا ہے (آیت) ” واذا تتلی علیھم ایتنا بینت “ جب ان پر ہماری واضح واضح آئیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ یہ اس کتاب کی آیات کا ذکر ہے جس میں تمام بنیادی عقائد موجود ہیں اور جو اس زندگی سے متعلق تمام احکام ، مسائل اور دلائل پر مشتمل ہے۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی مسائل ہی کا ذکر ہے جن میں توحید کے دلائل ، کتاب الٰہی پر ایمان ، نزول وحی اور اس پر ایمان ملائکہ ، اور تقدیر پر ایمان ، اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان اور حیات بعد الممات کی تفصیلات آتی ہیں۔ تو فرمایا کہ جب ہماری واضھ آئیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جن میں قرآن پاک کی حقانیت اور توحید باری تعالیٰ کی ہزاروں لاکھوں نشانیاں موجود ہیں۔ ان کے گردوپیش میں بیشمار دلائل بکھرے پڑے ہیں۔ قرآن پاک اور اللہ کا پیغمبر ان کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اگر ذرا بھی ان دلائل پر غور کرلو تو معاملہ صاف ہوجائے گا اور تمہیں اللہ کی ذات وصفات پر ایمان لانے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہیگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جتنے بھی انبیاء اس دنیا میں مبعوث فرمائے ہیں سب نے اپنی اپنی اقوام کے سامنے ہمیشہ واضح بات ہی کی ہے۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا ، لوگو ! میری بات کو اچھی طرح سمجھ لو (آیت) ” ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ “ (یونس) اس بارے میں تمہیں کوئی اشتباہ نہیں رہنا چاہیے۔ میں بالکل صاف بات کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننا ضروری ہے اور شرک نہایت ہی قبیح چیز ہے جس سے بچنا لازمی ہے۔ قرآں کریم نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ وضاحت کی ہے۔ مسئلہ رسالت کو بھی بالوضاحت بیان کیا ہے اور پھر معاد کے ضمن میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ہے قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ معاد سے انکار۔ فرمایا جب ان کے سامنے واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔ (آیت) ” قال الذین لا یرجون لقاء نا “ تو جن لوگوں کو ہماری ملاقات کا یقین نہیں ہے یعنی وہ وقوع قیامت پر ایمان نہیں رکھتے۔ حیات بعد الممات کے قائل نہیں ہیں ، ان کا جواب یہ ہوتا ہے جو آگے آرہا ہے قیامت پر ایمان لانا بنیادی اجزائے ایمان میں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نے ایمان کے کسی ایک جزو کا بھی انکار کیا اس نے مکمل طور پر کفر کیا۔ جب لوگ دنیا میں قبیح اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں اور انہٰں ان کے برے انجام سے ڈرایا جاتا ہے تو وہ بجائے اس کے اپنی اصلاح کرلیں۔ وہ وقوع قیامت ، حساب کتاب اور جزا سزا کا ہی انکار کردیتے ہیں۔ اور ڈرانے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ سب تمہارے خود ساختہ افاسنے ہیں ، کوئی قیامت نہیں آئے گی ، نہ کوئی دوبارہ زندہ ہوگا اور نہ کسی کا حساب کتاب ہوگا۔ اس بات کو قرآن پاک میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ کہیں فرمایا کہ جب ہم فنا ہوجائیں گے ، ہماری ہڈیاں بکھر جائیں گی ، ہمارے جسم کے ذرات منتشر ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں اکٹھا کرے گا ؟ کہتے تھے کہ آج تک تو کسی کو مر کر زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ بہرحال یہاں ملاقات سے ناامید ہونے سے مراد قیامت کا انکار لیا گیا ہے۔ رجا کا معنی ایک تو امید ہے اور دوسرا خوف بھی ہے۔ جیسے سورة نوح میں ہے (آیت) ” مالکم لا ترجون للہ وقار “ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور وقار سے خوف ہی نہیں کھاتے۔ تو اس مقام پر خوف کا معنی بھی لیا جاسکتا ہے اور پورے جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ جو اللہ کی ملاقات سے خوف نہیں کھاتے وہ اس طرح کہتے ہیں۔ ان کا بیان آیت کے اگلے حصے میں آرہا ہے تا ہم مفسرین کرام یہاں پر زیادہ تر رجا کو امید کے مضمون میں ہی لیتے ہیں کہ ان لوگوں کو اللہ کے حضور پیش ہو کر جوابدہی کی امید ہی نہیں کہ کوئی ایسا وقت بھی آنے والا ہے۔ قرآن میں ترمیم کی خواہش۔ فرمایا جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں ” ائت بقران غیر ھذا “ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پاک لے آئو ” او یدلہ “ یا اگر مکمل طور پر کوئی دوسرا قرآں نہیں لاسکتے تو اسی کو تھوڑا بہت تبدیل کر دو ۔ مشرکین مکہ کا مقصد یہ تھا کہ اس قرآن کریم کی بعض باتیں تو ہم مان لیتے ہیں اور بعض کو تسلیم نہیں کرتے۔ لہٰذا اس میں جو چیزیں ہماری مرضی کے خلاف ہیں یا تو ان کو تبدیل کر دو یا سرے سے ہماری مرضی کا قرآن لے آئو تو ہم تسلیم کرلیں گے۔ باقی رہی یہ بات کہ ان لوگوں کو قرآن حکیم کی کونسی باتوں پر اعتراض تھا جو وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اخلاقیات کو تو وہ مانتے تھے کہ یہ بہت اچھی باتیں ہیں۔ قرآن پاک میں پندونصائح ہیں مگر جب ان کے عقیدے پر زد آتی تھی تو وہ انکار کردیتے تھے کیونکہ وہ اپنے جاہلانہ اور مشرکانہ عقائد کو چھوڑنے کے لیے قطعی تیار نہ تھے۔ سورة انبیاء میں حضرت ابراہیم کے بت شکنی کے واقعہ میں آتا ہے کہ جب آپ نے کفار کو ہر طرح لاجواب کردیا اور بتوں کی مذمت سے باز رہنے کی حامی نہ بھری تو کہنے لگے (آیت) ” حرقوہ وانصروا الھتکم “ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دو اور اس طرح اپنے معبودوں کی مدد کرو ، ورنہ دلائل کے اعتبار سے یہ نوجوان ہمارے بتوں کی پوجا چھڑا دیگا۔ بھلا ہم ان بتوں کی کیسے چھوڑیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں مشرکین مکہ بھی یہی بات کہتے تھے کہ ہمارے بتوں کی مذمت نہ کرو ، پھر ہم تمہاری بات ، سننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ آئو ہمارے ساتھ سمجھوتہ کرلو۔ کچھ تمہاری باتیں ہم مان لیتے ہیں اور کچھ ہماری باتیں تم مان لو۔ سورة قلم میں اس بات کی طرف اشارہ ہے (آیت) ” ودوالو تدھن فیدھنون “ یعنی مشرکین چاہتے تھے کہ آپ تھوڑا سا نرم ہوجائیں۔ ہمارے معبودوں کے معاملہ میں سختی نہ کریں تو ہم بھی آپہ کی بعض باتیں تسلیم کرلیں گے۔ بہرحال ان کا مطالبہ یہ تھا کہ یا تو سرے سے پورا قرآن بدل دو اسی میں بعض ترامیم کر کے ہماری منشاء کے مطابق کردو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے (آیت) ” ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء ی نفسی “ اس قرؤن پاک کو بدلنا میرا کام نہیں ہے یعنی اس میں تغیر وتبدل کا مجھے ہرگز اختیار نہیں بلکہ مخلوق میں سے کوئی بھی ذات ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو تبدیل کرسکے۔ ایسا کرنا تو خدا تعالیٰ کے ساتھ بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے کسی حکم کو تبدیل کرنا یا اسے منسوخ کردینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ سورة بقرہ میں اس کا قانون موجود ہے (آیت) ” ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا اومثلھا “ جو ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ہم اس سے بہتر یا اس جیسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں مقصد یہ کہ کسی آیت میں تغیر وتبدل یا منسوخ کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ سورة کہف میں ہے (آیت) ” لا مبدل لکمٰتہ “ اللہ تعالیٰ کے کلام کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کفر کی بات ہے۔ اللہ نے اپنے نبی کو فرمایا ہے کہ آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ مجھے کسی آیت کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے (آیت) ” ان اتبع الا ما یوحی الی “ میں تو صرف اسی بات کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے دوسرے مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہی حکم دیا ہے (آیت) ” اتبع ما اوحی الیک من ربک “ (الانعام) کتاب میں جو بھی وحی آئے آپ اس کی اتباع کرتے رہیں۔ ہر آمدہ حکم کی تعمیل کریں اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیں۔ ہم قرآن پاک میں جگہ جگہ پڑھتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کی اور اس کے مختلف احکام کو از خود تبدیل کر کے اپنی مرضی کے مطابق بنا لیا۔ مثال کے طور پر سورة بقرہ میں ہی آتا ہے۔ (آیت) ” فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم “ جو بات ان کو کہی گئی تھی ، ظالموں نے اس کو تبدیل کردیا۔ پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا (آیت) ” فانزلنا علی الذین ظلموا رجزا من السماء بما کانوا یفسقون “ ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم نے ان پر آسمان سے عذاب نازل فرمایا ، غرضیکہ بنی اسرائیل نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی تو وہ لعنتی اور مغضوب علیہ ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو بعض اوقات اس دنیا میں مہلت بھی دے دیتا ہے مگر آخرت میں تو ایسے بدبخت کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ مہلت کا یہ قانون گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے۔ فرمایا میں تو صرف وحی الٰہی کا اتباع کرتا ہوں اور اس میں تغیر وتبدل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ (آیت) ” انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم “ اگر میں اپنے رب تعالیٰ کی نافرمانی کروں گا۔ تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ، لہٰذا میں تو وہی قرآن پیش کرونگا جو بذریعہ وحی مجھ پر نازل ہوا ہے اور جس کی اشاعت کا مجھے حکم دیا گیا ہے مجھے تو اس کتاب میں پیش کردہ نظام کو قائم کرنے کا حکم ملا ہے حضور ﷺ نے دعا میں سکھایا ہے (1۔ ابودائود ، ص 353 ، ج 1) ” اللھم منزل الکتب “ یعنی اے کتاب کو نازل کرنے والے مولا کریم ! ہم تو اسی کتاب میں نازل ہونے والے پروگرام کو دنیا میں رائج کرنے کے پابند ہیں اور اسی کی خاطر تیرے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی دنیاوی یا ذاتی مقصد نہیں ہے۔ لہٰذا ہم دنیا میں تیرا ہی کلمہ بلند کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے مجھے قرآن پاک کی کسی آیت میں تغیر وتبدل کی مجال نہیں ہے۔ قرآنی قانون کا نفاذ۔ اب آپ قرآن پاک کی اس واضح آیت کو مدنظر رکھ کر ذرا موجودہ حکومتوں کے نظام کا جائزہ لیں کہ دنیا میں آج جتنے بھی حکمران موجود ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی کسی حد تک پابندی کر رہے ہیں۔ غیر مسلم اقوام تو خارج از بحث ہیں۔ ہم دنیا کی پچاس کے قریب مسلمان ریاستوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں تو اس معاملہ میں سخت مایوسی ہوتی ہے کہ کسی ایک ریاست میں بھی من وعن قرآن پاک کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ قرآنی پروگرام کے نفاذ کا خیال تو اسے آسکتا ہے جو قرآن پاک کی تلاوت کرلے گا۔ اور پھر اس کو سمجھنے کو کوشش کرے گا اور جس نے قرآن کریم کو پڑھا ہی نہیں ، وہ اس کے قوانین کو نافذ کیسے کرے گا ؟ آج کتنے لوگ ہیں جو قرآن پاک کے مطالب ومعانی کے عمق میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ اس کو کماحقہ سمجھنے کے لیے سخت محنت اور بڑا وقت دینے کی ضرورت ہے۔ محض امتحان پاس کرنے کے لیے چند سورتیں پڑھ لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے آٹھ سال میں سورة بقرہ کی تفسیر مکمل کی تھی۔ علوم ، معارف اور حقائق کو معلوم کیا تھا۔ قرآن پاک میں تمام اصول موجود ہیں عمل کے لیے واضح لائحہ عمل موجود ہے۔ اس کے لیے پوری پوری عمر وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ تب جا کر ساری باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ مولانا علامہ انور شاہ کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ امام شافعی (رح) امت کے ذکی ترین لوگوں میں سے ہیں۔ انہیں ایک مسئلہ میں تردد پیدا ہوگیا تو اس کو حل کرنے کے لیے قرآن پاک کی تین سور مرتبہ تلاوت کی۔ ہر ہر آیت پر غور فکر کرتے اور مسئلہ کا حل تلاش کرتے۔ آخر تین سو مرتبہ کی تلاوت کے بعد وہ ایک آیت پر آکر رک گئے اور اپنا مقصود پا لیا۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت کو پانے کے لیے بڑی بڑی قربانی اور زیادہ سے زیادہ محنت بھی کرنی پڑے تو درگزرنے سے گوہر مقصود حاصل ہوگا۔ آج ہمارے قائدین اسمبلیوں میں بیٹھ کر بحث کرتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کا سرمایہ دارانہ نظام بہتر ہے یا روس اور چین کا اشتراکی نظام ؟ کونسا نظام زیادہ ترقی یافتہ ہے اور کونسا کم تر ہے ؟ ترکوں نے جرمن قانون لے لیا تھا اور ہم دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ یہ سب لعنتی نظام ہیں۔ ہمارے لیے ان میں سے کوئی بھی مفید نہیں پھر قرآن پاک کو چھوڑ کر کون سے نظام کو اپنائیں گے ؟ سورة مرسلٰت میں اسی بات کو شکوہ کیا گیا ہے (آیت) ” فبای حدیث بعدہ یومنون “ قرآن پاک کو چھوڑ کر دوسرے کون سے پروگرام پر ایمان لائو گے۔ جب تک دنیا قائم ہے ، قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا پروگرام نہیں آئیگا تو اس کو چھوڑ کر کدھر جائو گے۔ اسی پروگرام کے متعلق قرآن کریم نے ابتداء ہی میں فرمادیا (آیت) ” ذلک الکتب لا ریب فیہ “ اللہ کی اس آخری کتاب میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر اس پروگرام کو اپنانے والوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون “ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ دائمی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم کے پروگرام کو سمجھنے اور اس کو نافذ کرنے کے لیے ، بڑی محنت ، افرادی قوت اور وقت کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریز لوگ تو مختلف کمیٹیاں بنا کر حدیث پر تحقیقات (ReseArch ریسرچ) کر رہے ہیں اس پر کثیر رقم خرچ کر رہے ہیں مگر ہم زبانی ایمان لانے تک ہی محدود ہیں نہ اس ضمن میں کوئی محنت و کاوش ہوتی ہے اور نہ قرآنی پروگرام پر عملدرآمد کا موقع آتا ہے۔ ہماری ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے ذخیرہ علوم سے مستفید ہونے کے بجائے دوسروں کا منہ تک رہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کو آزمانے کے بعد اقتصادی نظام کے لیے چین کے نظام کی طرف آنکھیں اٹھتی ہیں اور کبھی روس اور جرمن کے نظاموں سے امید وابستہ کی جاتی ہے۔ پچاس سال سے اشتراکی نظام کو بھی آزمایا جا رہا ہے مگر اس میں بھی ایجاد ، بےدینی ، استبداد اور دماغی خرابی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ اگر میں بھی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف کروں گا تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔ حیات پیغمبر بطور دلیل۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں (آیت) ” لوشاء اللہ ماتلوتہ علیکم “ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ آیات قرآنی تم پر تلاوت نہ کرتا ، مقصد یہ ہے کہ تم اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہو ، اللہ بھی اگر ایسا ہی چاہتا تو میں تمہیں پڑھ کر نہ سناتا ، مگر خدا تعالیٰ کی مشیت تو اسی پر وگرام کو غالب کرنا ہے۔ لہٰذا اسی کی تلاوت کرنا میرا فرض ہے۔ اگر اللہ کو تمہاری بات منظور ہوتی (آیت) ” ولا ادرکم بہ “ تو وہ تمہیں اس قرآن پاک کی خبر ہی نہ دیتا۔ مگر اس کی مشیت تو اسی میں ہے کہ میں یہی کلام الہٰی تمہیں پڑھ کر سنائوں یہ کوئی میرا خود ساختہ پروگرام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اگر تمہیں اس بارے میں کوئی شک ہے کہ قرآن میں اپنی طرف سے بنا کرلے آیا ہوں تو ذرا اس دلیل پر غور کرو (آیت) ” فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ “ میں نے تمہارے درمیان عمر کا ایک بڑا حصہ (چالیس سال گزارے ہیں۔ تم مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہو۔ ابھی پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ حجر اسود کی تنصیب کے لیے تم نے مجھ ہی پر اعتماد کیا تھا ، تم مجھے صادق اور امین کہتے رہے ہو آج تک میرے کردار پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرت نہیں ہوئی ، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ، کسی پر بہتان نہیں لگایا ، کسی کو تکلیف نہیں دی ، کسی کا مال نہیں چھینا ، کسی کی تذلیل وتوہین نہیں کی بلکہ دوسروں کی خدمت کو شعار بنا رکھا ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود (آیت) ” افلا تعقلون “ تم اتنی بھی عقل و شعور نہیں رکھتے اور یہ نہیں سوچ سکتے کہ جو شخص چالیس سال تک سچا اور ایماندار رہا ہے وہ یکایک جھوٹ پر کیسے اتر آئے گا اور خود قرآن بنا کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرے گا (العیاذ باللہ) یہ تو معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص اتنے اعلی کردار کا حامل ہے ، جس کی زندگی کا کوئی گوشہ تمہاری نظروں سے اوجھل نہیں وہ یکدم جھوٹ کسیے بولنے لگے گا۔ جو شخص اللہ کی مخلوق کے سامنے غلط بیانی نہیں کرتا ، وہ اللہ پر کیسے افتراء باندھے گا۔ فرمایا ذرا عقل کو بروئے کار لائو تو تمہارے تمام شبہات دور ہوجائیں گے۔ ابو دائو د شریف کی روایت میں عبداللہ ابن ابی الخنساء کا واقعہ آتا ہے کہ اس نے حضور ﷺ کے ساتھ کوئی معاملہ کیا تو کہنے لگا آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں۔ آپ وہیں کھڑے اس کا انتظار کرتے رہے حتی کہ تین دن گزر گئے۔ جونہی اس شخص کو یاد آیا تو اس جگہ پر پہنچا تو دیکھا کہ حضور ﷺ اس کا انتظار کر رہے ہیں ، معذرت کی کہ میں بھول گیا تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے نوجوان ! تو نے مجھے مشقت میں ڈال دیا۔ مجھ سے وعدہ لے لیا جس کی میں خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا غرضیکہ حضور ﷺ کی پوری زندگی تو شیشے کی طرح صاف ہے اور آپ سے کسی غلط بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تو اب یکدم حضور کی ذات سے غلط بیانی کو کیسے منسوب کرلیا ۔ فرمایا یہ قرآن نہ تو میرا اپنایا ہوا ہے اور نہ میں اس میں تبدیلی کرنے کا مجاز ہوں۔ میں اپنی زندگی کو تمہارے سامنے بطور دلیل پیش کر رہا ہوں ، اب بھی تمہیں سمجھ نہیں آتی۔ بڑا ظلم۔ فرمایا (آیت) ” فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا “ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء باندھے فرمایا اگر میں بھی ( نعوذ باللہ) غلط بات کروں گا تو اسی فہرست میں آئوں گا۔ میرے لیے یہ بات ہرگز لائق نہیں کہ میں خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھوں (آیت) ” او کذب بایتہ “ اور اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ جھوٹا دعوی کرنا والا مفتری اور کذب ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوتا ۔ فرمایا نہ تو میں اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہوں کہ قرآن پاک کو غلط طور پر اس کی طرف منسوب کر رہا ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا نازل کردہ ہے اور میں اسی کی منشاء کے مطابق اس کی اشاعت کر رہا ہوں اور جو کچھ میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ، یہ من وعن وہی ہے جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ اور میں خدا تعالیٰ کی کسی آیت کو (العیاذ باللہ) جھٹلا کر ظالموں میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ فرمایا یاد رکھو ! جو کوئی اللہ پر افتراء باندھتا ہے یا اس کی آیتوں کو جھٹلاتا ہے وہ مجرم ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے (آیت) ” انہ لا یفلح المجرمون “ کہ وہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں کرتا۔ میں نہ تو مفتری ہوں اور نہ مجرم۔ میں تو اللہ کی مشیت کے مطابق اس کے احکام کی تعمیل کر رہا ہوں اصل میں اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کو جھٹلانے والے تم خود ہو ، لہٰذا تمہیں اپنے انجام سے باخبر ہونا چاہیے۔ تم لوگ کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
Top