Mualim-ul-Irfan - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور مت جھکو ان لوگوں کی طرف جنہوں نے ظلم کیا ، پس چھوٹے گی تم کو آگ ، اور نہیں ہوگا تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار ، پھر تمہاری (کسی طرف سے بھی) مدد نہیں کی جائے گی
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر توحید کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عقائد یعنی رسالت ، قیامت ، جزائے عمل اور قرآن کی صداقت و حقانیت کا ذکر ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک متعدد انبیاء اور ان کی قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ جسم میں دعوت الٰہی التوحید کی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ کی زبا ن سے کہلوایا ہے۔ ” الاتعبدوآ الا اللہ “ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، اپنے گناہوں کو بخشوائو اور خدا تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو۔ یہی بات دوسرے انبیاء نے بھی فرمائی۔ اس کے جواب میں مختلف اقوام کے لوگوں میں جو ردعمل پیدا ہوا ، اللہ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جن لوگوں نے نافرمانی کی۔ توحید باری تعالیٰ کا انکار کیا ، انبیاء کی نبوت اور رسالت کو تسلیم نہ کیا بلکہ الٹا ان کو تکالیف پہنچاتے ہرے ، ان کی توہین کرتے رہے ، اللہ نے ان کو اس دنیا میں بھی مختلف قسم کی سزائوں میں مبتلا کیا اور پھر آخرت کا عذاب تو ان کے لئے دائمی ہوگا۔ تاریخ انبیاء کی آخری کڑی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت اور راہنمائی حاصل کریں مگر لوگوں یک بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ، پاکیزہ عقائد کو بگاڑ کر مختلف فرقے بنا لئے۔ اللہ نے فرمایا کہ آگے جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے جب ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ملنے والا ہے۔ استقامت علی الدین گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ” فاستقم “ یعنی آپ اپنے دین پر مستقیم رہیں اور جن ایمانداروں نے آپ کے ساتھ توبہ کی ہے ، وہ بھی دین پر سیدھے رہیں اور سرکشی اختیار نہ کریں۔ فلاح و کامیابی کا مرکزی اصول استقامت علی الدین ہے یعنی دین پر مضبوطی کے ساتھ جم جانا اور اس ضمن میں کسی قسم کی کمزوی یا بزدلی نہ دکھانا ، حضور ﷺ اس اصول کی خاطر بڑے غمگین رہتے تھے کہ میری امت دین پر کس طرح مستقیم رہ سکے گی امام رازی فرماتے ہیں کہ دین کے تمام شعبوں میں استقامت کی ضرورت ہے۔ عقیدہ ، ایمان ، سیاسیات ، معاشیات ، اخلاقیات اور عبادات تمام معاملات میں پختگی کی ضرورت ہے حتی کہ وضو بھی سنت میں بتائی گئی ترتیب کے مطابق کرو کیونکہ غیر مرتب وضو کرنا مکروہ اور خلاف سنت سمجھا جاتا ہے۔ غرضیکہ تمام امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ ظالم اور مظلوم میں کشمکش اب ارشاد ہوتا ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا اور آپ نہ جھکیں یعنی نہ مائل ہوں ان لوگوں کی طرف جنہوں نے ظلم کیا۔ اگر ایسا کرو گے فتمسکم النار تو تم کو بھی جہنم کی آگ چھوٹے گی ، مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ میلان رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے ، اللہ نے ظالم کی حمایت کرنے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ فرمایا آگے جب جزائے عمل کی منزل آئے گی وما لکم من دون اللہ من اولیآء تو اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز اور مددگار نہیں ہوگا ۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر دنیا میں کسی کی حمایت کریں گے تو وہ اگلے جہان میں چھڑا لے گا ، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ کے دربار میں کسی کو لب کشائی کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔ ظالم اور مظلوم کی باہمی جنگ ہابیل اور قابیل کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ دنیا کا عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر لوگ مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لعن اللہ من اوی محمد ثاً جو مجرم کو پناہ دیتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ظاہر ہے کہ جس شخص پر اللہ لعنت کرے اس کے حالات کیسے درست ہو سکتے ہیں اور انسانی عاشرہ کیسے سدھر سکتا ہے ؟ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم صحابہ نے عرض کیا ، حضور ! ظالم کی مدد کیسے ہوگی ؟ فرمایا اس کو ظلم سے روک دنیا ہی اس کی مدد ہے۔ حضور کا یہ بھی ارشاد ہیعون الضعیف ونصر المظلوم یعنی کمزور آدمی کی اعانت کرو اور مظلوم کی مدد کرو۔ ہمارے دین کا یہ اہم اصول ہے لاتظلموا ولا تظلموا نہ خود کسی پر ظلم کرو اور نہ ظلم کو برداشت کرو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے۔ من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم قد خرج من الاسلام جو آدمی ظالم کی تائید کے لئے چل کرجاتا ہے اور وہ جانتا بھی ہے کہ یہ ظالم ہے تو ایسا شخصاسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ایک موقع پر ایک شخص نے حضرت ابوہریرہ کی موجودگی میں کہا الظالم لایغرالانفسہ ، ظالم خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑتا اس پر حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ ظلم کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے حتی کہ درخت اور نباتات بھی ظلم سے محفوظ نہیں رہتے اور پرندے بھی ظلم کی وجہ سے اپنے گھونسلوں میں لاغر ہو کر مرتے ہیں جب کوئی ناہنجار آدمی مرجاتا ہے تو درخت کہتے ہیں الحمد للہ یہ موذی انسان اس دنیا سے چلا گیا۔ خود قرآن پاک میں موجود ہے ” فقطع دابرالقوم الذین ظلموا ، والحمد للہ رب العلمین “ (الانعام) ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ یہی ظلم ہے جس کی وجہ سے دنیا بدامنی اور فتنہ و فساد کا گھر بنی ہوئی ہے۔ اکثر لوگ سرمایہ داروں ، وڈیروں ، ڈکٹیٹروں اور جاگیرداروں کا ساتھ دیتے ہیں اور مظلوم کی مدد کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر طرف ظلم و جور کا دور دورہ ہے۔ ظلم کی ریاست پوری دنیا کی سیاست کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں ، ظلم کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے۔ مگر مظلوم کا حال پوچھنے والا بھی کوئی نہیں افغان عوام کتنے سالوں سیروسی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ امریکہ اور روس جیسی سپرطاقتوں کے حمایتی تو بہت مل جائیں گے مگر مغلوب کے حق میں آواز اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کی جاتی۔ اگر سارے مسلمان ممالک ہی افغانستان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے تو معاملہ طے ہو سکتا تھا۔ مگر یہاں تو ہر طرف منافقت کی حکمرانی ہے ، زبان پر کچھ ہوتا ہے اور دل میں کچھ اور ہر طرف انسانیت کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ پاکیزہ اصول بتلا دیا ہے کہ ظالموں کی طرف مت مائل ہو۔ ظالم کی مدد سے معاشرہ پاک نہیں ہو سکتا۔ اگر دنیا کو امن و چین کا گہوارہ بنانا چاہتے ہو تو مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کو اس کے ظلم سے روکو ، ظلم میں کفر ، شرک ، بدعات اور گناہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ ان چیزوں کے مرتکبین ظالم ہیں جو کہ جہنم کا نشانہ بنیں گے اور پھر ان کی حمایت کرنے والے بھی ان کے ساتھ ہی جائیں گے۔ ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا ثم لا تنصرون پھر ان کی مدد بھی نہیں کی جائے گی اور ایسے لوگ بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔ اس قسم کے ظالموں اور ان کے حمایتیوں کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے۔ سورة فیل میں فرمایا ہے ” الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل “ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھوں والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ سورة فجر میں ہے ” الم ترکیف فعل ربک بعاد “ قوم عاد کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اور اللہ نے انہیں کس طرح ہلاک کیا یہ سب کچھ ظلم کی وجہ سے ہوا ، لہٰذا اللہ نے ظالموں کی طرف مائل ہونے سے منع فرما دیا۔ اقامت صلوۃ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع فرمایا اور دوسری طرف حضور ﷺ کو خطاب کر کے عام لوگوں سے فرمایا واقم الصلوۃ طرفی النھار نماز قائم کرو دن کے دونوں اطراف میں وزلفا من الیل اور رات کی گھڑیوں میں بھی استقامت علی الدین کے بعد اقامت صلوۃ دین کا اہم ترین اصول ہے دن کے دونوں اطراف سے مراد فجر ار عصر کی نمازیں ہیں جب کہ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاء آتی ہیں۔ بعض مفسرین اسی آیت کو پانچوں نمازوں پر محمول کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ دن کے پہلے کنارے سے پہلا پہر مراد ہے اور اس میں فجر کی نماز آتی ہے۔ جب کہ دوسرے کنارے سے پچھلا پہر مراد ہے جس میں ظہر اور عصر دونوں نمازیں آتی ہیں۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں نمازوں کی طرف اشارہ ملتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سورة ہود مکی سورة ہے جب کہ پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کی رات کو ہوئی جو کہ مکی دور کے بالکل آخری حصے کا واقعہ ہے اس لئے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت سے پانچ نمازیں نہیں بلکہ تین مراد ہیں یعنی فجر ، عصر اور رات کی نمازیں اور اسلا م کے ابتدائی دور میں نمازیں تین ہی تھیں جو کہ بعد میں پانچ کردی گئیں۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس سے تعلق باللہ درست ہوتا ہے۔ پانچ وقتہ نماز تقرب الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے اگر انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہوجائے گا تو انسان ظلم سے بچ جائیں گے ، وہ تمام حقوق ادا کریں گے اور ظلم و زیادتی کا قلع قمع کردیں گے۔ اس کے برخلاف اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ضائع کیا گیا تو اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم نہیں رہ سکے گا اور ساری باتیں بگڑ جائیں گی ، جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے ، اس کے لئے دین کی باقی باتوں کو ضائع کرنا آسان ہے۔ حضرت عمر فاروق کا قول بھی ہے کہ لوگو ! نماز قائم کرو تاکہ تمہارا تعلق باللہ درست رہے۔ برائی کے بعد نیکی نماز جیسی عظیم نیکی کے ذکر کے بعد فرمایا ان الحسنت یذھبن السیات بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ نماز کے تمام اراکین طہارت ، وقت ، تلاوت ، تسبیح ، تہلیل ، مناجات ، دعا ، قیام ، رکوع قعود اور سجود وغیرہ نیکیاں ہیں۔ یہ نیکیاں بجا لائو گے تو برائیاں مٹتی چلی جائیں گی۔ حضور ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری سے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی برائی سر زد ہوجائے تو اس کے پیچھے نیکی لگا دو تاکہ وہ برائی مٹ جائے ۔ نیز فرمایا خالق الناس بخلق حسن لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو۔ برائیوں کو مٹانے کا یہ عمدہ نسخہ ہے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن پاک کیحاشیے میں صرف ایک سطر میں کمال درجے کا مضمون باندھا ہے فرماتے ہیں کہ نیکیاں برائیوں کو تین طریقے سے ختم کرتی ہیں۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق پہلی بات یہ ہے کہ جو نیکی کریگا اس کی برائیاں معاف ہوں گی مالم یوت کبیراً بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔ کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتا۔ دوسری جگہ فرمایا ” نکفر عنکم سیاتکم “ ہم تمہارئی برائیوں کو مٹا دیں گے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ جمعہ کی نماز ادا کرنے والے کی ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے بلکہ تین مزید دنوں کی خطائوں کی بھی معافی مل جاتی ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ اللہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کی غلطیوں کو معاف کردیتا ہے۔ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں۔ انسان جب وضو کے لئے ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں یک گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، جب منہ دھوتا ہے تو منہ کے گناہ معاف اور جب پائوں دھوتا ہے تو پائوں سے چل کر کئے گئے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال فرمایا پ ہلی بات یہ ہے کہ جب انسان نیکی کرتا ہے اس کی برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور دوسری بات شاہ صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ ” جو نیکیاں اختیار کرے ، اس سے خود برائیوں کی چھوٹے “ اور تیسری بات یہ کہ ” جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو ، وہاں ہدایت آئے اور گمراہی مٹے۔ ان تینوں طریقوں سے برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ مگر شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ برائیاں اس وقت مٹیں گی جب نیکیوں کا وزن غالب ہوگا۔ کیونکہ جس قدر کپڑے میں میل زیادہ ہوتی ہے۔ اسی قدر صابن کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی نیکیاں ساٹھ فیصد ہیں تو اس کی چالیس فیصد برائیاں مٹ جائیں گی اور اگر برائیوں کا غلبہ ہوگا تو ان کے لئے مٹنا مشکل ہوجائے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں نیکی برائیوں کو دور کرتی ہیں۔ فرمایا ذلک ذکریللذکرین یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے جو شخص ان نصائح کو قبول کرے گا ، نماز ادا کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں کے بدلے میں اس کی برائیوں کو مٹا دے گا۔ صبر کا اجر آگے حضور ﷺ کو خطاب کر کے پوری امت کو بات سمجھائی گئی ہے واصبر آپ صبر کریں۔ جو بھی نیکی کا کام کریگا ، اسے تکالیف پہنچیں گی ، تمام انبیاء اور اللہ کے نیک بندے اس آزمائش سے گزرچکے ہیں اور یہ دین کا زریں اصول ہے کہ سختی کو برداشت کریں۔ صبر ہمارے دین کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے۔ باقی اصول اللہ کا ذکر ، توحید ، شکر ، تعظیم شعائر اللہ وغیرہ ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر یہ سب چیزیں ضروری ہیں۔ تو فرمایا آپ صبر کریں کیونکہ فان اللہ لایضیع اجر المحسنین اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ اگر دین پر استقامت اختیار کرو گے ، مظلوم کیحمایت کرو گے تو اس کی نیکی کا اجر ضرور ملے گا جب اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوگا تو برائی کا جذبہ مضمحل ہوجائے گا۔ یہی نیکی ہے جس کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔
Top