Mualim-ul-Irfan - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
وہ جس وقت چکھائیں ہم لوگوں کو مہربانی تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچی ہو تو اچانک ان لوگوں کے لیے حیلہ ہوتا ہے ہماری آیتوں کو ۔۔ کے بارے میں (اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ بہت جلدی تدبیر کرنے والا ہے۔ بیشک ہمارے فرشتے لکھتے ہیں ان چیزوں کو جو حیلے کرتے ہیں
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کو بیان کیا پھر توحید کے عقلی اور نقلی دلائل کا ذکر کیا اور سابقہ اقوام کی نافرمانیوں کا اشارۃ حال بیان کیا ، پھر قرآن کے اٹل ، دائمی ، ناقابل تحریف و ترمیم ہونے کا ذکر کیا۔ رسالت کی صداقت کے ضمن میں حضور ﷺ کی پاکیزہ زندگی کو بطور دلیل پیش کیا۔ پھر معجزات طلب کرنے والے منکرین کے جواب میں فرمایا کہ یہ لوگ محض ضد اور عناد کی وجہ سے نشانیاں طلب کرتے ہیں وگرنہ نشانیاں تو اللہ نے بیشمار ظاہر فرما دی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضور ﷺ سے کہلوایا کہ کوئی نشانی پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق جب اللہ چاہتا ہے کوئی نشانی ظاہر کردیتا ہے۔ فرمایا میرے اور تمہارے درمیان حتمی فیصلہ کے لیے تم بھی انتظار کرو اور میں بھی اللہ کے حکم کا منتظر ہوں۔ پھر اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی تردید فرمائی کہ یہ لوگ اللہ کے ورے دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ، ان کو نافع اور ضار سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت مختصہ ہے اور اس کے سوا کوئی نافع اور ضار نہیں ہے۔ فرمایا ان کی عبادت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں جو اللہ کے ہاں سفارش کر کے ہمیں بچا لیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سب جھوٹے ہیں۔ کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو جبری سفارش کر کے اللہ سے کوئی بات منوا لے۔ یہی تو شرک ہے جب کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے جن کو یہ خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ تکلیف کے بعد راحت دیر وزہ درس کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی دوحالتوں یعنی تکلیف اور راحت کا ذکر کیا ہے اور انسان کی ایک عام روش کا تذکرہ کیا ہے کہ انسان دونوں حالتوں میں اپنی صحیح حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکتے بلکہ افراط وتفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ البتہ بہت خاص لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اصلیت پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شکوے کے طور پر فرمایا ہے (آیت) ” واذا اقنا الناس رحمۃ من بعد ضراء مستھم “ جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت اور مہربانی کا مزہ چکھاتے ہیں بعد اس کے کہ ان کو تکلیف پہنچی۔ اللہ نے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ کبھی وہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، قحط پڑگیا ، بیماری پھیل گئی ، مال وجان کا نقصان ہوگیا ، زلزلہ یا طوفان آگیا یا کوئی دیگر حادثہ پیش آگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مہربانی اور تکلیف کو رفع کردیا۔ بیماری کی جگہ صحت آگئی ، قحط دور ہو کر خوشحالی کا دور دورہ آگیا ، تجارت میں نفع ہوگیا ، باعزت مکان مل گیا ، باعزت عہدہ حاصل ہوگیا ، تنگی کی جگہ فراوانی آگئی ، مال و دولت میں اضافہ ہوگیا ، جانوروں کے لیے چارہ اور پانی عام ہوگیا ، یہ ساری چیزیں اللہ کی رحمت میں شامل ہیں تو فرمایا کہ جب تکلیف کے بعد راحت آجاتی ہے ، اللہ مہربانی فرماتا ہے (آیت) ” اذا لھم مکر فی ایتنا “ تو اچانک وہ لوگ ہماری آیتوں کے احکام کو ٹالنے کے لیے حیلے بہانے بنانے شروع کردیتے ہیں۔ مشرکین کی حیلہ سازی گذشتہ درس میں مشرکین کی حیلہ سازی کا ذکر ہوچکا ہے کہ جب انہیں حضور ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کے لیے کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں (آیت) ” لولا انزل علیہ ایۃ من ربہ “ آپ پر ہماری مرضی کی کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی ، حالانکہ تکوینی طور پر انسان کے گردوپیش ہزاروں نشانیاں بکھری پڑی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی کھلی دلیل ہیں۔ خود قرآن پاک سے بڑی نشانی کون سی ہو سکتی ہے ؟ پھر پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات مبارک بہت بڑی نشانی ہے ، آپ کا چہرہ اقدس نشانی ہے حتی کہ آواز پیغمبر معجزاست یعنی حضور ﷺ کی آواز مبارک بھی ایک معجزہ ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات مبارکہ میں بیشمار معجزات ظاہر فرمائے ۔ صحیح احادیث میں ایسے معجزات کی تعداد تین ہزار آتی ہے مگر آپ (علیہ السلام) نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ میرا سب سے بڑا معجزہ وحی الٰہی یعنی قرآن پاک ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا۔ تو فرمایا کہ معجزات کی فرمائش یہ لوگ محض احکام کو ٹالنے کے لیے حیلے کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہدایت کو قبول ہی نہیں کرنا چاہتے ، نہ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں اور نبی آخرالزمان کی رسالت کو ماننا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر قرآن کریم کے پروگرام سے تو یہ لوگ بدکتے ہیں ، لہٰذا ہماری آیتوں کو ٹالنے کے لیے حیلہ سازی کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” قل “ (اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے (آیت) ” اللہ اسرع مکرا “ اللہ تو بہت جلدی تدبیر کرنے والا ہے عربی زبان میں مکر کا لفظی معنی مخفی تدبیر ہوتا ہے۔ اس لفاظ کو اردو اور پنجابی کے مکر پر محمول نہیں کرنا چاہیے جس کا معنی دھوکا اور فریب ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن پاک میں پوشیدہ تدبیر کے معنوں میں متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے ، جیسے (آیت) ” ومکروا ومکر اللہ “ انہوں نے بھی مخفی تدبیر کی اور اللہ نے بھی پوشیدہ چال چلی ، یہودیوں نے چاہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو دنیا سے معدوم کردیں مگر اللہ تعالیٰ کی تدبیر کامیاب ہوئی (آیت) ” واللہ خیر المکرین “ اور اللہ تعالیٰ بہترین مخفی تدبیر کرنے والا ہے۔ تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ اللہ کی آیتوں کو ٹالنے کے لے مخفی تدبیر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو بہت جلد مخفی تدبیر کرنے والا ہے۔ اللہ نے مزید واضح کیا کہ ہمارا نظام یہ ہے کہ (آیت) ” ان رسلنا یکتبون ما تمکرون “ جو کچھ یہ لوگ حیلہ سازی کرتے ہیں ہمارے فرشے اس کو لکھ لیتے ہیں اور وہ فرشتوں کے دفتر میں محفوظ ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ تو بذات خود علیم کل ہے۔ وہ ہر چیز کو ذاتی طور پر جانتا ہے اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ، تا ہم فرشتوں کے ذریعے لکھ رکھنے کا اس نے ایک نظام قائم کررکھا ہے تا کہ قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے پیش کردیا جائے جس کو دیکھ کر وہ انکار نہ کرسکے۔ اس طرح گویا اللہ نے انسان کی ناشکر گزاری کا ذکر فرمایا کہ تنگی کے بعد جب انہیں راحت پہنچتی ہے تو پھر وہ شکر گزاری کرنے کے بجائے ہماری آیات کو ٹالنے کے لیے حیلے بہانے شروع کردیتے ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال مشرکین مکہ کی ہے۔ جب ان کے علاقے میں قحط پڑگیا تو ان کے ایک وفد نے مدینہ طیبہ پہنچ کر حضور ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ان کے لیے خوشحالی کی دعا کریں۔ آپ نے دعا فرمائی ، اللہ تعالیٰ نے قحط کو دور کردیا مگر وہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کی آیات سے انکار کے لیے حیلے بنانے لگے۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کا شکوہ بیان کیا ہے۔ بحر وبر کا سفر اب اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بحروبر کے سفر کے تناظر میں لوگوں کے شرکیہ ذہن کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھوالذی یسیرکم فی البر والبحر “ اللہ تعالیٰ کی وہی ذات ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ اب تو سائنسی دور ہے جس میں وسائل نقل وحمل بہت ترقی کرچکے ہیں ہر ملک میں ریلوں اور سڑکوں کے جال ہیں جن پر ریل گاڑیاں اور بسیں اور کاریں چوبیس گھنٹے رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ان کے علاوہ فضائی سفر کی بہترین اور تیز ترین سہولتیں میسر ہیں مگر پرانے زمانے میں دور دراز علاقوں کا سفر ایک کٹھن کام تھا۔ خاص طور پر جنگلوں اور صحرائوں کا سفر تو خطرات سے بھر پور ہوتا تھا۔ اور ان سب سے بڑھ کر سمندری سفر تھا جس کا زیادہ تر انحصار ہوائوں کے رخ پر ہوتا تھا۔ ناساز گار موسم اور مخالف ہوائیں سمندری طوفان کا سبب بن جائیں اور اس طرح بحری سفر خطرناک ترین سفر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ آج سے آٹھ سو سال پہلے ابن بطوطہ کا سفر نامہ پڑھیں۔ اس شخص نے متواتر ستائیس برس سفر میں گزارے ۔ اندلس کا رہنے والا تھا آغاز شباب میں دنیا کا سفر شروع کیا اور پڑھاپے میں واپس اپنے وطن پہنچا۔ یہ دنیا کا طویل ترین سفر تھا جس کے متعلق اس نے بڑے بڑے واقعات اور سفر کی صعوبتوں کا ذکر کیا ہے۔ خراسان ، حجاز ، دمشق وغیرہ گیا ، تمام جزائر پھرے اور بارہ سال تک اس برصغیر میں بھی پھرتا رہا۔ مقصد یہ ہے کہ پرانے زمانے میں بحرو بر کا سفر بہت مشکل کام تھا۔ سمندری سفر اور طوفان یہاں پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سمندری سفر کا ذکر کیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” حتی اذا کنتم فی الفلک “ فرمایا جب تم کشتی یا بحری جہاز میں سوار ہوتے ہو (آیت) ” وجرین بھم بریح طیبۃ “ اور وہ کشتیاں یا جہاز خوشگوار ہوا کے ساتھ چلتی ہیں (آیت) ” وفرحوا بھا “ اور وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں۔ پھر اچان کہ کیا ہوتا ہے (آیت) ” جاء تھا ریح عاصف “ تند یا مخالف ہوا چلتی ہے اور جہاز اور کشتیاں ہچکولے کھانے لگتے ہیں۔ (آیت) ” وجاء ھم الموج من کل مکان “ اور ہر طرف سے پانی کی موجیں آکر گھیر لیتی ہیں۔ (آیت) ” وظنوا انھم احیط بھم “ اور مسافروں کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب وہ گھیر لیے گئے ہیں ، اور ان کے جہاز کے بچ نکلنے کی کوئی امیدباقی نہیں رہی۔ تو ایسی حالت میں کیا کرتے ہیں (آیت) ” دعوا اللہ مخلصین لہ الدین “ گڑ گڑا کر اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اپنی اطاعت کو اس کے ساتھ خاص کرتے ہیں صرف اسی ایک خدا کے نام کی دہائی دیتے ہوئے اقرار کرتے ہیں (آیت) ” لئن انجیتنا من ھذہ “ اگر تو ہمیں اس طوفان سے نجات دے دے۔ ہماری کشتی کو پار لگا کر ہمیں مصیبت سے بچا لے (آیت) ” لنکونن من الشکرین “ تو ہم تیرا شکر ادا کرنے والے بن جائیں گے۔ سمندری طوفان اور جہازوں کی غرقابی کے لیے کئی واقعات مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ پندرہ سولہ سال پہلے بحری جہاز دارا کو حادثہ پیش آیا تھا۔ اس جہاز میں بارہ سو آدمی سوار تھے۔ جہاز اپنے سفر پر رواں دواں تھا۔ جہاز میں عیش و عشرت کے سارے سامان مہیا تھے ، شراب کا دور چل رہا تھا ، ڈانس ہو رہا تھا ، کھانے پینے کی فروانی تھی۔ اچانک رات کے تین بجے جہاز کا انجن دھماکے سے پھٹ گیا۔ موسم بھی خراب تھا ، باہر بارش ہو رہی تھی ان حالات میں جہاز پر جو قیامت برپا ہوئی ، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا بارہ سو کی نفری میں سے صرف ڈیڑھ دو سو مسافر بچائے جاسکے باقی جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گئے۔ بچ رہنے والے لوگ جس طرح اس حالت کو بیان کرتے تھے اس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دو سال پہلے فیصل آباد کے ایک آدمی نے اپنے ساتھ پیش آمدہ واقعہ سنایا۔ وہ شخص اٹلی سے امریکہ جانے والے مال بردار جہاز پر بطور مزدور سفر کر رہا تھا۔ اس جہاز پر پچھتر ہزار ٹن لوہا لدا ہوا تھا۔ اچانک چہاز طوفان میں گھر گیا۔ انگریز عملہ نے سوچا کہ اب بچنا مشکل ہے۔ انہوں نے شراب پی کر خود ہی سمندر میں چھلانت لگا دی ، ہم دو مسلمانوں کے علاوہ کچھ دوسرے غیر مسلم بھی تھے۔ ہم کسی طرح جہاز سے کشتی اتار کر اس میں بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر اللہ نے مہربانی فرمائی اور ہمیں اس طوفان زدہ علاقے سے نکال باہر کیا۔ جہاز تو ڈوب گیا اور ہم کشتی میں سوار سمندری لہروں کے ہچکولے کھاتے ہوئے کہیں دور نکل گئے۔ اتنے میں امدادی ٹی میں پہنچیں اور انہوں نے ہمیں زندہ نکال لیا اور ہمیں سپین کے ساحل پر جا پھینکا۔ ہم پر بیہوشی طاری تھی ، کئی ہفتے تک ہسپتال میں رہنے کے بعد ہمارے حواس درست ہوئے غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر سمندری سفر کا ذکر کر کے اس سفر کی مشکلات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) اور بعض مصنفین نے عکرمہ ؓ ابن ابوجہل کے اسلام لانے کا واقعہ نقل کیا ہے جس کا تعلق بھی بحری سفر کے ساتھ ہے۔ 8 ھ؁ میں جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ ؓ وہاں سے بھاگ گیا۔ آگے چل کر کشتی میں سوار ہوگیا یہ کشتی کوئی تیس میل کے قریب گئی ہوگی کہ طوفان میں گھر گئی۔ کشتی کے مسافر لات اور عزی نامی بتوں کی دہائی دینے لگے ، مگر ملاحوں نے بتایا کہ اس مشکل موقع پر لات ، عزی وغیرہ کام نہیں آئیں گے بلکہ یہ صرف خدا تعالیٰ کو پکارنے کا موقع ہے ، اگر اس کی مشیت میں ہوگا تو وہ بچا لے گا۔ یہ سن کر عکرمہ ؓ کے دل پر سخت چوٹ لگی ۔ دل میں سوچا کہ اسی خدا کو نہ مان کر تو ہم بھاگے ہیں اور اب اسی کو پکاریں۔ اس کی کایا پلٹ گئی اور اسے سمجھ آگئی کہ جس خدا کو سمندری طوفان میں پکارنا ہے اس کو خشکی پر کیوں نہ پکاریں۔ چناچہ اس نے دل میں عہد کیا کہ اگر اس طوفان سے بچ گیا تو واپس جا کر محمد ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ ادھر عکرمہ ؓ کی بیوی ام حکیم ؓ پہلے ہی اسلام قبول کرچکی تھی۔ جب عکرمہ ؓ بھاگ گیا ، تو ام حکیم ؓ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کا خاوند تو بھاگ گیا ہے۔ اگر اب بھی وہ آکر تائب ہوجائے تو کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ، ہاں معافی مل سکتی ہے۔ ام حکیم نے نشانی طلب کی تو حضور ﷺ نے اپنی دستار مبارک عطا کردی۔ چناچہ ام حکیم ؓ وہ نشانی لے کر عکرمہ ؓ کی تلاش میں سمندر کی طرف جا نکلی جب عکرمہ ؓ طوفان سے بچ کر ساحل پر پہنچا تو اس کی بیوی وہاں موجود تھی۔ اس نے کہا ، تم کہاں ٹھوکریں کھا رہے ہو ؟ چلو ! حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے کیے پر پیشمان ہو جائو اور دین حق قبول کرلو۔ چناچہ جب حضور ﷺ نے عکرمہ کو دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا ” مرحبابالرکب المھاجر “ سوار ہو کر آنے واے مہاجر کو خوش آمدید۔ گویا آپ نے عکرمہ ؓ کے بھاگنے اور واپس آنے کو ہجرت سے تعبیر فرمایا۔ اس طرح عکرمہ ؓ ایمان لے آیا۔ جس کا سبب سمندری طوفان بنا۔ نجات کے بعد بغاوت تو فرمایا انسان کا حال یہ ہے کہ جب مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو خلوص کے ساتھ دعا کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اگر خدا نے مصیبت کو دور کردیا تو اس کا شکریہ ادا کروں گا۔ (آیت) ” فلما انجٰھم “ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ جب ہم انہیں نجات دے دیتے ہیں اس مصیبت سے (آیت) ” اذا ھم یبغون فی الارض بغیر الحق “ تو اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ تکلیف رفع ہوگئی تو پھر وہی شرک ، وہی نذر لغیر اللہ ، وہی بدعات اور وہی نافرمانیاں شروع کردیتے ہیں۔ یہ سب ناشکری کی باتیں ہیں ۔ انسانوں کا فرض تھا کہ وہ تکلیف میں خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے ، اسی سے مشکل کشائی کے طالب ہوتے اور پھر جب مصیبت راحت میں بدل جاتی تو مالک الملک کا شکر بجا لاتے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہی شکوہ بیان کیا ہے کہ جب ہم مصیبت سے نجات دے دیتے ہیں تو یہ پھر سرکشی اختیار کرلیتے ہیں۔ سرکشی کا وبال ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” یایھا الناس انما بغیکم علی انفسکم “ اے لوگو ! تمہاری سرکشی تمہارے اپنے نفسوں کے خلاف پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ” البغی والخداع ونقص العھد علی صاحبہ “ یعنی شرکشی ، دھوکا اور نقص عہد اسی کے خلاف واقع ہوتا ہے جو اس کا ارتکاب کرتا ہے نیز یہ بھی آتا ہے ” ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ “ یعنی بری تدبیر خود کرنے والے کا احاطہ کرتی ہے اور اسی کو گھیر لیتی ہے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے ” من حفر بئرا لا خیہ وقع فیہ “ جو کوئی شخص اپنے بھائی کے لے گڑھا کھودتا ہے ، وہ خود ہی اس میں گرتا ہے۔ فارسی والے بھی کہتے ہیں ” چاہ کن راچاہ درپیش “ ایک دوسری روایت میں یوں آتا ہے ” المکر والخدیعۃ والخیانۃ فی النار “ یعنی چال بازی ، دھوکا اور خیانت جہنم میں لے جانے کا باعث ہوگی۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تمہاری سرکشی اور شرارت تہارے اپنے نفسوں کے خلاف ہے ” متاع الحیوۃ الدنیا “ یہ دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ ہے اٹھا لو ، تھوڑا عرصہ عیش و راحت میں گزار لو (آیت) ” ثم الینا مرجعکم “ پھر تم سب کا ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (آیت) ” فننبکم بما کنتم تعلمون “ پھر ہم تمہیں جتلادیں گے جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ ہر چیز تمہارے سامنے رکھ دی جائے گی اور تم اپنی کارکردگی خود ملاحظہ کرسکو گے۔ تمہیں پتہ چل جائے گا کہ تم نے آگے کیا بھیجا تھا اور پھر تمہیں اس کا بھگتان بھی کرنا پڑے گا۔ بہر حال اللہ نے انسان کی ناشکرگزاری کا گلہ کیا ہے کہ دیکھو ! جب تکلیف آتی ہے تو عاجزی کرتا ہے اور جب راحت آتی ہے تو یکدم سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے ، کفر ، شرک اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا یہ سب کچھ خود تمہارے ہی خلاف جائے گا۔ جب تم خود اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے اور پھر اس کا بدلہ چکانا ہوگا۔
Top