Mualim-ul-Irfan - Yunus : 54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر ہو اَنَّ : ہو لِكُلِّ نَفْسٍ : ہر ایک کے لیے ظَلَمَتْ : اس نے ظلم کیا (ظالم) مَا : جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں لَافْتَدَتْ : البتہ فدیہ دے دے بِهٖ : اس کو وَاَسَرُّوا : اور وہ چپکے چپکے ہوں گے النَّدَامَةَ : پشیمان لَمَّا : جب رَاَوُا : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَقُضِيَ : اور فیصلہ ہوگا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اگر ہو ہر نفس کے لیے جس نے ظلم کیا ہے جو کچھ زمین میں ہے اور پھر وہ فدیہ دے اس کے ساتھ ( تو پھر بھی بچائو کا کوئی سامان نہیں ہوگا) اور چھپائیں گے وہ شرمندگی کو جب کہ دیکھیں گے عذاب کو اور فیصلہ کیا جائے گا ان کے درمیان انصاف کے ساتھ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے شرک کرنے والوں کی تردید فرمائی پھر رسالت کے منکرین اور قیامت کے محاسبے کا ذکر کیا ، عذاب کو جلدی طلب کرنے والے کفار ومشرکین کے متعلق فرمایا کہ جب سزا آجائیگی تو اس وقت ان کا ایمان لانا قابل قبول نہ ہوگا اور وہ سزا سے بچ نہیں سکیں گے بعض مشرکین پوچھتے تھے کہ کیا قیامت واقعی برحق ہے اور سزا وجزا کا مرحلہ آنے والا ہے ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ تاکید کے ساتھ کہہ دیں ہاں قیامت برپا ہونے والی ہے اور تم اللہ کی کسی تدبیر کو عاجز نہیں کرسکتے۔ سورة سبا میں آتا ہے کہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” قل بلی وربی لتاتینکم “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں۔ میرے رب کی قسم قیامت ضرور آئے گی۔ سورة تغابن میں فرمایا (آیت) ” زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا “ کافر لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے جواب میں فرمایا (آیت) ” قل بلی وربی لتبعثن ثم لتنبون بما عملتم وذلک علی اللہ یسیر “ آپ کہہ دیں ، کیوں نہیں۔ میرے رب کی قسم تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائو گے۔ تمہیں تمہارے تمام اعمال سے آگاہ کردیا جائیگا اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے وہ لوگوں کو دوبارہ زندہ بھی کرے گا اور ان سے حساب بھی لے گا۔ ظلم کا فدیہ اللہ نے فرمایا کہ اب تو لوگ اکٹر دکھاتے ہیں۔ غرور وتکبر کا اظہار کرتے ہیں ، توحید ، رسالت اور معاد کا انکار کرتے ہیں مگر جب قیامت برپا ہوگی تو ایسے لوگوں کے لیے کوئی جائے امان نہیں ہوگی اور یہ اپنی جان کے بدلے میں بڑے سے بڑا معاوضہ دے کر بھی گلو خلاصی نہیں کرا سکیں گے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولوان لکل نفس ظلمت “ اگر ہر ظالم نفس کے لیے وہ سب کچھ ہو (آیت) ” مافی الارض “ جو کہ زمین میں اس وقت موجود ہے اور وہ یہ سب کچھ ادا کر کے بھی جان بچانا چاہیں گے تو فرمایا (آیت) ” لافتدت بہ “ تو اس سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” ما تقبل منہ “ یعنی اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ظلم بڑا وسیع المعانی لفظ ہے۔ سب سے بڑا ظلم تو کفر اور شرک ہے سورة بقرہ میں ہے (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “ کفر کرنے والے لوگ بڑے ظالم ہیں۔ شرک کے متعلق سورة لقمان میں (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “ یاد رکھو ! شرک بہت عظیم ظلم ہے۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ کفر اور شرک بہت بڑے ظلم ہیں اس کے بعد اعمال میں ظلم ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ زیادگی کرنا ، کسی کی جان ومال پر ہاتھ ڈالنا ، بےآبرو کرنا ، فرائض کو ترک کرنا ، مار پیٹ غرضیکہ چھوٹی سے چھوٹی لغزش اور بڑے سے بڑے گناہ پر ظلم کا اطلاق ہوتا ہے تا ہم اس مقام پر ظلم سے مراد کفر اور شرک کا ارتکاب ہے۔ جو لوگ اللہ کی توحید ، رسول کی رسالت ، معاد اور حشر نشر کا انکار کرتے ہیں۔ وہ ظالموں کی فہرست میں آتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا جس کسی نے بھی ظلم کیا ہو وہ اگر زمین بھی کی چیزیں بھی فدیہ میں دے کر اپنی جان عذاب الٰہی سے چھڑانا چاہے گا تو ایسا نہیں کرسکے گا۔ اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ پوری زمین کا مال و دولت ، اس کے دفینے اور خزینے کسی ایک شخص کی ملکیت میں آجائیں۔ اور اگر بفرض محال اگر ایسا ہو بھی جائے اور وہ شخص یہ سب کچھ اپنی جان کے بدلے قربان کرنا چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ ہر شخص کو اس دنیا میں کردہ اعمال کا خمیازہ بہرحال بھگتنا ہوگا ، اور اس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، سورة مائدہ میں ہے (آیت) ” لو ان لھم ما فی الارض جمیعا و مثلہ معہ “ یعنی زمین بھرے سے ڈبل مال بھی ان کے پاس ہو (آیت) ” ما تقبل منھم “ پھر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ دنیا میں کسی جرم سے بچ نکلنے کے کئی راستے ہیں۔ کہیں سفارش ہے ، کہیں رشوت ہے ، کہیں طاقت کے بل پر جیلیں توڑ دی جاتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی عدالت میں ایسا کوئی حربہ کار گر نہیں ہوگا ظلم کرنے والے ضرور پکڑے جائیں گے اور مبتلائے عذاب ہوں گے اگر لوگ اس دائمی عذاب سے بچنا چاہتے ہیں ، تو انہیں چاہیے کہ اسی دنیا میں ایمان لے آئیں۔ ظلم وتعدی سے توبہ کرلیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر کاربند ہوجائیں ، اس طرح وہ آخرت کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔ بعد از وقت ندامت فرمایا اللہ کے دربار میں ظلم کرنے والوں کی حالت یہ ہوگی (آیت) ” واسروا الندمۃ لما راوالعذاب “ جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو پھر اپنی ندامت کو چھپانے کی کوشش کریں گے اس دنیا میں تو بڑے طمطراق سے رہتے تھے اور ظلم و زیادتی کرتے وقت کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر حشر کے میدان میں جب مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تو پھر اپنے نوکر چاکروں ، ملازموں ، ماتحتوں واقف کاروں اور گھر والوں سے شرمسار ہوں گے کہ وہاں تو ہم ان پر حکومت کرتے تھے مگر آج انہی کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔ اس وقت وہ اپنے دل میں نادم ہوں گے اور اس ندامت کو چھپانے کی کوشش کریں گے مگر مفسرین فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا عذاب شروع ہوجاتا ہے تو پھر ندامت کو چھپانے کا موقع بھی نہیں ملتا ، سب کچھ ظاہر ہوجاتا ہے اس وقت پھر لوگ چیخ و پکار بھی کریں گے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں اسر کا لفظ دو متضاد معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس لفظ کا معنی چھپانا بھی ہے اور ظاہر کرنا بھی تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب مجرم لوگوں کے سامنے فرد جرم رکھ دی جائے گی تو اس وقت بڑا واویلا کریں گے اپنے کئے پر پچھتائیں گے اور اپنی ندامت کا کھلے عام اظہار کریں گے کہ ہم نے دنیا میں بہت برا کیا مگر وہاں چھٹکارے کے کوئی صورت نہیں ہوگی۔ غرضیکہ ندامت کو چھپانایا ظاہر کرنا ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ اگر اس دنیا میں توبہ کرلیتے تو معافی مل جاتی مستقبل روشن ہوجاتا مگر قیامت کے دن صدق دل سے معافی بھی کارآمد نہیں ہوگی۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے ” التوبۃ الندم “ ندامت توبہ ہی ہے۔ مگر توبہ کا تعلق اس دنیا سے ہے۔ وہاں اخلاص کے ساتھ کی ہوئی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی ، کیونکہ توبہ کا وقت گزر چکا ہوگا۔ حق کا فیصلہ فرمایا جب عذاب کو دیکھیں گے تو ندامت کو چھپائیں گے یا ظاہر کریں گے (آیت) ” وقضی بینھم بالقسط “ اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا (آیت) ” وھم لا یظلمون “ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جائیگی۔ ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا۔ نہ کسی کا عمل دوسرے پر ڈال جائیگا اور نہ کسی کو ناکردہ گناہ میں پکڑا جائے گا۔ اللہ کی بارگاہ میں بالکل حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا۔ عارضی اور حقیقی ملکیت فرمایا (آیت) ” الا ان للہ ما فی السموت والارض “ سنو ! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب کا سب اللہ کا ہے۔ ہر چیز اس کی پیدا کردہ ہے اور وہی اس کا مالک ہے۔ تاہم اس نے اپنی رحمت سے بعض چیزوں کو عارضی طور پر بندوں کی ملکیت میں دیدیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کے استعمال کے لیے اپنا حق ملکیت استعمال کرسکیں ۔ انہیں حلال حرام اور جائز ناجائز سے مطلع کردیا گیا ہے اور خبردار کردیا گیا کہ تم ان چیزوں کے حقیقی مالک نہیں ہو بلکہ حقیقی مالک خداوند تعالیٰ ہے جس کے احکا م کے مطابق تم نے تصرف کرنا ہے۔ جیسا کہ غلاموں کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے خادم ہیں۔ اللہ نے کسی وجہ سے انہیں تمہارے سپرد کیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان کے حقیقی مالک ہو ار ان کے معبود بن گئے ہو ، غرضیکہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک تو اللہ رب العزت ہی ہے مگر اس نے انسانوں کو عارضی مالک بنایا ہے۔ اگر بندے اللہ کے وضع کردہ اصول و ضوابط کے مطابق کام کریں گے تو ٹھیک رہیںٰ گے ورنہ اللہ کے باغی بن جائیں گے اور پھر آخرت میں انہیں اپنے اعمال کی سخت جو ابداہی کرنا ہوگی۔ جب ہر چیز خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے تو عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایاجائے۔ فرمایا (آیت) ” الا ان وعداللہ حق “ خوب سن لو ، اللہ تعالیٰ کا وعدہ بالکل برحق ہے۔ قیامت ضرور برپا ہوگی اور انسانوں سے باز پرس بھی لازمی ہوگی۔ اور پھر ہر ایک کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ بھی دیا جائے گا۔ لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ برائی سے بچیں (آیت) ” ولکن اکثرھم لا یعلمون “ مگر لوگوں کی اکثریت بےسمجھ ہے۔ انہیں اس بات کا شور ہی نہیں کہ جب مالک الملک خدا تعالیٰ ہے تو پھر غیروں کی پرستش کیسی ؟ ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا کیا معنی ؟ مگر لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر کفر ، شرک اور معاصی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ زندگی اور موت فرمایا یادرکھو ! کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے (آیت) ” ھو یحییٰ ویمیت “ زندگی بھی وہی عطا کرتا ہے ، کوئی حکیم ، ڈاکٹر ، سائنس دان کسی کو زندگی عطا نہیں کرسکتا وہ الحی یعنی حیات کا مالک ہے جس کو جتنی چاہے زندگی عطا کردے اور موت بھی اسی کے اختیار میں ہے جب چاہتا ہے کسی کو موت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ یہ بات تمام انسان تسلیم کرتے ہیں کہ موت کے اسباب اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دراصل موت بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اور زندگی بھی وہی دیتا ہے۔ بعض لوگ موت اور زندگی کو دو مختلف ذاتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہندو مشرکین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جن کے عقیدے کے مطابق برہما جی پیدا کرتے ہیں اور وشنو جی موت دیتے ہیں۔ یونانی اور بعض دوسرے مشرک بھی اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پیدا کرنے والا ، تھامنے والا اور مارنے والا مختلف معبود ہیں ، حالانکہ اللہ نے فرمایا (آیت) ” ھو الحی القیوم “ (البقر) زندگی عطا کرنے والا بھی ہے ۔ مارنے والا بھی وہی ہے اور ہر چیز کو قائم کرنے والا بھی وہی ہے۔ فرمایا (آیت) ” والیہ ترجعون “ تم سب کو اسی طرلوٹ کر جانا ہے۔ سب اسی خدا کے سامنے پیش ہو گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جواب دہی کرو گے۔ اگر یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو پھر کفر اور شرک کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خالص توحید آجائے گی۔ تمہارا عقیدہ درست ہوجائے گا اور پھر تم قیامت کے دن سرخرو ہو جائو گے۔
Top