Mualim-ul-Irfan - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اے لوگو ! تحقیق آچکی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے پروردگار کی طرف سے اور شفا اس کیک لیے جو سینوں میں (روگ) ہے۔ اور ہدایت اور رحمت والوں کے لیے
ربط آیات اس سے پہلے توحید و رسالت کا ذکر اور قرآن پاک کی حقانیت وصداقت کا بیان ہوچکا ہے۔ دراصل اس سورة کا مرکزی مضمون دعوت الی القرآن ہے۔ اس بات کا ذکر سورة کی ابتدائی آیت میں ہوا۔ پھر دوسری بار قرآن حکیم کا تذکرہ مشرکین کے اس مطالبے کے جواب میں ہوا جس میں وہ قرآن کو تبدیل کردینے کی فرمائش کرتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کی زبان سے یہ دلوایا کہ قرآن پاک کو تبدیل کرنے یا اس میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کا اختیار میرے پاس نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے جو اپنے حکمت اور مصلحت کے مطابق جب چاہے کسی حکم کو تبدیل کر دے یا منسوخ کردے۔ اب آج کے درس میں قرآن کریم کا ذکر تیسری مرتبہ آرہا ہے جس میں اس کی چار صفات بیان کی گی ہیں یعنی موعظت (نصیحت) بیمار دلوں کے لیے شفا ، ہدایت اور رحمت۔ (1) موعظت ارشا ہوتا ہے (آیت) ” یایھا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم “ اے لوگو ! تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت آچکی ہے۔ موعظت وعظ اور نصیحت پر عمل پیرا ہوگا ، وہ برائی سے بچ جائے گا۔ ا س طرح قرآن پاک ناشائشہ باتوں کی چھڑا دیتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) وعظ ونصیحت کی تعریف میں لکھتے ہیں (1۔ الخیر الکثیر ، ص 76) قھر المدارک الظلمانیۃ بانوار المعارف القدسانیۃ وعظ انسان کے دل و دماغ سے تاریکی والے تمام مادوں کو دور کرکے اسے پاکیزہ انوار کے ساتھ منور کردیتا ہے۔ غرضیکہ قرآن کریم کی پہلی صفت یہ فرمائی کہ یہ موعظت ہے۔ تبلیغ دین کے لیے بھی فرمایا (آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ “ اللہ کی طرف حکمت اور اچھی موعظت کے ساتھ دعوت دی۔ (2) شفا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی دوسری صفت کے متعلق فرمایا (آیت) ” و شفاء لما فی الصدور “ یہ دلوں کی بیماریوں کے لیے بمنزلہ شفا کے ہے پہلی صفت موعظت کا تعلق انسان کے ظاہر سے تھا کہ وہ انسان کے ناجائز افعال کو جائز میں بدل دیتی ہے اور اب اس دوسری صفت شفاء کا تعلق باطن سے ہے۔ انسان کو باطنی بیماریوں سے پاک کرنا قرآن کا خاص موضوع ہے۔ چناچہ اللہ کی یہ مقدس کتاب کفر ، شرک ، نفاق حسد ، کینہ ، تکبر اور بدعقیدگی جیسی روحانی بیماریوں کو شفا بخشتی ہے۔ انسان کو روحانی بیماریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ جسمانی بیماریوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں کا علاج قرآن پاک میں ہے۔ جو شخص قرآن پاک کے فرمودات پر عمل کریگا وہ اعتقادی اور اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا ، اسی لیے فرمایا کہ یہ ان بیماریوں کے لیے شفا ہے جو لوگوں کے دلوں میں جا گزیں ہوتی ہیں۔ یہاں پر ظاہری بیماریوں کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ بالطبع ایسا ہی ہوجاتا ہے کہ قرآن پاک کی کوئی آیت پڑھ کر پھونک ما دی جائے تو اللہ تعالیٰ ظاہری بیماری سے بھی شفا عطا کردیتا ہے ، مگر یہ قرآن کا موضوع نہیں ہے بلکہ ایک زائد چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک کی برکت سے ظاہر بیماریوں کو بھی دور کردیتا ہے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے ” علیکم بالشفائین “ یعنی اپنے اوپر دوشفائوں کو لازم پکڑو۔ یعنی دو چیزیں باعث شفا ہیں ” العسل والقرآن “ ایک شہد اور دوسری قرآن۔ مکھی کے پیٹ سے نکلنے والی شہد کے متعلق سورة نحل میں ہے (آیت) ” فیہ شفاء للناس “ اس میں لوگوں کے لیے اللہ نے شطاء رکھی ہے قرآن پاک کے لیے شفا کا لفظ اس آیت میں بھی آیا ہے اور اس کے علاوہ سورة بنی اسرائیل اور سورة حم سجدہ میں بھی آتا ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی سعادت اس بات میں ہے کہ اس کا عقیدہ پاک ہو اور اس کا کمال اس میں ہے کہ اسے اعمال صالحہ حاصل ہوں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” ولکل درجٰت مماعملوا “ (الاحقاف) تمام درجات اعمال کی بدولت ہی نصیب ہوتے ہیں۔ اگر انسان کا عقیدہ پاک نہیں ہوگا تو نہ کوئی عمل مقبول ہوگا اور نہ اسے درجات نصیب ہوں گے۔ ایسا شخص شقی ہوگا ، سعادت مند نہیں ہوسکتا۔ تو گویا قرآن انسان کو ناشائشہ افعال سے روکتا ہے اور پاکیزہ عقائد کی تلقین کرتا ہے۔ فاسد اعتقادات کو دل سے نکال دو ، یہ روحانی بیماری ہے جس کے لیے قرآن پاک بمنزلہ شفا ہے۔ (3) ہدایت اللہ نے قرآن کی تیسری صفت (آیت) ” وھدی “ یعنی ہدایت کا ذکر کیا ہے باطنی بیماریوں کو دور کر کے ان کی جگہ سچے اعتقادات اور پاکیزہ اخلاق کو جگہ دینا ہدایت میں شامل ہے۔ اسی لیے بزرگان دین تخلیہ اور تجلیہ کا درس دیتے ہیں جس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اپنے دل و دماغ سے گندی چیزوں کو نکال دے اور پاکیزہ چیزوں کو جمع کرلے۔ پاکیزہ عقائد میں اللہ تعالیٰ کی توحید ، ایمان ، اخلاص ، اللہ کی کتاب ، ملائکہ ، معاد ، جنت ، دوزخ اور اس کی صفات پر کامل یقین شامل ہیں اور یہی چیز ہدایت کے نام سے موسوم ہے۔ اسی ہدایت کے حصول کے لیے دعا کرتے ہیں (آیت) ” اھدنا الصراط المستقیم “ اے اللہ ! ہمارے لیے ہدایت کے راستے کھول دے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی جواب میں اپنی پاک کتاب کو پیش کر کے فرماتا ہے (آیت) ” ھدی للمتقین “ یہ ہدایت پرہیزگاروں کے لیے ہے زندگی کے کسی موڑ پر بھی ہدایت کی ضرورت ہو ، قرآن پاک راہنمائی کرے گا۔ قرآن پاک میں تمام بڑے بڑے اصول بیان کردیے گئے ہیں جن کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کے تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ (4) رحمت چوتھی صفت (آیت) ” ورحمۃ للمومنین ‘ ‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب انسان اپنے باطن کو تمام رذائل سے پاک کرلیتا ہے اور گندے عقیدوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ کفر ، شرک اور نفاق کو چھوڑ کر اپنے اندر اعلی اخلاق کو جمع کرلیتا ہے۔ اسی طرح اپنے ظاہر کو تمام ناشائستہ افعال سے بچا لیتا ہے اور اعمال حسنہ کو اختیار کرلیتا ہے تو وہ ہدایت کے راستے پر چل نکلتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال ہوجاتی ہے گویا موعظت ، شفا اور ہدایت کا نتیجہ رحمت کو صورت میں نکلتا ہے جب تک ان تین چیزوں پر گامز ن نہیں ہوتا وہ رحمت خداوندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ امام رازی (رح) اور بعض دیگر مفسرین کرام اس آیت میں آمدہ چاروں صفات قرآنی کی تعبیر اس طرح بھی کرتے ہیں کہ موعظت سے مراد شریعت ہے۔ شفا کو طریقت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ، ہدایت کو حقیقت کے معانی میں لیا گیا ہے اور رحمت کو نبوت اور خلافت کو عنوان دیا گیا ہے اس کے بعد بزرگان دین کے چار طریقے نقشبندی ، سہروردی ، قادری اور چشتی ہیں۔ شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ یہ چار طریقے ایسے ہیں ہیں جیسے ائمہ اربعہ کے چار مسلک۔ ان چاروں مسلکوں میں تھوڑا بہت اختلاف بھی ہے مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے ، یہ چاروں برحق ہیں اور فروعات میں کلام کرتے ہیں۔ ان کے متوازی بزرگان دین کے یہ چار سلسلے انسان کے باطنی تزکیہ پر کلام کرتے ہیں۔ اگر خود مذہب والے یا مسلک والے کسی چیز کو بگا ڑ دیں تو اس سے مذہب کی حقانیت پر تو کر ئی حرف نہیں آتا۔ وہ تو بہرحال طریق کار ہے جو اس پر عمل کریگا۔ کامیاب ہوگا۔ بہرحال مقصد یہی ہے کہ انسان سے رذیل خصائل ختم ہو کر پاکیزہ اعمال واخلاق پیدا ہوجائیں۔ الغرض ! قرآن پاک ایک بہت بڑی حقیقت ہے ، اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت آچکی ہے۔ یہ بیمار دلوں کے لیے شفا ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کے لیے ہدایت ہے اور اہل ایمان کے لیے باعث رحمت ہے۔ فضل ورحمت خداوندی پھر فرمایا اے پیغمبر ! (آیت) ” قل بفضل اللہ وبرحمتہ “ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کے ساتھ (آیت) ” فبذلک فلیفرحوا “ پس اس کے ساتھ چاہیے کہ وہ خوش ہوجائیں۔ قرآن کریم اور ہدایت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اور اچھا انسان وہی ہے جو فضل الٰہی کا طلب گار ہو۔ چناچہ حضور ﷺ نے دعا سکھائی ہے ” اللھم انی اسئلک من فضلک ورحمتک “ اے اللہ میں تیرے فضل اور تیری رحمت کا طالب ہوں ، یہ چیزیں قرآن پاک کی معرفت حاصل ہوتی ہیں اور جسے حاصل ہوجائیں اسے خوش ہونا چاہیے۔ فرمایا (آیت) ” ھو خیر مما یجمعون ‘ یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جنہیں انسان زندگی بھر اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ نادان لوگ دنیا کے حقیر مال و دولت پر دندناتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں چند دن کے بعد ختم ہوجانے والی ہیں اور اس کے بعد طالبان دنیا سخت تکلیف میں مبتلا ہوں گے۔ مگر قرآن پاک اور ہدایت کی بدولت انسان کو ابدی راحت حاسل ہوجائے گی ، سو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے کے ساتھ انسان کو خوش ہوجانا چاہیے ، قرآن کریم کے ساتھ خوش ہوجانا چاہیے اور پھر اس کی تعلیم حاصل کر کے نصیحت ، شفا ، ہدایت اور رحمت کا مصداق بننا چاہیے ہمارا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم قرآن پاک سے محبت کریں۔ اس کی نصیحت پر عمل پیرا ہو کر اس کے بتلائے ہوئے طریقے سے تخلیہ اور تجلیہ حاصل کریں ہمارے باطن سے تمام بیماریاں دور ہوجائیں اور ہم میں شائستگی آجائے اسی لیے فرمایا کہ یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ لوگ دنیا میں اکٹھا کرتے ہیں۔
Top