Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ
: یاد رکھو
اِنَّھُمْ
: بیشک وہ
يَثْنُوْنَ
: دوہرے کرتے ہیں
صُدُوْرَھُمْ
: اپنے سینے
لِيَسْتَخْفُوْا
: تاکہ چھپالیں
مِنْهُ
: اس سے
اَلَا
: یاد رکھو
حِيْنَ
: جب
يَسْتَغْشُوْنَ
: پہنتے ہیں
ثِيَابَھُمْ
: اپنے کپڑے
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
مَا يُسِرُّوْنَ
: جو وہ چھپاتے ہیں
وَمَا يُعْلِنُوْنَ
: اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
: دلوں کے بھید
خبردار رہو ! بیشک وہ لوگ موڑتے ہیں اپنے سینوں کو تا کہ چھپ جائیں اس سے خبردار ! جس وقت کہ وہ اوڑھتے ہیں اپنے اوپر کپڑے ، وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کو
ربط آیات سورۃ کی پہلی آیت کریمہ میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کے بعد سورة کے مرکزی مضمون توحید کا بیان ہوا ” الاتعبدوا الا اللہ “ اس کے بعد رسالت کا تذکرہ ہوا اور نبی (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا گیا کہ میں نذیر اور بشیر ہوں۔ پھر دوسری اہم بات یہ ذکر کی انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہیں اور اسی کی طرف رجوع کریں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں اطاعت اور خوشنودی والی بہتر زندگی عطا کریگا۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کریں گے تو بڑے دن یعنی قیامت کے عذاب میں مبتلا ہوں گے خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لہٰذا منکرین خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ شان نزول آج کی پہلی آیت (آیت) ” الا انھم یثنون “ کا تعلق بھی گذشتہ مضمون کے ساتھ مربوط ہے تا ہم اس کے شان نزول کے متعلق مفسرین کرام کی دو متضاد راہیں ہیں۔ امام بخاری (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ بعض اوقات قضائے حاجت یا بیویوں سے علیحدگی کے موقع پر برہنگی کو شدت سے محسوس کرتے تھے۔ انہیں پردے کا بڑا خیال ہوتا تھا اور برہنگی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ایسے مواقع پر اپنے کپڑوں کو اچھی طرح سمیٹ لیتے تھے کہ بےپردگی نہ ہو۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما کر یہ بات سمجھا دی کہ انسان کا مواخذہ اسی حد تک ہوگا جس قدر وہ طاقت رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر تکلیف ” مالا یطاق “ نہیں ڈالی۔ تا ہم ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ برہنگی سے بچنے کی کوشش کرے اور اپنے اعضائے مستورہ کو ظاہر نہ ہونے دے۔ امام بغوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین ان آیات کے شان نزول کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کے متعلق نازل ہوئیں جیسا کہ امام بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کافر اور مشرک لوگ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم دین اسلالم پیغمبر اسلام یا قرآن پاک کے متعلق پوشیدہ طور پر کوئی منصوبہ بندی کریں گے تو مسلمانوں کو پتہ نہیں چل سکے گا۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کفار کی خفیہ سازش کو بذریہ وحی حضور ﷺ پر ظاہر کردیتے تھے۔ جب حضور ﷺ ایسی بات کو بیان کرتے تو کفار ومشرکین پریشان ہوجاتے ۔ بعض سمجھتے تھے کہ ان کی مخفی تدابیر کو کوئی مسلمان چھپ کر سن لیتا ہے اور پھر اسے حضور ﷺ تک پہنچا دیتا ہے جسے آپ ظاہر فرما دیتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ علیم کل ہے ، وہ ہر چیز کو جانتا ہے ، وہ تمہاری تمام حرکتوں اور سازشوں سے واقف ہے اور اپنے نبی کو اس پر مطلع کردیتا ہے۔ آج کے درس کی دوسری آیت بھی اسی مضمون کے ساتھ مربوط ہے جب اللہ تعالیٰ ذرے ذرے کو جانتا ہے تو اپنی تمام مخلوق کے حالات سے بھی واقف ہے اور پھر ہر جاندار کو روزی پہنچانے پر قادر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ہر عمل سے بھی واقف ہے اور وہ ہر عمل کا بدلہ دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے تو اس سے جزائے عمل کا برحق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے غرضیکہ ان سب باتوں کا سورة کے مرکزی مضمون توحید کے ساتھ ربط ہے۔ جب قادر مطلق ، علیم کل اور رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر عبادت بھی صرف اسی کی کرو ، اپنی حاجتوں میں غائبانہ طور پر صرف اسی کو پکارو اور اسی سے مدد چاہو۔ اللہ کا علم محیط ارشاد ہوتا ہے ” الا “ سنو ، آگاہ رہو (آیت) ” انھم یثنون صدورھم “ بیشک یہ لوگ (کفار ومشرکین) موڑتے ہیں اپنے سینوں کو (آیت) ” لیستخفوا منہ “ تا کہ اس سے چھپ جائیں اور ان کا ستر ظاہر نہ ہو۔ سینے کا موڑنا دو متضاد وجوہات کی بنا پر ہوسکتا ہے اہل ایمان توحیا داری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تا کہ برہنہ نہ ہوں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ اتنے تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مجبوری ہے اور اس پر مواخذہ نہیں ، البتہ ادب کو حتی الامکان ملحوظ خاطر رکھو اور زیادہ پریشان نہ ہو۔ شریعت نے جس حد تک پابندی لگائی ہے صرف اسی کو پورا کرو۔ اور اگر سینہ موڑنے کے مصداق کافر ومشرک ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے ہیں اور پھر اپنے منصوبوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا ” الا “ (آیت) ” حین یستغشون ثیابھم “ جس وقت وہ اپنے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں۔ یعنی مومن حیاداری کی وجہ سے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں اور کافر اپنی سازش کے ظاہر ہوجانے کے ڈر سے کپڑے سمیٹتے ہیں تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” یعلم ما یسرون وما یعلنون “ کہ وہ جانتا ہے اس چیز کو جس وہ چھپاتے ہیں اور جس کو ظاہر کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ کتنے بھی حیلے بہانے کریں ، کسی چیز کو مخفی رکھنے کی کوشش کریں اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ بول وبراز ، غسل یا بیوی سے خلوت کے وقت برہنہ ہونا پڑتا ہے مگر یہ طبعی امر ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ فرمایا (آیت) ” انہ علیم بذات الصدور “ وہ اللہ تو سینوں کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے ، اس سے کوئی چیز کیسے مخفی رہ سکتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ سینوں کے موڑنے سے اس طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنے اندر باطل فکر رکھتے ہیں ، غلط طریقے پر سوچتے ہیں اور فضول شکوک و شبہات کے ذریعے وحی الٰہی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ سے تو نہیں چھپ سکتے۔ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے رازوں کو جانتا ہے ، لہٰذا یہ لوگ غلط عقائد اختیار کر کے اور غلط اعمال انجام دے کر خدا کی گرمت سے نہٰں بچ سکتے۔ رزق کی ذمہ داری اب اگلی آیت بھی اسی آیت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے ارشاد ہے (آیت) ” وما من دابۃ فی الارض “ اور نہیں ہے کوئی بھی زمین پر چلنے پھرنے والا جانور (آیت) ” الا علی اللہ رزقھا “ مگر اس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ عربی زبان می دابہ گھوڑے کو بھی کہتے ہیں مگر عام اصطلاح میں زمین پر پائوں سے چلنے پھیرنے والے جانور اور رینگنے والے کیڑوں کو دابہ کہا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ سب کو خوراک مہیا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر چلنے پھیرنے والے جانداروں کا ذکر تو آگیا ہے مگر ہوا میں اڑنے والے پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی پہنچاتا ہے ، ان کا ذکر کیوں نہیں آیا۔ اس ضمن میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پرندوں کی نسبت زمین میں رہنے والے جانداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے محض دابہ کا لفظ استعمال کیا ہے ، وگرنہ بلاشبہ ہوا میں اڑنے والے پرندوں اور پانی میں رہنے والی ساری مخلوق کا روزی رساں وہی اللہ تعالیٰ ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اے لوگو ! دیکھو ! صبح کے وقت پرندے خالی پیٹ اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور پیت بھر کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ وہ اللہ کے توکل پر نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں روزی پہنچاتا ہے۔ اگر تم بھی اللہ پر ایسا ہی توکل کرو تو وہ تمہیں بھی ایسا ہی رزق پہنچائے گا۔ اللہ نے اپنے فضل سے تمام جانداروں کی روزی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (آیت) ” الا وان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقھا “ کوئی جاندار اپنی روزی پوری کیے بغیر نہیں مرتا۔ جب تک اللہ کو اس کی زندگی مقصود ہوتی ہے اسے رزق ملتا رہتا ہے۔ جو روزی اللہ کے حکم میں کسی شخص یا کسی جاندار کے لیے مقدر ہے وہ اسے کھائے بغیر نہیں مر سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی حین حیات روزی کے ایسے ایسے سامان پیدا کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ، لہٰذا انسان وحیوان اپنی روزی کی جگہ پر لازما پہنچ جاتا ہے۔ دو چیز آدمی راکشد زور زور یکے آب ودانہ دگر خاک گور یعنی دو چیزیں آدمی کو زبردستی اپنی طرف کھینچ کرلے جاتی ہیں ، ایک اس کی خوراک اور پانی اور دوسری اس کی قبر کی مٹی۔ آب ودانہ بھی انسان کو کھینچ کر کسی نہ کسی بہانے لے جاتا ہے اور اسی طرح انسان اپنی موت کے مقام پر کسی نہ کسی طریقے سے ضرور پہنچ جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مقررہ وقت تک ہر جاندار کو روزی پہنچاتا اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ کو اپنے گھروالوں کی روزی کا خیال آرہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی تو فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اس سامنے والے پتھر پر اپنی لاٹھی مارو۔ جب لاٹھی ماری گئی تو پتھر دو ٹکڑے ہوگیا اور اس کے اندر سے ایک اور پتھر برآمد ہوا۔ اللہ نے فرمایا ، اس پتھر کو بھی ضرب لگائو۔ جب ایسا کیا تو اس کے بھی دو ٹکڑے ہوگئے اور اس میں سے ایک تیسرا پتھر نکلا۔ پھر حکم ہوا کہ اس تیسرے پتھر کو بھی توڑ دو ۔ جب وہ بھی توڑا گیا تو اس پتھر میں سے ایک چیونٹی جیسا چھوٹا سا کیڑا برآمد ہوا جس کے منہ میں اس کی خوراک سبز پتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے حجاب اٹھا دیا تو آپ نے دیکھا کہ وہ چھوٹا سا کیڑا زبان حال سے یہ تسبیح بیان کر رہا تھا۔ ” سبحان من یرانی ویسمع کلامی ویعلم مکانی ویذ کرنی ولا ینسی “ پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے ، میرے کلام کو سن رہی ہے میری قیام کی جگہ کو جانتی ہے۔ مجھے یاد رکھتی ہے اور بھولتی نہیں اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ جو اللہ تعالیٰ پتھر در پتھر میں رہنے والے کیڑے کو اس کی روزی پہنچا رہا ہے وہ اس کے گھرو الوں سے کسیے غافل ہو سکتا ہے ، بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ کوئی پرندہ خوراک کے لیے دانہ دور سے چونچ میں پکڑ کر لاتا ہے تا کہ گھونسلے میں جا کر خود کھائے یا اپنے بچوں کے منہ میں ڈال دے مگر وہ دانہ ان کی خوراک نہیں ہوتا بلکہ کسی دوسرے جاندار کے مقدر میں ہوتا ہے۔ چناچہ وہ دانہ اس کی چونچ سے گرتا ہے اور نیچے گندی نالی کے کنارے موجود کیڑے کی خوراک بن جاتا ہے۔ یہ اس کیڑے کا رزق تھا جو اللہ ن پرندے کے ذریعے اس کے مقام تک پہنچایا۔ امام قرطبی (رح) اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ قبیلہ اشعر کے لوگ یمن سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف بذریہ بحری سفر آرہے تھے کہ راستے میں جہاز کو حادثہ پیش آگیا اور وہ حجاز کی بجائے حبشہ کے ساحل پر پہنچ گئے اور پھر یہ لوگ حبشہ سے ڈیل ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے قبیلے کے یہ لوگ مدینے میں بےسروسامانی کی حالت میں پہنچے۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنا ایک آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہمارا راشن ختم ہوگیا ہے ، اس کے لیے کوئی انتظام فرمائیں۔ وہ شخص جب حضور ﷺ کے گھر پہنچا تو اندر سے حضور کی زبان مبارک سے اسی آیت کی تلاوت آرہی ہے (آیت) ” وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا “ جب اس شخص نے یہ الفاظ سنے تو اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ جب وہ ہر جاندار کی روزی کا ذمہ دار ہے تو ضرور ہمارے لیے بندوبست کریگا ، ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ چناچہ اس شخص نے حضور ﷺ سے کوئی بات نہ کی اور اسی طرح واپس اپنے قبیلے کے لوگوں کے پاس آگیا اور کہنے لگا تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ کی مدد آرہی ہے ساتھی مطمئین ہوگئے کہ حضور ﷺ نے مدد کا وعدہ کیا ہوگا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کے پاس دو آدمی آئے جن کے پاس ایک بہت بڑا برتن تھا ، جس میں گوشت اور روٹیاں تھیں۔ سب نے کھانا کھایا مگر پھر بھی بچ گیا انہوں نے وہ کھانا دو آدمیوں کے سپرد کیا کہ اے حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائو ، کھانا بھیجنے کا شکر ادا کرو اور ساتھ یہ بھی کہو کہ یہ بچ گیا ہے کسی اور ضرورت مند کو دے دیں۔ جب وہ آدمی کھانا لے کر پہنچے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو تمہارے لیے کوئی کھانا نہیں بھیجا تھا۔ پھر جب پورے معاملے کی وضاحت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ جس کے لیے چاہے اسی طرح روزی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ جب تک کسی کی زندگی مقصود ہوتی ہے ، رزق پہنچتارہتا ہے ، جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو روزی کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔ مستقر اور مستودع فرمایا اللہ تعالیٰ زمین کے ہر جاندار کو روزی پہنچانے کا ذمہ دار ہے (آیت) ” ویعلم مستقرھا ومستودعھا “ اور وہ اس کے مستقر۔ (ٹھہرنے کی جگہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) کو بھی جانتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مستقر اس جگہ کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ارادے سے اختیار کرتا ہے جیسے عام رہائش گاہ مکان وغیرہ اور مستودع وہ جگہ ہوتی ہے جہان انسان بغیر اختایر کے پڑا رہے۔ مثلا انسان زمین پر خود اپنا گھر بناتا ہے ، یہ اس کا مستقر ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ انسان اپنے باپ کی پشت اور ماں کے رحم میں بلا اختیار پڑا رہتا ہے ، یہ اس کے لیے مستودع ہے۔ ماں کے پیٹ سے جب اس دنیا میں آتا ہے تو یہ اس کے یے مستقر ہوتا ہے۔ پھر جب مر کر قبر میں چلا جاتا ہے تو یہ اس کے لیے سونپے جانے یا امانت کی جگہ ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے قبر بحیثیت مستودع ہوتی ہے جہاں اسے بلا اختیار داخل کردیا جاتا ہے یہ غلط العام بات ہے کہ قبر انسان کی آخری آرام گاہ ہے۔ نہیں بلکہ یہ تو حشر تک کے لیے عارضی ٹھکانہ ہے جب حساب کتاب ہوگا تو پھر ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جائے گا۔ اور یہ جگہ اس کے لیے مستقر ہوگی۔ کتاب مبین یہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” کل فی کتب مبین “ یہ سب باتیں یعنی روزی ، مستقر اور مستودع وغیرہ کتاب مبین میں درج ہیں کتاب مبین کو علم الٰہی کا نمبونہ سمجھ لیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اسے علم الہٰی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں (آیت) ” فی کتب مبین “ ‘ اور (آیت) ” فی لوح محفوظ “ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے قرآن کریم کی ان آیات اور حضور ﷺ کے فرمان کی رو سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات سے پہلے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جو کچھ وہاں لکھا ہوا موجود ہے قیامت تک وہی کچھ کائنات میں پیش آئے گا اور ذرہ بھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوگا۔ چناچہ اہل سنت کا ایمان ہے کہ تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، ان کا ارادہ بھی وہی کرتا ہے اور ان کو لکھ بھی رکھا ہے۔ یہ تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں۔
Top