مال کی محبت
انسان کو فرائض منصبی سے غافل کرنے والی چیزوں میں مال کی محبت ، سرفہرست ہے یہا پر اس اس بات کو تکاثر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الھکم التکاثر تم کو کثرت کی طلب نے غفل میں ڈال رکھا ہے حتی زرتم المقابر یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت کرو یعنی مر کر قبروں میں پہنچ جائو تکاثر میں مال ، اولاد ، دنیا کا ساز و سامان اور جماعت سب کچھ شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا کے مال و دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اپنے حقیقی مقاصد یعنی اپنے مالک کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی کی طرف کوئی د ھیان نہیں دیتے ان کو یہی دھن لگی رہتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو مال و دولت حاصل ہو ، خاندان بڑا ہو ، جتھا اور جماعت غالب آئے۔ فرمایا تم انہیں چیزوں کی طلب اور حرص میں مبتلا رہتے ہو اور یہی وہ چیز ہے ۔ جو تمہیں فرائض منصبی سے غافل بناتی ہے۔ یہاں تک کہ تم مر کر قبروں میں پہنچ جاتے ہو۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی 1 ؎ ہے۔ یقول ابن ادم مالی مالی یعنی اے آدم کے بیٹے میرا مال ، میرا مال ہی کہتے رہتے ہو۔ حالانکہ تمہارا مال وہ ہے جو مت نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا۔ یا اپنے ہاتھ سے صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی فھو ذاھب و تارکہ تم اسے چھوڑ کر جانے والے ہو۔
1 ؎ مسلم ص 407/ج 2 ، ترمدی ص 339
ایسے مال کے وارث کوئی اور ہوں گے۔ آج تم جس مال کے لئے تگ و دو کر رہ یہو اور میرا مال میرا کہتے ہو ، وہ تمہارا نہیں تم اسے کام وہی آئے گا جو تم نے کھالیا پہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ یہ مکان ، جائیداد ، کوٹھی ، باغ موٹر تمہارے نہیں ہیں۔
میت کے تین ساتھی
حضور ﷺ 1 ؎ نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے ، تو تین چیزیں اس کے ساتھ جاتی ہیں املہ ، ومالہ ، وعملہ یعنی اس کا مال ، اہل و عیال اور عمل مردے کو دفن کے بعد دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور صرف ایک چیز اس کے ساتھ رہتی ہے۔ فرمایا مال اور اہل واپس آجاتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہتا ہے مال اور اہل جن کی فکر میں انسان زندگی بھر ڈوبا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا ، نہ اس کی ذات کی طرف ، نہ صفات کی طرف ، نہ احکام کی طرف ، نہ افعال اور نہ اس کے دین کی طرف وہی مال اور اولاد اسے قبر میں چھوڑکر واپس چلی آتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ مال و دولت کی بہتات نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور انسان قبروں میں پہنچ جاتے ہیں۔
یہ لوگ قبروں میں پہنچ کر نہایت ہی افسوس اور ندامت کا اظہار کریں گے مگر وہاں ان کا افسوس کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ کاش کہ وہ اس دنیا میں اپنے حقوق و فرائض کو سمجھتے اللہ کی طرف رجوع کرتے ، اس کے احکام کی پیروی کرتے ، مال میں اس قدر منہمک نہ ہوجاتے تو آج انہیں حسرت ویاس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
علم الیقین
فرمایا کلاسوف تعلمون بس مرنے کی دیر ہے۔ تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ تم نے بہت غلط کام کیا۔ تاکیداً دوبارہ فرمایا ثم کلاسوف تعلمون تم بہت جلد جان لو گے کلا لو تعلمون علم الیقین اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے کہ جزائے عمل ضرور واقع ہوگا او اس کے مطابق اپنا عمل جاری رکھتے تو آگے چل کر کوئی دشواری لاحق نہ ہوتی۔ اس چیز کو بار بار سمجھایا گیا ہے کہ انسان کا مکلف ہونا جزائے عمل کے لئے متلزم ہے جس طرح پیدائش کے ساتھ موت لازم ہے۔ اسی طرح جزائے عمل بھی الزام ہے۔ اگر انسان غور فکر کرتا تو اسے ضرور یقینی علم حاصل ہوجاتا۔ مگر افسوس کہ انسان اس طرف توجہ نہیں کرتا۔
1 ؎ مسلم ص 407/ج 2
فرمایا لترون الجحیم تمہیں یقین اس وقت آئے گا ، جب جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھو گے۔ حالانکہ یہ یقین تمہیں اس دنیا میں ہونا چاہئے تاکہ تمہیں خوف پیدا ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ ” فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ “ اگر انسان غور کرے تو اسے جنت اور جہنم اسی دنیا میں نظر آجاتے ہیں۔ بشرطیکہ تم یقین کے ساتھ جانتے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم یقین سے محروم ہو ، اسی لئے تم غفلت میں پڑے ہوتے ہو۔ جب جہنم سامنے نظر آئے گی ، اس وقت تمہیں یقین آئے گا۔ اس وقت تم یقین کی آنکھ سے دیکھو گے اور افسوس کا اظہار کرو گے کہ ہم کس گمراہی میں مبتلا تھے۔ ثم لترونھا عین الیقین ۔ ” پھر البتہ تم اس کو یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔
انعامات الٰہی کے متعلق باز پرس
فرمایا ثم لتسلن یومئذ عن النعیم پھر تم سے اس دن پوچھا جائے گا۔ کہ میرے عطا کردہ انعامات کی تم نے کیا قدردانی کی تھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سلسلہ بڑا وسیع ہے ، ترمذی شریف 1 ؎ کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ، کہ قیامت کے دن اللہ کے بندوں کو کھڑا کیا جائے گا۔ پھر ان سے چار باتوں کا سوال کئے بغیر ان کے قدم نہیں اٹھنے دیں گے۔ عن عمرہ اللہ تعالیٰ عمر کے متعلق سوال کریں گے فی ما افناہ اسے کس چیز میں فنا کیا۔ عمر جیسی عظیم نعمت کو کیسے بسر کیا اور عن جسمہ فیما ابلاہ پھر جسم کے متعلق سوال ہوگا۔ وعن علمہ فیما فعل کہ علم کے مطابق میں نے کیا کام کیا اور چوتھا سوال مال کے متعلق ہوگا۔ من این اکتسبہ و فیما انفقہ یعنی مال کا ں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیا تھا یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو نیزے بھی کہ ” ولا تبذر تبذیراً فضول خرچی متک رو۔ ” ولا تسرفوا ، انہ لایحب المسرفین “ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جس طرح ناجائز طریقے سے کمانا حرام ہے اسی طرح حرام جگہ پر خرچ کرنا بھی وبال ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ کی مادی نعمتوں کے متعلق یہ سوال ہوں گے۔
1 ؎ ترمذی ص 348
اسی لئے فرمایا ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم
صحت اور فراغت
امام جعفر صادق کی تفسیر 1 ؎ کے مطابق ہر مادی نعمت کے متعلق سوال ہوگا ترمذی شریف کی روایت میں 2 ؎ ہے۔ نعمتان مخبون فیھما کثیر من الناس دو چیزیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ دو چیزیں کون سی ہیں۔ الصحۃ والفراغ ایک تندرستی اور دوسری فراغت۔ انسان صحت و تندرستی کی حالت میں فضول کاموں میں لگا رہتا ہے۔ اچھے کام نہیں کرتا۔ مگر جب صحت جواب دے دیتی ہے۔ تو افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ مگر اس وقت کا افسوس کرنا کسی کام نہیں آتا۔ اسی طرح جب آدمی کو فراغت میسر ہوتی ہے ، وہ اس سے فائدہ اٹھا کر اچھے کام نہیں کر پاتا ، مگر جب مشغول ہوجاتا تو پھر اچھے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسی لئے فرمایا کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دو بڑی نعمتیں یعنی صحت اور فراغت میسر آتی ہیں۔ مگر ان سے بروقت فائدہ نہ اٹھا کر نقصان میں رہتے ہیں۔
کوئی نعمت حقیر نہیں
صحابہ کرام بیان کرتے 3 ؎ ہیں کہ حضور ﷺ یعظم النعمۃ وان دقت ہر نعمت کی تعظیم کرتے تھے اگرچہ وہ چھوٹی سے چھوٹی کیوں نہ ہو لہٰذا کسی نعمت کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ بلکہ قدر کرنا چاہئے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ نعمت کو صحیح مقام پر خرچ کرنے سے شکریہ ادا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ جنہیں وہ شمار نہیں کرسکتا۔ ” وان تعدوا نعمت اللہ لاتحصوھا ط ان الانسان لظلوم کفار “ انسان تو ایک بال کا حق دا نہیں کرسکتا خواہ ساری عمر بڑی سے بڑی عبادت کرتا رہے۔
قرآن اور حضور ﷺ کی ذات مبارکہ
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے دو بڑی عظیم نعمتیں ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں 4 ؎ کہ ان میں سے ایک قرآن ہے اور دوسری حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ان دونوں نعمتوں کے متعلق بھی قیامت کو سوال ہوگا۔ تو نے قرآن پاک کے پروگرام کو مانا یا
1 ؎ روح المعانی ص 326/ج 30 ، 2 ؎ ترمذی ص 335/، 3 ؎ شمائل بمع ترمذی ص 584 ، 4 ؎ روح المعان یص 226/ج 30
نہیں۔ اگر مانا تو اس کے مطابق عقیدہ درست کیا ؟ اور اس پر عمل کیا ؟ اسی طرح حضور ﷺ کی ذات مبارکہ پر ایمان لائے یا نہیں ؟ اور پھر آپ کا اتباع کیا یا نہیں …د خود حضور ﷺ نے فرمایا 1 ؎ کہ میرے بارے میں تم سے سوال ہوگا کہ اللہ کے پیغمبر پہنچایا یا نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا حضور ! بلغت وادیت و نصیحت حضرت ! آپ نے خدا کا پیغام پہنچایا۔ امانت ادا کردی ، نصیحت کا حق بھی ادا کردیا۔
کھجور اور پانی
ایک دفعہ حضور نبی کریم ﷺ ابوالہیشم بن التیہان کے باغ میں تشریف لے گئے 2 ؎ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی تھے۔ ابوالہثیم کہیں دور پانی لینے گیا ہوا تھا۔ اس کی بیوی گھر میں موجود تھی۔ آپ کے دریافت کرنے پر اس عورت نے بتایا کہ اس کا خاوند پانی لینے کے لئے گیا ہوا ہے۔ اتنے میں وہ بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے آ گیا۔ حضور ﷺ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا کہ حضور ﷺ غیر متوقع طور پر اس کے گھر تشریف لائے اس شخص نے اپنے باغیچے میں مہمانوں کے لئے چٹائی بچھائی ، پھر کھجوروں کا خوشہ توڑ کر لایا اور پیش کیا۔ آپ سب نے اس میں سے پکی پکی کھجوریں تناول فرمائیں ، اور میٹھا پانی نوش فرمایا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے صحابہ انداز میں فرمایا ھذا والذین نفسی بیدہ من النعیم الذی تسائلون عنہ یہ وہ نعمتیں ہیں۔ جن کے بارے میں قیامت کو سوال ہوگا۔ رطب طیب ومآء بارد یعنی یہ پاکیزہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کے انعام ہیں۔
روٹی بھی انعام ہے پانی بھی انعام ہے۔ انسان کا جسم بھی انعام ہے۔ اس کا کام کرنا بھی انعام ہے۔ ان کے متعلق انسان سے سوال کیا جائے۔ ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم کہ تم نے ان نعمتوں کی کیا قدر کی۔
1 ؎ مسلم ص 396/ج 1 ، 2 ؎ شمائل مع ترمذی 598
فضیلت سورة
یہ سورة مبارکہ بڑی فضیلت والی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا 1 ؎ کیا تم میں سے کوئی طاقت رکھتا ہے کہ ہر دن یا ہر رات قرآن کریم کی ایک ہزار آیات تلاوت کرے ایک ہزار آیت قرار پاک کا تقریباً چھٹا حصہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا۔ حضور ! ہم اتنی طاقت تو نہیں رکھتے۔ فرمایا سورة الھکم التکاثر ایک ہزار آیت کے برابر ہے۔ جس طرح سورة زلزال کو نصف قرآن فرمایا۔ اس طرح اس سورة کو چھٹا حصہ فرمایا۔ اگر انسان صرف ایک سورة پر بھی غور و فکر کرلے ، اس کے مفہوم کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنی فکر بنا لے تو کامیابی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ان آٹھ آیتوں کا تلاوت کرنا اتنا آسان ہے۔ کوئی لمبا چوڑا کام نہیں مگر اس کا اجر بڑا عظیم ہے۔
1 ؎ روح المعانی ص 223/ج 30