Mualim-ul-Irfan - Yunus : 67
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ
ھُوَ : وہی الَّذِيْ : جو۔ جس جَعَلَ : بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم سکون حاصل کرو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا : دکھانے والا (روشن) اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : سننے والے لوگوں کے لیے
اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے بنائی تمہارے واسطے رات تا کہ تم اس میں آرام پکڑو اور دن کو روشن۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (کان رکھ کر) سنتے ہیں
ربط آیات پہلے قرآن کریم کا ذکر تھا۔ پھر حضور ﷺ کے متعلق فرمایا کہ آپ جس حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور جو بھی کام کرتے ہیں ، ہم ہر حالت میں حاضر ہوتے ہیں اور ہر کام کو دیکھتے ہیں۔ فرمایا خدا تعالیٰ سے ایک ذرہ بھر چیز بھی غائب نہیں ہے خواہ وہ آسمان کی بلندیوں میں ہو یا زمین کی گہرائیوں میں ہر چیز اللہ کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ پھر فرمایا یاد رکھو ! اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ، ولی اللہ وہ ہوتے ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے لیے دنیا میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے وعدے برحق ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ فرمایا آپ مشرکوں کی باتوں سے غمگین نہ ہوں ، کیونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی اختیار میں ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ ہی کی ملکیت ہے اور جو لوگ معبودان باطلہ کو پکارتے ہیں ، یہ محض گمان کے پیچھے چلتے ہیں اور اٹکل دوڑاتے ہیں ، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں بھی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل ہی بیان کیے جا رہے ہیں۔ رات اور دن بطور دلیل ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھو الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ “ خدا کی ذات وہی رحیم وکریم ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی۔ تا کہ تم اس پر آرام پکڑو (آیت) ” والنھار مبصرا “ اور دن کو روشن بنایا تا کہ تم اس میں دیکھ سکو اور کام کرسکو۔ دراصل یہ انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے عقلی دلیل بیان کی ہے کہ اگر تم رات اور دن کے تغیر وتبدل میں غور کرو تو تمہیں اللہ کی وحدانیت آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ رات اور دن خود بخود آگے پیچھے نہیں آتے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کا ایک حصہ ہیں اور اسی نظام کے مطابق آتے جاتے ہیں۔ سورة فرقان میں ہے (آیت) ” وھو الذی جعل الیل والنھار خلفۃ “ اللہ تعالیٰ کی وہی ذات ہے جو رات اور دن کو آگے پیچھے لاتی ہے۔ رات اور دن اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ رات کی نشانی دھیمی ہے اور دن کی روشن ہے۔ ان دونوں کے ساتھ انسان کے مفادات وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے آرام اور سکون کو رات کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ رات کے فائدے نیند عام طور پر رات کے وقت آتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی وجہ سے انسانوں کو سکون حاصل ہوتا ہے سورة نبا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” وجعلنا نومکم سباتا “ ہم نے نیند کو تمہارے لیے آرام کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کی ساخت ہی ایسی رکھی ہے کہ اس میں ہر چیز صامت ہوجاتی ہے۔ انسان جانور ، پرندے ، کیڑے مکوڑے وغیرہ حتی کہ درختوں پر بھی ایک قسم کا سکوت طاری ہوجاتا ہے ۔ کچھ وقت تک کام کرنے کے بعد ہر جاندار کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا (آیت) ” خلق الانسان ضعیفا “ انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ کا یہ بھی ارشاد ہے (آیت) ” لقد خلقنا الانسان فی کبد “ (البلد) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ ابتداء سے لے کر انتہاء تک مہد سے لیکر لحد تک کوئی انسان مشقت سے خالی نہیں۔ یہ مشقت معاش کے لیے بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بھی یہ مشقت کمال حاسل کرنے کے لیے بھی کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بھی۔ بہرحال انسان جو بھی کام کرتا ہے اس کی وجہ سے اس کی جسمانی قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں ، انسان ذہنی یا جسمانی طور پر تھک جاتا ہے۔ اس کمزوری کو دور کرنے اور قوی انسانی کو بحال کرنے کے لیے نیند کو پیدا فرمایا ہے تا کہ لوگ کام کاج کے بعد کچھ دیر کے لیے سو کر آرام کرلیں اور پھر صبح تازہ دم اٹھ کر اگلے دن کے کام اور عبادت میں مصروف ہوجائیں۔ گویا رات کی آمد اور پھر اس میں نیند کا آنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سکون کی ضرورت حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص ؓ کے متعلق حضور ﷺ نے سنا کہ وہ ساری رات عبادت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا مت کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تم کمزور ہو جائو گے ، تمہاری آنکھیں اندر دھنس جائیں گی اور پھر فرائض سے بھی رہ جائو گے ، ہمیشہ اتنا عمل کرو جسے برداشت کرسکو اور جس سے تمہارے قوی بحال رہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ایک عورت تھی حولا بنت تویت حضور ﷺ کے دریافت کرنے پر آپ کو بتایا گیا کہ یہ فلاں خاندان کی عورت ہے اور ساری رات عبادت میں گزار دیتی ہے۔ آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا ” اکفلوا من الاعمال ما تستطیعون “ اتنے اعمال انجام دو جتنی طاقت ہو۔ طاقت سے زیادہ کام کرنا جسم کی حق تلفی ہے۔ جس طرح تمہارے بیوی بچوں کا تم پر حق ہے اسی طرح تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ اور حق کی ادائیگی کے متعلق حکم ہے ” وات کل ذی حق حقہ “ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ تب جا کر بات بنے گی۔ یک طرفہ بہ جانا خلاف فطرت ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ کا یہ کمال قدرت ہے کہ اس نے رات کو بنایا تا کہ نیند کے ذریعے سکون پکڑو۔ سورة روم میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کو بھی سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے ، فرمایا یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں میں سے تمہارے لیے جوڑا پیدا فرمایا (آیت) ” لتسکنوا الیھا “ تا کہ تم اس کی طرف سکون پکڑو بہرحال نیند انسان کا بنیادی حق ہے جو اسے وقفے وقفے سے میسر آنی چاہیے۔ اگر نیند میں خلل واقع ہوجائے تو خشکی طاری ہو کر بیماری لاحق ہوجاتی ہیں۔ اگر دوچار دن نیند نہ آئے تو انسان کا دماغ فیل ہوجاتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کو انسانی زندگی میں توازن کا ذریعہ بنایا ہے کہ دن کو کام کرو اور رات کو آرام کرو۔ جو لوگ اس فطرت کیخلاف کام کرتے ہیں انہیں سکون حاصل نہیں ہوتا ، اگر رات بھر کھیل تماشے میں مصروف رہا ، سینما دیکھا یا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا رہا تو اس کے جسمانی قوی کمزور پڑجائیں گے اور وہ اپنے معمول کے کام انجام نہیں دے سکے گا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کے یے دن اور رات کا یہ نظام قائم کیا ہے۔ آج کل کے مشینی دور میں بعض کام بعض لوگوں کور ات کے وقت بھی انجام دینے پڑتے ہیں ۔ مثلا ریل گاڑی ، ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، یا پبلک ٹرانسپورٹ کی سروس ہے جو چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے اب بعض کارخانے بھی تین تین شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ایسے میں جو لوگ رات کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ انہیں دن کے وقت آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حسب ضرورت دن کے وقت بھی آرام کیا جاسکتا ہے ، تا ہم عام طور پر فرمایا کہ رات کو آرام کے لیے بنایا گیا ہے اور دن کو کام کاج کے لیے۔ تعلیم وتربیت کا کام ہو ، معاش کا یا عبادت کا ، اللہ نے نیند کو آرام کا ذریعہ بھنایا ہے اور دن کو معاش کا۔ سورة نبا میں موجود ہے (آیت) ” وجعلنا الیل لباسا وجعلنا النھار معاشا “ یہاں پر دن کے متعلق فرمایا کہ ہم نے دن کو روشن بنایا جس میں دیکھ کر کام کاج کیا جاتا ہے ” مبصرا مضیئا “ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ نشانات قدرت فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یسمعون “ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو کان رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اندھیرے اور اجالے کا سلسلہ قائم کیا۔ اسی طریقہ سے خیروشر کا سلسلہ بنایا۔ ایمان وکفر کو پیدا فرما کر یہ بات سمجھا دی ہے کہ حقیقی چیزوں کو اختیار کرو۔ شرک ، کفر اور شکوک واوہام سب اندھیرے ہیں ، اللہ نے ان سب کا پردہ چاک کیا ہے اور قرآن پاک کو روشن آفتاب فرمایا ہے کہ اس کی روشنی میں زندگی کے تمام امور انجام دو ۔ فرمایا ، دن اور رات کا تغیر وتبدل ان لوگوں کے لیے نشانات قدرت ہیں جو سنتے ہیں اور پھر ان چیزوں پر غور کرتے ہیں۔ کسی چیز کی پہلی منزل سننا ہوتی ہے۔ جو سنے گا نہیں وہ غور کیا کریگا اور اس کو کیسے سمجھے گا ؟ لہٰذا ایسا شخص دوسری منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ تیسری منزل کسی چیز کو یاد کرنا ہوتا ہے اور چوتھی منزل اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اس کے بعد آخری منزل یہ ہے کہ جو کچھ خود اخذ کر کے اس پر عمل کیا ہے اسے دوسروں تک بھی پہنچائے تو یہاں پر (آیت) ” یسمعون “ کے لفظ سے پہلی منزل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ سارا معاملہ اسی سے آگے چلے گا۔ عقیدہ ابن اللہ فرمایا ، ان ظالم لوگوں کا حال دیکھو (آیت) ” قالوا اتخذ اللہ ولدا “ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے پرانے مشرکین بھی اسی طرح ولدیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یہودی عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے ہیں اور عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ یہ واضح شرک ہے۔ بیٹا دو قسم سے ہو سکتا ہے یعنی حقیقی اور متبنی۔ چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات میں کوئی جنس نہیں اور اس کیو کئی بیوی نہیں ہے لہٰذا خدا کا حقیقی بیٹا ہونا تو محال ہے باقی رہا متبنی یعنی منہ بولا بیٹا ، توا س کے متعلق بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات دے کر کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اور یہ عقیدہ بھی خلاف منشائے الٰہی اور بدترین ہے۔ انسان کو اولاد کی خواہش کئی اعتبار سے ہوتی ہے چونکہ انسان فانی ہے اس لیے اس کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی قائم مقام اور جانشین ہو اور وہ بیٹا ہی ہوتا ہے۔ یا بیٹے کی خواہش ا س لیے ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد وہ جائداد کا وارث ہوگا۔ بعض اوقات انسان یہ خیال کرتے ہیں کہ جب میں بوڑھا ہو جائوں گا تو بیٹا میرے کام کام میں ہاتھ بٹائے گا یا بڑھاپے میں میری خدمت کرے گا۔ یہ ساری باتیں ذات خداوندی پر محال ہیں لہذا فرمایا ” سبحنہ “ اللہ تعالیٰ ان تمام ضروریات سے پاک ہے اور نہ اسے کسی جانشین کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اسے بیٹے کی ضرورت بھی نہیں ہے وہ ہر قسم کی کمزوری ، عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے اسی لیے فرمایا (آیت) ” ھو الغنی “ وہ بےنیاز ہے (آیت) ” لہ ما فی السموت وما فی الارض “ آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ہے اور اسی کے تصرف میں ہے لہٰذا اس کو بیٹا بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ سورة مریم میں آتا ہے کہ ابن اللہ کا عقیدہ اتنا گندا ہے کہ آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہوجائے ، اس بات سے (آیت) ” ان دعواللرحمن ولدا “ وہ رحمان کے لیے اولاد کا عقیدہ ثابت کریں۔ فرمایا (آیت) ” ان عندکم من سلطن بھذا “ کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی سند یا دلیل ہے کہ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) یا عزیر (علیہ السلام) کو بیٹا بنا لیا ہے یا جیسا کہ عرب کے مشرکین کہتے تھے کہ خدا نے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ہے ؟ فرمایا (آیت) ” اتقولون علی اللہ مالا تعلمون “ تم خدا تعالیٰ پر ایسی چیز بولتے ہو جس کو خود نہیں جانتے۔ خدا تعالیٰ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا۔ یہ تمہارا محض جھوٹ اور اللہ پر افتراء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کسی کو اختیار دیا ہے۔ وہ قادر مطلق اور علیم کل ہے۔ فرمایا اے پیغمبر ! ’ قل ‘ آپ کہہ دیں (آیت) ” ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون “ بیشک جو لوگ اللہ پر افتراء باندھتے ہیں جھوٹ ، وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ خدا کا بیٹا ماننے والے یا کوئی دوسرا شرکیہ عقیدہ رکھنے والے خدا کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہیں۔ یہ لوگ چند روزہ زندگی میں تو شور شر کرلیں گے ، مال و دولت اور جاہ اقتدار حاصل کرلیں گے مگر جب یہ جہاں تبدیل ہوگا تو پھر ہوش آئے گا۔ اس وقت وہ دائمہ فلاح نہیں پا سکیں گے۔ خدا کے حضور پیشی فرمایا (آیت) ” متا (علیہ السلام) فی الدنیا “ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے۔ جتنی دیر اجازت ہے اس کو استعمال کرلو۔ یہ اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود ہے اور اس کے بعد سارا معاملہ بدل جائے گا۔ سورة بقرہ میں جہاں آدم (علیہ السلام) کو جنت سے زمین پر اتارنے کا ذکر ہے وہاں بھی فرمایا (آیت) ” ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین “ تمہارے لیے زمین میں ٹھکانہ ہوگا اور ایک مقررہ مدت تک اس سے مستفید ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق انسانوں کو جس قدر اختیار دے رکھا ہے ، اس کو چند روزہ زندگی میں استعمال کرلو۔ (آیت) ” ثم الینا مرجعھم “ پھر ان سب کا ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ تمام نیک وبد انسان خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور ہر انسان کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی۔ ہر شخص اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا اور اس کی بجائے اس کا کوئی نمائندہ یا وکیل پیش نہیں ہو سکے گا اسے ہر بات کا جواب خود دینا ہوگا۔ فرمایا (آیت) ” ثم نذیقھم العذاب الشدید “ پھر ہم انہیں سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ (آیت) ” بما کانوا یکفرون “ اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کے لیے بیٹے کا عقیدہ وضع کیا یا خدا تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک بنایا۔ نبی کی رسالت کا انکار کیا ، وحی الٰہی کو برحق نہ جانا یا جزائے عمل کی تکذیب کی فرمایا وہ سب سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ چند دن مزے اڑا لو ، تم عنقریب اپنے انجام کو پہنچنے والے ہو۔ کفر وشرک اللہ تعالیٰ کی صریح بغاوت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے باغیوں اور نافرمانوں کو سخت سزا میں مبتلا کرے گا۔
Top