Mualim-ul-Irfan - Yunus : 61
وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ١ؕ وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا تَكُوْنُ : اور نہیں ہوتے تم فِيْ شَاْنٍ : کسی حال میں وَّمَا تَتْلُوْا : اور نہیں پڑھتے مِنْهُ : اس سے مِنْ : سے۔ کچھ قُرْاٰنٍ : قرآن وَّلَا تَعْمَلُوْنَ : اور نہیں کرتے مِنْ عَمَلٍ : کوئی عمل اِلَّا : مگر كُنَّا : ہم ہوتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر شُهُوْدًا : گواہ اِذْ تُفِيْضُوْنَ : جب تم مشغول ہوتے ہو فِيْهِ : اس میں وَمَا يَعْزُبُ : اور نہیں غائب عَنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے مِّثْقَالِ : برابر ذَرَّةٍ : ایک ذرہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں وَلَآ : اور نہ اَصْغَرَ : چھوٹا مِنْ : سے ذٰلِكَ : اس وَلَآ : اور نہ اَكْبَرَ : بڑا اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : کتاب روشن
اور نہیں ہوتے آپ کسی حال میں اور نہیں پڑھتے آپ اس حال میں قرآن اور نہیں عمل کرتے آپ کوئی عمل مگر ہم ہوتے ہیں اس کام میں۔ اور نہیں غائب تیرے رب سے مقدار ایک ذرے کے زمین میں اور نہ آسمان میں ، نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز اور نہ بڑی مگر وہ کتاب مبین میں ہے
ربط آیات یہ بھی دراصل توحید کے اثبات اور مشرکین کے رد کا بیان ہے۔ اس سے پہلے اللہ نے قرآن کریم کے اوصاف بیان کیے قرآن پاک کے پروگرام کے علاوہ اپنے گمان محض اور ناقص عقل سے حلت و حرمت کے حکم لگانے کی مذمت بیان فرمائی۔ ایسے لوگوں کی سزا کے متعلق اللہ نے اشارۃ فرمایا کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ قیامت والے دن ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ اب آج کے درس میں اللہ نے اپنے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کی تعریف بیان کی ہے آپ کے پیروکاروں کا بھی ضمنا ذکر کیا گیا ہے۔ نظر خداوندی ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” وما تکون فی شان “ اور نہیں ہوتے آپ کسی حال میں (آیت) ” وما تتلوا منہ من قران ‘ ‘ اور آپ نہیں پڑھتے اس حال میں قرآن پاک (آیت) ” ولا تعملون من عمل “ اور نہیں انجام دیتے کوئی عمل (آیت) ” الا کنا علیکم شھودا اذ تفیضون فیہ “ مگر یہ کہ ہم آپ کے پاس موجود ہوتے ہیں جب آپ کسی کام میں مصرف ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تعریف میں فرمایا ہے کہ آپ جس حالت میں بھی ہوں ، قرآن پاک کی تلاوت کر کے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دے رہے ہوں یا کوئی دوسرا نیکی کا کام کر رہے ہوں نماز پڑھ رہے ہوں یا غرباء و مساکین کی اعانت کر رہے ہوں ، ہم ہر حالت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کے کاموں کو دیکھتے ہیں۔ تبلیغ دین کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کر رہے ہوں یا خود اپنی وفاداری اور عجز و انکساری اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کر رہے ہوں ، ہم کسی حال میں بھی آپ سے جدا نہیں ہوتے بلکہ آپ کا ہر کام ہماری نگاہ میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو حاضر وناظر ہے اور وہ ہر شخص کے اعمال کو دیکھ رہا ہے کہ کوئی شخص کس قسم کا کام ، کس نیت اور ارادے سے کر رہا ہے۔ اچھا کام کر رہا ہے یا برائی کی طرف راغب ہے ، خلوص کے ساتھ انجام دے رہا ہے یا اس پر ریاکاری کا غلبہ ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگ توحید پر کاربند ہیں یا شرک میں ملوث ہوچکے ہیں۔ انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں یا ان کی اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کی تکذیب کر رہے ہیں۔ شرائع الٰہی پر عمل پیرا ہیں یا حیلے بہانے سے اس کے احکام کو ٹال رہے ہیں۔ فرمایا جب یہ سب کچھ واضح ہے تو پھر انسان کے لیے کسی طور پر مناسب نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کے سامنے اپنی حاجات پیش کرے اور مشکل کشائی کے لیے اغیار کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آیت کی ابتداء میں صیغہ واحد مخاطب استعمال ہوا ہے (آیت) ” (تکون) “ جب کہ آگے (آیت) ” تعملون “ میں صیغہ جمع مخاطب آیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ دونوں صیغوں میں حضور کی ذات مبارک ہی مراد ہے تا ہم بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جمع مخاطب کا صیغہ استعمال کر کے حضور ﷺ کے ساتھ آپ کی امت کے لوگوں کو بھی شامل کرلیا ہے کہ تم سب لوگ جو بھی کام کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہوتے ہیں۔ علم خداوندی آگے اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے انداز میں اس طرح بیان فرمایا (آیت) ” وما یعذب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السمائ “ اور نہیں غائب ہوتی آپ کے پروردگار سے ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں۔ ذرہ چیونٹی کو بھی کہا جاتا ہے ، اور ان باریک حباب کو بھی جو روشندان سے آنیوالی دھوپ میں نظر آتے ہیں مطلب یہی ہے کہ کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی رب العزت سے مخفی نہیں ہے بلکہ سب کچھ اس کے علم میں ہے ، یہاں پر زمین کا ذکر آسمان سے پہلے کیا گیا ہے ، حالانکہ اکثر مقامات پر آسمان کا تذکرہ پہلے آتا ہے زمین کا ذکر اس لیے پہلے کیا گیا ہے کہ اللہ نے پہلے ارضی حالات بھی بیان فرمائے ہیں۔ بہرحال آسمان کو زمین پر فوقیت حاصل ہے۔ تو فرمایا کہ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یہ اس کی صفت کمال ہے۔ توحید کو جھٹلانے والے ، قیامت کا انکار کرنے والے ، نبوت و رسالت میں شک کرنے والے سب اللہ کی نگاہ میں ہیں۔ اللہ ان سب کے حال کو جانتا ہے ، پھر وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ زمین وآسمان کی چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” ولا اصغر من ذلک ولا اکبر الا فی کتب مبین “ اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر وہ کتاب مبین میں موجود ہے پہلے فرمایا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور کوئی چیز اس سے غائب نہیں۔ اب فرمایا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا اندراج کتاب مبین یعنی لوح محفوظ میں موجود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اس کا نمونہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ بہرحال پوری آیت کریمہ کا لب لباب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اور بندوں کا کوئی کردار اس کی نظروں سے اوجھل نہیں اور وہ اس علم کے مطابق سزا اور جزا کا فیصلہ کریگا۔ اولیاء اللہ کے مناقب آگے اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت کو ماننے والوں کی تعریف بیان فرمائی ہے (آیت) ” الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “ بیشک اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ خوف مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی بنا پر ہوتا ہے۔ جب کہ غم کا تعلق ماضی کے واقعات سے ہوتا ہے۔ قیامت کے دن ساری مخلوق شدت کی تلخی میں مبتلا ہوگی۔ انہیں حساب کتاب اور اس کے نتیجے می آخری فیصلے پر سخت تشویش اور خوف ہوگا کہ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ مگر جو اللہ کے دوست ہیں ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ اپنے مستقبل کے متعلق پر امید ہون گے۔ اللہ کے ایسے بندوں نے اس زندگی کے لمحات بھی خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کے احکام کی تعمیل میں گزارے ہوں گے ، اس لیے سابقہ زندگی پر بھی انہیں کوئی حسرت یا غم نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں کو قیامت کے سخت ترین دن میں بھی امن حاصل ہوگا جو ان کی کامیابی کی دلیل ہوگا۔ آگے وضاحت فرمائی کہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں (آیت) ” الذین امنوا “ وہ جو ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات ، ملائکہ ، انبیاء قیامت کو برحق جانا (آیت) ” وکانوا یتقون “ اور انہیں نے اس دنیا میں تقوی کی راہ اختیار کی ، برائی سے بچتے رہے اور نیکی کو اختیار کرتے رہے۔ اللہ کے دوست ایسے ہی لوگ ہیں۔ سورة بقرہ میں فرمایا (آیت) ” اللہ ولی الذین امنوا ‘ اہل ایمان کا ولی ، کارساز اور دوست اللہ ہی ہے چناچہ اس تعریف کے مطابق ہر صاحب ایمان آدمی اللہ کا ولی ہے تا ہم اصلاحا ولی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس میں اعلی درجے کی صفات پائی جائیں۔ یعنی وہ صرف ایماندار ہو بلکہ اعلیٰ اخلاق وکردار کا حامل بھی ہو۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ سو پچاس روپے کا مالک بھی مالدار ہی ہوتا ہے مگر اس کو عام طور پر مالدار نہیں سمجھا جاتا بلکہ اصطلاح میں مالدار وہ شخص ہوتا ہے جو لاکھ دو لاکھ روپے کا مالک ہو۔ اسی طرح اہل ایمان اللہ کا ولی ہے مگر اصطلاحا ولی وہ ہے جس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے ” لیس علی اھل لا الہ الا اللہ وحشۃ “ یعنی کلمہ طیبہ پر ایمان رکھنے والوں پر قیامت کے دن وحشت طاری نہیں ہوگی ، وہ قبروں سے مٹی جھٹکتے ہوئے اٹھیں گے ، قیامت کی شدید ترین تلخیوں میں بھی کسی نہ کسی درجے میں سکون حاصل ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ کے ولی وہ ہیں جو ایمان کی تمام جزئیات پر قائم رہے اور تقوی کی راہ اختیار کی یعنی حدود شرع کا احترام کرتے ہوئے کفر ، شرک ، نفاق ، تمام معاصی سے بچتے رہے۔ ولایت کا غلط تصور عام لوگوں کے ہاں ولی کا غلط تصور پایا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ولی وہ ہوسکتا ہے جس کے ہاتھ پر کرامات ظاہر ہوں حالانکہ شیخ شہاب الدین سہروردی (رح) کتاب المریدین میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے ولی کا معیار کرامت نہیں بلکہ ایمان اور اتباع سنت ہے۔ اگر کوئی آدمی ہوا میں اڑتا ہوا نظر آئے لیکن سنت کے خلاف کرتا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ شیطان کا ساتھی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر نانگا۔ بھنگ پینے والا ، سوٹے لگانے والا ، بےنماز اور طہارت سے بےنیاز ولی ہوتا ہے یا کرامت دکھانے والا ولی اللہ ہوتا ہے بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ بزرگان دین تو کہتے ہیں کہ جو شخص کرامت دکھانے کی کوشش کرے ، سمجھو کہ اس کو حیض آگیا ہے یعنی ناپاک ہوگیا ہے۔ اس میں غرور وتکبر کا مادہ سرایت کر گیا ہے جس کی وجہ سے وہ کرامت ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور غرور ایسی چیز ہے جو انسان کی فکر کو ناپاک بنا دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرامت ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، وہ جب چاہتا ہے کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر کردیتا ہے۔ اس میں ولی کا کچھ اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی خواہش ہوتی ہے۔ ولی کا کام تو ایمان لانا اور نیکی کرنا ہوتا ہے۔ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول کا متبع ہوتا ہے۔ ولایت کی یہی نشانی ہے۔ مرنے کے بعد قبرکا بڑی یا پختہ ہونا ، اس پر گنبد بنانا اور نقش ونگار بنانا ، اس پر عرس منانا ، ڈھول بجانا یا روشنی کرنا ولایت کی علامت ہرگز نہیں ، اللہ کا ولی وہ ہوگا جو روحانی بیماریوں سے پاک ہوگا ، اللہ کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت کرنے والا ہوگا۔ ولی کی پہچان حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ ولایت کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے اچھے لوگوں کی مجلس نصیب ہو۔ ایسی مجلس سے اللہ کی محبت ، عقیدے کی پاکیزگی ، دنیا کی ناپائیداری اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ، کہ ان کے استاد مکرم کی مجلس میں اگر کوئی شخص ہزار مرتبہ بھی آتا تھا تو ہر مرتبہ اپنے آپ کو حقیر تر ہی سمجھتا تھا۔ یہ اس مجلس کا اثر ہوتا تھا کہ ہر وقت اپنی کوتاہیوں پر نظر ہوتی تھی ، اس لیے وہ اپنے آپ کو مخلوق کا حقیر ترین انسان سمجھتا تھا۔ حضرت پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ ولایت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ کے ولی کون ہیں تو آپ نے فرمایا ” اذا رائو ، ذکر اللہ “ کہ اللہ کے ولی وہ ہیں کہ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو دیکھ کر دنیا کا مال و دولت بلڈنگز ، کارخانے ، جاہ واقتدار اور ٹھاٹ باٹ یاد آئے وہ اللہ کے ولی نہیں ہو سکتے۔ اللہ کے ولی تو وہ ہیں جو غرور تکبر سے پاک ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے ” لا تری نفسک خیرا من احد “ اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھے۔ اپنے آپ کو سب سے کمتر سمجھے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی شخص عارف یا کامل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آپ کو انگریز کافر سے بھی کم تر نہ سمجھے۔ شیخ سعدی (رح) کے زمانے سے لے کر حالات پڑھ لیں ، انگریز بڑے سنگدل واقع ہوئے ہیں۔ انگریز برطانوی ہوں یا امریکی ، یورپی ہوں یا روسی یہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ا ن کے ہاتھ میں پراپیگنڈا کی مشین ہے وہ غلط طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بنا کر پیش کیا جا رہے ہے۔ لوگوں پر بےانتہا مظالم ڈھاتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) اپنی انکساری کو اس طرح بیان کرتے ہیں زمن دارد سگ نصرانیاں عار کہ اواست بےگناہ ومن گنہگار مجھ سے تو عیسائیوں کا کتا بھی شرم رکھتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے اور میں گنہگار ہوں۔ حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی (رح) فرماتے ہیں کہ حقیقت میں انسان سے جب تکبر ختم ہوجاتا ہے تو ولایت آجاتی ہے ، نیکی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب غرور نہ ہو کیونکہ غرور کی وجہ سے لوگ حکم خداوندی کے سامنے اکڑتے ہیں اور سنت کے اتباع سے اعراض کرتے ہیں۔ سلف صالحین کا اسوہ ہمارے سامنے ہے انہوں نے عجزوانکساری کی بدولت ہی اعلی مراتب پائے۔ اولیاء اللہ کے لیے بشارت فرمایا اللہ کی ولی وہ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی کی راہ اختیار کی۔ (آیت) ” لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرہ “ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اس دنیا میں جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اللہ کے فرشتے ان کو بشارت سناتے ہیں اور ان پر استقامت نازل ہوتی ہے۔ معاملہ تو استقامت سے بنتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) فرماتے ہیں ” اطلبوا الاستقامۃ فنا لاستقامۃ فوق الکرامۃ “ دین پر استقامت طلب کرو کیونکہ استقامت کرامت سے بھی اعلی چیز ہے جب انسان میں استقامت آتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی دستگیری فرماتے ہے اور نیکی کی مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ تو فرمایا ان کو دنیا اور آخرت میں بشارت ہوگی ، اللہ کے وعدے سچے ہیں (آیت) ” لا تبدیل لکمٰت اللہ “ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ، وہ ضرور پورے ہو کر رہتے ہیں۔ فرمایا جسے استقامت حاصل ہوگئی اسے دنیا اور آخرت کی بشارت مل لگی (آیت) ” ذلک ھو الفوز العظیم “ اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایسا شخص اللہ کی رحمت کے مقام میں پہنچ گیا اولیاء اللہ کا یہی مقام ہے۔ پیغمبر اسلام کے لیے تسلی آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور دیگر اہل ایمان کو تسلی دی ہے (آیت) ” ولا یحزنک قولھم “ ان کافرون ، مشرکون اور نافرمانوں کی بات آپ کو غم میں نہ ڈالے کیونکہ (آیت) ” ان العزۃ للہ جمیعا “ عزت تو ساری کی ساری اللہ کے لیے ہے آپ بددل نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا مشن غالب بنائے گا اور آپ کو عزت دے گا۔ کافروں اور مشرکوں کا مشن بالآخر مغلوب ہو کر رہے گا۔ وہ ذلیل و خوار ہوں گے اور آپ کامیاب وکامران ، لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس مال و دولت ، جاہ واقتدار آجائے تو وہ عزت والے بن جائیں گے۔ نہیں بلکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہ جسے چاہے اور جب چاہے عطا کر دے ، یہ تو اس کے اختیار میں ہے ، لہٰذا آپ پریشان نہ ہو (آیت) ” ھو السمیع العلیم “ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا ہے اور ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے اور وہ اپنی حکمت کے مطابق ہر چیز کا فیصلہ کرے گا۔ گمان کی پیروی فرمایا (آیت) ” الا ان للہ من فی السموت ومن فی الارض “ سنو ! بیشک اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے لہٰذا اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسی کی وحدانیت کو تسلیم کرنا چاہیے اسی سے ہدایت طلب کرنی چاہیے۔ اسی کی کتاب سے پروگرام اخذ کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کے نبی کا بسر وچشم اتباع کرنا چاہیے۔ جب آسمان و زمین کی ہر چیز کا خالق ومالک اللہ ہے اور ہر چیز اسی کے تصرف میں ہے تو فرمایا (آیت) ” وما یتبع الذین یدعون من دون اللہ شرکائ “ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو شریک بناتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں۔ ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کی امید رکھتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کی مشکلات سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کی مشکلات دور کریں تو فرمایا کہ جو لوگ پکارتے ہیں اللہ کے سوا دوسروں کو شریک (آیت) ” ان یتبعون الا الظن “ وہ نہیں اتباع کرتے مگر گمنا کا۔ واقع میں تو خدا تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے مگر انہوں نے اپنے گمان سے خدا کے شریک بنا رکھے ہیں ۔ ان لوگوں کو شیطان نے بہکا دیا ہے ، اور انہوں نے اپنے معبود بنا رکھے ہیں۔ کوئی قبروں سے مدد مانگ رہا ہے اور کوئی شمس وقمر سے ، کوئی ملائکہ کو پکار رہا ہے تو کوئی جنات سے حاجت طلب کر رہا ہے۔ کوئی زندوں سے حاجت براری کر رہا ہے اور کوئی مردوں سے۔ یہ سب شیطان کا بہکاو ا اور محض گمان کی پیروی ہے حقیقت یہ ہے کہ خالق ، مالک ، متصرف فی الامور ، مربی ، نافع ، ضار ، علیم کل اور قادر مطلق تو خدا تعالیٰ ہے۔ زندگی اور موت ، عروج وزوال اور بیماری اور تندرستی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ دوسروں کو کیوں شریک بنائے بیٹھے ہیں۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ہی فدا ہونا چاہیے۔ شرک و بدعت کے تمام طریقے گمان کی پیروی ہے ، اور پہلے اسی سورة میں گزر چکا ہے (آیت) ” ان الظن لا یغنی من الحق شیئا “ حق کے مقابلے میں گمان کچھ مفید نہیں ہوسکتا ، عقیدہ اٹل ہونا چاہیے ، اور اس میں وہم و گمان کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مشرک لوگ محض گمان کے پیچھے چلتے ہیں ، ان کے عقیدے کی بنیاد سنی سنائی باتیں اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ فلان نے قبر پر چڑھاوا چڑھایا تو اس کی فلان مشکل حل ہوگئی ، لہٰذا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ فرمایا (آیت) ” وان ھم الا یخرصون “ نہیں ہیں یہ لوگ مگر اٹکل دوڑاتے محض اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں وگرنہ حقیقت کچھ نہیں۔ یہ شرک کرنے والوں کا رد ہوگیا۔ نبی آخر الزمان کی صفات بیان ہوئیں۔ ا ولیا اللہ کے فضائل ذکر کئے گئے اور شرک کی برائی بیان کر کے اس کی تردید فرمائی گئی۔
Top