Mualim-ul-Irfan - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
خبردار رہو ! بیشک وہ لوگ موڑتے ہیں اپنے سینوں کو تا کہ چھپ جائیں اس سے خبردار ! جس وقت کہ وہ اوڑھتے ہیں اپنے اوپر کپڑے ، وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کو
ربط آیات سورۃ کی پہلی آیت کریمہ میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کے بعد سورة کے مرکزی مضمون توحید کا بیان ہوا ” الاتعبدوا الا اللہ “ اس کے بعد رسالت کا تذکرہ ہوا اور نبی (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا گیا کہ میں نذیر اور بشیر ہوں۔ پھر دوسری اہم بات یہ ذکر کی انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہیں اور اسی کی طرف رجوع کریں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں اطاعت اور خوشنودی والی بہتر زندگی عطا کریگا۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کریں گے تو بڑے دن یعنی قیامت کے عذاب میں مبتلا ہوں گے خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لہٰذا منکرین خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ شان نزول آج کی پہلی آیت (آیت) ” الا انھم یثنون “ کا تعلق بھی گذشتہ مضمون کے ساتھ مربوط ہے تا ہم اس کے شان نزول کے متعلق مفسرین کرام کی دو متضاد راہیں ہیں۔ امام بخاری (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ بعض اوقات قضائے حاجت یا بیویوں سے علیحدگی کے موقع پر برہنگی کو شدت سے محسوس کرتے تھے۔ انہیں پردے کا بڑا خیال ہوتا تھا اور برہنگی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ایسے مواقع پر اپنے کپڑوں کو اچھی طرح سمیٹ لیتے تھے کہ بےپردگی نہ ہو۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما کر یہ بات سمجھا دی کہ انسان کا مواخذہ اسی حد تک ہوگا جس قدر وہ طاقت رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر تکلیف ” مالا یطاق “ نہیں ڈالی۔ تا ہم ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ برہنگی سے بچنے کی کوشش کرے اور اپنے اعضائے مستورہ کو ظاہر نہ ہونے دے۔ امام بغوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین ان آیات کے شان نزول کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کے متعلق نازل ہوئیں جیسا کہ امام بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کافر اور مشرک لوگ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم دین اسلالم پیغمبر اسلام یا قرآن پاک کے متعلق پوشیدہ طور پر کوئی منصوبہ بندی کریں گے تو مسلمانوں کو پتہ نہیں چل سکے گا۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کفار کی خفیہ سازش کو بذریہ وحی حضور ﷺ پر ظاہر کردیتے تھے۔ جب حضور ﷺ ایسی بات کو بیان کرتے تو کفار ومشرکین پریشان ہوجاتے ۔ بعض سمجھتے تھے کہ ان کی مخفی تدابیر کو کوئی مسلمان چھپ کر سن لیتا ہے اور پھر اسے حضور ﷺ تک پہنچا دیتا ہے جسے آپ ظاہر فرما دیتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ علیم کل ہے ، وہ ہر چیز کو جانتا ہے ، وہ تمہاری تمام حرکتوں اور سازشوں سے واقف ہے اور اپنے نبی کو اس پر مطلع کردیتا ہے۔ آج کے درس کی دوسری آیت بھی اسی مضمون کے ساتھ مربوط ہے جب اللہ تعالیٰ ذرے ذرے کو جانتا ہے تو اپنی تمام مخلوق کے حالات سے بھی واقف ہے اور پھر ہر جاندار کو روزی پہنچانے پر قادر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ہر عمل سے بھی واقف ہے اور وہ ہر عمل کا بدلہ دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے تو اس سے جزائے عمل کا برحق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے غرضیکہ ان سب باتوں کا سورة کے مرکزی مضمون توحید کے ساتھ ربط ہے۔ جب قادر مطلق ، علیم کل اور رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر عبادت بھی صرف اسی کی کرو ، اپنی حاجتوں میں غائبانہ طور پر صرف اسی کو پکارو اور اسی سے مدد چاہو۔ اللہ کا علم محیط ارشاد ہوتا ہے ” الا “ سنو ، آگاہ رہو (آیت) ” انھم یثنون صدورھم “ بیشک یہ لوگ (کفار ومشرکین) موڑتے ہیں اپنے سینوں کو (آیت) ” لیستخفوا منہ “ تا کہ اس سے چھپ جائیں اور ان کا ستر ظاہر نہ ہو۔ سینے کا موڑنا دو متضاد وجوہات کی بنا پر ہوسکتا ہے اہل ایمان توحیا داری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تا کہ برہنہ نہ ہوں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ اتنے تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مجبوری ہے اور اس پر مواخذہ نہیں ، البتہ ادب کو حتی الامکان ملحوظ خاطر رکھو اور زیادہ پریشان نہ ہو۔ شریعت نے جس حد تک پابندی لگائی ہے صرف اسی کو پورا کرو۔ اور اگر سینہ موڑنے کے مصداق کافر ومشرک ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے ہیں اور پھر اپنے منصوبوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا ” الا “ (آیت) ” حین یستغشون ثیابھم “ جس وقت وہ اپنے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں۔ یعنی مومن حیاداری کی وجہ سے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں اور کافر اپنی سازش کے ظاہر ہوجانے کے ڈر سے کپڑے سمیٹتے ہیں تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” یعلم ما یسرون وما یعلنون “ کہ وہ جانتا ہے اس چیز کو جس وہ چھپاتے ہیں اور جس کو ظاہر کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ کتنے بھی حیلے بہانے کریں ، کسی چیز کو مخفی رکھنے کی کوشش کریں اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ بول وبراز ، غسل یا بیوی سے خلوت کے وقت برہنہ ہونا پڑتا ہے مگر یہ طبعی امر ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ فرمایا (آیت) ” انہ علیم بذات الصدور “ وہ اللہ تو سینوں کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے ، اس سے کوئی چیز کیسے مخفی رہ سکتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ سینوں کے موڑنے سے اس طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنے اندر باطل فکر رکھتے ہیں ، غلط طریقے پر سوچتے ہیں اور فضول شکوک و شبہات کے ذریعے وحی الٰہی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ سے تو نہیں چھپ سکتے۔ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے رازوں کو جانتا ہے ، لہٰذا یہ لوگ غلط عقائد اختیار کر کے اور غلط اعمال انجام دے کر خدا کی گرمت سے نہٰں بچ سکتے۔ رزق کی ذمہ داری اب اگلی آیت بھی اسی آیت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے ارشاد ہے (آیت) ” وما من دابۃ فی الارض “ اور نہیں ہے کوئی بھی زمین پر چلنے پھرنے والا جانور (آیت) ” الا علی اللہ رزقھا “ مگر اس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ عربی زبان می دابہ گھوڑے کو بھی کہتے ہیں مگر عام اصطلاح میں زمین پر پائوں سے چلنے پھیرنے والے جانور اور رینگنے والے کیڑوں کو دابہ کہا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ سب کو خوراک مہیا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر چلنے پھیرنے والے جانداروں کا ذکر تو آگیا ہے مگر ہوا میں اڑنے والے پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی پہنچاتا ہے ، ان کا ذکر کیوں نہیں آیا۔ اس ضمن میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پرندوں کی نسبت زمین میں رہنے والے جانداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے محض دابہ کا لفظ استعمال کیا ہے ، وگرنہ بلاشبہ ہوا میں اڑنے والے پرندوں اور پانی میں رہنے والی ساری مخلوق کا روزی رساں وہی اللہ تعالیٰ ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اے لوگو ! دیکھو ! صبح کے وقت پرندے خالی پیٹ اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور پیت بھر کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ وہ اللہ کے توکل پر نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں روزی پہنچاتا ہے۔ اگر تم بھی اللہ پر ایسا ہی توکل کرو تو وہ تمہیں بھی ایسا ہی رزق پہنچائے گا۔ اللہ نے اپنے فضل سے تمام جانداروں کی روزی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (آیت) ” الا وان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقھا “ کوئی جاندار اپنی روزی پوری کیے بغیر نہیں مرتا۔ جب تک اللہ کو اس کی زندگی مقصود ہوتی ہے اسے رزق ملتا رہتا ہے۔ جو روزی اللہ کے حکم میں کسی شخص یا کسی جاندار کے لیے مقدر ہے وہ اسے کھائے بغیر نہیں مر سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی حین حیات روزی کے ایسے ایسے سامان پیدا کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ، لہٰذا انسان وحیوان اپنی روزی کی جگہ پر لازما پہنچ جاتا ہے۔ دو چیز آدمی راکشد زور زور یکے آب ودانہ دگر خاک گور یعنی دو چیزیں آدمی کو زبردستی اپنی طرف کھینچ کرلے جاتی ہیں ، ایک اس کی خوراک اور پانی اور دوسری اس کی قبر کی مٹی۔ آب ودانہ بھی انسان کو کھینچ کر کسی نہ کسی بہانے لے جاتا ہے اور اسی طرح انسان اپنی موت کے مقام پر کسی نہ کسی طریقے سے ضرور پہنچ جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مقررہ وقت تک ہر جاندار کو روزی پہنچاتا اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ کو اپنے گھروالوں کی روزی کا خیال آرہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی تو فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اس سامنے والے پتھر پر اپنی لاٹھی مارو۔ جب لاٹھی ماری گئی تو پتھر دو ٹکڑے ہوگیا اور اس کے اندر سے ایک اور پتھر برآمد ہوا۔ اللہ نے فرمایا ، اس پتھر کو بھی ضرب لگائو۔ جب ایسا کیا تو اس کے بھی دو ٹکڑے ہوگئے اور اس میں سے ایک تیسرا پتھر نکلا۔ پھر حکم ہوا کہ اس تیسرے پتھر کو بھی توڑ دو ۔ جب وہ بھی توڑا گیا تو اس پتھر میں سے ایک چیونٹی جیسا چھوٹا سا کیڑا برآمد ہوا جس کے منہ میں اس کی خوراک سبز پتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے حجاب اٹھا دیا تو آپ نے دیکھا کہ وہ چھوٹا سا کیڑا زبان حال سے یہ تسبیح بیان کر رہا تھا۔ ” سبحان من یرانی ویسمع کلامی ویعلم مکانی ویذ کرنی ولا ینسی “ پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے ، میرے کلام کو سن رہی ہے میری قیام کی جگہ کو جانتی ہے۔ مجھے یاد رکھتی ہے اور بھولتی نہیں اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ جو اللہ تعالیٰ پتھر در پتھر میں رہنے والے کیڑے کو اس کی روزی پہنچا رہا ہے وہ اس کے گھرو الوں سے کسیے غافل ہو سکتا ہے ، بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ کوئی پرندہ خوراک کے لیے دانہ دور سے چونچ میں پکڑ کر لاتا ہے تا کہ گھونسلے میں جا کر خود کھائے یا اپنے بچوں کے منہ میں ڈال دے مگر وہ دانہ ان کی خوراک نہیں ہوتا بلکہ کسی دوسرے جاندار کے مقدر میں ہوتا ہے۔ چناچہ وہ دانہ اس کی چونچ سے گرتا ہے اور نیچے گندی نالی کے کنارے موجود کیڑے کی خوراک بن جاتا ہے۔ یہ اس کیڑے کا رزق تھا جو اللہ ن پرندے کے ذریعے اس کے مقام تک پہنچایا۔ امام قرطبی (رح) اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ قبیلہ اشعر کے لوگ یمن سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف بذریہ بحری سفر آرہے تھے کہ راستے میں جہاز کو حادثہ پیش آگیا اور وہ حجاز کی بجائے حبشہ کے ساحل پر پہنچ گئے اور پھر یہ لوگ حبشہ سے ڈیل ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے قبیلے کے یہ لوگ مدینے میں بےسروسامانی کی حالت میں پہنچے۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنا ایک آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہمارا راشن ختم ہوگیا ہے ، اس کے لیے کوئی انتظام فرمائیں۔ وہ شخص جب حضور ﷺ کے گھر پہنچا تو اندر سے حضور کی زبان مبارک سے اسی آیت کی تلاوت آرہی ہے (آیت) ” وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا “ جب اس شخص نے یہ الفاظ سنے تو اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ جب وہ ہر جاندار کی روزی کا ذمہ دار ہے تو ضرور ہمارے لیے بندوبست کریگا ، ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ چناچہ اس شخص نے حضور ﷺ سے کوئی بات نہ کی اور اسی طرح واپس اپنے قبیلے کے لوگوں کے پاس آگیا اور کہنے لگا تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ کی مدد آرہی ہے ساتھی مطمئین ہوگئے کہ حضور ﷺ نے مدد کا وعدہ کیا ہوگا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کے پاس دو آدمی آئے جن کے پاس ایک بہت بڑا برتن تھا ، جس میں گوشت اور روٹیاں تھیں۔ سب نے کھانا کھایا مگر پھر بھی بچ گیا انہوں نے وہ کھانا دو آدمیوں کے سپرد کیا کہ اے حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائو ، کھانا بھیجنے کا شکر ادا کرو اور ساتھ یہ بھی کہو کہ یہ بچ گیا ہے کسی اور ضرورت مند کو دے دیں۔ جب وہ آدمی کھانا لے کر پہنچے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو تمہارے لیے کوئی کھانا نہیں بھیجا تھا۔ پھر جب پورے معاملے کی وضاحت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ جس کے لیے چاہے اسی طرح روزی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ جب تک کسی کی زندگی مقصود ہوتی ہے ، رزق پہنچتارہتا ہے ، جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو روزی کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔ مستقر اور مستودع فرمایا اللہ تعالیٰ زمین کے ہر جاندار کو روزی پہنچانے کا ذمہ دار ہے (آیت) ” ویعلم مستقرھا ومستودعھا “ اور وہ اس کے مستقر۔ (ٹھہرنے کی جگہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) کو بھی جانتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مستقر اس جگہ کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ارادے سے اختیار کرتا ہے جیسے عام رہائش گاہ مکان وغیرہ اور مستودع وہ جگہ ہوتی ہے جہان انسان بغیر اختایر کے پڑا رہے۔ مثلا انسان زمین پر خود اپنا گھر بناتا ہے ، یہ اس کا مستقر ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ انسان اپنے باپ کی پشت اور ماں کے رحم میں بلا اختیار پڑا رہتا ہے ، یہ اس کے لیے مستودع ہے۔ ماں کے پیٹ سے جب اس دنیا میں آتا ہے تو یہ اس کے یے مستقر ہوتا ہے۔ پھر جب مر کر قبر میں چلا جاتا ہے تو یہ اس کے لیے سونپے جانے یا امانت کی جگہ ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے قبر بحیثیت مستودع ہوتی ہے جہاں اسے بلا اختیار داخل کردیا جاتا ہے یہ غلط العام بات ہے کہ قبر انسان کی آخری آرام گاہ ہے۔ نہیں بلکہ یہ تو حشر تک کے لیے عارضی ٹھکانہ ہے جب حساب کتاب ہوگا تو پھر ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جائے گا۔ اور یہ جگہ اس کے لیے مستقر ہوگی۔ کتاب مبین یہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” کل فی کتب مبین “ یہ سب باتیں یعنی روزی ، مستقر اور مستودع وغیرہ کتاب مبین میں درج ہیں کتاب مبین کو علم الٰہی کا نمبونہ سمجھ لیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اسے علم الہٰی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں (آیت) ” فی کتب مبین “ ‘ اور (آیت) ” فی لوح محفوظ “ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے قرآن کریم کی ان آیات اور حضور ﷺ کے فرمان کی رو سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات سے پہلے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جو کچھ وہاں لکھا ہوا موجود ہے قیامت تک وہی کچھ کائنات میں پیش آئے گا اور ذرہ بھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوگا۔ چناچہ اہل سنت کا ایمان ہے کہ تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، ان کا ارادہ بھی وہی کرتا ہے اور ان کو لکھ بھی رکھا ہے۔ یہ تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں۔
Top