Mualim-ul-Irfan - Hud : 61
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ
وَ : اور اِلٰي ثَمُوْدَ : ثمود کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی صٰلِحًا : صالح قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا هُوَ : وہ۔ اس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے وَاسْتَعْمَرَكُمْ : اور بسایا تمہیں فِيْهَا : اس میں فَاسْتَغْفِرُوْهُ : سو اس سے بخشش مانگو ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : رجوع کرو اس کی طرف (توبہ کرو اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب قَرِيْبٌ : نزدیک مُّجِيْبٌ : قبول کرنے والا
اور قوم ثمود کی طرف (ہم نے رسول بنا کر بھیجا) ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو۔ انہوں نے کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی ، نہیں ہے تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے زمین سے اور اسی نے تمہیں آباد کیا ہے اس (زمین) میں پس اسی سے بخشش طلب کرو ، پھر توبہ کرو اس کے سامنے بیشک میرا پروردگار قریب ہے اور قبول کرنے والا ہے (دعاگو)
ربط آیات مسئلہ توحید کو سمجھانے اور اس پر ایمان لانے کے لئے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا ذکر فرمایا اور پھر آپ کی قوم کی نافرمانی اور غرقابی کا حال بیان کیا ۔ اس کے بعد ہود (علیہ السلام) کی وعظ و نصیحت اور ان کی قوم کا ذکر بھی کیا۔ اللہ کے دونوں پیغمبروں کی تبلیغ کا موضوع ایک ہی تھا کہ اے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم سے صرف وہی لوگ بچے جو ایمان لا کر کشتی میں سوار ہوگئے اور ہود (علیہ السلام) کی قوم کے بھی صرف ایمان دار ہی بچے اور کافروں میں سے فرد واحد بھی زندہ نہ بچا۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کا ذکر فرمایا ہے یہ قوم عادثانیہ بھی کہلاتی ہے۔ عاد کی طرح یہ لوگ ارم میں سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت نوح کے بعد قوم عاد کو 800 سال بعد یا 2600 سال بعد عروج حاصل ہوا اور پھر عاد کے ایک سو یا دو سو سال بعد قوم ثمود برسر اقتدار آئی۔ قوم ثمود جیسا کہ پہلے درس میں بیان ہوچکا ہے قوم عاد جزیرہ نمائیعرب کے نجوب میں ربع خلای کی وادی دہنا میں آباد تھے جب کہ قوم ثمود شمال میں تبوک سے لے کر وادی قریٰ تک کے درمیان رہتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز مفسر قرآن لکھتے ہیں کہ اس علاقے میں قوم کے ایک ہزار سات 1700 سو دیہات ، قصبات اور شہر آباد تھے۔ یہ لوگ بڑے متمدن تھے ، سنگ تراشی کے بڑے ماہر تھے ، پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر بڑے عالیشان نقش و نگار والے مکان تعمیر کرتے تھے ، سورة اعراف میں موجود ہے کہ کھلی جگہوں پر یہ لوگ بڑے عالیشیان محلات تعمیر کرتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے مکانات ہرزاروں سال گزرنے کے بعد آج بھی موجود ہیں۔ ان پر بنے ہوئے نقش و نگار ان لوگوں کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دنیا بھر کے سیحا ان تع میرات کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ ان عمارات کے کھنڈرات پر ثمودی ، سامی یا آرامی زبان میں لکھے ہوئے کتبے بھی موجود ہیں۔ ہندوستان میں مہاتما بندھ کے دور میں بھی تع میرات کے بڑے بڑے ماہر موجود تھے۔ اس زمانے میں موجود ٹیکسلا بہت بڑا شہر تھا جو چار پانچ میل کے رقبے میں پھیلا ہوا تھا۔ اس دور کے بعض برتن اور مجسمے وغیرہ ٹیکسلا میوزیم میں موجود ہیں۔ برصغیر میں صوبہ بہار اور دکن میں ایجنٹا اور الورا کی تہذیبوں کے اثرات اب بھی پائے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ پہلی قوموں کے لوگ بڑے سمجھدار تھے مگر دنیاوی معاملات میں وہ لوگ معاد کے اعتبار سے بالکل اندھے تھے اور وہ اخروی عقل سے محروم تھے ، خدا کے دین اور ایمان کی بات کو نہیں سمجھتے تھے۔ صالح (علیہ السلام) کی بعثت بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کا حال بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ کے نبی صالح (علیہ السلام) کی مخالفت کی ، ان کو جھٹلایا اور پھر آخر کار قوم کا کیا حشر ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے والی ثمود اخاھم صلحاً اور قوم ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ یہاں پر بھی ولقد ارسلنا کے الفاظ محذوف ہیں۔ یہ الفاظ نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے ساتھ آئے ہیں اور ان کا اطلاق ہود (علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ اور اب صالح (علیہ السلام) کے بیان کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ آپ کی قوم کا تعلق بھی سامی نسل سے ہے۔ آپ کا شجرہ صالح ابن عبید اوپر جا کر سام ابن نوح سے جا ملتا ہے بعض اقوام کی طرف رسول باہر سے آ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں جیسے لوط (علیہ السلام) ہیں۔ وہ عراق کے رہنے والے تھے جب کہ انہیں تبلیغ کے لئے شرق اردن کی طرف مبعوث کیا گیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی شام سے نینویٰ کی بستی میں آئے۔ تاہم ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) اپنی اپنی اقوام کی طرف ہی مبعوث ہوئے۔ صالح (علیہ السلام) اپنی قوم ثمود ہی کے ایک فرد تھے اور اللہ نے انہیں اپنی قوم کو تبلیغ کرنے کے لئے مقرر فرمایا۔ دعوۃ الی التوحید صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی تبلیغ کا آغاز دعوت الی التوحید سیہی کیا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرتے رہے ہیں۔ قال یقوم اعبدواللہ فرمایا اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو مالکم من الہ غیرہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس قوم نے بھی بہت سے معبود بنا رکھے تھے۔ ہر کام کا علیحدہ علیحدہ معبود تھا۔ ان کے سامنے سجدہ کیا جاتا ، ان کے نام کی نذر و نیازی دی جاتی ، ان پر چادریں اور چڑھاوے چڑھتے۔ یہ دیکھ کر اللہ کے نبی نے فرمایا لوگو ! اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں۔ عبادت انتہائی درجے کی تعظیم کا نام ہے جو اس اعتقاد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جس کی تعظیم کی جا رہی ہے وہ ہماری حالت کو جانتا ہے ، ہماری مشکلات کو حل کرسکتا ہے ، عالم اسباب پر اس کا کنٹرول ہے اور وہ نفع نقصان کا مال کہے۔ مشرک لوگ ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے کہ جس کی چاہو حاجت براری کرو مگر وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو بڑی وضاحت کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کردیا ہے۔ ” یدبر الامر من السمآء الی الارض (السجدہ) آسمان سے لیکر زمین تک کے ذرے ذرے کی تدبیر تو خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کے اسباب حیات اور رزق رسانی کی ذمہ داری اس نے اٹھا رکھی ہے۔ ترقی و تنزل کے تمام تصرفات وہ خود انجام دیتا ہے ، اس نے کسی کو کہاں اختیار دے رکھا ہے کہ میرے حکم کے بغیر جو چاہو کرتے پھرو۔ یہ تو مشرکین کا زعم باطل ہے ، لائق عبادت وہی ذات ہو سکتی ہے جو واجب الوجود ، خالق ، متصرف اور مدبر ہو ، اس کے بغیر کوئی ذات کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں۔ مٹی سے انسانی تخلیق مسئلہ توحید کے دلائل کے طور پر صالح (علیہ السلام) نے بعض باتیں قوم کو بتلائیں۔ فرمایا ھو انشا کم من الارض یہ وہی ذات خداوندی ہے جس نے تمہیں مٹی سے یعنی زمین سے پیدا کیا۔ مٹی سے انسانی تخلیق کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ تمام انسانوں کے جد امجد آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست مٹی سے پیدا فرمایا جیسا کہ سورة آل عمران میں ہے ” خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس میں روح ڈالی اور کہا ہوجا ، تو وہ ہوگیا۔ دوسری جگہ پر ہے کہ مٹی کو گوندھ کر اس کا خمیر بنایا گیا ، پھر اس کا مجسمہ بنایا اور اس میں روح ڈالی۔ مطلب یہ کہ جب اولین انسان کی پیدائش براہ راست مٹی سے ہوئی تو باقی انسان بھی بالواسطہ مٹی ہی کی پیدائش تصور کئے جائیں گے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے لوگوں کو یاد دلایا کہ ان کی تخلیق حقیر سٹی سے ہوئی اس لئے وہ ایک دوسرے پر نسلی فوقیت پر فخر نہ کیا کریں فرمایا لایفخر بعضکم علی بعض تم میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پر فخر نہ کیا کریں کلکم ابنائو ادم وادم من تراب تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ نسلی اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کا یہ انتظام فرمایا ہے کہ جب مرد و زن آپس میں ملتے ہیں تو رحم مادر میں ان کا مادہ منویہ اکٹھا ہو کر انسان کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ اب عورت اور مرد کے جسمانی مواد جو بچے کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں وہ اس خوراک سے ملتے ہیں جو انسان کھاتا ہے اور انسانی خوراک کا سارا دار و مدار زمین یعنی مٹی پر ہے۔ ہر چیز زمین سے پیدا ہوتی ہے ، اجناس ، سبزیات حتی کہ نمک اور دیگر مع دنیات جو انسانی جسم کا حصہ ہیں سب زمین کی پیداوار ہیں تو گویا اولین انسان براہ راست مٹی سے پیدا ہوا اور پھر نسلی اعتبار سے پیدا ہونے الے تمام انسان مٹی سے حاصل ہونیوالی خوراک کے بل بوتے پر پیدا ہو کر اپنی مدت العمر تک زندہ رہتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ہم نے تمہیں زمین یعنیمٹی سے پیدا کیا۔ زمین کی آباد کاری واستعمرکمفیھا اور اسی زمین میں تمہیں آباد کیا۔ استعمار کا معنی مدت العمرتک آباد کرنا ہے۔ جب تک تمہاری زندگی ہے تمہارے تمام مفادات اور ضروریات اسی زمین سے وابستہ ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ انسانی خوراک اور اس کی ضروریات کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ زمین ہی سے پیدا کرتا ہے ، بعض فرماتے ہیں واستعمرکم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اے لوگو ! تم اس زمین کو آباد کرو۔ اس میں کھیتی باڑی کر کے غلہ اگائو ، باغات لگا کر پھیل پیدا کرو اور زمین کی تہ سے پانی اور مع دنیات نکالو اور ان چیزوں کو اپنے استعمال میں لائو ، زمین کی آباد کاری کا یہی مطلب ہے چناچہ فقہائے کرام اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ جو شخص زمین کا مالک ہے اور اسے آباد نہیں کرتا ، تو ایسی صورت میں حکومت کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس زمین کی آباد کاری کے لئے مدت مقرر کرے اور اگر پھر بھی مالک اسے آباد کرنے سے قاصر رہے تو زمین چھین لی جائے اور کسی آباد کرنے والے کو دے دی جائے کیونکہ اس آیت کی رو سے زمین کی آباد کاری واجب ہے۔ شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی فرماتے ہیں کہ کسی ملک کی آبادی زراعت سے ہوتی ہے۔ انسانی ضروریات کے سلسلے میں زراعت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے لہٰذا ہر ملک کا اسی فیصد زراعت میں اور باقی بیس فیصد صنعت وحرفت میں استعمال ہونا چاہئے۔ اگر تمام لوگ کارخانوں میں کام کرنے لگیں یا فوج کی ملازمت اختیار کرلیں تو زراعت کا کام کون کرے گا اگر زراعت رک گئی تو ملک ویران ہوجائے گا ، لہٰذا حکومت اور خود مالک اراضی کا فرض ہے کہ زمین کو آباد کری تکاہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست ہو سکے۔ عمرہ کا لفظ بھی اسی لفظ و استعمر سے مشتق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا مکان یا زمین عمر بھر کے لئے کسی دوسرے شخص کو دے دیتا ہے تو وہ ہبہ یا صدقہ ہوجائے گا۔ ایسی جائیداد دوسرے شخص کی ملکیت میں چلیجائے گی اور پھر واپس نہیں ہو سکے گی۔ اس شخص کی وفات کے بعد وہ جائیداد اس کے وارثان میں تقسیم ہوگی اور اصل مالک کر واپس نہیں ہو سکے گی۔ اگر کوئی شخص ہبہ کرتے وقت کسی خاص مدت کے بعد واپسی کی شرائط لگائے گا تو ایسی شرط باطل سمجھی جائے گی۔ استغفار کی تلقین فرمایا اللہ نے تمہارے لئے اس زمین میں آبادی کا سامان پیدا کیا ہے۔ اب تمہارا بھی فرض ہے کہ فاستغفروہ اس پروردگار سے بخشش طلب کرتے رہو ، اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ استغفار بہت بڑی حقیقت اور بڑی ضروری چیز ہے۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کے لئے استغفار بمنزلہ صابن کے ہے ۔ انسان کے دل پر جتنی زیادہ میل کچیل ہوگی اتنی زیادہ استغفار کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد تسبیح و تحلیل بمنزلہ خوشبو کے ہے اور استغفار کے بعد تسبیح و تہلیل انسان کی روح کو نکھار دیتی ہے۔ اسی لئے بزرگان دین ان وظائف کی بڑی تلقین کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں استغفار کے کئی کلمات آئے ہیں۔ مثلاً استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ اور قائم ہے اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ ۔ میں ہر گناہ سے اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ خالی استغفر اللہ کا ورد بھی کرتا رہے تو درست ہے صحابہ بیان کرتے ہیں کہ خود حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) ایک ایک مجلس میں سو سو مرتبہ استغفار کے کلمات اپنی زبان مبارک سے ادا فرماتے تھے۔ ترمذی اور ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے کلکم خطآ ون و خیر الخطآئبن التوا بون یعنی تم میں سے ہر شخص خطا کار ہے اور بہتر خطا کار وہ ہے جو غلطی کرنے کے بعد معافی مانگ لیتا ہے اور اس پر اصرار نہیں کرتا۔ جب کوئی شخص صدق دل سے تانب ہوجاتا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا 1 ؎ التآئب من الذنب کمن لا ذنب لہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ تو فرمایا ایک تو اللہ سے معافی مانگو اور دوسرے یہ کہ ثم توبوآ الیہ پھر اس کے سامنے تو بہ بھی کرو کہ آئندہ ایسا غلط کام نہیں کروں گا۔ خدا سے براہ راست دعا فرمایا اپنے رب کے سامنے استغفار اور توبہ کرو اور ساتھ یہ بھی 1 ؎ ابن ماجہ ص 313 سمجھ لو ان ربی قریب مجیب بیشک میرا پروردگار میریقریب بھی ہے اور میری دعا کو قبول بھی کرتا ہے۔ اس لفظ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ رب تعالیٰ کہیں دور دراز مقام پر ہے ، بلکہ وہ تو انسان کے بالکل قریب ہے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے ” نحن اقرب الیہ من حبل انورید “ ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اس وقت درمیان میں حجاب پڑے ہوئے ہیں ، جب یہ دور ہوجاتے ہیں ، تو انسان کو حضوری نصیب ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ خدا تعالیٰ قریب اور مجیب بھی ہے کہ وہ ہر دا کرنے والے کی دعا کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے مشرک لوگ درمیان میں بلا وجہ واسطہ ڈالتے ہیں کہ ہماری تمہارے آگے اور تمہاری خدا کے آگے ، یہ باطل نظریہ ہے۔ اللہ نے قریب و مجیب کے الفاظ لا کر اس باطل عقیدہ کی جڑ کاٹ دی ہے۔ مگر مشرک لوگ اسی عقیدے پر اڑے ہوئے ہیں کہ ہم ان کو راضی کرتے ہیں اور یہ آگے خدا تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو علیالاعلان کہہ رہا ہے کہ وہ ہر شخص کے قریب ہے اور اس کی دعا کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ توسل کی حقیقت جس توسل کو بزرگان دین جائز قرار دیتے ہیں ، وہ ایک فروعی بات ہے۔ اس توسل کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان لوگوں سے ہمیں محبت ہے کیونکہ انہوں نے ہمیں اللہ کا راستہ بتایا ہے ۔ دعا کا قبول و رد تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تاہم ہم التجا کرتے ہیں کہ ان بزرگوں کے طفیل سے ہماری دعا کو قبول فرما۔ اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ فلاں بزرگ اللہ تعالیٰ کو ضرور ہی راضی کرے گا۔ لہٰذا ہمیں اس کو راضی کرنا چاہئے تو یہی شرک ہے۔ حضرت مولانا حسین علی صاحب واں بھچراں والے کہتے ہیں کہ کسی نبی یا ولیکا وسیلہ درحقیقت اعمال ہی کا واسطہ ہوتا ہے جو کہ سب کے نزدیک جائز ہے۔ اعمال کا وسیلہ یہ ہے کہ انسان کہے کہ اے مولا کریم ! میرے اس نیک عمل کے طفیل میرے گناہ معاف کر دے یا میری فلاں حاجت پوری کر دے ، اسی طرح یوں کہنا کہ اے اللہ ! علی ہجویری یا فلاں بزرگ کے طفیل سے میری دعا قبول کرلے تو یہ بھی حقیقت میں فعل ہی کا واسطہ ہے کیونکہ کوئی نبی یا ولی بذات مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ محبت ہونے کی وجہ سے اس کو ذریعہ بنایا جاتا ہے اور محبت ایک فعل ہے اسی طرح کسی متبع کی اتباع ایک فعل ہے اور اس فعل کی برکت سے وہ دعا کی قبولیت کی درخواست کرتا ہے اس سے زیادہ فیصلے کا کوئی مقصد نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کوئی نبی یا ولی من حیث الذات اس کی مراد پوری کرتا ہے اور وہ اسی کی رضا چاہتا ہے یا وہ سفارش کر کے بچا لے گا تو یہ مشرکانہ عقیدہ ہے جس کی عدم معافی کا اللہ نے بار بار اعلان فرمایا ہے۔ آبائو اجداد کا طریقہ صالح (علیہ السلام) کی یہ تقریر سن کر قالوا یصلح وہ لوگ کہنے لگے کہ اے صالح (علیہ السلام) ! قد کنت فینا مرجوا قبل ھذا اس سے پہلے تو ہمارے درمیان امید کیا گیا تھا۔ تمہاری تبلیغ سے پہلے ہم تمہیں بڑا ہونہار اور لائق سمجھتے تھے کہ تو باپ دادا کا نام روشن کریگا مگر تو تو ان کی راہ سے ہٹ کر اسی راہ کو مٹانے کے درپے ہے کہنے لگے اتنھنآ ان نعبد ما یعبد آبائونا کیا تو ہمیں روکتا ہے ان کی عبادت کرنے سے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔ تو ہمارے آبائو اجداد کے رسم و رواج ہم سے چھڑانا چاہتا ہے آج کے مشرک بھی یہی کہتے ہیں کہ فلاں کام اور فلاں رسم تو وہ بھی کرتے تھے ، وہ کوئی بیوقوف تھے جو ایسا کرتے تھے۔ یہ نئے عالم پیدا ہوگئے ہیں جو ہمیں تیسرے اور چہلم سے روکتے ہیں۔ قبروں پر گنبد بنانے ان پر چادریں پھیلانے اور چڑھا وے چڑھانے سے منع کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں ، یہ کون ہیں ہمیں روکنے والے مشرک لوگ ہمیشہ اپنے بڑوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جب کہ اللہ نے فرمایا ” اولو کان آبائوھم لایعقلون شیئاً ولایھتدون “ (البقرۃ) اگرچہ ان کے آباو اجداد عقل و شعور اور ہدایت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔ ہاں اگر آبائو اجداد یا بزرگ صحیح راستے پر ہوں تو پھر ضرور ان کے راستے پر چلو اور اس کی دعوت دوسروں کو بھی دو ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی کہا تھا واتبعت ملۃ ابآءی ابراہیم واسحق ویعقوب (یوسف) میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت کا اتباع کرتا ہوں کیوں کہ وہ حق پر تھے۔ بہرحال اگر آبائو اجداد توحید الٰہی پر ہیں تو ان کی مانی جائے گی اور اگر وہ گمراہ ہیں تو ان پر فخر کرنا جہنمی ہونے کی علامت ہے۔ تو فرمایا ، اے صالح ! کیا تو ہمیں ان کی عبادت کرنے سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں واننا لفی شک مما تدعونا الیہ مریب تو ہمیں جس چیز کی دعوت دیتا ہے ہم تو اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں تمہاری بات سچی معلوم نہیں ہوتی۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب کی حاجات ایک ہی خدا پوری کرے اور ہم سب کو چھوڑ کر اسی ایک کو پکاریں۔ توحید پر استقامت اس کے جواب میں صالح (علیہ السلام) نے فرمایا قال یقوم ارء یتم ان کنت علی بینۃ من ربی اے میری قوم کے لوگو مجھے بتلائو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل پر ہوں اس نے مجھ پر وحی نازل فرمائی اور مجھے صحیح دین عطا کیا واتنی منہ رحمۃ اور اس اللہ نے اپنی طرف سے مجھے مہربانی بھی عطا کی ہے ہدایت ، ایمان ، نیکی اور تقویٰ یہ سب اللہ کی مہربانی ہی تو ہے جو اس نے عطا فرمائی ہے۔ فرمایا ان حالات میں فمن ینصرنی من اللہ ان عصیتہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں گا تو اس کے سامنے کون میری مدد کریگا۔ یہ ایسی واضح بات ہے کہ جس میں کوئی شک اور تردد نہیں۔ فرمایا اگر میں تمہاری بات امان لوں فما تزید و ننی غیر تخسیر پس نہیں زیادہ کرتے تم میرے لئے نقصان کے سوا مطلب یہ کہ اگر میں توحید کا درس چھوڑ دوں اور تمہاری شرکیہ رسوم کی تردید کرنے کی بجائے خود اختیار کرلوں تو مجھے نقصان کے سوا کیا حاصل ہوگا یہ تو میرے لئے سراسر نقصان کا سودا ہوگا ، لہٰذا نہ میں پیغام الٰہی پہنچانے سے باز آسکتا ہوں اور نہ تمہاری غلط بات کے پیچھے لگ سکتا ہوں اب اگلی آیات میں قوم کی طرف سے نشانی کا مطالبہ آ رہا ہے اور پھر ان کی ہلاکت و تباہی کا تذکرہ ہے۔
Top