Mualim-ul-Irfan - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم چھکائیں انسان کو اپنی طرف سے مہربانی ، پھر ہم اسے چھین لیں ، بیشک وہ انسان البتہ مایوس ہونے والا اور ناشکر گزار ہوتا ہے
ربط آیات دعوت الی التوحید کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے علم محیط اور قدرت تامہ کا ذکر فرمایا ۔ اس سے پہلے تمام جاندار کی روزی کا ذمہ اٹھایا اور ہر ایک کے مستقر اور مستودع کے علم کا ذکر کیا۔ پھر تخلیق کائنات کا ذکر کیا جو کہ اس کی وحدانیت اور قدرت تامہ دلیل ہے آسمان و زمین کی پیدائش اور عرش الٰہی کا ذکر ہوا۔ تخلیق کائنات کا مقصد انسانوں کی مصلحت بیان فرمایا اور انسانوں کی تخلیق کو ان کی آزمائش کا مقصود بنایا کہ ان میں سے کون اچھے اعمال انجام دیتا ہے اور کون برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ فرمایا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے برحق ہے۔ فرمایا اگر نافرمانوں پر خدا کی گرفت موخر ہوجائے تو وہ ٹھٹھا کرتے ہیں مگر اللہ نے فرمایا کہ جب اس کی طرف سے عذاب آئیگا تو پر وہ ہٹایا نہیں جائیگا اور جس چیز کے ساتھ یہ مذاق کرتے ہیں ، وہی چیز ان کو گھیرے گی۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناشکرگزاری کا ذکر فرمایا ہے۔ لوگ عام طور پر نہ تو راحت کے وقت اپنا فرض صحیح طور پر انجام دیتے ہیں اور نہ ہی تکلیف کے وقت آج اسی بات کا تذکرہ ہوگا۔ عروج کے بعد زوال ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولئن اذقنا الانسان منا رحمۃ “ اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزا چکھائیں ، کوئی مہربانی کریں ، صحت ، مال ، اولاد ، جاہ ، حکومت ترقی عطا کریں (آیت) ” ثم نزعنھا منہ “ پھر وہ نعمت اس سے چھین لیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے کسی کو کوئی نعمت عطا کر دے اور جب چاہے واپس لے لے۔ تندرستی دے کر بیماری میں مبتلا کر دے یا کسی کو باہر عروج پر پہنچا کر زوال پذیر کردے یا آسائش دے کر تنگدستی میں مبتلا کر دے ، یہ سب اس کی حکمت اور مصلحت کے کرشمے ہیں۔ تو فرمایا جب ہم کسی کو راحت کے بعد تکلیف میں مبتلا کردیں ، تو انسان کی حالت یہ ہوتی ہے (آیت) ” انہ لیوس کفور “ کہ وہ مایوس ہونے والا اور ناشکر گزار بن جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب میرے لیے بھلائی کا کوئی موقع باقی نہیں رہا اور ایسی حالت میں صبر وشکر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ کرنے لگتا ہے کہ اس نے اسے تنگی میں ڈال دیا ہے۔ یہ انسان کی ناشکری کی دلیل ہے۔ عام طور پر انسان راحت اور تکلیف دونوں حالتوں میں ناکامی کی منہ دیکھتے ہیں۔ وہ نہ تو تکلیف میں صبر کرتے ہیں اور نہ راحت میں شکر ادا کرتے ہیں۔ البتہ بہت تھوڑے ایمان والے لوگ ایسے ہیں جو اس امتحان میں پورے اترتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” والذی نفسی بیدہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، جب کسی مومن کی تکلیف کے وقت اللہ سے معافی مانگتا ہے ، اس کے سامنے گڑ گڑاتا ہے ، تو یہی تکلیف کی حالت بھی اس کے لیے باعث رحمت ہوتی ہے۔ گویا مومن آدمی کو تکلیف اور راحت دونوں حالتوں میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ تکلیف کے بعد راحت آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولئن اذقنہ نعماء بعد ضراء مستہ “ اور گر ہم اس کو نعمت کا مزا چکھائیں تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی تھی۔ ضراء عام طور پر جسمانی تکلیف پر بولا جاتا ہے تا ہم اس سے دیگر تکالیف بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔ تو فرمایا اگر بیماری کے بعد کسی انسان کو صحت عطا کردیں یا کسی دوسری تکلیف کو راحت میں بدل دیں۔ تو پھر کیا کہتا ہے ؟ (آیت) ” لیقولن ذھب السیات عنی “ کہتا ہے کہ مجھ سے تکالیف دور ہوگئیں اور اب میں بالکل آرام و آسائش میں ہوں اور پھر ایسی حالت میں (آیت) ” انہ لفرح فخور “ انسان اتراتا ہے اور شیخی بگھارتا ہے۔ کہتا ہے میں نے فلاں تدبیر کی تو مجھے کامیابی حاصل ہوگئی۔ ایسا شخص اپنی دولت حکومت اور ٹیکنالوجی کو ہی کامیابی کی دلیل سمجھتا ہے۔ کہتا ہے (آیت) ” انما اوتیتہ علیٰ علم عندی “ ( القصص) مجھے یہ نعمتیں میرے علم کی وجہ سے ملی ہیں اور وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ تکلیف کو دور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے برخلاف جب اسے تنگی آتی ہے تو شکوہ کرتا ہے۔ سورة الفجر میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے اور اس کا رزق تنگ کردیتا ہے (آیت) ” فیقول ربی اھانن “ تو کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کردیا ہے میں تباہ ہوگیا ہوں ، اس کا ما م کے لیے خدا تعالیٰ کو کوئی اور آدمی نہ ملا ، ایسے ایسے ناشکری کے کلمات زبان سے ادا کرتا ہے اور جب کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس میں سارا اپنا کمال سمجھتا ہے۔ اور اصل عطا کرنے والے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیتا ہے۔ یہ انسان کی عام ذہنیت ہے ورنہ اس کا فرض ہے کہ راحت اور آرام و آسائش کی حالت میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے ، اس کی نعمت کی قدر کرے ، اس کا صحیح استعمال کرے اور اس کا حق بھی ادا کرے۔ اور جب تکلیف آجائے تو اسے خدا کی جانب سے سمجھے اور اس پر صبر کرے اور جزع فزع نہ کرے۔ صبر اور عمل صالح فرمایا (آیت) ” الا الذین صبروا “ مگر وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا (آیت) ” وعملوا الصلحت “ اور نیک اعمال انجام دیے (آیت) ” اولئک لھم مغفرۃ واجر کبیر “ ان کے لیے خدا کی جانب سے معافی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی تمام کوتاہیاں معاف فرما دے گا۔ اور اس کے علاوہ ان کے لیے خدا کے ہاں بہت بڑا اجر بھی ہوگا۔ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ان دو انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ صبر ملت ابراہیمی کا بہت بڑا اصول اور حقیقت ہے۔ صبر ، شکر اللہ کا ذکر ، تعظیم شعائر اللہ اور نماز بہت بڑی حقیقتیں ہیں خاص طور پر صبر مومن کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ کامیابی حاصل کرتا ہے اور نیک اعمال وہ ہیں جنہیں عقل اور شریعت دونوں صحیح تسلیم کرتی ہیں۔ ان میں نماز روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، صدقہ خیرات ، صلہ رحمی ، مخلوق کے ساتھ احسان ، قیام عدل ، طہارت ، سماحت اور ظلم و زیادتی سے اجتناب وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب نیک اعمال ہیں جن پر مغفرت اور اجر کبیر کی بشارت دی گئی ہے۔ اہل ایمان کے لیے تسلی اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور ان کے ماننے والوں کو تسلی دی ہے۔ قرآن پاک میں یہ مضمون متعدد مقامات پر موجود ہے جب بھی نافرمانوں ، کافروں اور مشرکوں کی ہٹ دھرمی اور ضد یا ناانصافی کی وجہ سے نبی (علیہ السلام) کے قلب مبارک پر صدقہ گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تسلی دی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ آپ کو اپنا فریضہ جاری رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فلعلک تارک بعض ما یوھی الیک وضائق بہ صدرک “ پس شاید کہ آپ چھوڑ دیں بعض ان چیزوں کو جن کو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے (آیت) ” ان یقولوا “ اس وجہ سے کہ یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں (آیت) ” لولا انزل علیہ کنز “ کہ آپ (علیہ السلام) پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟ ان کے زعم میں نبوت کے دعویدار کے پاس مال و دولت کا ہونا ضروری ہے اسے معاشرے میں امتیازی حیثیت ہوتا کیہ دوسرے لوگ اس سے مرعوب ہو سکیں اور وہ یقین کرلیں کہ یہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ فرمایا اگر خزانہ نہیں ہے (آیت) ” اوجاء معہ ملک “ تو اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی آئے یہ فرشتہ نبی کے ساتھ رہے اور اس کی نبوت کی تصدیق کرے۔ فرمایا ایسے بیہودہ اعتراضات کی وجہ سے اپنا سینہ تنگ نہ کریں۔ ناانصاف لوگ ایسی باتیں ہمیشہ کیا کرتے ہیں۔ ان کا کیا ہے ؟ وہ تو نبی کو مافوق الانسان کوئی مخلوق سمجھتے ہیں اور اسی لیے عام لوگوں میں اس کے میل جول ، کام کاج اور دیگر معاشرتی معمولات کو نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ سورة فرقان میں ہے کہ کفار مکہ کہتے تھے (آیت) ” مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق “ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے بیوی بچے ہیں یہ کاروبار کرتا ہے ، اللہ نے فرمایا ایسے اعتراضات پہلے بھی ہوتے تھے اور ا ب بھی ہوتے رہتے ہیں آپ ان سے پریشان نہ ہوں بلکہ اپنا کام کرتے جائیں یہ آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ کہ آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ وہ تو آپ کو آپ کے مشن سے ہٹانا چاہتے ہیں (آیت) ” ودوا لو تدھن فیدھنون “ (القلم) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ ڈھیلے پڑجائیں تو یہ بھی مخالفت چھوڑ دیں گے۔ فرمایا ، ایسا نہیں بلکہ آپ ان کے عقائد باطلہ کا پورے طریقے سے رد کرین۔ لوگوں پر کفر وشرک کی قباحت کو واضح کریں۔ یہ لوگ کتنا بھی برا منائیں آپ اپنا کام کرتے جائیں اور اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔ نبی بحیثیت نذیر فرمایا (آیت) ” انما انت نذیر “ آپ تو ڈر سنانے والے ہیں۔ آپ کا فرض یہ ہے کہ مشرکین کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کو ان کے برے عقائد اور برے اعمال سے ڈراتے رہیں۔ انہیں صاف صاف بتا دیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کریں گے ، شرک پر اڑے رہیں گے اور نیک اعمال کی بجائے برے اعمال انجام دیتے رہیں گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناکام ہوجائیں گے۔ اسی لیے فرمایا کہ آپ ان کو خطرناک انجام سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ آگے فرمایا (آیت) ” واللہ علی کل شیء وکیل “ ہر چیز کا ذمہ دار تو خدا تعالیٰ ہے۔ خزانوں کا مالک بھی وہی ہے اور فرشتوں کا مالک بھی۔ معجزات کا پیش کرنا آپ کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت میں جب اس کا ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ ایسا کردیتا ہے۔ لہٰذا آپ کے ایسی چیز کو ترک کرنے کا خیال دل میں نہ لائیں جو آپ پر وحی کے ذریعے نازل کی جاتی ہے۔ آپ کفار کے طعن سے دل برداشتہ نہ ہوں آپ بحیثیت نذیر اپنے منصب پر فائز ہیں۔ آپ کفر ، شرک اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے انجام سے خبردار کردیں باقی ہر چیز کا نگران خود اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خود ان سے حساب لے لے گا۔ اور پھر ان کے برے عقائد و اعمال کی سزا بھی دے گا۔
Top