Mualim-ul-Irfan - Yunus : 99
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا١ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَاٰمَنَ : البتہ ایمان لے آتے مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں كُلُّھُمْ جَمِيْعًا : وہ سب کے سب اَفَاَنْتَ : پس کیا تو تُكْرِهُ : مجبور کریگا النَّاسَ : لوگ حَتّٰى : یہانتک کہ يَكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور اگر چاہتا تیرا پروردگار تو البتہ ایمان لاتے جو بھی زمین میں ہیں سب کے سب ، پس کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن بن جائیں
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کا حال بیان فرمایا ، نیز آپ کی قوم کی منفرد حیثیت کا تذکرہ فرمایا کہ یہ واھد قوم ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کی نشانیان ظاہر ہوجانے کے بعد قبول کی۔ اس سلسلے میں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ عذاب کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی تصدیق کے لیے عذاب کی کچھ علامات ظاہر فرمائی تھیں۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور آپ پر ایمان لانے والوں کو تسلی دی ہے کہ لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ دل برداشتہ نہ ہوں کیوں کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اور آپ کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہدایت اور گمراہی کا قانون سو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی کا وہ قانون بیان فرمایا ہے جس کے تحت بعض لوگوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے اور بعض گمراہی میں بھٹکتے رہتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولو شاء ربک “ اگر تیرا رب چاہتا (آیت) ” لامن من فی الارض کلھم جمیعا “ تو زمین میں رہنے والے سارے کے سارے افراد ایمان لے آتے اور کوئی بھی کافر اور مشرک باقی نہ رہتا۔ یہاں پر شاء سے مراد محض چاہنا نہیں بلکہ مجبور کرنا ہے ، کہ تمام لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیا جاتا ، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے کون دم مارسکتا ہے ، لہٰذا اب ایماندار ہوجاتے ۔ سورة نحل میں (آیت) ” ولو شاء لھدکم اجمعین “ اگر ہم چاہتے تو سب کو ایک ہی لائن پر ڈال کر ہدایت دے دیتے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ وہ کسی پر جبرا ہدایت ٹھونس سکتا ہے مگر یہ اس کی مصلحت کے خلف ہے۔ سورة ہود میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا (آیت) ” فجعل الناس امتۃ واحدۃ “ تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (آیت) ” ولا ۔۔ مختلفین “ مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں جبرا کسی چیز پر جمع نہیں کرنا چاہتا ، ایمان وہی قبول ہے جو اللہ کے دیے ہوئے اختیار کے مطابق اپنی مرضی سے شرح صدر کے ساتھ قبول کیا جائے (آیت) ” افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مئومنین “ کیا آپ لوگوں کو مجبور کرینگے کہ وہ مومن بن جائیں اسی لیے اللہ نے واضح قانون دے دیا ہے (آیت) ” لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی “ (البقرہ) یاد رکھو ! دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اللہ نے ہدایت اور گمراہی دونوں باتوں کو واضح کردیا ہے ، لہٰذا جو کوئی اپنی مرضی سے ایمان قبول کریگا وہی بہتر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے تمام ذرائع عقل ، سمجھ ، اختیار اور ارادہ وغیرہ انسان کو مہیا کردیے ہیں ، لہٰذا سب یہ ذمہ داری ہر انسان کی ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ سورة کہف میں ہے (آیت) ” فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکم “ جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے ، اس پر کس قسم کا جبر نہیں ہے البتہ ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اگر وہ ایمان لائے تو خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو کر اپنی رحمت کے مقام میں داخل کریگا اور اگر اس نے کفر کا راستہ اختیار کیا تو دنیا اور آخرت دونوں جگہ خسارے میں رہے گا۔ دین میں جبر نہیں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بھی فرمایا کہ آپ کا کام کسی کو زبردستی منوانا نہیں ہے بلکہ (آیت) ” فانما علیک البلاغ وعلینا الحساب “ (الرع) آپ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اس کے بعد کی شخص کے اعمال کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے ، اس سلسلے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ اس طرح سورة غاشیہ میں فرمایا (آیت) ” لست علیھم بمصیطر “ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں کہ ان سے زبردستی منوالیں۔ آپ اللہ کے رسول ہیں اور کسی کو مجبور کرنا رسول کا کام نہیں ہوتا۔ غرضیکہ ایمان قبول کرنے یا نہ کرنے کا سوال براہ راست ہر شخص سے ہوگا اور کسی نبی یا مبلغ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے۔ پھر اللہ نے ہدایت کا یہ قانون بھی بیان فرمادیا (آیت) ” وما کان لنفس ان تو من الا باذن اللہ “ کسی نفس کے لیے یہ بات نہیں ہے کہ وہ ایمان لائے جب تک کہ اللہ کا حکم نہ ہو ، خدا تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ہی انسان ہدایت حاصل کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی مشیت اور ا رادہ ہی غالب ہے ، لہٰذا اس کے حکم کے بغیر ایمان اور ہدایت حاصل نہیں ہو سکتی لیکن یہ بات یاد رکھو (آیت) ” ویجعل الرجس علی الذین لا یعقلون “ اللہ تعالیٰ نجاست اور گندگی انہی پر ڈالتا ہے جو عقل کو صحیح طور پرا ستعمال نہیں کرے ، کفر ، شرک اور معاصی میں ملوث رہنے والے لوگوں پر گندگی پڑتی ہے۔ عقیدے کی نجاست یہاں پر رجس سے مراد عقیدے کی گندگی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” فاجتنبو الرجس من الاوثان “ (الحج) بت پرستی کی نجاست سے بچو ، سورة مدثر میں ہے (آیت) ” والرجز فاھجر “ ہر قسم کی گندگی کو اپنے آپ سے دور رکھیں ، خاص طور پر عقیدے کی نجاست تو بہت بری نجاست ہے۔ سورة توبہ میں بھی آپ منافقین کے متعلق سن چکے ہیں (آیت) ” انھم رجس “ ان کے دل و دماغ اور قلب وروح میں نفاق کی نجاست ہے آپ ان کو چھوڑدیں۔ عقل کا استعمال اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق سورة انفال میں فرمایا ہے (آیت) ” ان شرالدواب عند اللہ الصم المکم الذین لا یعقلون “ ایسے لوگ اللہ کے نزیک بدترین جانور ہیں جو اندھے اور بہرے ہیں اور عقل کو صحیح استعمال نہیں کرتے ، اللہ نے انسان کو عقل جیسا عظیم جوہر عطا کر کے اسے مکلف بنایا ہے جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو فرمایا آگے آئو ، وہ آگے آگئی ، پھر فرمایا پیچھے ہٹ جائو ، تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر فرمایا کہ تیری وجہ سے ہی میں مواخذہ کروں گا ، تیری وجہ سے ہی عطا کروں گا اور تیری وجہ سے ہی منع کروں گا ۔ پاگل آدمی یا چھوٹے بچے سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ وہ عول نہیں رکھتا۔ جوابدہی کا مدار اللہ نے عقل پر رکھا ہے ، لہٰذا جو لوگ اپنی عقل کو صحیح استعمال نہیں کرتے گندگی انہیں پر پڑتی ہے۔ وہ ہمیشہ ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی میں مبتلارہتے ہیں۔ یہود ونصارٰ اور مشرکین کو دیکھ لیں بظاہر بڑے دانا سمجھے جاتے ہیں مگر عقل کے غلط استعمال کی وجہ سے ان پر گندگی پڑی ہوئی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ عقل دو قسم کی ہوی ہے یعنی عقل معاش اور عقل معاد ، بعض لوگ عقل معاش میں بڑے کامل ہوتے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے ڈاکٹر ، انجینئر ، فلاسفر اور ماہرین تعلیم شامل ہیں مگر ان کی عقل عقل معاش تک محدود ہے۔ انہوں نے دینوی ترقی کے لیے بڑی ایجادات کی ہیں ، علم وفن کو عروج کی بلندیوں تک پہنچایا ہے مگر عقل معاد کے لحاظ سے بالکل صفر ہیں۔ وہ آخرت کی بات کو نہیں سمجھ سکتے ، دین اسلام ، قرآن ، انبیائ ، کتب سماویہ اور معاد پر اعتراض کرنے والاے بےعقل لوگ ہیں۔ انہوں نے عقل سلیم کو ٹھیک طور سے استعمال نہیں کیا۔ ایسے شخص کی اپنی عقل ٹیڑھی ہوتی ہے مگر وہ دوسری چیز کو ٹیڑھا سمجھتا ہے اور اس کو ایک کے دو دو نظر آتے ہیں۔ یرقان کا مریض بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اگر ہر چیز اپنے قدرتی رنگ پر ہوتی ہے مگر بیماری کی وجہ سے اسے ہر چیز سبز نظر آتی ہے اسی طرح معاد کا انکار بھی کسی شخص کی اپنی عقل کی خرابی اور اس کے غلط استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے اسی لیے فرمایا کہ ہر نفس اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایمان لاتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نجاست اس پر ڈالتا ہے جو عقل کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ مشاہدہ نشانات قدرت فرمایا (آیت) ” قل انظروا ماذا فی السموت والارض “ اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ دیکھ لو جو کچھ آسمانوں میں ہے ، اور زمین میں ہے ، دیکھو ! اللہ نے اپنی قدرت کی کتنی نشانیاں پھیلا رکھی ہیں انہی نشانیوں کو دیکھ کر لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہنچانتے ہیں۔ وسیع آسمان پر پھیلے ہوئے سیارے اور ستارے شمس ، وقمر ، فضائیں اور ہوائیں ، ابروباراں ، شجر وحجر ، پہاڑ ، سمندر ، دریا ، پھول اور پھل سارے کے سارے نشانات قدرت ہیں اگر انسان تھوڑا ساغور کرے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ سورة یوسف میں فرمایا کتنے لگو ہیں (آیت) ” یمرون علیھاوھم عنھا معرضون “ جو ان نشانیون پر گزر جاتے ہیں مگر ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ، عقل کو صحیح طور پر استعمال کر کے اللہ کی معرفت حاصل نہیں کرتے۔ فرمایا ، دیکھو آسمان و زمین میں کیا کچھ ہے (آیت) ” وما تغنی الایت والنذر عن قوم لا یومنون “ مگر یہ نشانات اور ڈرانے والے ان لوگوں کو کچھ فائدہ نہیں دیتے جو ایمان ہی نہیں لاتے۔ جو لوگ ضد ، عناد ، اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں ان کے لیے نہ کوئی معجزہ کار گر ہوتا ہے اور نہ کوئی دیگر نشانی۔ ڈرانے والی نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں اور وہ ہادی اور راہما بھی جو اندار کا کام کرتے ہیں۔ وہ سمجھانے کی بڑی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے دل میں کوئی بات نہیں بیٹھتی ان کے ذہنوں میں تعصب اور عناد بھرا ہوا ہے ، لہٰذا ان پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ ان نشانات سے وہ لوگ مستفید ہوتے ہیںٰ جو اعتدال پسند ہوں اور جن میں سمجھنے کا جذبہ موجود ہو۔ ایام اللہ کا انتظار فرمایا ، اے پیغمبر ! (آیت) ” فھل ینتظرون الا مثل ایام الذین خلوا من قبلھم “ کیا یہ لوگ نہیں انتظار کر رہے ہیں ، مگر مثل ان دنوں کی جو ان سے پہلے لوگوں پر گزرے ہیں۔ ایام دو قسم کے ہیں جن کا ذکر قرآن میں ایام اللہ کے عنوان سے آیا ہے۔ یہ ایام وہ ہیں کہ بعض لوگوں کے لیے انعام کا باعث ہوتے ہیں اور بعض کے لیے تعذیب کا تو فرمایا کیا یہ بھی ایسے ایام کے انتظار میں ہیں جو قوم نوح ، قوم لوط ، عاد اور ثمود پر گزرے ان اقوام کو اللہ نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا تو کیا یہ بھی کسی عذاب کے انتظار میں ہیں۔ یہی دن بعض لوگوں کے لیے بابرکت ہوتے ہیں جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کے حق میں عاشورے کا دن بابرکت دن ہے جب کہ ان کی توبہ قبول ہوئی ، یہ دن بنی اسرائیل کے لیے بھی بابرکت دن ہے کہ اللہ نے انہیں اسی دن فرعونیوں سے نجات دی۔ مگر یہی دن فرعون اور اس کے لاء لشکر کے لیے سختی کا دن ثابت ہوا کہ وہ ہلاک ہوگئے ، تو فرمایا پس نہیں انتظار کرتے یہ لوگ مگر مثل ان لوگوں کے دنوں کے جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اور جن پر سزائیں نازل ہوئیں۔ فرمایا گرفت کرنا یا سزا دینا میرا کام نہیں (آیت) ” قل فانتظروا انی معکم من المنتظرین “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ اس دن کا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی مشیت سامنے آجائے گی ، پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ تمہاری نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ اہل اللہ کا تحفظ فرمایا خدا تعالیٰ کا قانون یہ رہا ہے (آیت) ” ثم ننجی رسلنا والذین امنوا “ پھر ہم بچاتے ہیں اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے دنیا میں جب بھی اللہ کے رسولوں نے حق کا پیغام سنایا ا اور ہدایت کا سلسلہ واضح کیا تو قوم نے مخالفت کی اور رسولوں کو اور اہل ایمان کی ختم کرنے کی کوشش کی ، مگر اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرتا ہے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے انکار کیا تو ان سب کو غرق کردیا گیا۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور اہل ایمان کو بچا لیا گیا۔ اسی طرح فرعون اور اس کے لشکری ہلاک ہوئے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل بچا لیے گئے۔ باقی انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح ع ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وغرہم کی اللہ نے خود حفاظت فرمائی اور ان پر ایمان لانے والون کو بھی کفار کی دست برد سے محفوظ رکھا۔ سورة المومن میں بھی آتا ہے (آیت) ” انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا ویوم یقوم الاشھاد “ ہم اپنے رسولوں اور ان کے ماننے والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی ان کو غلبہ حاصل ہوگا جس دن گواہ کھڑے ہوں گے یعنی قیامت کے دن اس کے برخلاف کفار ومشرکین ذلیل ہو کر جہنم کے مستحق ہون گے۔ نتیجہ کے اعتبار سے دنیا اور آخرت میں انبیاء اور اہل ایمان ہی کو کامیابی حاصل ہوگی۔ اگرچہ اللہ والوں کو بعض تکالیف بھی پہنچتی ہیں اور انہیں بعض آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے مگر بالانتہا وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر عذاب آ بھی جائے تو اللہ تعالیٰ ان کو بچا لیتا ہے۔ فرمایا (آیت) ” کذلک حقا علینا ننجی المومنین “ اسی طرح ہم پر ثابت ہے کہ ہم ایمان والون کو نجات دیا کرتے ہیں۔ اللہ پر حق کا قیام حق کا معنی ثابت ہونا یا پختہ ہونا ہے۔ حق کو حق اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پختہ اور اٹل چیز ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف باطل مٹنے والی چیز ہوتی ہے کیونکہ بطلان کا معنی کسی چیز کا مٹ جانا ہے۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر حق سے مراد رحمت ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت اور شفقت سے ایمان والوں کو محفوظ رکھتا ہے ، وگرنہ خدا تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ اسی لیے فقہ اور عقیدے کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ” بحق فلاں “ کہنا مکروہ ہے کیونکہ ” لا حق للمخلوق علی الخالق “ مخلوق کا کوئی حق خالق پر ثابت نہیں ہوتا۔ معتزلہ جیسے قدیم فرقوں میں سے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیز بندے کے لیے اچھی ہے وہ اللہ پر واجب ہے۔ یہ بالکل غلط عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ، وہ بےنیاز ہے البتہ اس نے اپنی رحمت سے کوئی چیز اپنے ذمہ لے لی ہو تو یہ اس کی مہربانی ہے۔ تو یہاں پر بھی (آیت) ” حقا علینا “ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مہربانی سے ہم پر یہ ثابت ہے کہ ہم اہل ایمان کو نجات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا سورة انعام میں فرمان ہے (آیت) ” کتب علی نفسہ الرحمتۃ “ اس نے اپنی مہربانی سے اپنے اوپر اپنی رحمت کو لکھ رکھا ہے۔ حدیث شریف (1۔ مشکوۃ ، ص 14) میں آتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ حضور ﷺ کے ردیف تھے۔ آپ نے فرمایا معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کیک ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ پھر فرمایا معاذ ! کیا تم جانے تو ہو کہ بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے۔ عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا جب بندے اپنے حقوق کو پورا کریں تو پھر ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو سزا نہیں دے گا بلکہ جنت تک پہنچائے گا۔ لیکن یہ حق بھی اللہ پر واجب نہیں بلکہ اس کی مہربانی کا حق ہے ، اس نے اپنی مہربانی کے ساتھ یہ بات اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ تو اس حق کے مطابق آدمی دعا بھی کرسکتا ہے جیسے۔ الٰہی بحق بنی فاطمہ کہ بر قول ایمان کنم خاتمہ اے اللہ اہل بیت کا جو حق اپنی مہربانی سے تو نے اپنے ذمے لے رکھا ہے ، اس حق کے ساتھ یہ سوا ل کرتا ہوں۔ مطلب یہ کہ بندوں کا حق اللہ پر واجبی نہیں ہو سکتا۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے ” من رد عن عرضہ “ جو آدمی اس دنیا میں اپنے بھائی کی آبرو کو بچائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے بچائے گا ، یہ اللہ پر اس کی مہربانی کا حق ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر تو ضرور ہے کیونکہ وہ مخلوق ہیں مگر بندوں کا اللہ پر کوئی حق نہیں کیونکہ وہ خالق ہے۔ ہاں ! اپنی مہربانی سے جو چیز اس نے اپنے ذمے لے رکھی ہے ، وہ اس کو پورا کرتا ہے۔ غرضیکہ فرمایا کہ اسی طرح ہماری مہربانی سے ہم پر ثابت ہے کہ ہم اہل ایمان کو ضرور نجات دیں گے۔ دنیا میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی قوم پر مجموعی سزا آتی ہے تو ایمان والوں کو الگ کرلیا جاتا ہے۔ یہ تو دنیا کا حال ہے کہ اپنے اپنے زمانے میں انبیاء کے ساتھ واقعات پیش آتے رہے اور آخرت کے متعلق تو اللہ نے خود ہی فرمادیا ہے کہ قیامت کے دن جب گواہ کھڑے ہوں گے تو اس دن ہم ایمان والوں کو بچالیں گے اور مخالفین کو ذلیل ورسوا کریں گے۔
Top