Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 32
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : مذاق اڑایا گیا بِرُسُلٍ : رسولوں کا مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَمْلَيْتُ : تو میں نے ڈھیل دی لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے ان کی پکڑ کی فَكَيْفَ : سو کیسا كَانَ : تھا عِقَابِ : میرا بدلہ
اور البتہ تحقیق ٹھٹا کیا گیا رسولوں کے ساتھ آپ سے پہلے پس میں نے مہلت دی ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا پھر میں نے پکڑا ان کو ، پس کیسی تھی سزا ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں مشرکین کی تردید کے متعلق دو باتیں بیان ہوچکی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ کفار ومشرکین اللہ کے نبی سے من مانی نشانیاں طلب کرتے تھے اور یہ مطالبہ کسی اشتباہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محض ضد اور عناد کی وجہ سے ہوتا تھا ، ان کا منصوبہ یہ ہوتا تھا کہ اپنی خواہش کی نشانیاں طلب کی جائیں اور جب آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ کا تمسخر اڑایا جائے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی کہ آپ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ٹھٹا کیا گیا اور آپ کے ساتھ یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے ، اللہ نے فرمایا کہ میں نے ایسے لوگوں کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دی اور پھر بالآخر انہیں سخت عذاب میں مبتلا کیا ، فرمایا آپ کے مخالفین کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کی دہی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں ، ورنہ سابقہ اقوام کی طرح وہ بھی ہلاک ہوجائیں گے ، اب اللہ نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ ان لوگوں کی بےعقلی کا حال ملاحظہ کریں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے جو ہر چیز پر قائم اور نگران ہے ، وہ قادر مطلق ہے ، ہر قسم کا تصرف اسی کو حاصل ہے مگر یہ لوگ اس ذات کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو شریک بنا رہے ہیں ، حالانکہ ان شرکاء کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ وہ کسی چیز پر تصرف رکھتے ہیں ، نہ وہ کسی کی حاجت کو جانتے ہیں ، نہ ان کے پاس علم ہے ، بلکہ وہ تو عاجز مخلوق ہیں ، اور ظاہر ہے کہ انکو خدا کا شریک بنانا کتنی بیوقوفی اور حماقت ہے ۔ (استہزائے رسل) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد استھزیء برسل من قبلک “۔ البتہ تحقیق ٹھٹا کیا گیا بہت سے رسولوں کے ساتھ آپ سے پہلے فرمایا یہ تو پرانے جاہلوں اور کافروں کا دستور ہے کہ وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو تمسخر کا نشانہ بناتے رہے ہیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر آپ تسلی رکھیں کہ یہ لوگ اپنا کام کرتے رہیں گے ، مگر ان کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ، ٹھٹے کا مسئلہ تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کا تمسخر اڑانا کبیرہ گناہ اور حرام ہے ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے ” ولا تمار اخاک ولا تمازح “ اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا نہ کرو اور نہ اس کے ساتھ استہزاء کرو ، فرمایا ایسا وعدہ بھی نہ کرو جسے پورا نہ کرسکو ، مگر یہ خرابیاں معاشرہ میں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں ، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ، تو وہ کہنے لگے ، کیا تو ہمارے ساتھ ٹھٹا کرتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” اعوذباللہ ان اکون من الجھلین “۔ (البقرہ) خدا کی پناہ ! کہ میں جاہلوں میں سے بن جاؤں کیونکہ ٹھٹا کرنا تو جاہلوں کا کام ہے ، میں تو اللہ کا نبی ہوں اور اس کا حکم پہنچا رہا ہوں ۔ غرضیکہ عام مسلمانوں کے ساتھ ٹھٹا کرنا جس سے اس کی تحقیر مقصود ہو ، حرام ہے اور اللہ کے نبی کے ساتھ یہ سلوک کرنا تو کفر ہے نبی کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے اللہ نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا (آیت) ” فاملیت للذین کفروا “ پھر میں نے کفر کرنے والوں کو مہلت دی (آیت) ” ثم اخذتھم “ پھر میں نے ان کو پکڑ لیا ، مہلت مل جانے سے انسان کو مغرور نہیں ہوجانا چاہئے کہ وہ دندناتا پھرے ، اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ مجرمین کو پہلے مہلت دیتا ہے ، پھر جب وہ اپنی نافرمانیوں سے باز نہیں آتے تو ان کو پکڑ لیتا ہے ، فرمایا ، میں نے استہزاء کرنے والوں کو پکڑ لیا (آیت) ” فکیف کان عقاب “۔ پھر دیکھو ! میری گرفت کیسی تھی میں نے ان کو کیسی سزا دی ، نزول قرآن کے زمانے کے لوگوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے قانون امہال میں ہو ، وہ جب چاہے گا پکڑ لیگا اور پھر عبرت ناک سزا دیگا ۔ (خدا کے شریک) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” افمن ھو قائم علی کل نفس “۔ بھلا وہ ذات جو قائم یعنی نگران ہے ہر نفس پر (آیت) ” بما کسبت “ جو اس نے کمایا ہے قائم کا معنی خود قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، قرآن پاک میں ” حصید اور ” وکیل “ کے الفاظ میں آئے ہیں کائنات کی تمام چیزوں کی حفاظت کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے ، اس کی نظروں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہے سورة فجر (آیت) ” ان ربک لبالمرصاد “۔ بیشک تیرے پروردگار گھات میں ہے جس طرح شکاری اپنے شکار کے گھات میں رہتا ہے اور جب اسے غافل پاتا ہے تو پکڑ لیتا ہے ، اسی طرح خدا تعالیٰ کی گھات اور نگرانی بھی باریک ، قائم اور دائم ہے ، بہرحال فرمایا کہ ہر نفس جو بھی کام کرتا ہے اس پر خدا کی نگرانی اور حفاظت قائم ہے ، وہ علیم کل ، قادر مطلق اور مختار کل ہے ، وہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے ، فرمایا ایسی ہستی کو چھوڑ کر (آیت) ” جعلو اللہ شرکآء “۔ ان کفار ومشرکین نے اللہ کے شریک بنا لیے ہیں ، اللہ نے ان لوگوں کی حماقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، نیز فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں ” سموھم “ ان شریکوں کے نام تولو ، بھلا بتلاؤ تو سہی کہ وہ کون ہیں جنہیں تم نے خدا کی صفت میں شریک کر رکھا ہے ، پھر یہ بھی بتاؤ کہ ان شریکوں کو کیا اختیار حاصل ہے اور وہ لوگوں کے نفع نقصان کے کہاں تک مالک ہیں ، یہ کتنی بےوقوفی کی بات ہے کہ لوگوں نے ایسی ہستیوں کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے جو نہ قائم ہیں نہ دائم ہیں ، نہ علیم کل ہیں ، نہ قادرمطلق اور نہ حاضر وناظر وہ تو عاجز مخلوق اور محتاج ہیں ، وہ خدا کے شریک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا (آیت) ” ام تنبئونہ بما لایعلم فی الارض “۔ کیا تم اس اللہ تعالیٰ کو بتلاتے ہو جو وہ نہیں جانتا زمین میں ، مطلب یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کے شریک بنا رکھا ہے ان کو شراکت تو ثابت نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو خدا کے علم میں ہوتا ، تو گویا تم ایسی چیز کے متعلق بتلانا چاہتے ہو جو خدا کے علم میں نہیں ہے ، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک سرے سے موجود ہی نہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم ایسی ہستی کو خدا کا شریک بناتے ہو جس کو زمین میں موجود ہرچیز کا علم ہی نہیں ، وہ جانتا ہی نہیں کہ کون کس حال میں ہے ، اس کی کیا حاجت ہے اور وہ کس طرح پوری کرنی ہے ، تو کیا تم ایسی ہستیوں کو خدا کے شریک بناتے ہو جن کا علم ہی محدود اور قلیل ہے ، بھلا ایسی ہستی خدا کا شریک ہو سکتی ہے ؟ یہ تو نہایت ہی حماقت کی بات ہے ۔ (بےحقیقت باتیں) فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ کو وہ چیز بتلاتے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا (آیت) ” ام بظاھر من القول “۔ یا سرسری سی بات بنا رہے ہو ۔ شاہ عبدالقادر (رح) اپنے ترجمے میں ظاہر کا معنی ایسی بات کرتے ہیں جس کے تحت کوئی حقیقت نہ ہو ، یہ شریک بنانے والی بات محض اوپری سی ہے جس میں کوئی صداقت نہیں کسی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک بنایا جائے یا تدبیر میں ، یہ ایک لغوبات ہے اور اسی کو ” بظاھر من القول “۔ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں ظاہر کا لفظ زائل یا باطل ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اگر یہ مطلب لیا جائے تو جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ یا تم ایسی بات کرتے ہو جو باطل محض ہے ، عربی ادب میں یہ لفظ مختلف اشعار میں استعمال ہوا ہے مثلا : اعیرتنا البانھا ولحومھا وذلک عار یا ابن ریطۃ ظاھر تم نے ہمیں طعن دیا ہے کہ ہم اونٹوں کو دکھ بھال میں ہی لگے رہتے ہیں اور لڑائی لڑنا نہیں جانتے ، یہ عار باطل ہے ، جب ہم اسکی حقیقت بیان کریں گے تو تمہارا طعن باطل ہوگا ۔ وعیرھا الواشون انی احبھا وتلک شکاۃ ظاھر عنک عارھا : لوگوں نے اس کو بھڑکایا کہ میرا اس کے ساتھ تعلق ہے ، یہ ایسی شکایت ہے جس کا عار دلانا باطل ہے ۔ بہرحال ظاہر کا معنی اوپر بات ہو یا باطل چیز ہو ، دونوں معانی درست ہیں ، آپ دیکھ لیں شرکیہ رسم و رواج میں پھنسے ہوئے لوگ محض سرسری اور اوپری باتیں کرتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ، بعض لوگ برادری یا ملکی رواج میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں ، کسی نے کوئی بات پکڑلی اور کسی نے کوئی ، ان میں بنیادی حقیقت کچھ نہیں ہوتی ، محض ایک دوسرے سے سنی سنائی بات پر عمل کرنے لگتے ہیں ، کسی نے کہہ دیا کہ میں نے درخت کے ساتھ دھاگاباندھا تھا تو میری مراد پوری ہوگئی ، کسی نے کہا کہ فلاں قبر پر چادر چڑھانے سے بچہ پیدا ہوگیا ، اور کسی نے کہا کہ فلاں پیر کی نذر ماننے سے بیماری دور ہوگئی ، ایسی باتوں کی بنیاد نہ عقل پر ہوتی ہے اور نہ فطرت پر ، لوگ محض بےبنیاد باتوں کے پیچھے چل نکلتے ہیں ۔ حدیث شریف میں زید ابن عمر وابن نفیل کا واقعہ ملتا ہے کہ وہ کعبے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور لوگوں کو شرک میں مبتلا دیکھ کر کہتے ، خدا کے بندو ! تم جو کچھ کر رہے ہو ، غلط ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ کفر کرنے والے بےعقل ہیں ، ان کے شرکیہ افعال عقل اور فطرت کے خلاف ہیں ، اس کے برخلاف ایمان اور توحید کی بنیاد پختہ دلائل پر ہے جو کہ عقل اور فطرت سلیمہ کے مطابق ہیں رسم و رواج اور بدعات علاقائی چیزیں ہیں ہر ملک ، ہر خطے اور ہر علاقے کے اپنے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں اسی طرح میدانی علاقوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدعات اور پہاڑی علاقوں کی بدعات میں بھی تفاوت ہوتا ہے ، یہ چیزیں کتاب وسنت کے خلاف اور محض شیطان کا جھانسہ ہوتی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ انہی امور کو عبادت اور کار ثواب سمجھتے ہیں ۔ (تزئین اعمال) ایسے ہی اعمال کے متعلق ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” بل زین للذین کفروا مکرھم “۔ بلکہ کفار کے مکروفریب ان کے لیے مزین کیے گئے ہیں ، دوسرے مقام پر کفار کے اعمال کا ذکر بھی ہے کہ ان کے لیے مزین کیے گئے ہیں ان کے تمام قبیح اعمال کو شیطان مزین کر کے دکھاتا ہے کہ تم بہت اچھے کام کر رہے ہو ، قبروں پر انجام دیے جانے والے تمام شرکیہ اعمال کو کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ، عرس ، میلاد ، قولی ، وغیرہ نہایت عقیدت واحترام سے منائے جاتے ہیں ، گویا کہ آخرت کا دارومدار انہیں چیزوں پر ہے ، اللہ نے فرمایا کہ شیطان کافروں کو ان کے قبیح کام مزین کر کے دکھاتا ہے جس کی وجہ سے وہ انہیں انجام دیتا رہتا ہے حتی کہ اس کا آخری وقت آجاتا ہے اور وہ ان کفریہ اور شرکیہ امور پر ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ (آیت) ” وصدوا عن السبیل “۔ اور ایسے لوگ راہ راست سے روک دیے گئے ہیں ، ظاہر ہے کہ جو غلط کام کو اچھا سمجھ کر کرنے لگے اس کے نزدیک حق و باطل کا امتیاز اٹھ جائے تو وہ سیدھے راستے پر کیسے آسکتا ہے ؟ گویا اس کے قبیح اعمال باطل عقائد ، بدعات اور باطل رسم و رواج کو ترک کرکے حقیقت ، ایمان اور توحید کو اپنانا ہوگا ، اگر اس میں کامیاب ہوگیا ، تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی اور حقیقی منزل قریب آجائیگی ، برخلاف اس کے جو شخص غلط رسم و رواج اور بدعات پر کمر بستہ رہے گا ، وہ گمراہی میں پڑا رہے گا ، اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے گمراہ ہوجاتا ہے اس کے راہ راست پر آنے کی امید ختم ہوجاتی ہے اسی لیے فرمایا (آیت) ” ومن یضلل اللہ فمالہ من ھادہ “۔ جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے ، اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں اللہ تعالیٰ انسان کو قوت ، توانائی ، عقل ، فہم اور ادراک عطا کرکے اختیار دے دیتا ہے کہ وہ حق اور باطل میں سے جونسا راستہ چاہے اختیار کرے ، اس کے بعد جو شخص راہ راست کی بجائے غلط راستے پر چل نکلتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” نولہ ما تولی “۔ (النسائ) ہم اس کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں ، جس طرف وہ جانا چاہتا ہے ، اور پھر اس کا تنیجہ یہ ہوتا ہے ، (آیت) ” ونصلہ جھنم “ ہم اسے جہنم میں داخل کردیتے ہیں (آیت) ” وسآء ت مصیرا “۔ جو کہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے ، غرضیکہ جو کوئی شخص رسول کی مخالفت کرتا ہے اور ایمان والوں کے راستے سے علیحدہ ہوجاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جدھر جانا چاہتے ہو ، چلے جاؤ ہم تمہیں نہیں روکیں گے ، ایسا شخص غلط راستے پر چل کر بالآخر جہنم کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” لھم عذاب فی الحیوۃ الدنیا “۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں بھی سخت عذاب ہے ، تاریخ گواہ ہے کہ اللہ نے مشرکین عرب کو اسی دنیا میں سزا دی ، آٹھ نو سال تک اہل ایمان سے برسر پیکار رہے ، لڑتے مرتے رہے ، شکست کھاتے رہے ، تباہ وبرباد ہوئے اور آخر کار سارا ملک کفر وشرک سے پاک ہوگیا ، جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور ﷺ نے فرمایا اب یہ دارالسلام بن گیا ہے ، جنگ کے علاوہ بھی یہ لوگ کبھی وبائی امراض میں مبتلا ہوئے ، کبھی قحط پڑگیا ، طوفان آگیا ، زلزلے آئے اور نہایت خوف کی زندگی گذارتے رہے ، فرمایا یہ تو ان کی زندگی کا حال ہے (آیت) ” ولعذاب الاخرۃ اشق “۔ اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی شدید ہے ۔ (آیت) ” وما لھم من اللہ من واق “۔ اور پھر انہیں اللہ کے سامنے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا ۔ اس دنیا میں تو ناجائز ذرائع اختیار کرکے بچتے رہے ، کبھی قانون کی نظروں سے غائب ہوگئے ، کبھی وکیل نے کوئی اہم نکتہ پیش کرکے بچا لیا ، کبھی جج نے رعایت دے دی اور کبھی سفارش اور رشوت چل گئی ، مگر اللہ کی عدالت میں ایسا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوگا ، اور وہ سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ (متقین کے لیے انعامات) قرآن پاک کے اسلوب بیان کے مطابق کفار کی سزا کے بعد اب متقین کے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔ (آیت) ” مثل الجنۃ التی وعدالمتقون “۔ اس جنت کی مثال جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے ، مثال سے مراد بعض اوقات تعریف بھی ہوتی ہے ، یعنی وہ جنت جو ڈرنے اور بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے اس کی تعریف یہ ہے ، اور متقین وہ ہیں جو پہلے نمبر پر کفر ، شرک اور نفاق سے بچتے ہیں ، پھر کبائر سے اور درجہ بدرجہ صغائر سے بھی بچتے ہیں ۔ اور جیسا کہ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ تقوی کی انتہا پر ہے ” محافظت برحدود شرع “ یعنی شریعت کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرنا ، کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کرنا ، سورة توبہ میں مومنون کی ساتویں صفت یہی بیان کی گئی ہے (آیت) ” والحفظون لحدود اللہ “ کہ وہ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرتے ہیں ، ان سے تجاوز نہیں کرتے اور ان کے خلاف نہیں چلتے ، فرمایا جس جنت کا متقیوں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے (آیت) ” تجری من تحتھا الانھر “۔ اس کے سامنے نہریں بہتی ہیں ، وہ ایسے باغات ہوں گے (آیت) ” اکلھا دآئم “۔ کہ ان کے پھل دائمی ہوں گے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے ، جونہی جنتی کے دل میں کوئی پھل کھانے کی خواہش پیدا ہوگی ، پھل فورا اس کے قریب آجائے گا ، سورة واقعہ میں موجود ہے کہ وہاں پر کثیر تعداد میں پھل ہوں گے (آیت) ” لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ “۔ نہ ان کو ختم کیا جائے گا اور نہ روکا جائیگا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب مومن کسی درخت سے پھل حاصل کرلے گا ، تو اس درخت پر اسی وقت پہلے کی جگہ دوسرا پھل پیدا ہوجائے گا ، غرضیکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا انعام ہوگا جو کبھی منقطع نہیں ہوگا ۔ فرمایا ایک تو پھل دائمی ہوں گے (آیت) ” وظلھا “۔ اور اس جنت کا سایہ بھی دائمی ہوگا ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جنت کی کیفیت یہ ہوگی کہ وہاں پر نہ تو دھوپ ہوگی اور نہ ابر ، وہاں کا موسم نہایت خوشگوار ہوگا ، جس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوگی ، سورة دہر میں اللہ نے جنتوں کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ وہ تکیوں پر ٹیک لگائے ہوں گے (آیت) ” لا یرون فیھا شمسا ولا زمھریرا “ وہ وہاں پر نہ دھوپ دیکھیں گے اور نہ سردی بلکہ نہایت ہی معتدل موسم ہوگا ، گرمی اور سردی کا کوئی احساس نہیں ہوگا ، لہذا کہہ سکتے ہیں کہ وہ سائے میں ہمیشہ رہیں گے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ سائے کا مطلب یہ ہے کہ بعض اہل ایمان جن پر تجلیات الہی کا نزول ، اسمائے مبارکہ اور صفات الہی کا ظہور ہو رہا ہوگا ، بعض اوقات ان کا سائے میں رہنے کو جی چاہے گا ، تو ان کو وہاں سایہ محسوس ہوگا ، حالانکہ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہوگی ۔ فرمایا (آیت) ” تلک عقبی الذین اتقوا “۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہوگا جو ڈرتے رہے اور منکرات سے بچتے رہے ، فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” وعقبی الکفرین النار “۔ اور کافروں کا انجام جہنم کی آگ ہوگا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔
Top