Mualim-ul-Irfan - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور (اے پیغمبر) اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں ، پس آپ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ تم بری ہو اس چیز سے جو میں کرتا ہوں ، اور میں بری ہوں اس چیز سے جو تم کرتے ہو
ربط آیات ابتداء میں قرآن کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا ، پھر درمیان میں توحید کا مسئلہ بیان ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل دیے اور شرک کا رد فرمایا۔ اس کے بعد پھر قرآن کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا ، پھر درمیان میں توحید کا مسئلہ بیان ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل دیے اور شرک کا رد فرمایا۔ اس کے بعد پھر قرآن کی حقانیت کا تذکرہ آیا ، اس کا منزل من اللہ ہونا اور غلطی سے مبرا ہونا بیان کیا گیا۔ پھر تکذیب کرنے والوں کی مذمت ہوئی۔ اب آج کے درس میں اور اگلی آیات میں مسئلہ رسالت اور قیامت کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مکی سورتوں میں بنیادی عقائد ، ایمانیات اور اخلاقیات ہی کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ان سورتوں میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی ذات وصفات اور ایمان کی جملہ جزئیات کا ذکر آتا ہے۔ عقائد باطلہ اور رسومات باطلہ کی جگہ جگہ تردید آتی ہے۔ تکذیب رسالت کفار ومشرکین انبیاء کی نبوت و رسالت سے متعلق طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے تھے اور رسالت کی تکذیب کرتے تھے۔ تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ایسے مکذبین کے متعلق فرمایا (آیت) ” وان کذبوک “ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ اس سے گھبرائیں نہیں کیونکہ تکذیب کا سلسلہ شروع سے آرہا ہے۔ کفار ومشرکین نے ہمیشہ توحید ، رسالت ، وحی الٰہی اور وقوع قیامت کو جھٹلایا۔ تکذیب رسالت کے ضمن میں مشرک کہتے تھے کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو ، ہم تجھے نبی کیسے مان لیں ؟ تمہاری ظاہری حالت بھی اچھی کوئی نہیں ہے۔ مالی پوزیشن بھی بہتر نہیں ، تمہارے پاس مال و دولت نہیں ، نوکر چاکر نہیں ، کوئی کوٹھی ، بنگلہ اور باغات نہیں۔ آخر کس بات پر تمہیں رسول مان لیں۔ دراصل مشرکین ہمیشہ باطل زعم میں مبتلا رہے ہیں کہ نبی اور رسول وہ شخص ہوسکتا ہے جو اچھا خاصا پیتا ، صاحب جائیداد ، امیر کبیر ، اعلی حیثیت اور بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہو کہتے تھے کہ اگر نبی ہوتا تو مکہ اور طائف جیسی دو عظیم بستیوں میں سے کوئی بڑا سردار ہوتا۔ کیا اللہ کے پاس نبوت کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ اسی بنا پر وہ لوگ حضور خاتم النبین کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ فرمایا ، اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو اے پیغمبر ! فقل آپ ان سے کہہ دیں ” لی عملی “ میرے لیے میرا عمل ہے یعنی میں اپنے عمل کا ذمہ دار ہوں۔ میرے عمل کے بارے میں تم سے باز پرس نہیں ہوگی۔ (آیت) ” ولکم عملکم “ اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ فرمایا ، یاد رکھو ! (آیت) ” انتم بریئون مما اعمل “ تم ان کاموں سے بیزار ہو ، جو میں انجام دیتا ہوں (آیت) ” وما انا بری مما تعملون “ اور میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم انجام دیتے ہو۔ ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ میں اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوں۔ اگر میں نے کوئی غلطی کی یا افتراء باندھا تو اس کی جواب دہی میں کروں گا اور تم اس کے ذمہ دار نہیں ہو گے لیکن یاد رکھو ! اگر تم نے حق وصداقت کی تکذیب کی توحید و رسالت کو جھٹلایا ، معاد کا انکار کیا ، تو اس کا بھگتان تم کو کرنا ہوگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو اس کے مخالفین اس پر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ہیں اور اس کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ بات ہمیشہ سے چلی آرہی ہے ، لہٰذا طعن وتشنیع کرنے والوں سے زیادہ الجھنا نہیں چاہیے۔ تکذیب کرنا باطل پرستوں کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے اسی لیے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو اور میں اپنے عمل کا سب کو اپنے اپنے اعمال کا جلد ہی حساب چکانا پڑے گا۔ ظاہری اور باطنی سماعت اللہ نے مکذبین کی ایک خصلت یہ بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” ومنھم من یستمعون الیک “ ان میں سے بعض ایسے لوگ ہیں جو آپ کی طرف کان رکھتے ہیں یعنی آپ کی بات سنتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کان تو آپ کی طرف کرتے ہیں مگر ان کے دل کے کان متوجہ نہیں ہوتے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا سننا نہ سننا برابر ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ، اے پیغمبر ! (آیت) ” فانت تسمع الصم “ کیا آپ ان بہروں کو سنائیں گے جن کے دل کے کان بند ہیں (آیت) ” ولو کانوا لا یعقلون “ اور اگرچہ وہ عقل بھی نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں کو سنانے کا فائدہ کیا اور یہ لوگ آپ کی نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ سورة انفال میں بھی گزر چکا ہے (آیت) ” صم بکم عمی فھم لا یعقلون “ وہ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ عقل سے صحیح فائدہ ہی نہیں اٹھاتے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے جسے صحیح طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ لوگ ایسا کرنے سے قاصر ہیں غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ مکذبین کی حالت یہ ہے کہ وہ آپ کی بات دل سے سنتے ہی نہیں تو آپ ان کو زبردستی کیسے سنا سکیں گے۔ دل کے اندھے سماعت کے بعد بصارت کا ذکر فرمایا (آیت) ” ومنھم من ینظر الیک “ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کی طرف نگاہ رکھتے ہیں یعنی بظاہر آپ کی طرف دیکھتے ہیں مگر وہ دل کے اندھے ہیں۔ (آیت) ” افانت تھدی العمی ولو کانوا لا یبصرون “ کیا آپ اندھوں کو راہ دکھائیں گے اگرچہ وہ نہ دیکھتے ہوں۔ جو لوگ دل کے بہرے اور اندھے ہیں وہ آپ کی بات کو نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دل کے اندھاپن کے بارے میں سورة حج میں موجود (آیت) ” فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور “ یاد رکھو ! اکثر ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ، بلکہ سینوں میں پڑی ہوئی دل کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے دل میں اچھی بات جمتی ہی نہیں۔ جو شخص بصیرت سے محروم ہو ، وہ کسی اچھی چیز سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ تو معلوم ہوا کہ خالی سننا اور خالی دیکھنا مفید نہٰں جب تک انسان کے قلب کے کان اور آنکھیں کھلی نہ ہوں۔ جب تک کسی نیکی کی طلب اور شوق نہ ہو ، اچھی سے اچھی بات بھی اثر نہیں رکھتی اسی لیے فرمایا کہ ظاہری سننا اور دیکھنا اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جب تک دل متوجہ نہ ہو۔ مستشرقین کی ریشہ دوانیاں اس زمانہ کے مستشرقین پر یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ یہودی ، عیسائی اور ہندو اہل قلم سیرت پاک پر قلم اٹھاتے ہیں بڑی بڑی اسلام کتابوں کے دیباچے لکھتے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ متعصب نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے بھی اسلام اصولوں کے معترف ہیں۔ مگر یہ ان کی محض چالاکی ہے۔ ان کے کان بہرے اور دل کی آنکھیں اندھی ہیں ، لہٰذا وہ حق کو دل سے قبول نہیں کرتے بلکہ اسلام کی حمائت کی آر میں اس پر شب خون مارتے ہیں۔ بظاہر کسی تصنیف کا دیباچہ پڑھیں تو یہ لوگ بڑے منصف مزاج نظر آئیں گے مگر اس کتاب کے اندار اسلام ، قرآن اور پیغمبر اسلام پر رکیک حملے پائیں گے۔ روسیوں کا حال بھی یہی ہے۔ بظاہر وہ قرآن پاک کی عزت کرتے ہیں مگر اسلام کو رجعت پسندانہ مذہب قرارد یتے ہیں اور پیغمبر اسلام کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ اس زمانے کے نبی تھے ان کی تعلیمات اس زمانے کی ضروریات پوری نہیں کرسکتیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا بھی یہی حال ہے ۔ ظاہر میں وہ سنتے اور دیکھتے بھی ہیں ، مگر اندر تعصب اور خباثت بھری ہوئی ہے۔ خود فریبی مشرکوں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بھی دل کے بہرے اور اندھے ہیں اور اسی لیے حقیقت سے محروم ہیں۔ ان کے دل کے کان اور دل کی آنکھیں بند ہیں ، اس لیے ان کو کوئی چیز فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ فرمایا (آیت) ” ان اللہ لا یظلم الناس شیئا “ بیشک اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا (آیت) ” ولکن الناس انفسھم یظلمون “ بلکہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ خود ایسے اسباب مہیا کرتے ہیں جن کی بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا (آیت) ” ذلک بما قدمت یدئک وان اللہ لیس بظلام للعبید “ (الحج) یہ تو تیری اپنی کمائی ہے جو تیرے ہاتھوں نے کی وگرنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر کبھی زیادتی نہیں کرتا ، وہ تو نہایت ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ مگر یہ خود انسان ہیں جو اپنی کارگردگی کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بنتے ہیں جو فکر اور عقیدہ تم نے اپنایا اور جو اعمال فاسدہ انجام دیے ، یہ انہی کا ثمرہ ہے۔ اسے بھگتو۔ فرمایا (آیت) ” فاصبروا اولا تصبروا سواء علیکم “ (الطور) تم صبر کرو یا نہ کرو۔ اب تمہارے لیے برابر ہے۔ تمہیں اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ تم نے قرآن اور پیغمبر اسلام کی تکذیب کی آج کے دن کو جھٹلایا ، شرائع الٰہیہ کا انکار کیا ، خدائی قانون کی پروا نہ کی ، اب یہ تمام چیزیں جمع ہو کر تمہارے لیے عذاب کا مبنی بنیں گی۔ عرصہ زندگی فرمایا آج تو تم دندناتے پھرتے ہو ، قرآن اور رسالت کی تکذیب کرتے ہو اور اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہو ، مگر یاد رکھو ! (آیت) ” ویوم یحشرھم “ جس دن ہم کو اکٹھا کریں گے۔ دوبارہ زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کریں گے اس دن انہیں احساس ہوگا۔ (آیت) ” کان لم یلبثوا الا ساعۃ من النھار “ کہ ہم تو دنیا میں ایک گھڑی بھی ٹھہرے۔ ہماری دنیاوی زندگی تو نہایت ہی قلیل تھی۔ دنیا کی پوری پچاس ، ساٹھ یا سو سالہ زندگی ایسی محسوس ہوگی جیسے کوئی شخص گھنٹہ دو گھنٹے خوش گپیوں میں گزار دیتا ہے۔ دوسری جگہ ضحی کا لفظ آتا ہے یعنی دنیا کی زندگی کی طوالت اس قدر معلوم ہوگی جیسے کوئی شخص دوپہر کے وقوت تھوڑا سا آرام کرلیتا ہے یا جیسے پچھلے پہر کا تھوڑا سا وقت ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے دردناک عذاب کے پیش نظر زندگی بھر کا عیش و آرام نہایت حقیر نظر آئے گا۔ خدا کے حضور بےبسی پھر دوسری بات اللہ نے یہ فرمائی (آیت) ” یتعارفون بینھم “ مکذبین ایک دوسرے کو پچانیں گے لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا (آیت) ” بعضھم لبعض عدو الا المتقین “ (الزخرف) وہ سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے البتہ متقی لوگ کسی کے کام آسکیں گے۔ وہ خدا کی بارگاہ میں سفارش کریں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مومن اپنے بھائیوں کو جہنم سے چھڑانے کے لیے خدا کی بارگاہ میں التجا کریں گے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے کے یہودیوں کا ذکر قرآن پاک میں آتا ہے کہ جب وہ خدا کے حکم کے مطابق ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار سے بازنہ آئے تو اللہ نے ان کو بندروں اور خنزیروں کی شکلوں میں متشکل کردیا۔ اگرچہ ان کی شکلیں تبدیل ہوچکی تھیں ، وہ بول نہیں سکتے تھے مگر اپنے عزیز و اقارب کو پہچانتے تھے اور حرکات و سکنات سے مدد کے لیے پکارتے تھے ، مگر کوئی ان کی مدد نہ کرسکا۔ قیامت کا حال بھی ایسا ہے۔ مجرمین اپنے عزیزوں کو پہچانیں گے ، ا ن سے تعارف ہوگا مگر چونکہ وہ دنیا میں کفر وشرک کا ارتکاب کرتے رہے ، ظلم و زیادتی کو اپنائے رکھا ، بداخلاقی اور بدکرداری کا مظاہر کرتے رہے۔ لہٰذا یہ تعارف کچھ مفید نہیں ہوگا۔ اور انہیں اپنے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔ انکارِ معاد فرمایا (آیت) ” قد خسر الذین کذبوا بلقاء اللہ “ بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں ن اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ گویا تکذیب رسالت کے ساتھ تکذیب معاد کا ذکر بھی آگیا۔ انہوں نے قیامت کو برحق تسلیم نہ کیا اور محاسبے کے عمل پر یقین نہ کیا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ محاسبے کے وقت ہر آدمی خود جواب دیگا اور درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ (آیت) ” یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا “ (النحل) ہر نفس کو اپنا جواب خود دینا ہوگا ، وہاں پر کوئی وکیل میسر نہیں آئے گا جو کسی مجرم کی طرف سے جواب دعوی داخل کردے۔ اس وقت ہر شخص کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے وہی کچھ ہوگا جو اس نے اس دنیا میں کمایا ۔ فرمایا (آیت) ” وما کانوا مھتدین “ یہ لوگ ہدایت یافتہ نہیں تھے۔ اس دنیا میں وہ گمراہی میں پڑے رہے ، کج روی اختیار کی ، آیات الٰہی کی تکذیب کی ، معاد کا انکار کیا ، تو آج سخت خسارے میں ہوں گے اور ابدی عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔
Top