بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الر۔ یہ کتاب ہے اس کی آیات کو محکم کیا گیا ہے پھر تفصیل کی گئی ہے حکیم اور خبیر کی طرف سے
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة ہود ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے عظیم رسول تھے جو حضرت نوع ح کے بعد قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے ، اس سورة میں آپ کی تبلیغ کے حالات بیان ہوئے ہیں ، اس لحاظ سے اس سورة کا نام آپ کے نام پر سورة ہود رکھا گیا ہے۔ گذشتہ سورة یونس کی طرح یہ بھی مکی سورة ہے۔ سورة یونس اور سورة ہود ہجرت سے پہلے مکی زندگی کی آخری سورتیں ہیں اور ان کا زمانہ نزول قریب قریب ہی ہے۔ اس سورة مبارکہ کی ایک سو تیئس آیات اور دس رکوع ہیں۔ ا س میں ایک ہزار چھو سو پچیس کلمات اور چھ ہزار نو سو پانچ سو پانچ حروف ہیں۔ مضامین سورة اس سورة کا مرکزی مضمون دعوت الی التوحید ہے۔ اس کے علاوہ وحی الٰہی اور قرآن پاک کی صداقت ، رسالت اور قیامت جیسے بنیادی مسائل بیان کئے گئے ہیں اور پھر بعض ضمنی مسائل بھی آگئے ہیں۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں رغبت بھی دلائی گئی ہے اور تبلیغ کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے۔ جس طرح اللہ کے انبیاء (علیہم السلام) اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے ، اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ اللہ کے اس آخری دین کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں۔ تبلیغ دین کے ضمن میں حضور ﷺ اور آپ کے متبعین کو جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے اور جو مصائب برداشت کرنے پڑے ان پر اللہ نے صبر کی تلقین بھی کی ہے۔ جس طرح سورة اعراف میں بعض انبیاء کی تاریخ بیان کر کے عالمی دعوت اسلام کا ذکر کیا گیا تھا ، اسی طرح اس سورة میں بھی بعض انبیاء (علیہم السلام) کا تذکرہ کر کے ان کی قوموں کے برے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے ، گذشتہ سورة یونس میں حضور ﷺ کے علاوہ جلیل القدر انبیاء حضرت نوع (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت ہارون (علیہ السلام) اور حضرت یونس (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کا ذکر تھا مگر اس سورة مبارکہ میں دیگر بہت سے رسولوں کا تذکرہ آرہا ہے ، گذشتہ سورة میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر اجمالا کیا گیا تھا مگر اس سورة میں تفصیل کے ساتھ واقعات آئیں گے اس طرح حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا نصیحت اور عبرت پر مشتمل اہم حصہ بیان ہوگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر ہوگا ، اور پھر خود حضور نبی کریم (علیہ السلام) کا طریقہ تبلیغ اور اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر بھی آئے گا۔ سورۃ اعراف میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ قول گزر چکا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا (آیت) ” یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ “ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اسی طرح یہی بات یہاں حضور ﷺ کی زبان سے کہلوائی جارہی ہے ” الا تعبدوا الا اللہ “ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) ، شعیب (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) کی بھی یہی تبلیغ بیان فرمائی ہے کہ اللہ کی واحدانیت کو مانو ، اس کے علاوہ کسی کو معبود نہ بنائو۔ غرضیکہ اس سورة مبارکہ کا مرکزی مضمون بھی دعوت الیٰ التوحید ہی ہے اور سورة کی ابتداء بھی اسی مضمون سے کی گئی ہے قرآن پاک کی حقانیت ، اللہ کی توحید ، انبیاء کی رسالت اور معاد کے ذکر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خطائوں پر توبہ اور استغفار کر نیکی ترغیب بھی دی ہے۔ حروف مقطعات سورۃ کی ابتداء ” الر ” کے حروف مقطعات سے ہوتی ہے ان حروف کی تفسیر مفسرین کرام مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ حروف مقطعات کے متعلق جلالین والے بزرگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں (1۔ جلالین ، ص 4) اللہ اعلم بمرادہ امنا بذلک “ اس کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان حروف سے اللہ کی جو مراد ہے وہ برحق ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں ہر چیز کا علم حاصل ہو۔ روزمرہ زندگی میں ہمیں بیشمار چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ہوتے یا بہت کم علم رکھتے ہیں۔ علیم کل صرف ذات خداوندی ہے لہٰذا سلف صالحین نے حروف مقطعات کے بارے میں زیادہ بحث نہیں کی۔ امام شعبی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) کے استاد اور تابعین میں سے ہیں۔ آپ نے پانچ سو صحابہ ؓ سے فیض حاصل کیا ہے ، کوفے میں رہتے تھے۔ آپ عظیم محدث تھے کسی نے آپ سے حروف مقطعات کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا ” سر اللہ فلا تطلبوا “ یہ اللہ کے راز ہیں ، ان کے پیچھے مت پڑو کرید کرو گے تو حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ بلکہ گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ سلامتی اسی میں ہے کہ اس معاملے کو اللہ کی طرف سونپ دو ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس چیز کو تم جانتے ہو ، اس کو کہو اور جس کو نہیں جانتے ” وکلوہ الی عالمہ “ اس کو جاننے والے کی طرف سونپ دو ۔ تم خواہ مخواہ اس میں دخل اندازی نہ کرو ، ورنہ متشابہات میں پڑ کر گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اسی وجہ سے کئی لوگ گمراہ ہوئے اور پھر علیحدہ علیحدہ فرقے بنے۔ فرقہ مشبہ اور معطلہ وغیرہ ایسی آیات میں زیادہ کرید کی وجسہ سے ہی پیدا ہوئے مثلا کوئی یہ سوچنے لگ جائے کہ رحمان عرش پر کیسے مستوی ہے ، یا اللہ کے ہاتھ ، اس کے چہرہ اور پنڈلی کیسی ہے۔ قرآن پاک میں ان چیزوں کا ذکر موجود ہے مگر ان کی کیفیت معلوم نہیں ، لہٰذا ایسے معاملات میں کرید نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ حضرت عبداللہ بن عباس رض ، حضرت علی ؓ اور بعض مفسرین نے لوگوں کے ذہنوں کو قرآن پاک سے قریب تر لانے کے لیے ان الفاظ کے کچھ معانی بھی بتائے ہیں مگر یہ محض احتمال اور ظن غالب ہے ، قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) الہامی طریقے پر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذوق میں یہ چیز ڈال دی ہے کہ عالم غیب سے حقائق غیبیہ یعنی دین کی تعلیم اور اس کے بڑے بڑے اصول انبیاء کی معرفت اس عالم تخلیط میں متعین ہوتے ہیں جو کہ اس مادی جہان کے عقائد فاسدہ ، رسومات بد ، اخلاق بد ، شرور اور قبائح کے ساتھ ہر وقت ٹکراتے رہتے ہیں۔ چناچہ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے کہ مختلف انبیاء نے فریضہ تبلیغ کس طرح ادا کیا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ تو شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ خیرو شر کے اس ٹکرائو سے مقام انبیاء کی طرف اشارہ ملتا ہے اور ان حروف مقطعات سے یہی مراد ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ’ 1 ‘ کا اشارہ انا کی طرف ہے۔ ل سے اللہ مراد ہے اور ر سے مقصود رئویت ہے اور اس طرح ” الر “ کا مفہوم بنتا ہے ” انا اللہ اری “ یعنی میں اللہ ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ گویا تم میں سے اطاعت گزراوں کی اطاعت اور نافرمانوں کی نافرمانی سب کو دیکھ رہا ہوں اور ہر ایک کو اس کے مطابق بدلہ دوں گا۔ بہرحال میں نے عرض کردیا کہ عوام کو یہی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان حروف کی حقیقی اور اصل مراد اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارا اس پر ایمان ہے کہ یہ برحق ہے۔ محکم آیات اب ابتدائے سورة میں قرآن پاک کی صداقت اور حقانیت کو ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” کتب احکمت ایتہ “ یہ کتاب ہے جس کی آیات کو محکم کیا گیا ہے۔ محکم کا معنی مضبوط اور اٹل ہوتا ہے ، اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کی آیات میں قطعیت پائی جاتی ہے یہ ناقابل تنسیخ اور اس کے اصول و ضوابط ہر دور کے لیے واجب العمل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسانوں کو فلاح نصیب ہوگی۔ تو فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیتیں محکم ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ (آیت) ” ثم فصلت من الدن حکیم خبیر “ پھر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ان آیات کی تفصیل بھی کی گئی ہے۔ اب اس تفصیل کا مطلب کئی طریقے سے بیان کیا جاتا ہے تفصیل کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کے اصول وقواعد کو پڑھ لو ، سن لو اور اچھی طرح یاد کرلو اور اس کے بعد اس کی تفصیل میں جائو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب میں دین کے تمام عقائد ، احکام اور مسائل کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے اور یہ تفصیل بھی خدا تعالیٰ کی جانب سے ہوئی ہے۔ موقع اور محل کے مطابق کہیں عقیدے کا ذکر ہے تو کہیں اعمال کی تفصیلات ہیں اور کہیں اخلاقیات کی تعلیمات کا ذکر ہے۔ تا ہم اگر ایک جگہ پر کسی چیز کا اجمالا بیان کیا گیا ہے تو دوسری جگہ اس کی تفصیلات آگئی ہیں اور اس کی تمام ضروری جزئیات کو واضح کردیا ہے اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان آیات کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے اصول تفسیر قرآن پاک کی تفسیر کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ کسی آیت کی تفسیر باتشریح سب سے پہلے خود قرآن پاک میں تلاش کرو۔ اگر کسی مقام پر بات واضح نہیں ہوئی تو دوسرے مقام پر ہوجائے گی۔ اور اگر کسی مسئلہ کی تفسیر وتشریح قرآن پاک میں نہ ملے تو پھر تفسیر کا دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کے نبی کی طرف رجوع کرو کہ انہوں نے مطلوبہ تشریح فرما دی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بات کا پابند کیا ہے (آیت) ” لتبین للناس ما نزل الیھم “ (النحل) کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے ، لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کردیں تا کہ کسی قسم کا اشکال باقی نہ رہے۔ سورة آل عمران میں آتا ہے (آیت) ” ھذا بیان للناس “ یہ لوگوں کے لیے وضاحت ہے جو کہ نبی کی زبان سے کرائی گئی ہے۔ اگر بفرض محال کسی بات کی تشریح نبی کی زبان میں میں بھی نہ ملے تو پھر حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بالخصوص خلفائے راشدین ؓ اور آپ کے اہل بیت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور وہاں سے تشریح معلوم کی جائے گی۔ ہر دور میں حوادثات پیش آتے رہتے ہیں اور مکان وزمان کے لحاظ سے نئے نئے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حل صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں بھی نہ ہو تو قرآن میں یہ عام اصول بیان کردیا گیا ہے (آیت) ” لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم “ (النسائ) تو پھر ان لوگوں کی طرف رجوع کیا جائے جنہیں اللہ نے اجتہاد واستنباط کا ملکہ عطا کیا ہے۔ وہ بتا دیں گے کہ فلاں مسئلہ فلان آیت یا اس کے ضمن سے ثابت ہو رہا ہے اور اس طرح قرآن پاک کی کسی بھی آیت کی مطلوبہ تشریح و تفسیر حاصل ہوجائے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تفصیل مذکورہ کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہو خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے متصور ہوگی۔ غرضیکہ نبی کا بیان ، صحابہ کی تشریح یا مجتہد کا استنباط سب اللہ کی طرف سے ہوگا ، کیونکہ مجتہد کا اجتہاد بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم وفہم کی بناء پر ہی ہوگا ، تفسیر کے یہ اصول امام ابوبکر جصاص (رح) نے اپنی تفسیر میں بیان کیے ہیں۔ قرآن پاک کی تفہیم کے سلسلے می آجکل اصول تفسیر کی پابندی نہیں کی جا رہی ہے۔ پرویز جیسے بعض نئے مفسرین دراصل جہاں ہیں جو قرآن پاک کی من مانی تفسیریں کر رہے ہیں۔ امام شافعی (رح) امام ابن تیمیہ رح۔ شاہ ولی اللہ (رح) اور مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) فرماتے ہیں کہ صحیح سند سے ثابت ہونے والی ہر حدیث قرآن پاک کی شرح ہے۔ اگر کوئی شخص حدیث سے بےنیاز ہو کر قرآن پاک کی تفسیر کرے گا تو گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایسا مفسر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دے گا ، لہٰذا قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کے لیے مسلمہ اصولوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہوگا۔ عبادت خداوندی فرمایا یہ کتاب ہے جس کی آیتوں کو محکم کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ کی جانب سے اس کی تفصیل کی گئی ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ” الا تعبدوا الا اللہ “ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کرو ، یعنی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، عبادت کا معنی انتہائی درجے کی تعظیم ہوتا ہے۔ یہ تعظیم قول ، فعل ، مال ، جسم قالب اور جان سے بھی ہوتی ہے۔ انتہائی تعظیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس ذات کی تعظیم کی جارہی ہے۔ وہ قادر مطلق ، علیم کل ، مختار کل ، نافع اور ضار ہے۔ وہ ذات ہماری غائبانہ پکار کو سنتی اور ہماری حاجت روائی کرتی ہے ، ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تو ان ہے اس کے سوا کوئی بااختیار ذات نہیں جو ہر چیز کو جانتی اور سب کچھ کرسکتی ہو یہ صفات چونکہ صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں لہٰذا فرمایا کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کرو۔ کیونکہ عبادت کے لائق صرف وہی ذات ہے۔ توحید کے بعد دوسری اہم بات رسالت ہے جس کے متعلق ارشاد ہے (آیت) ” اننی لکم منہ نذیر وبشیر “ بیشک میں خدا تعالیٰ کی جانب سے تمہارے لیے ڈرانے والا اور بشارت سنانے والا ہوں میں تمہیں افعال بد سے ڈرا رہا ہوں کہ ان کا انجام بہت برا ہوگا ، تمہیں ان افعال کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ اور بشیر اس لحاظ سے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرے گا ، نیک اعمال انجام دے گا ، اس کو خوشخبری دیتا ہوں کہ اسے فلاح نصیب ہوگی اور اسے جنت میں اعلیٰ درجات عطا ہوں گے۔ استغفار کی برکات فرمایا اس کتاب کی محکم آیات میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے (آیت) ” وان استغفروا ربکم “ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو ، ہر شخص سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوتی رہتی ہے جس کا علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ معافی مانگتے رہو (آیت) ” ثم توبوا لیہ “ اور ہر طرح ، خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ تو بہ پہلے ہوتی ہے اور استغفار بعد میں ، مگر بعض دوسرے اصحاب فرماتے ہیں کہ پہلے کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی سے معافی طلب کرنی چاہیے اور اس کے بعد فرمانبرداری کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ بہرحال فرمایا کہ اگر استغفار کرتے رہو گے اور خدا تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” یمتعکم متاعا حسنا الی اجل مسمی “ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اچھا فائدہ پہنچائے گا۔ جب تک اس دنیا میں زندگی حاصل رہے گی ، اتنی مدت تک اللہ تعالیٰ بہتر فائدہ دیتا رہے گا (آیت) ” ویوت کل ذی فضل فضلہ “ اور فضیلت والے کو اپنے فضل سے خاص طور پر زیادہ عطا کریگاگویا استغفار کرنے اور توبہ کرنے والے کہ یہ دو فوائد حاصل ہوں گے۔ متاع حسن امام محمد بن ابوبکر عبدالقادر رازی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا میں متاع حسن تو نافرمانوں کو بھی مل رہا ہے بلکہ ہر دور میں نافرمان زیادہ آسودہ حال نظر آتے ہیں تو یہاں پر توحید کو مان کر استغفار کرتے اور توبہ کرنے والوں کو کیا خصوصیت حاصل ہے ؟ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہاں پر متاع حسن سے مراد دنیا کا مال و دولت اور جاہ واقتدار نہیں بلکہ اس سے پاک زندگی مراد ہے جس کے متعلق سورة نحل میں آتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد جو کوئی نیک اعمال انجام دے گا خواہ مرد ہو یا عورت (آیت) ” فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ “ ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور یہ زندگی اس شخص کو حاصل ہوگی جو نیکی کرنے والا ، اللہ کی رضا پر چلنے والا ، اعمال صالحہ انجام دینے والا ، برائی سے بچنے والا اور توبہ و استغفار کرنے والا ہوگا ایسے شخص کو مدت حیات تک پاکیزہ زندگی نصیب ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ فضیلت والا آدمی وہ ہے جس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوں۔ امام قشیری (رح) اور بعض دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ صاحب فضیلت وہ شخص ہے جسے اللہ نے نوشتہ ازلی میں فضیلت والوں درج کر رکھا ہے۔ ایسا شخص ہمیشہ فضیلت والے کام انجام دیتا رہے گا۔ بعض فرماتے ہیں کہ صاحب فضیلت وہ آدمی ہے جس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ دوسروں کے کام پورے کراتا ہے ظاہر ہے کہ ایسا شخص وہی ہوگا جو صاحب ایمان ہوگا اور اس کے ہاتھوں سے مخلوق خدا کا بھلا ہو رہا ہوگا۔ بنی نو انسان میں انبیاء (علیہم السلام) سب کے سب اس فہرست میں آتے ہیں اور ان کے بعد ان کو صحیح طریقے سے ماننے والے اور شریعت پر عمل کرنے والے لوگ صاحب فضیلت ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے پیشوا تھے اور ان کے ہاتھ سے اللہ نے دنیا کو فیض پہنچایا۔ خوف خدا فرمایا (آیت) ” وان تولوا “ اگر تم رو گردانی کروگے ، توحید کا انکار کروگے توبہ اور استغفار نہیں کرو گے تو سن لو (آیت) ” فانی اخاف علیکم عذاب یوم کبیر “ کہ میں خوف کھاتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے بڑے دن سے مراد قیامت ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اس دن کے عذاب کا شکار نہ بن جائو۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق سورة مطففین میں ہے (آیت) ” الا یظن اولئک انھم مبعوثون لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العلمین “ کیا یہ خیال نہیں کرتے کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ ایک بڑے دن میں جس دن تمام لوگ رب العلیم کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ فرمایا تم دنیا میں جو کچھ بھی کرو ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو یا اس کی نافرمانی کرو ، ہر حالت میں (آیت) ” الی اللہ مرجعکم “ تمہیں خدا تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ہر شخص کو خدا کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جو ابداہی کرنا ہے۔ اس سے کوئی شخص مستثنی نہیں ہے (آیت) ” وھو علی کل شئی قدیر “ اور وہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ تمہارے شرک اور معصیت کو معاف نہیں کرے گا بلکہ یقینا بدعقائد اور بداعمال کی سزا دے گا۔ لہٰذا ابھی سے سوچ لو اور اس کے پیغام کو قبول کرلو۔ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، اس کی توحید میں شرک کی ملاوٹ نہ کرو اور ہر وقت اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے رہو اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع رکھو ورنہ حالات خراب ہوجائیں گے۔ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے ، اسی کے سامنے لوٹ کر جانا ہے اگر تم روگردانی کرو گے تو وہ یقینا سزا دے گا۔
Top