Mualim-ul-Irfan - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر بھیجا ہم نے ان (گذشتہ انبیائ) کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے طرف اپنی نشانیاں دے کر پاس ن لوگوں نے تکبر کیا اور تھے وہ مجرم
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ اور مشرکین عرب کو سمجھانے کے لیے اور بعد میں آنے والے مشرکوں اور نافرمانوں کی عبرت کے لیے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی مثال بیان فرمائی ، درمیان میں اجمالی طور پر دیگر انبیاء (علیہ السلام) کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ دیکھ لو ڈرائے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا۔ ان تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی معرفت برے انجام سے ڈرایا تھا مگر وہ لوگ غرور وتکبر میں مبتلا ہوئے اور انبیاء (علیہ السلام) کو برداشت نہ کیا مگر اللہ کے نبیوں نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے منکرین کو مختلف قسم کی سزائوں میں مبتلا کر کے صفحہ ہستی سے ناپید کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت پہلے انبیاء میں سے حضرت صالح (علیہ السلام) ، ہود (علیہ السلام) ، شعیب (علیہ السلام) ، ابراہیم (علیہ السلام) اور بعض دیگر اولو العزم ابنیاء کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ وھارون “ پھر بھیجا ہم نے ان سابقہ انبیاء کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو یہ دونوں اللہ کے جلیل القدر نبی تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ عمر میں چھوڑے تھے مگر زیادہ شان والے تھے ، ہارون (علیہ السلام) آپ کے بڑے بھائی تھے ، اللہ نے ان کو بھی نبوت عطا فرمائی اور آپ کی دوا سے انہیں موسیٰ (علیہ السلام) کا معاون بنایا۔ پھر اللہ نے ان دونوں کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا فرمایا پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو (آیت) ” الی فرعون وملاہہ بایتنا “ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی نشانیاں دے کر۔ دونوں انبیاء کی یہ بعثت بنی اسرائیل اور قبطیوں پر مشتمل پوری امت کی طرف تھی۔ آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل کے لوگ تو آپ کو نبی تسلیم کرچکے تھے ، یہ بعثت خاص طور پر فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرف تھی۔ یہ لوگ بڑے سرکش ، مستبد ، جابر اور مکذب تھے اس بات کو اللہ نے سورة طہ میں یوں فرمایا ہے (آیت) ” اذ ھبا الی فرعون انہ طغی “ تم دونوں بھائی ہماری نشانیاں لے کر فرعون کی طرف جائو۔ کیونکہ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے۔ اس کو جا کر سمجھائو اور اس کے حواریوں کو بھی جو اس کے ہم نشین ہیں ، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس کی سکیموں میں اس کے ساتھ موافقت کرتے ہیں۔ قوم کا تکبر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نشانیاں دے کر بھیجا تھا ان کا ذکر سورة اعراف اور بعض دوسری سورتوں میں موجود ہے۔ ان میں سے دو معجزات یعنی عصا اور ید بیضا نمایاں تھے۔ جب دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور اللہ کے پیغام پہنچایا (آیت) ” فاستکبروا “ تو ان لوگوں نے تکبر کیا ، اکڑ دکھائی (آیت) ” وکانوا قوما مجرمین “ وہ سب مجرم اور گنہگار قوم تھی۔ نہ تو فرعون نے انبیاء کی بات کو تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے سربرآوردہ لوگوں نے ان میں سے صرف ایک آدمی ایمان لایا تھا جس کا ذکر سورة مومن میں موجود ہے (آیت) ” وقال رجل مومن من ال فرعون یکتم ایمانہ “ ان میں سے ایک آدمی نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ بہرحال ایک آدمی کے سوا فرعون کی پوری قوم نے تکبر کای مکہ کے لوگ بھی ایسے ہیں تھے جو حضور ﷺ کی دعوت ایمانی کے جواب میں اکڑ دکھاتے تھے۔ دلید ابن مغیرہ اور بعض دوسرے سرکردہ مشرکین مکہ ، طائف کے متکبرین بھی ایسے ہی تھے۔ یہ سب جرائم پیشہ لوگ تھے۔ سورة النمل میں اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا “ ان کے دل تو یقین کرتے کہ ایسی نشانیاں کوئی عام انسان ظاہر نہیں کرسکتا ، بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ہی ہیں مگر انہوں نے ظلم اور اکڑ کی وجہ سے ان کا انکار کردیا۔ انہوں نے الٹا موسیٰ (علیہ السلام) کو طعن کیا (آیت) ” قال الم نربک فینا ولیدا ولبثت فینا من عمرک سنین “ (الشعرا) تو ہمارے ہاں بچہ تھا ، ہم نے تیری پرورش کی اور تو ہمارے درمیان کئی سال تک رہا۔ پھر تم نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا اور بھاگ گئے۔ اب تم نبوت کا دعویٰ کر کے ہمیں نصیحت کرنے آئے ہو۔ فرعون اپنے حواریوں کے سامنے کہتا تھا کہ اس داعی نبوت کی زبان میں تو بس لکنت ہے۔ آپ کے لیے مہین یعنی حقیر کا لفظ استعمال کیا ( العیاذ باللہ) یہ سب اکڑ اور غرور کا نتیجہ تھا اور باقی سب لوگ فرعون کی ہاں میں ہاں ملانے والے تھے (آیت) ” وکانو قوما مجرمین “ ساری کی ساری قوم مجرم تھی۔ اسی طرح قوم عاد کے متعلق فرمایا کہ ساری قوم ظالم تھی۔ نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں قوم کے لیے عمین کا لفظ فرمایا کہ ساری قوم اندھی تھی۔ اور یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق فرمایا کہ سب مجرم تھے ان میں انصاف پسند آدمی کوئی نہیں تھا سوائے ایک کے جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ حق کا انکار فرمایا (آیت) ” فلما جاء تھم الحق من عندنا “ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سچی بات گئی ، اللہ کی توحید کا پیغام آیا ، خدا کی عبادت کا پروگرام آیا ، قیامت کی فکر آئی اور نبی کی نبوت آگئی۔ حق بات وہ ہوتی ہے جو دلائل سے ثابت ہو۔ تو جب اللہ کا نبی یہ سچی باتیں لے کر آگیا تو کہنے لگے (آیت) ” قالوا ان ھذا لسحر مبین “ یہ تو کھلا جادو ہے حالانکہ اس میں جادو والی کوئی بات نہ تھی بلکہ یہ تو اللہ کا سچاپیغام تھا۔ اس طرح فرعون اور اس کے درباریوں نے حقیقت کو جادو سے تعبیر کردیا۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” قال موسیٰ اتقولون للحق لما جائکم “ کیا تم حق بات کو جادو کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے پاس آگئی ہے ؟ تمہیں کچھ تو حیا کرنی چاہیے (آیت) ” اسحر ھذا “ کہا یہ جادو ہے ؟ انبیاء علیھم السلام اور جادوگروں میں تو زمین وآسمان کا فرق ہے۔ انبیاء کے چہروں سے ان کے پاکیزہ اخلاق واطوار ان کا تقوی اور طہارت ، ان کی چال ڈھال کی شائستگی سب واضح ہوتے ہیں جب کہ ساحر لوگ خود غرض ہوتے ہیں۔ وہ تو جادو کو ذریعہ معاش بناتے ہیں اور اس کے ذریعے کمائی کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف ایک نبی کا یہ واضح اعلان ہوتا ہے (آیت) ” وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العلیمن “ (الشعرائ) میں تم سے کوئی فیس یا اجرت طلب نہیں کرتا بلکہ میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ جب فرعون نے جادوگروں کو اکٹھا کیا تھا تو انہوں نے سب سے پہلے یہی شرط طے کی تھی کہ اگر ہم موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے تو ہمیں انعام کیا ملے گا ؟ فرعون نے کہا کہ انعام کی کیا بات ہے ، میں تمہیں اپنا مقرب بنا لوں گا ، تمہیں دربار میں کرسی مل جائیگی ، اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے غرضیکہ فرعون اور اس کے حواریوں نے اللہ کے نبیوں کی دعوت کو جادو کہ کر ٹھکرا دیا۔ جادو کی خباثتیں جادو ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان اکثر ناپاک رہتا ہے بعض اوقات جادوگر کو غسل جنابت بھی نصیب نہیں ہوتا ، کوئی قبروں سے ہڈیاں اکٹھی کرتا ہے ، کوئی زندہ آدمی کو قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے کوئی کسی نابالغ بچے کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے اور کوئی کسی کے بال حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور پھر یہ کہ جادو کے لیے جو کلام پڑھا جاتا ہے ، وہ شرک پر مشتمل ہوتا ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ جادو کا ادنی سے ادنی عمل بھی بدعت سے خالی نہیں ہوتاجادو میں غیر اللہ سے استمداد ، شرکیہ کلام ، فاسد عقیدہ ، گندے اور خسیس اعمال کا سہارا لینا پڑتا ہے ، اچھے اعمال کی توفیق ہی نہیں ملتی ، اسی لیے سحر کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ سورة بقرہ میں یہودیوں کی مذمت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال کر سحر سیکھنا شروع کردیا۔ یہ سیلمان (علیہ السلام) کے زمانے کا ذکر ہے جب جنات لوگوں کو جادو کا علم سکھاتے تھے۔ وہ جانتے ہیں کہ جس نے جادو کا علم حاصل کیا ، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں مگر اس کے باوجود اس قبیح علم کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت (1۔ ترمذی ، ص 230) میں ہے کہ جو شخص جادو کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے اس کے متعلق فرمایا ” حد السحر ضربۃ بالسیف “ یعنی ایسے جادوگر کی سزا سزائے موت ہے وہ کسی رحم کے قابل نہیں۔ ایسا آدمی تمدن کو بگاڑتا ہے۔ لہٰذا واجب التعزیر ہے حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ تمدن کو بگاڑنے والی چیزوں میں جادو بھی شامل ہے۔ جادوگر خفیہ عمل کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں ، جس طرح اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنے والے تھوڑے نفع کی خاطر تمدن کے قاتل ہوتے ہیں اسی طرح جادوگر بھی تمدن انسانی کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں۔ جادوگروں کی ناکامی فرمایا ، یاد رکھو ! (آیت) ” ولا یفلح السحرون “ ساحر لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے ، مولانا تھانوی (رح) نے یہ اشکال پیش کیا ہے کہ بعض اوقات جادوگر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اس آیت میں اس بات کی بالکل نفی کی گئی ہے۔ پھر آپ اس کا جواب بھی دیتے ہیں کہ یہاں جس کامیابی کی نفی کی گئی ہے وہ نبی کے ساتھ مقابلے کی صورت کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جادوگر جب بھی اللہ کے نبی کے مقابلے میں جادوجگانا جا ہی گا ، وہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ جادو ایک فن ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو اس کے ذریعے بعض اوقات نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ مگر جب یہی جادو یتی کے معجزے کے مقابلے میں آئے گا تو ناکام ہوجائے گا۔ اس مقام پر ناکامی کا یہی مطلب ہے۔ حصول اقتدار کا طعن اہل باطل کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی اللہ کے کسی نبی نے انہیں حق کی طرف دعوت دی تو انہوں نے اس پر حصول اقتدار کا جھوٹا الزام لگایا ، ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کو طعن دیا گیا کہ تم یہ وعظ ونصیحت اس لیے کرتے ہو کہ لوگ تم سے متاثر ہو کر تمہاری سیادت کو تسلیم کرلیں یہاں بھی ایسا ہی ذکر آرہا ہے۔ جب موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) نے جادو اور معجزے میں فرق کو بیان فرمایا تو فرعون اور اس کی قوم کے لوگ کہنے لگے (آیت) ” قالوا اجئتنا لتلفتنا عما وجدنا علیہ ابائنا “ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس چیز سے پھیردے جس پر ہم نے اپنے ابائو اجداد کو پایا ، ہم تیری ایسی کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنے ابائو اجداد کا دین ترک کرنا پڑے کہنے لگے تم دونوں بھائیوں کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے (آیت) ” وتکون لکما لاکبریاء فی الارض “ کہ تم دونوں کو زمین میں بڑائی حاصل ہوجائے ، تم ملک وقوم میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہو اور ہمیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار اور جاہ تو نیک وبد سب کو حاصل ہوجاتا ہے مگر انبیاء کا مشن محض اقتدار حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد بندے کا تعلق اللہ سے جوڑنا ہے ، اور وہ ساری تک ودو اسی مقصد کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔ غرضیکہ قوم فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو دو وجوہات کی بنا پر ٹھکرا دیا۔ پہلی وجہ یہ کہ تو ہمیں ہمارے بڑوں کی رسوم اور ان کے عقیدے سے ہٹانا چاہتا ہے اور دوسری یہ کہ تو ہم میں بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کا مشن محض حق کی تبلیغ ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اسلام کی دعوت دو وجہ سے ہے اگر منکرین اسلام قبول کرلیں تو ہماری لڑائی ختم ہوگئی ، یہ ہمارے بھائی بن گئے مگر موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کی دعوت کو فرعون اور اس کی قوم نے قبول نہ کیا اور کہا (آیت) ” وما نحن لکما بمومنین “ کہ ہم تمہاری باتوں پر یقین کرنے والے نہیں۔ ایمان کا لفظی معنی یقین ہی ہوتا ہے اور یہاں یہی معنی مراد ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے کہا کہ ہمیں تمہاری باتوں پر یقین نہیں آتا۔ تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور تم خدا تعالیٰ کے فرستادہ نبی ہو ، تم ہمیں قیامت اور جزائے عمل کی بات بتاتے ہو ، مگر ہم تمہاری کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ابائواجداد کی تقلید ابائو اجداد کی تقلید دین حق کے راستے میں ہمیشہ سے رکاوٹ رہی ہے جب بھی اللہ کے نبیوں نے لوگوں کو توحید کی طرف بلایا تو انہوں نے ابائو اجداد کے قائم کردہ رسم و رواج اور باطل عقائد کا سہارا لیا قرآن پاک نے مکذبین کی اس روش کا بار بار تذکرہ کیا ہے۔ خود حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ خ ﷺ صحابی کا لقب دیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ ہمیں ابائو اجداد کے پرانے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ مشرک لوگ باپ دادا کے دین پر قائم رہنے پر مصر ہیں (آیت) ” اولو کان ابائھم لا یعقلون شیا ولا یھتدون “ (البقرہ) اگرچہ ان کے باپ دادا بےعقل اور غیر ہدایت یافتہ ہی کیون نہ ہوں۔ ہاں اگر ابائو اجدادراہ راست پر ہوں تو ان کا اتباع کرنا کمال درجے کی بات ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ میں باطل پرستوں کا اتباع چھوڑکر (آیت) ” واتبعت ملۃ اباء ی ابراھیم واسحق ویعقوب “ (یوسف) میں نے اپنے ابائو اجداد ابراہیم (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کرلیا ہے اور انہی کے طریقے پر چل رہا ہوں ، اور یہ قابل فخر بات ہے۔ مگر کفر ، شرک ، بدعات اور باطل رسوم پر چلنا تو بےعقلی کی بات ہے اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی نسبت کفر وشرک اور باطل رسوم پر مرنے والے آبائو اجداد کی طرف کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، وہ لوگ اللہ کے نزدیک اس کیڑے سے زیادہ ذلیل ہیں جو گندگی کو گولیاں بنا بنا کر اپنے منہ اور ناک سے کھاتا رہتا ہے۔ جادوگراوں کا اجتماع بہرحال فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کردیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی حکم دیا (آیت) ” وقال فرعون ائتونی بکل سحر علیم “ میرے پاس بڑے بڑے جادوگر اکٹھے کر دو ۔ اس زمانے میں جادوگروں کی بہت قدرومنزلت تھی۔ ان میں سے بعض کو فرعونی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے تھے اور یہ لوگ امور مملکت میں اسی طرح دخیل تھے جس طرح آجکل حکومت کے مشیروں میں ڈاکٹر ، انجیئنر ، سائنس دان ، ماہرین معاشیات اور قانون دان شامل ہیں۔ اس زمانے میں حکومت کے منصوبے ٹیکنوکریٹ بناتے ہیں جب کہ فرعون کے زمانے میں یہ کام ساحروں کاہنوں ، اور نجومیوں کے سپر دتھا۔ بہرحال فرعون نے تمام چیدہ چیدہ ساحروں کو جمع کرنے کا حکم دیا تا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف منصوبہ بندی کی جاسکے مفسر قرآن امام بغوی (رح) کے مطابق ایسے جادوگروں کی تعداد پندرہ ہزار تھی۔ (آیت) ” فلما جاء السحرۃ “ جب جادوگر آگئے۔ (آیت) ” قال لھم موسیٰ القوا ما انتم ملقون “ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ جو کچھ تم ڈالنا چاہتے ہو ، ڈال دو ۔ مطلب یہ تھا کہ تم جو بھی اپنا کرتب دکھانا چاہتے ہو ، دکھائو۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگرون کا مکالمہ اللہ نے مختلف سورتوں میں بیان فرمایا ہے۔ چناچہ ان سے مقابلہ شروع کرنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے تقریر فرمائی کہ دیکھو ! تم دنیا کی خاطر حق وصداقت کے مقابلے پر آگئے ہو ، یاد رکھو ! کدا کے ہاں تمہاری اس حرکت کا انجام بہت برا ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر اب بھی تم اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو لائو پھر اپنا کرتب دکھائو۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے ظاہر کرو۔ بہرحال انہوں نے اپنے فن کا اظہار کردیا۔ جب موسیٰ نے ان کے کرتب کو دیکھا تو فرمایا (آیت) ” فلما القوا قال موسیٰ ما جئتم بہ السحر “ کہ جو چیزتم لائے ہو۔ یہ تو جادو ہے۔ یہ جو سانپ نظر آرہے ہیں یہ سانپ نہیں بلکہ رسیاں ہیں۔ اور انکی حقیقت کیا ہے (آیت) ” ان اللہ سیبطلہ “ بیشک عنقریب اللہ تعالیٰ اس کو باطل کر دیگا یعنی مٹا دیگا ، کیونکہ (آیت) ” ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین “ بیشک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کے کام کو نہیں سنوارا کرتا تمہا ا مقصد فرعون کی مدد اور باطل کی تائید ہے مگر یہ چیز حق کے مقابلہ میں نہیں چل سکتی ، کفر ، شرک ، استبداد اور ظلم سے بڑھ کر کونسا فساد ہو سکتا ہے تم ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو رہے ہو ، لہٰذا تم فسادی ہو اور اللہ تعالیٰ فسادیوں کے کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔ حق کا بول بالا فرمایا (آیت) ” ویحق اللہ الحق بکلمتہ “ اللہ تعالیٰ حق کو اپنے کلام سے ثابت کرتا ہے (آیت) ” ولو کرہ المجرمون “ اگرچہ مجرم لوگ اس کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ خدا تعالیٰ کا یہ دستور اور طریقہ ہے کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے اور باطل کو مٹا دیتا ہے۔ خصوصا جب انبیاء کے مقابلے میں باطل کو پیش کیا جائے تو اللہ تعالیٰ یقینا اس کو مٹا دیتا ہے اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کے عمل کو کبھی نہیں سنوارے گا۔
Top