Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ
: اور
لَا تَرْكَنُوْٓا
: نہ جھکو
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
ظَلَمُوْا
: ظلم کیا انہوں نے
فَتَمَسَّكُمُ
: پس تمہیں چھوئے گی
النَّارُ
: آگ
وَمَا
: اور نہیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنْ دُوْنِ
: سوا
اللّٰهِ
: اللہ
مِنْ
: کوئی
اَوْلِيَآءَ
: مددگا۔ حمایتی
ثُمَّ
: پھر
لَا تُنْصَرُوْنَ
: نہ مدد دئیے جاؤگے
اور مت جھکو ان لوگوں کی طرف جنہوں نے ظلم کیا ، پس چھوٹے گی تم کو آگ ، اور نہیں ہوگا تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار ، پھر تمہاری (کسی طرف سے بھی) مدد نہیں کی جائے گی
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر توحید کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عقائد یعنی رسالت ، قیامت ، جزائے عمل اور قرآن کی صداقت و حقانیت کا ذکر ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک متعدد انبیاء اور ان کی قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ جسم میں دعوت الٰہی التوحید کی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ کی زبا ن سے کہلوایا ہے۔ ” الاتعبدوآ الا اللہ “ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، اپنے گناہوں کو بخشوائو اور خدا تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو۔ یہی بات دوسرے انبیاء نے بھی فرمائی۔ اس کے جواب میں مختلف اقوام کے لوگوں میں جو ردعمل پیدا ہوا ، اللہ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جن لوگوں نے نافرمانی کی۔ توحید باری تعالیٰ کا انکار کیا ، انبیاء کی نبوت اور رسالت کو تسلیم نہ کیا بلکہ الٹا ان کو تکالیف پہنچاتے ہرے ، ان کی توہین کرتے رہے ، اللہ نے ان کو اس دنیا میں بھی مختلف قسم کی سزائوں میں مبتلا کیا اور پھر آخرت کا عذاب تو ان کے لئے دائمی ہوگا۔ تاریخ انبیاء کی آخری کڑی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت اور راہنمائی حاصل کریں مگر لوگوں یک بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ، پاکیزہ عقائد کو بگاڑ کر مختلف فرقے بنا لئے۔ اللہ نے فرمایا کہ آگے جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے جب ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ملنے والا ہے۔ استقامت علی الدین گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ” فاستقم “ یعنی آپ اپنے دین پر مستقیم رہیں اور جن ایمانداروں نے آپ کے ساتھ توبہ کی ہے ، وہ بھی دین پر سیدھے رہیں اور سرکشی اختیار نہ کریں۔ فلاح و کامیابی کا مرکزی اصول استقامت علی الدین ہے یعنی دین پر مضبوطی کے ساتھ جم جانا اور اس ضمن میں کسی قسم کی کمزوی یا بزدلی نہ دکھانا ، حضور ﷺ اس اصول کی خاطر بڑے غمگین رہتے تھے کہ میری امت دین پر کس طرح مستقیم رہ سکے گی امام رازی فرماتے ہیں کہ دین کے تمام شعبوں میں استقامت کی ضرورت ہے۔ عقیدہ ، ایمان ، سیاسیات ، معاشیات ، اخلاقیات اور عبادات تمام معاملات میں پختگی کی ضرورت ہے حتی کہ وضو بھی سنت میں بتائی گئی ترتیب کے مطابق کرو کیونکہ غیر مرتب وضو کرنا مکروہ اور خلاف سنت سمجھا جاتا ہے۔ غرضیکہ تمام امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ ظالم اور مظلوم میں کشمکش اب ارشاد ہوتا ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا اور آپ نہ جھکیں یعنی نہ مائل ہوں ان لوگوں کی طرف جنہوں نے ظلم کیا۔ اگر ایسا کرو گے فتمسکم النار تو تم کو بھی جہنم کی آگ چھوٹے گی ، مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ میلان رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے ، اللہ نے ظالم کی حمایت کرنے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ فرمایا آگے جب جزائے عمل کی منزل آئے گی وما لکم من دون اللہ من اولیآء تو اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز اور مددگار نہیں ہوگا ۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر دنیا میں کسی کی حمایت کریں گے تو وہ اگلے جہان میں چھڑا لے گا ، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ کے دربار میں کسی کو لب کشائی کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔ ظالم اور مظلوم کی باہمی جنگ ہابیل اور قابیل کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ دنیا کا عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر لوگ مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لعن اللہ من اوی محمد ثاً جو مجرم کو پناہ دیتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ظاہر ہے کہ جس شخص پر اللہ لعنت کرے اس کے حالات کیسے درست ہو سکتے ہیں اور انسانی عاشرہ کیسے سدھر سکتا ہے ؟ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم صحابہ نے عرض کیا ، حضور ! ظالم کی مدد کیسے ہوگی ؟ فرمایا اس کو ظلم سے روک دنیا ہی اس کی مدد ہے۔ حضور کا یہ بھی ارشاد ہیعون الضعیف ونصر المظلوم یعنی کمزور آدمی کی اعانت کرو اور مظلوم کی مدد کرو۔ ہمارے دین کا یہ اہم اصول ہے لاتظلموا ولا تظلموا نہ خود کسی پر ظلم کرو اور نہ ظلم کو برداشت کرو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے۔ من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم قد خرج من الاسلام جو آدمی ظالم کی تائید کے لئے چل کرجاتا ہے اور وہ جانتا بھی ہے کہ یہ ظالم ہے تو ایسا شخصاسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ایک موقع پر ایک شخص نے حضرت ابوہریرہ کی موجودگی میں کہا الظالم لایغرالانفسہ ، ظالم خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑتا اس پر حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ ظلم کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے حتی کہ درخت اور نباتات بھی ظلم سے محفوظ نہیں رہتے اور پرندے بھی ظلم کی وجہ سے اپنے گھونسلوں میں لاغر ہو کر مرتے ہیں جب کوئی ناہنجار آدمی مرجاتا ہے تو درخت کہتے ہیں الحمد للہ یہ موذی انسان اس دنیا سے چلا گیا۔ خود قرآن پاک میں موجود ہے ” فقطع دابرالقوم الذین ظلموا ، والحمد للہ رب العلمین “ (الانعام) ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ یہی ظلم ہے جس کی وجہ سے دنیا بدامنی اور فتنہ و فساد کا گھر بنی ہوئی ہے۔ اکثر لوگ سرمایہ داروں ، وڈیروں ، ڈکٹیٹروں اور جاگیرداروں کا ساتھ دیتے ہیں اور مظلوم کی مدد کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر طرف ظلم و جور کا دور دورہ ہے۔ ظلم کی ریاست پوری دنیا کی سیاست کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں ، ظلم کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے۔ مگر مظلوم کا حال پوچھنے والا بھی کوئی نہیں افغان عوام کتنے سالوں سیروسی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ امریکہ اور روس جیسی سپرطاقتوں کے حمایتی تو بہت مل جائیں گے مگر مغلوب کے حق میں آواز اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کی جاتی۔ اگر سارے مسلمان ممالک ہی افغانستان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے تو معاملہ طے ہو سکتا تھا۔ مگر یہاں تو ہر طرف منافقت کی حکمرانی ہے ، زبان پر کچھ ہوتا ہے اور دل میں کچھ اور ہر طرف انسانیت کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ پاکیزہ اصول بتلا دیا ہے کہ ظالموں کی طرف مت مائل ہو۔ ظالم کی مدد سے معاشرہ پاک نہیں ہو سکتا۔ اگر دنیا کو امن و چین کا گہوارہ بنانا چاہتے ہو تو مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کو اس کے ظلم سے روکو ، ظلم میں کفر ، شرک ، بدعات اور گناہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ ان چیزوں کے مرتکبین ظالم ہیں جو کہ جہنم کا نشانہ بنیں گے اور پھر ان کی حمایت کرنے والے بھی ان کے ساتھ ہی جائیں گے۔ ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا ثم لا تنصرون پھر ان کی مدد بھی نہیں کی جائے گی اور ایسے لوگ بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔ اس قسم کے ظالموں اور ان کے حمایتیوں کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے۔ سورة فیل میں فرمایا ہے ” الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل “ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھوں والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ سورة فجر میں ہے ” الم ترکیف فعل ربک بعاد “ قوم عاد کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اور اللہ نے انہیں کس طرح ہلاک کیا یہ سب کچھ ظلم کی وجہ سے ہوا ، لہٰذا اللہ نے ظالموں کی طرف مائل ہونے سے منع فرما دیا۔ اقامت صلوۃ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع فرمایا اور دوسری طرف حضور ﷺ کو خطاب کر کے عام لوگوں سے فرمایا واقم الصلوۃ طرفی النھار نماز قائم کرو دن کے دونوں اطراف میں وزلفا من الیل اور رات کی گھڑیوں میں بھی استقامت علی الدین کے بعد اقامت صلوۃ دین کا اہم ترین اصول ہے دن کے دونوں اطراف سے مراد فجر ار عصر کی نمازیں ہیں جب کہ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاء آتی ہیں۔ بعض مفسرین اسی آیت کو پانچوں نمازوں پر محمول کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ دن کے پہلے کنارے سے پہلا پہر مراد ہے اور اس میں فجر کی نماز آتی ہے۔ جب کہ دوسرے کنارے سے پچھلا پہر مراد ہے جس میں ظہر اور عصر دونوں نمازیں آتی ہیں۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں نمازوں کی طرف اشارہ ملتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سورة ہود مکی سورة ہے جب کہ پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کی رات کو ہوئی جو کہ مکی دور کے بالکل آخری حصے کا واقعہ ہے اس لئے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت سے پانچ نمازیں نہیں بلکہ تین مراد ہیں یعنی فجر ، عصر اور رات کی نمازیں اور اسلا م کے ابتدائی دور میں نمازیں تین ہی تھیں جو کہ بعد میں پانچ کردی گئیں۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس سے تعلق باللہ درست ہوتا ہے۔ پانچ وقتہ نماز تقرب الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے اگر انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہوجائے گا تو انسان ظلم سے بچ جائیں گے ، وہ تمام حقوق ادا کریں گے اور ظلم و زیادتی کا قلع قمع کردیں گے۔ اس کے برخلاف اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ضائع کیا گیا تو اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم نہیں رہ سکے گا اور ساری باتیں بگڑ جائیں گی ، جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے ، اس کے لئے دین کی باقی باتوں کو ضائع کرنا آسان ہے۔ حضرت عمر فاروق کا قول بھی ہے کہ لوگو ! نماز قائم کرو تاکہ تمہارا تعلق باللہ درست رہے۔ برائی کے بعد نیکی نماز جیسی عظیم نیکی کے ذکر کے بعد فرمایا ان الحسنت یذھبن السیات بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ نماز کے تمام اراکین طہارت ، وقت ، تلاوت ، تسبیح ، تہلیل ، مناجات ، دعا ، قیام ، رکوع قعود اور سجود وغیرہ نیکیاں ہیں۔ یہ نیکیاں بجا لائو گے تو برائیاں مٹتی چلی جائیں گی۔ حضور ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری سے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی برائی سر زد ہوجائے تو اس کے پیچھے نیکی لگا دو تاکہ وہ برائی مٹ جائے ۔ نیز فرمایا خالق الناس بخلق حسن لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو۔ برائیوں کو مٹانے کا یہ عمدہ نسخہ ہے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن پاک کیحاشیے میں صرف ایک سطر میں کمال درجے کا مضمون باندھا ہے فرماتے ہیں کہ نیکیاں برائیوں کو تین طریقے سے ختم کرتی ہیں۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق پہلی بات یہ ہے کہ جو نیکی کریگا اس کی برائیاں معاف ہوں گی مالم یوت کبیراً بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔ کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتا۔ دوسری جگہ فرمایا ” نکفر عنکم سیاتکم “ ہم تمہارئی برائیوں کو مٹا دیں گے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ جمعہ کی نماز ادا کرنے والے کی ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے بلکہ تین مزید دنوں کی خطائوں کی بھی معافی مل جاتی ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ اللہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کی غلطیوں کو معاف کردیتا ہے۔ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں۔ انسان جب وضو کے لئے ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں یک گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، جب منہ دھوتا ہے تو منہ کے گناہ معاف اور جب پائوں دھوتا ہے تو پائوں سے چل کر کئے گئے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال فرمایا پ ہلی بات یہ ہے کہ جب انسان نیکی کرتا ہے اس کی برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور دوسری بات شاہ صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ ” جو نیکیاں اختیار کرے ، اس سے خود برائیوں کی چھوٹے “ اور تیسری بات یہ کہ ” جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو ، وہاں ہدایت آئے اور گمراہی مٹے۔ ان تینوں طریقوں سے برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ مگر شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ برائیاں اس وقت مٹیں گی جب نیکیوں کا وزن غالب ہوگا۔ کیونکہ جس قدر کپڑے میں میل زیادہ ہوتی ہے۔ اسی قدر صابن کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی نیکیاں ساٹھ فیصد ہیں تو اس کی چالیس فیصد برائیاں مٹ جائیں گی اور اگر برائیوں کا غلبہ ہوگا تو ان کے لئے مٹنا مشکل ہوجائے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں نیکی برائیوں کو دور کرتی ہیں۔ فرمایا ذلک ذکریللذکرین یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے جو شخص ان نصائح کو قبول کرے گا ، نماز ادا کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں کے بدلے میں اس کی برائیوں کو مٹا دے گا۔ صبر کا اجر آگے حضور ﷺ کو خطاب کر کے پوری امت کو بات سمجھائی گئی ہے واصبر آپ صبر کریں۔ جو بھی نیکی کا کام کریگا ، اسے تکالیف پہنچیں گی ، تمام انبیاء اور اللہ کے نیک بندے اس آزمائش سے گزرچکے ہیں اور یہ دین کا زریں اصول ہے کہ سختی کو برداشت کریں۔ صبر ہمارے دین کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے۔ باقی اصول اللہ کا ذکر ، توحید ، شکر ، تعظیم شعائر اللہ وغیرہ ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر یہ سب چیزیں ضروری ہیں۔ تو فرمایا آپ صبر کریں کیونکہ فان اللہ لایضیع اجر المحسنین اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ اگر دین پر استقامت اختیار کرو گے ، مظلوم کیحمایت کرو گے تو اس کی نیکی کا اجر ضرور ملے گا جب اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوگا تو برائی کا جذبہ مضمحل ہوجائے گا۔ یہی نیکی ہے جس کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔
Top