Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 25
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ۙ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللّٰهِ : اللہ کا عہد مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مِيْثَاقِهٖ : اس کو پختہ کرنا وَيَقْطَعُوْنَ : اور وہ کاٹتے ہیں مَآ : جو اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ : اللہ نے حکم دیا اس کا اَنْ : کہ يُّوْصَلَ : وہ جوڑا جائے وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں لَهُمُ : ان کے لیے اللَّعْنَةُ : لعنت وَلَهُمْ : اور ان کے لیے سُوْٓءُ الدَّارِ : برا گھر
اور جو لوگ توڑتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کو بعد اس کے مضبوط کرنے کے ، اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو کہ اللہ نے حکم دیا ہے ، اس کو جوڑنے کا ، اور فساد کرتے ہیں زمین میں یہ لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔
(ربط آیات) مسئلہ توحید اور شرک کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ، ایک وہ جو قرآنی تعلیمات سے مستفید ہوتے ہیں یہ عقل معاد رکھنے والے لوگ ہیں ، گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اوصاف بیان فرمائے تھے کہ یہ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور جن چیزوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ، ان کو توڑتے نہیں ۔ یہ لوگ برے حساب سے اپنے پروردگار سے خوف کھاتے ہیں اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اللہ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں اور برائی کا ازالہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں ، پھر اللہ نے ان کا انجام بھی بیان فرمایا کہ ان کے لیے قابل رہائش باغات ہوں گے اور اگر ان کے آباؤواجداد ، بیویاں اور اولادیں بھی صاحب صلاحیت ہوں گی ، تو وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے ، ایسے لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ فرشتے ہر دروازے سے داخل ہو کر ان کو سلام کریں گے اور پھر انہیں صبر کرنے کی وجہ سے اچھے انجام کی خوشخبری دیں گے ۔ اب آج کے درس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہو رہا ہے جو قرآنی تعلیمات سے مستفید نہیں ہوتے درحقیقت یہ لوگ عقلمند نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں اور ان کے انجام کا ذکر بھی کیا ہے قرآن پاک کا یہ اسلوب بیان ہے کہ جہاں ایمانداروں کا ذکر ہوتا ہے ، اس کے ساتھ نافرمانوں کا حال بھی بیان ہوتا ہے جہاں محسنین کی بات ہوتی ہے وہاں فساق وفجار کا تذکرہ بھی ہوتا ہے ، اس طرح گویا ترغیب وترہیب ساتھ ساتھ چلتی ہیں گذشتہ درس میں قرآن پاک سے مستفید ہونے والوں کا ذکر تھا ، اب نافرمانوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ۔ (عہد شکنی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ “۔ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اس کو پختہ کرنے کے بعد ، اس میں عہد ازل سے لے کر سارے عہد آجاتے ہیں اللہ تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے درمیان عہد یہ ہے کہ بندے اس کو توحید کو مانیں ، اوامر کی پابندی کریں ، نواہی سے باز رہیں ، اطاعت کرتے رہیں ، اور برائیوں سے بچتے رہیں ، مومن کبھی عہد کو نہیں توڑتا ، البتہ منافق کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے ” اذا عہد غدر “ جب وہ عہد کرتا ہے تو اس کو پورا نہیں کرتا ، عہد کو توڑنے والے لوگ عقلمند نہیں ہوتے ۔ آگے فرمایا (آیت) ” ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل “۔ اور جو قطع کرتے ہیں اس چیز کو جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ تمام نبیوں پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے مگر یہ لوگ ایسا نہیں کرتے ، یہود ونصاری اسی بیماری کے مریض ہیں جو بعض انبیاء پر ایمان لاتے ہیں ، اور بعض کا انکار کردیتے ہیں ، ان کا یہ بیان قرآن پاک میں موجود ہے (آیت) ” نؤمن ببعض ونکفر ببعض “۔ (النسآئ) یہ تو کفر ہے اور بےعقلی کی بات ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرابتداروں کو باہمی جوڑنے کا حکم دیا ہے مگر یہ لوگ قطع رحمی کرتے ہیں ، یہ دوسری صفت ہوگئی ۔ (فساد فی الارض) فرمایا ایسے بےعقل لوگوں کی تیسری صفت یہ ہے (آیت) ” ویفسدون فی الارض “۔ یہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ، امام شافعی (رح) کے پیروکار امام بیضاوی (رح) پانچویں صدی کے بڑے امام گزرے ہیں ، ان کی تفسیر مختصر تفاسیر میں سب سے اہم تفسیر ہے ، بعد والے ان کی تفسیر سے استفادہ کرتے ہیں تو امام بیضاوی فساد فی الارض کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عربی زبان فساد کی ضد اصلاح ہے جب کوئی چیز اعتدال پر ہوتی ہے تو وہ درست حالت پر ہوتی ہے مگر جب وہ اعتدال سے باہر نکل جاتی ہے تو اس میں فساد پیدا ہوجاتا ہے ۔ فساد فی الارض کا مفہوم بڑا وسیع ہے ، مثلا کفر ، شرک اور نفاق فساد فی الارض ہے ، اس کے برعکس ایمان اور توحید درستگی اور اصلاح ہے ، یہ فطرت کے عین مطابق ہے اور اس سے تمام چیزیں اعتدال پر آتی ہیں ، کافروں کے ساتھ دوستانہ کرنا ، ان کو مسلمانوں کے راز پہنچانا ، فتنہ برپا کرنا ، غلط رسومات کو رواج دینا ، دین کے خلاف بات کرنا ، شرعی قوانین کو توڑنا ، قتل و غارت گری کرنا ، معصیت کے حق میں پراپیگنڈا کرنا ، فحاشی پھیلانا ، اخلاق سوز باتیں کرنا ، بدعقیدہ ہونا ، خلاف سنت کام کرنا ، بدعت جاری کرنا ، زنا ، بدکاری ، چوری ، ڈاکہ ، خیانت ، آبروریزی کرنا ، سب فساد فی الارض میں شامل ہے ۔ (آیت) ” واللہ لا یحب الفساد “ اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ سب کچھ وہ لوگ کرتے ہیں جو عقل سے محروم ہیں ، ان کے برعکس جو لوگ اہل عقل اور اہل ایمان ہیں وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں زکوۃ اور صدقات ادا کرتے ہیں ان میں غریب پروری اور بنی نوع انسان سے ہمدردی کا مادہ ہوتا ہے ، وہ تعلق باللہ قائم کرتے ہیں اور عہد کے پابند ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے ، اور فساد فی الارض کرنے والے ناپسندیدہ لوگ ہیں ۔ (لعنت کا طوق) فرمایا (آیت) ” اولئک لھم اللعنۃ “۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے لعنت کا لغوی معنی ہے بعد عن الرحمۃ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ، جس طرح شیطان مردود اور خدا کی رحمت سے محروم ہے اسی طرح تمام کافر بھی اللہ کی رحمت سے دور ہیں ، فساد فی الارض کرنے والا ہمیشہ لعنت میں گرفتار رہے گا ، وہ اللہ کی رحمت سے کچھ حصہ نہیں پاسکتا ، یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہیں گے ، اور قیامت کے دن بھی ان کے گلے میں طوق پڑا ہوگا ۔ سورة ہود میں اللہ نے نافرمان قوموں کا حال بیان کرکے فرمایا (آیت) ” واتبعوا فی ھذہ الدنیا لعنۃ ویوم القیمۃ “۔ اس دنیا میں بھی ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے اور آخرت میں بھی وہ اسی میں پھنسے رہیں گے (آیت) ” ولھم سوء الدار “۔ اور ان کے لیے بہت برا گھر ہے برے گھر کا ذکر گزشتہ آیا ت میں ہوچکا ہے کہ ایسے لوگ جہنم کا شکار بنیں گے ، بہرحال قرآن پاک سے مستفید ہونے والے اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرنے والے دونوں گروہوں کا ذکر ہوچکا ہے ، ان کی صفات بیان ہوئی ہیں اور ان کا انجام بھی بیان کردیا گیا ہے ۔ (رزق کی کشادگی اور تنگی) نافرمان لوگوں کی دنیوی خوشحالی اور آرام و آسائش دیکھ کر بعض اذہان میں شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر یہ واقعی خدا تعالیٰ کے باغی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں عیش و آرام کیسے عطا کر رکھا ہے ، ایسے ہی شبہات کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی آیات میں رفع فرمایا ہے ارشاد فرمایا (آیت) ” اللہ یبسط الرزق لمن یشآء ویقدر “۔ اللہ تعالیٰ ہی جس کی روزی چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ، آسودگی اور تنگ دستی انسانوں کے فہم عقل اور پلان کے مطابق نہیں ہوتی ، یہ کسی انسان کا اپنا کمال نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی حکمت مشیت اور مصلحت کے تابع ہوتی ہیں ، وہ اپنی حکمت کے مطابق کشادگی یا تنگی کا فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر مایشآئ “۔ (الشوری) اگر اللہ تعالیٰ رزق کے دروازے سب کے لیے یکساں کشادہ کردیتا تو سب کے سب نافرمان ہوتے ، لہذا وہ اپنے اندازے کے مطابق جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم بعض اوقات نافرمانوں کو بھی رزق میں بڑی وسعت عطا کرتا ہے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام برے لوگ آسائش میں ہوں ، بہت سے کافر بھی تنگی میں وقت گزارتے ہیں ، کفر اور افلاس اگر دونوں چیزیں یکجا ہوجائیں تو بہت ہی بری بات ہوگی مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں لیکن بہت سے نافرمان ، بداخلاق اور بدعقیدہ لوگ آرام و آسائش میں بھی ہیں ، یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت پر موقوف ہے فضیلت کا معیار دنیا کا مال و دولت نہیں بلکہ نیکی ، تقوی اور ایمان ہے ، لہذا کسی منکر کی خوشحالی دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بندہ ہے ۔ (دنیا کا حقیر سامان) فرمایا (آیت) ” وفرحوا بالحیوۃ الدنیا “ یہ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں ، فریفتہ ہوگئے ہیں ، حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ (آیت) ” وما الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ الا متاع “۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں مگر حقیر سامان ، اس دنیا کا سارا سازوسامان ایک بالکل معمولی سی چیز ہے ، ترمذی شریف کی روایت 1 (ترمذی ص 337) میں آتا ہے ” لوکانت الدنیا تعدل عنداللہ جناح بعوضۃ ما سقی کافرا منھا شربۃ “۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر اور منکر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا ، مگر اللہ کے نزدیک دنیا ایک حقیر چیز ہے ، مسلم شریف کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت ایسی ہے ” کما جعل احدکم اصبعہ فی الیم “۔ جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے ” فلینظربم یرجع “۔ پھر دیکھ لے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والاخرۃ خیروابقی “۔ (الاعلی) آخرت ہی پائیدار اور بہتر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی ، ترمذی شریف ہی کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ مربجدی اسک میت “ چھوٹے کانوں والے بکری کے مردہ بچے پر سے گزرے آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین سے فرمایا تم میں سے کون ہے جو اس مردہ بچے کو ایک درہم میں خریدتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے عرض کیا حضور ﷺ یہ تو حقیر سا مرا ہوا بچہ ہے ” لا نحب انہ لنا بشیئ “ ہم تو اسے کسی قیمت پر بھی خریدنے کے لیے تیار نہیں آپ ﷺ نے فرمایا بخدا ! اللہ کے نزدیک پوری دنیا کی قیمت اس مردہ بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اس دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، ہر کوئی اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے ، اس کے حقیر سامان کو سمیٹ سمیٹ کر رکھ رہا ہے اسی کو پائیدار سمجھ لیا ہے اور اپنے فرائض منصبی سے غافل ہوگیا ہے ۔ دنیا کے آرام و آسائش ، محلات ، کاروں اور دیگر لوازمات میں ہی الجھ کر رہ گیا ہے ، مگر اصل منزل تو آخرت کی منزل ہے جو پائیدار بھی ہے اور جس کو دوام بھی حاصل ہے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کا تقابل بھی کردیا ہے اور دونوں کی حیثیت کو بھی واضح کردیا ہے اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ ان میں سے کس چیز کو پسند کرتے ہیں ۔
Top