Mualim-ul-Irfan - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
البتہ تحقیق ہم نے رسول بنا کر بھیجا نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف (انہوں نے کہا) بیشک میں تمہارے لیے ڈر سنانے والا ہوں کھول کر
تاریخ انبیاء اس سورة کی پہلی آیت میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا ذکر تھا۔ پھر اس کی دوسری آیت میں توحید کا بیان ہے۔ (آیت) ” الا تعبدوا الا اللہ “ اے لوگو ! اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اب آج سے شروع ہونے والے حصہ سورة میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی تاریخ کا ایک حصہ بیان فرمایا ہے۔ ہر نبی کی تعلیم میں یہ بات ذکر کی گئی کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا (آیت) ” یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ “ اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ گویا اپنی وحدانیت کا درس دینے کے لیے اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کئی انبیاء کا ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے فریضہ تبلیغ کو کس طرح ادا کیا ، عقیدہ توحید کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا اور پھر لوگوں نے اپنے انبیاء کو یا جواب دیا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ یہاں پر تاریخ انبیاء کا اہم ترین حصہ آگیا ہے۔ زمانہ قبل از نوح (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے اللہ کے تین نبی گزرے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اس خطہ ارض پر پہلے انسان اور پ ہے نبی تھے۔ نسل انسانی یعنی آدمیت کا دور حضرت آدم (علیہ السلام) ہی سے شروع ہوا۔ آپ کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے (آیت) ” نبی معلم “ آدم (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں جنکے ساتھ اللہ نے کلام کیا تھا۔ جب حضور سے دریافت کیا گیا کہ سب سے پہلے نبی کون ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ آدم (علیہ السلام) ابو البشر یعنی تمام انسانوں کے باپ ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے شیش (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں۔ اور پھر آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں کئی پشتوں کے بعد اللہ کے بنی ادریس (علیہ السلام) پیدا ہوئے پہلی کتابوں میں آپ کا نام اخنوخ بیان کیا گیا ہے۔ تاہم نوح (علیہ السلام) سے پہلے شیث (علیہ السلام) کی ملت میں صرف بنیادی عقائد توحید وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ طہارت ، نماز ، روزہ وغیرہ عبادات بھی تھیں مگر تفصیلی شرعی احکام نہیں تھے ، بلکہ زیادہ تر دنیا کی آبادی کے مسائل تھے۔ پھر جب ادریس (علیہ السلام) کا دور آیا تو صاحب تفسیر مدراک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعے دنیا کی آبادی کی ضروریات کی بہت سی چیزیں سکھائی۔ چناچہ کپڑے سینے کی سوئی اور دیگر اوزارا دریس (علیہ السلام) نے ایجاد کیے۔ اللہ نے ان پر کئی صحیفے نازل فرمائے۔ ظاہر ہے کہ ان میں بنیادی عقائد کی تعلیم تو ضرور ہوگی جن میں توحید ، طہارت ، نماز ، روزہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے آلات ، ظروف سازی اور پارچہ بانی بھی شامل ہیں۔ البتہ تفصیلی شرعی احکام نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے شروع ہوئے۔ نوح (علیہ السلام) کا دور ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ “ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن پاک کی متعدد سورتوں اعراف ، یونس ، ہود اور صفت وغیرہ میں موجود ہے۔ اس مقام پر آپ کی تبلیغ کے متعلق کافی تفصیلات ہیں۔ اور پھر آپ کے نام پر ایک مستقل سورة نوح بھی ہے جس میں مکمل طور پر آپ ہی کا ذکر ہے۔ اسی طرح سورة یوسف پوری کی پوری حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعات پر مشتمل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ جسمانی طور پر بڑے طاقتور تھے گویا نسل ِ انسانی کی جوانی کا آغاز تھا۔ آپ کی قوم میں بیمیت کا بہت زیادہ غلبہ تھا ، اسی لیے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بارہ مہینے روزے رکھنے کا حکم تھا۔ تا کہ ان کی بہیمیت کو کمزور کیا جاسکے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ آپ جہاں کہیں بھی پڑھیں کہ فلاں قوم کو زیادہ روزے رکھنے کا حکم تھا۔ تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اس قوم کے لوگوں میں بہیمیت بہت بڑھی ہوئی ہوگی جسے توڑنے کے لیے ریاضت کی ضرورت تھی تو اللہ نے انہیں روزے رکھنے کا حکم دیا ہوگا۔ ہماری اس آخری امت میں بہیمیت ویسے ہی کمزور ہے لہٰذا ان پر زیادہ مشکل احکام نہیں ڈالے گئے بلکہ ان کے لیے عبادت وریات کو آسان بنا دیا گیا ہے کہ یہ اپنی جسمانی کمزوری کے ساتھ ان احکام پر آسانی سے عمل کرسکیں۔ بہرحال حضرت نوح (علیہ السلام) روئے زمین پر اللہ کے سب سے پہلے رسول ہیں جن پر مستقل شریعت نازل ہوئی اور آپ نے لوگوں کو مسائل اور احکام دینیہ کی باقاعدہ تعلیم دی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ سفارش کے لیے مختلف انبیاء (علیہم السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے عرض کریں گے ” یا نوح انک اول الرسل الی اھل الارض “ یعنی اے نوح (علیہ السلام) ! آپ اہل زمین کی طرف اللہ کے اولین رسول ہیں جنہیں مستقل شریعت اور احکام دیے گئے اور پھر جب لوگوں نے ان احکام کی نافرمانی کی تو انہیں سزا بھی دی گئی۔ آپ سے پہلے کسی قوم کو سزا نہیں ملی۔ یہ پہلی قوم ہے جو اللہ کے عذاب کے مستحق بنی لہٰذا اس واقعہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت نوع (علیہ السلام) کے والد کا نام لمک یا ملک تھا۔ آپ متوشلخ کے فرزند تھے اور متوشلخ حضرت ادریش (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا۔ اس کے بعد نو سو پچاس برس تک لوگوں کو دین حق کی تبلیغ کرتے رہے۔ سورة عنکبوت میں ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کر ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا (آیت) ” فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما “ آپ ان کو پچاس کم ہزار سال تک تبلیغ کرتے رہے۔ سورة نوح میں آپ کے طریقہ تبلیغ کا ذکر بھی موجود ہے آپ نے رات اور دن میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ آپ لوگوں کے پاس تنہائی میں بھی گئے اور عام مجمعوں میں بھی فریضہ تبلیغ انجام دیتے رہے آپ نے ترغیب اور ترہیب دونوں طریقوں سے تبلیغ کی۔ آپ نے اتنا لمبا عرصہ گزارا کہ اس دوران میں کئی نسلیں بدل گئیں۔ مگر قوم کے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے ، ان کی غالب اکثریت آپ کی مخالف رہی اور آپ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتی رہی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔ آپ نو سو پچاس سال تک تبلیغ کرتے رہے اور اس کے بعد آپ کی قوم پر عذاب آیا جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے طوفان نوح کسی خاص علاقے تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ عالمی طوفان تھا جو ساری دنیا میں آیا بعض کہتے ہیں کہ یہ طوفان دریائے دجلہ اور فرات کے درمیانی دوآبہ تک محدود رہا ، تا ہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہل ایمان اسی مردوزن کے علاوہ روئے زمین پر کوئی بھی انسان زندہ نہ بچا۔ نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ایک بیٹا بھی طوفابن میں ڈوب گئے۔ آپ کے تین بیٹے مومن تھے وہ زندہ بچ گئے۔ اس طوفان کے بعد نوح (علیہ السلام) ساٹھ برس تک مزید زندہ رہے اور آپ کی وفات واقع ہوگئی۔ اس طرح آپ کی کل عمر ایک ہزار پچاس سال بنتی ہے۔ آغاز تبلیغ فرمایا ، ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو آپ نے تبلیغ کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” انی لکم نذیر مبین “ اے لوگو ! میں تمہارے لیے ڈر سنانے والا ہوں کھول کر ۔ یعنی میں تمہیں تمہارے برے انجام سے واضح طور پر خبردار کر رہا ہے۔ حضور ﷺ نے بھی ایک موقع پر فرمایا تھا ” انا النذیر العریان “ میں برہنہ نذیر ہوں یعنی ڈرانے والا ہوں۔ عربوں کا یہ دستور تھا کہ دشمن کی طرف سے حملہ کے وقت یا کسی دیگر شدید خطرے کے موقع پر اطلاع دینے والا آدمی کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا ، اپنے کپڑے پھاڑ کر نیزے پر لٹکا لینا اور بالکل برہنگی کی حالت میں واصبا حاہ کا اعلان کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ لوگو ! دشمن سر پر آگیا ہے۔ لہٰذا اپنی فکر کرلو۔ جب لوگ یہ اعلان سنتے اور اعلان کرنے والے کو اس حالت میں دیکھتے تو فورا اپنے بچائو کا انتظام کرلیتے۔ اسی دستور کے مطابق حضور ﷺ نے بھی فرمایا کہ لوگو ! میں تمہارے لیے برہنہ نذیر ہوں۔ تمہیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خبردار کر رہا ہوں ، لہٰذا اپنا بچائو کرلو ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے لیے واضح ڈرانے والا ہوں ، میری بات مان لو اور خدا کے عذاب سے بچ جائو۔ توحید باری تعالیٰ آپ نے قوم کو سب سے پہلا سبق دیا (آیت) ” ان لا تعبدوا الا اللہ “ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ عقیدہ توحید دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور دین کی پوری عمارت اسی عقیدہ کے گرد گھومتی ہے۔ عبادت بدنی ہو یا مالی ، قولی ہو یا فعلی ، نذر ونیاز ہو یا سجدہ تعظیم ، اللہ کے سوا کسی کے لیے روا نہیں۔ غیر اللہ کی عبادت شرک اور خدا کے ساتھ بغاوت ہے۔ اس سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے جو تین باتیں کہلوائی ہیں ، ان میں بھی یہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، اللہ سے معافی مانگو اور اس کے سامنے توبہ کرو۔ غرضیکہ اسی عقیدہ توحید کی تبلیغ کے لیے اللہ نے سارے نبی مبعوث فرمائے ، اس فریضہ کو انبیاء نے کس طرح انجام دیا ، اس کی تفصیلات پڑھنے سے انبیاء کی اولو العزمی اور ان کی تکالیف برداشت کرنے کا حال معلوم ہوتا ہے۔ تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوموں کو توحید کی دعوت دی ، کفر وشرک کی مذمت بیان کی اور لوگوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کیا۔ توحید کی دعوت دیتے وقت حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ بھی بتایا (آیت) ” انی اخاف علیکم عذاب یوم الیم “ میں تم پر دردناک دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں۔ قرآں پاک میں عام طور پر عذاب الیم یا عذاب عظیم کا ذکر آتا ہے مگر اس مقام پر یوم الیم کے الفاظ آئے ہیں۔ بظاہر دن تو دردناک نہی ہوتا تا ہم اطلاق مجازی کے طور پر اس کا معنی یہ ہوگا کہ ایسا دن جس دن برا دکھ اور تکلیف ہوگی اور وہ قیامت کا دن ہے جسے یوم عظیم یعنی بڑادن بھی کہا گیا ہے ۔ فرمایا۔ میں اس دن کی مشکلات سے ت میں ڈراتا ہوں جس دن بڑا دکھ اور درد ہوگا۔ یہ نوح (علیہ السلام) کی تقریر کا پہلا حصہ ہے اور اس کے بعد قوم کا جواب آرہا ہے۔ آپ کی تقریر کا باقی حصہ آگے آئیگا۔ قوم کا جواب نوح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کے جواب میں (آیت) ” فقال الملا الذین کفروا من قومہ “ آپ کی قوم میں سے کفر کرنے والوں کے سربرآوردہ لوگوں نے جواب دیا (آیت) ” ما نرئک الا بشرا مثلنا “ ہم تو تمہیں اپنے جیسا انسان خیال کرتے ہیں اے نوح (علیہ السلام) تم یہ نبوت کا دعویٰ کیسے کر رہے ہو ، ہماری طرح کھاتے پیتے ہو ، لباس پہنتے ہو ، بازاروں میں چلتے پھیرتے ہو ، بیوی بچے رکھتے ہو ، بھلا تم نبوت اور شریعت کی بات کیسے کرتے ہو۔ کفار ومشرکین ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ کوئی انسان نبوۃ و رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتا ۔ کہتے تھے کوئی فرشتہ ، جن یا کوئی دیگر مخلوق ہو تو ہم نبی مان لیں مگر اپنے جیسے انسان کو نبی نہیں مان سکتے سورة قمر میں قوم ثمود کے واقعہ میں آتا ہے (آیت) ” فقالوا ابشرا منا واحدا نتبعہ “ کہنے لگے کیا ہم اپنے میں سے ایک انسان کے پیچھے لگ جائیں اگر ایسا کریں گے (آیت) ” انا اذا لفی ضلٰل وسعر “ تو ہم گمراہی اور دیوانگی میں پڑجائیں گے۔ صالح (علیہ السلام) میں ہم سے زیادہ کون سے خوبی ہے جس کی بناء پر اسے اللہ کا نبی تسلیم کرلیں مکہ کے مشرکین بھی یہی کہتے تھے کہ اے محمد ! تو تو ہمارے جیسا انسان ہے ہم تمہیں کیسے رسول مال لیں ؟ نبوت ملتی تو مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی کو ملتی جو صاحب حیثیت ہوتا۔ جس کے پاس مال و دولت اور باغات ہوتے ، کوٹھی اور نوکر چاکر ہوتے ، بھلا ایک نادار آدمی کو ہم کیسے نبی مان لیں ؟ بشریت انبیاء (علیہم السلام) انسان ہونا اور پھر غریب ہونا ، یہ دونوں باتیں نبی کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہیں۔ اس کا جواب اللہ نے قرآن پاک میں مختلف طریقوں سے دیا ہے۔ کہیں فرمایا۔ کوئی سمجھ داری کی بات کرو ، اگر زمین میں فرشتے ہوتے تو ہم فرشتوں کو رسول بنا کر بھیج دیتے۔ جب زمین میں انسان آباد ہیں تو پھر ان کے پاس رسول بھی انسانوں میں سے ہی آئے گا ظاہر ہے کہ کسی حکم پر عمل درآمد کے لیے نمونے کی ضرورت ہے اور ایک انسان کے لیے انسان ہی نمونہ ہو سکتا ہے اگر انسان کی راہنمائی کے لیے کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جائے تو وہ کیسے اقتداء کرسکیں گے۔ جنات انسان کی نسبت بڑی طاقتور مخلوق ہے ، اسی طرح فرشتے بھی دوسری مخلوق ہیں ، انہیں کھانے پینے کی ضرورت نہیں ، وہ مشکل کام بھی کرسکتے ہیں ، مگر ہم ان کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں ؟ اتباع تو جبھی ہوگاجب اپنے جیسا آدمی کوئی کام کر کے دکھائے۔ جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جارہی تھی تو صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا بھی دکھایا۔ حضور نے فرمایا کہ بھوک مجھے بھی لگ رہی ہے اور میں نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں۔ گویا انسان نبی نے دوسرے انسانوں کے لیے نمونہ پیش کردیا ، فرشتے تو ایسا نمونہ پیش نہیں کرسکتے۔ چناچہ حضور ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر صبر آگیا اور انہوں نے بھوک کی دوبارہ شکایت نہیں کی۔ نبی کی نبوت اور بشریت کے مسئلہ میں پرانے زمانے کے کافر اور موجودہ دور کے بدعتی برابر ہیں۔ وہ بشر مانتے تھے اور نبوت کا انکار کرتے تھے جب کہ یہ نبی مانتے ہیں اور بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ آج کے مسلمانوں نے نبی کو انسانیت کی نوع سے نکال کر نوری مخلوق میں داخل کردیا ہے اور پھر خود ہی ” نور من نور اللہ “ کا عقیدہ وضع کرلیا ہے ، یہ دونوں طبقے گمراہی میں مبتلا ہیں۔ نبی نور ہدایت تو ہو سکتا ہے مگر اس کو انسانیت سے خارج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ انسانوں ہی کی راہنمائی کے لیے آتا رہا ہے۔ انسانوں کے درجات ہاں ایک بات ضرور ہے کہ سارے درجات کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ، نبی ، صدیق ، شہید اور صالح انسانوں ہی کے مختلف درجات ہیں۔ ایک نیک اور بد آدمی برابر نہیں ہوسکتے۔ عالم اور جاہل بھی برابر نہیں اسی لیے مولانا روم فرماتے ہیں نیستند آدم خلاف آدم آند یعنی بعض لوگوں کی شکل و صورت آدمیوں جیسی ہے مگر حقیقت میں وہ آدمی نہیں ہیں۔ بلکہ آدمیت کا خلاف اوڑھا ہوا ہے۔ اندر سے وحشی اور درندے ہیں ۔ انسان انسان میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کافروں کی اس بات کو مولانا روم نے اپنی حقائق کی زبان میں اس طرح سمجھایا ہے ہمسری باانبیاء برداشتند اولیا راہم چوخود پنداشتند منکر لوگوں نے انبیاء کی ہمسری کی کہ ہم بھی انہی کی طرح انسان ہیں اسی طرح اولیاء اللہ کو بھی اپنے جیسے مقرب خیال کیا۔ اور پھر ان کی دلیل یہ تھی گفتہ ایں نک مابشر ایشاں بشر ما وایشاں بستہ خوبیم وخور ہم بھی انسان ہیں اور یہ بھی انسان ہیں ہماری طرحی یہ بھی کھاتے پیتے اور سوتے ہیں لہٰذا ہم ان کو نبی نہیں مان سکتے۔ این نہ دانستند ایشاں از عمیٰ درمیان فرق بود بےمنتہیٰ اندھے پن کی وجہ سے انہوں نے اس بات کو نہ جانا کہ دو آدمیوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ہر دوگون زنبور خورد ازیک محل ۔۔ یکے شد زہر وزاں دیگر عسل دو مکھیاں ایک ہی جگہ سے ایک ہی پھول کا رس چوستی ہیں مگر بھڑ زہر پیدا کرتی ہے اور شہد کی مکھی شہد پیدا کرتی ہے۔ ہر دوگوں آہو گیا خوردندوآب زاں یکے شد خون از دیگر مشک ناب دو ہرنیاں ایک جگہ سے گھاس چیرتی اور پانی پیتی ہیں مگر ایک میں خون پیدا ہوتا ہے اور دوسرے میں کستوری۔ آں دونے خوردند ازیک آب خور ایں یکے خالی و دیگر پر شکر دو کا نے ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں ۔ ایک کانا خالی رہتا ہے (صرف قلم وغیرہ بنانے کے کام آتا ہے) جب کہ دوسرا کانا یعنی گنا شکر سے بھر جاتا ہے۔ صد ہزاراں ہم چنیں اشبائرہ بین فرق شاں ہفتاد سالہ راہ بین ہزاروں مثالیں ایسی دیکھ لو کہ ان کے درمیان فرق ہوگا کہ ستر سال کی مسافت بھی طے ہوجائے تو پھر بھی وہ آپس میں نہ مل سکیں۔ بہرحال انبیاء (علیہم السلام) انسان ہوتے ہوئے بھی بڑے فضل والے ہوتے ہیں اللہ نے انہیں بڑا کمال عطا کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ باقی نوع کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ان کے دل نور ایمان سے روشن ہوتے ہیں۔ ان کا ہر قول ، فعل ، حرکت اور سکون خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہونا ہے۔ مگر ہوتے انسان ہی ہیں ، روٹی کھاتے ہیں ، لباس پہنتے ہیں ، شادی کرتے ہیں ، بیمار ہوتے ہیں ، دشمنوں سے جہاد کرتے ہیں۔ کبھی ان کو ہلاک کرتے ہیں ، کبھی خود شہید ہوجاتے ہیں مگر دائرہ انسانیت سے خارج نہیں ہوتے۔ مشرکین کا دوسرا اعتراض حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ اے نوح (علیہ السلام) ہم تو تمہیں اپنے جیسا انسان خیال کرتے ہیں اور دوسرا یہ (آیت) ” وما نرئک اتبعک الا الذین ھم اراذلنا “ ہم نہیں دیکھتے آپ کا اتباع کرتے مگر ہم میں سے رذیل لوگ ، اگر آپ کا اتباع کوئی کھاتے پیتے امیر کبیرلوگ کرتے تو ہم آپ کے دعوی پر غور کرسکتے تھے۔ مگر آپ کے متبعین تو کمی کمین لوگ ہیں ، لہٰذا ہم اعلیٰ خاندان والے تمہاری نبوت کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ کہنے لگے آپ کے پر وکار صرف رذیل لوگ ہی نہیں بلکہ (آیت) ” بادی الرء ی “ ہیں یہ لوگ سرسری رائے رکھتے ہیں ، کسی پختہ رائے کے مالک نہیں ہیں ، لہٰذا جس شخصیت کو ایسے کمزور لوگوں نے نبی مانا ہے ، ہم اسے نبی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی بےنصیبی یہ تھی کہ وہ مال و دولت ، جاہ و حشمت اور حسب نسب کو ہی کمال کی بنیاد سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے ہاں کمال اور کامیابی کا معیار ایمان اور نیکی ہے۔ مغرور لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خصلت رہی ہے کہ وہ اہل حق کو حقیر جان کر ان کی مخالفت کرتے ہیں ، ان کا تمسخر اڑاتے ہیں جب پاس سے گزرتے ہیں تو کہتے ہیں۔ دیکھو ! یہ جنت کے وارث اور حوروں کے خاوند جار ہے ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے چھونپڑی نہیں ، کھانے کے لیے خوراک نہیں اور پہننے کے لیے لباس سے محروم ہیں ، مگر حقیقت میں یہی وہ لوگ تھے جن کا عقیدہ درست اور اخلاق برگزیدہ تھا ، جن کا عمل صحیح تھا۔ اور جو ایمان ، نیکی اور تقوی کی دولت سے مالا مال تھے۔ اور اللہ کے ہاں انہیں کمال حاصل تھا۔ کامیابی کا مدار الغرض ! کامیابی کا مدار مال و دولت اور حسب نہیں۔ اگر فلاں کا معیار یہ چیزیں ہوتیں تو مکہ میں امیہ بن خلف ، مغیرہ اور ابو جہل جیسے سردار موجود تھے ، طائف میں حبیب ، مسعود اور عبد یا لیل صاحب حیثیت تھے مگر اللہ کے نزدیک وہ جہنم کے کندہ تاتراش ہیں ، دولت تو فرعون کے پاس بھی بہت ذیادہ تھی ، گزشتہ سورة میں گزر چکا ہے کہ وہ سونے کی زرہ پہنتا تھا۔ اس کے خیمے سونے کے کیلوں سے گاڑھے جاتے تھے ایسی ایسی عمارات اور مقبرے بنائے تھے جنہیں دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر وہ بھی جہنم گیا ، لہٰذا کسی کو حقیر نہیں جاننا چاہیے۔ اکرام مسلم بہت بڑی حقیقت ہے۔ مومن ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کا احترام کرو ، مال لباس ، مکان اور جائداد کو سلام نہ کرو بلکہ ایمان اور نیکی کو دیکھو۔ یہ نبیوں کی تعلیم ہے۔ مومنوں کو حقیر جاننا کافروں کا کام ہے یہ مسلمانوں کا شیوہ ہرگز نہیں۔ بعض لوگ ایک دوسرے کو پیشے کی وجہ سے مطعون کرتے ہیں کہ فلان دھوبی ، انائی یا لوہار ہے۔ بھائی کوئی حلال پیشہ حقیر نہیں۔ البتہ حرام پیشے ممنوع ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص اپنے آبائو اجداد پر فخر کرتا ہے اسے باز آجانا چاہیے ورنہ ایسا آدمی ایسے کپڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا جو غلاظت کی گولیاں بنا بنا کر اپنی ناک سے لڑھکاتا پھرتا ہے۔ ” الناس کل ابناء ادم “ سارے لوگ آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ فرمایا مجھے خطرہ ہے کہ میری امت کے لوگ ستارہ پرستی کریں گے اور ایک دوسرے کے نسب پر طعن کریں گے۔ اپنے آپ کو بڑا اور دوسرے کو حقیر جاننا مشرکین کا کام ہے۔ مشرکین نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ بھی کہا (آیت) ” وما نری لکم علینا من فضل “ ہم آپ میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں دیکھتے تم ہم سے کسی طرح بھی بہتر نہیں ہو۔ نہ مال و دولت کے اعتبار سے ، نہ نوکر جا کر باغات اور جائداد کے اعتبار سے (آیت) ” بل نظنکم کذبین “ بلکہ ہم تو تمہیں چھوٹا خیال کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تمہارا دعوی نبوت درست نہیں ہے مشرکین کی طرف سے یہ باتیں نوح (علیہ السلام) کی پہلی تقریر کے جواب میں آئیں۔۔ آگے مزید تقریر اور سوال جواب اور واقعہ کی مزید تفصیلات آرہی ہیں۔
Top