Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 38
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا
: اور البتہ ہم نے بھیجے
رُسُلًا
: رسول (جمع)
مِّنْ قَبْلِكَ
: تم سے پہلے
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے دیں
لَهُمْ
: ان کو
اَزْوَاجًا
: بیویاں
وَّذُرِّيَّةً
: اور اولاد
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہوا
لِرَسُوْلٍ
: کسی رسول کے لیے
اَنْ
: کہ
يَّاْتِيَ
: لائے
بِاٰيَةٍ
: کوئی نشانی
اِلَّا
: بغیر
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کی اجازت سے
لِكُلِّ اَجَلٍ
: ہر وعدہ کے لیے
كِتَابٌ
: ایک تحریر
البتہ تحقیق بھیجے ہم نے رسول آپ سے پہلے اور ہم نے بنائیں ان کے لیے بیویاں اور اولاد اور نہیں تھا کسی رسول کے لیے کہ وہ لائے کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے ، ہر ایک وعدے کے لیے ایک لکھا ہوا نوشتہ ہے۔
(ربط آیات) پہلے شرک کا رد اور مشرکین کا انجام بیان ہوا ، قرآن کریم کی حقانیت کا ذکر کرکے اس کی پیروی کا حکم دیا گیا ، اللہ نے خبردار کیا کہ وحی الہی کے آجانے کے بعد اگر کوئی شخص اپنی خواہشات کی پیروی کرے گا ، تو وہ گرفت سے نہیں بچ سکے گا اور نہ ہی اس کا کوئی حمائتی ہوگا ، قطعی علم آجا نے کے بعد رسم و رواج پر چلنا روا نہیں ہے بلکہ قطعی علم کا اتباع ضروری ہوجاتا ہے ، اس کے بعد اب رسالت کا بیان آرہا ہے نبی ﷺ پر مشرکین کے اعتراضات کا ضمنا جواب ہے قرآن کا یہ اسلوب بیان ہے کہ جہاں توحید کا ذکر آتا ہے ، اس کے ساتھ شرک کی تردید بھی ہوتی ہے ، اور جہاں وحی الہی کی بات ہوتی ہے ، ساتھ نبوت و رسالت کا تذکرہ بھی ہوتا ہے ، یہ بنیادی عقائد مکی سورتوں میں بکثرت موجود ہیں ، اور مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اگر ان عقاید میں سے کسی عقیدے میں بھی شک وشبہ یا تردد پیدا ہوجائے تو ایمان کی بنیاد ہی خراب ہوجاتی ہے اور انسان کے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں ، ان بنیادی عقائد میں سے آج رسالت کا بیان آرہا ہے ۔ (انبیاء کی ازدواجی حیثیت) بعض کافر اور مشرک کہتے تھے کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے نبی ہیں تو پھر انہیں ہر وقت عبادت اور زہد میں مشغول رہنا چاہیے اور ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہئے ، برصغیر کے آریہ سماجی اور ہندو بھی معاذ اللہ نبی پر شہوت رانی کا الزام لگاتے ہیں کہ آپ کی متعدد بیویاں تھیں اسی قسم کا اعتراض یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے بھی ہوتا رہتا ہے ، آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی قسم کے بیہودہ اعتراضات کا جواب دیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک “ البتہ تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے احادیث سے کل تین سو پندرہ 315 رسولوں کا ذکر ملتا ہے ، اور انبیاء کی تعداد تو ایک لاکھ بیس ہزار یا سوا لاکھ کے قریب آتی ہے ، رسول وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ مستقل شریعت یا کتاب عطا کرتا ہے ، رسولوں کو اپنی اپنی شریعت اور کتاب کی تبلیغ کا حکم تھا ، البتہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سابقہ شرائع اور کتب ہی کی تعلیم وتبلیغ پر مامور ہوتے تھے ، تاہم اگر کوئی خاص بات ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آگاہ کردیتے تھے نبی اسرائیل کے اکثر انبیاء کا فریضہ تورات کی تبلیغ تھا ۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے (آیت) ” وجعلنا لھم ازواجا “۔ اور بنائیں ہم نے ان کے لیے بیویاں ، نکاح کرنا اور بیوی سے اشتغال رکھنا کمال کے منافی نہیں ہے ، بلکہ یہ تو لوازمات بشریت میں سے ہے ، فرمایا بیویوں کے علاوہ (آیت) ” وذریۃ “ اللہ نے نبیوں کی اولاد بھی بنائی ، بیوی بچوں کا ہونا کوئی عیب والی بات نہیں ہے ، نبیوں نے نکاح بھی کیے اور انکی اولادیں بھی ہوئیں ، اگر یہودو نصاری کو نبی آخر الزمان ﷺ کی بیویوں اور بچوں پر اعتراض ہے تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے گوارا کرتے ہیں ، جو اہل کتاب کے بھی جد الانبیاء ہیں ، آپ کی پانچ یا سات بیویاں تھیں اور ان سے اولاد بھی تھی ، بلکہ خلاف توقع اللہ نے آپ کو بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی ، آپ کا پہلا بچہ چوراسی 84 سال کی عمر میں پیدا ہواجب کہ دوسرا سو سال کے قریب عمر میں ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق تو مشہور ہے کہ ان کی تین سو منکوحہ بیویاں اور سات سو لونڈیاں تھیں ، آپ کی سلطنت بھی بےمثال تھی اور اس کے باوجود آپ صاحب کمال نبی تھے حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں ، بعض دوسرے انبیاء کی بھی کئی کئی بیویاں تھیں ، لہذا معترضین کا یہ اعتراض لغو اور بےبنیاد ہے کہ بیوی اور اولاد کا ہونا کمال کے منافی ہے ، بلکہ لغو اور بےبنیاد ہے کہ بیوی اور اولاد کا ہونا کمال کے منافی ہے ، بلکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک تو یہ ہے کہ مجرد آدمی کو وہ کمال حاصل نہیں ہو سکتا جو متاہل (شادی شدہ) آدمی کو حاصل ہوتا ہے ، اسی لیے اکثر صالحین صاحب اہل رہے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب حضور ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے نکاح میں نوبیویاں موجود تھی جب کہ دو بیویاں حضرت خدیجہ ؓ اور زینب ؓ وفات پاچکی تھیں حضور ﷺ کی ازدواجی زندگی کا آغاز حضرت خدیجہ ؓ کے نکاح سے ہوا جو کہ اس سے ہوا ، جو کہ اس سے پہلے دو خاوندوں سے بیوہ تھیں اور ان کی عمر چالیس 40 سال تھی جب کہ آپ کی عمر اس وقت پچیس 25 سال تھی چناچہ آپ نے جوانی کا بہترین زمانہ (تقریبا پچیس سال) اسی بیوہ کے ساتھ گزارا ، اور سوائے حضرت ابراہیم ؓ کے ساری اولاد اسی سے پیدا ہوئی پھر اس بیوی کی وفات کے بعد جب آپ کی عمر مبارک باون (52) یا ترپن (53) سال ہوئی تو آپ نے دوسرا نکاح کیا ، ان حالات میں اللہ کے نبی پر شہوت رانی کا الزام لگانا نہایت ہی لغو ہے ، دیگر بیویوں سے نکاح اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور اس سے اسلام کی تعلیم کو گھر گھر پہنچانا مقصود تھا آپ ﷺ نے مختلف خاندانوں میں نکاح کئے اور ازواج کے ذریعے تعلیم پھیلائی ، سورة احزاب میں موجود ہے (آیت) ” واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ “ اے ازواج مطہرات ! اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور حکمت جو تمہارے گھروں میں نازل کی ہے اس کا چرچا کرو ، آیات سے مراد قرآن پاک اور حکمت سے مرادسنت ہے گویا کہ قرآن وسنت کی تشہیر کا ایک ذریعہ حضور ﷺ کی بیویاں بھی تھیں اور آپ کے متعدد نکاحوں کا یہی مقصد تھا گر بیویاں زیادہ ہوں گی تو ذمہ داریاں بھی بڑھیں گی ، محنت اور مشقت زیادہ کرنی پڑے گی اور صبر بھی کرنا ہوگا ، لہذا اس میں اجر بھی زیادہ ہوگا ، غرضیکہ متعدد نکاح کمال کے منافی نہیں ، (معجزات کا اظہار) منکرین اپنی من مانی نشانیاں بھی بار بار طلب کرتے تھے ، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا (آیت) ” وما کان لرسول “ اور نہیں ہے کسی رسول کے اختیار میں یہ بات (آیت) ” ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ “ کہ وہ کوئی نشانی یا معجزہ لائے مگر اللہ کے حکم سے معجزے کا اظہار اللہ کے اختیار میں ہوتا ہے اور نبی اپنی مرضی سے جب چاہے کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا ، اسی طرح کرامت کا اظہار بھی کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا ، ولی کا درجہ تو نبی سے بہت کم ہوتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے جو اختیار نبی کو نہیں وہ ولی اللہ کو حاصل ہو بعض لوگ کرامت کو اولیاء اللہ کا فعل مان کر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں غرضیکہ معجزے کا اظہار اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ، اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” لکل اجل کتاب “ ہر وعدے کے لیے ایک لکھا ہوا نوشتہ ہوتا ہے یعنی ہر چیز کے ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت مقرر ہوتا ہے اسی طرح معجزے کے اظہار کا بھی خاص وقت ہوتا ہے اور یہ ہر شخص کی خواہش پر ظاہر نہیں ہوتا ۔ (نسخ شرائع اور احکام) آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” یمحوا اللہ مایشآء “۔ مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے (آیت) ” ویثبت “ اور باقی رکھتا ہے جس کو چاہے (آیت) ” وعندہ ام الکتب “ اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب کائنات کے تمام امور اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں لکھے ہوئے ہیں اور اس کے باوجود تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، وہ کسی چیز کو مٹانا چاہے یا کسی چیز کو باقی رکھنا چاہے تو اس کی مشیت میں کسی کو مجاز دخل نہیں ، مسند احمد کی روایت میں آتا ہے بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم ہوجاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدل سکتی ، اور عمر میں زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں ، نسائی اور ابن ماجہ شریف میں یہ حدیث بھی آتی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ، عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ ہے اللہ تعالیٰ اس پر تریسٹھ بار توجہ فرماتا ہے ، پھر جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ، ام الکتاب اسی کے پاس ہے ۔ مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ اگر یہ پیغمبر سچا ہے اور اس کی کتاب سچی ہے تو پھر پہلے احکام منسوخ کیوں ہوجاتے ہیں ، کیا خدا کو علم نہیں ہوتا کہ کون حکم بہتر ہے ، پہلے وہ ایک شریعت نازل کرتا ہے ، پھر اس کی جگہ دوسری لے آتا ہے یہ آیت اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، وہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور احکام وشرائع کا نسخ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مصلحت پر ہوتا ہے ہر چیز کو ایک خاص وقت تک مناسبت ہوتی ہے ، اس وقت تک وہ چیز قائم رہتی ہے ، پھر اس کو تبدیل کردیا جاتا ہے مختلف شرائع میں حلت و حرمت کے احکام بدلتے رہے ہیں اور ایسا زمان ومکان کی مناسبت سے ہوتا تھا اس کی مثال سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے کہ اے لوگو ! میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں (آیت) ” ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم “۔ اور اللہ کے حکم سے تم سے بعض حرام قرار دی گئی چیزوں کو حلال قرار دیتا ہوں ، گویا نسخ احکام کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو ایک وقت میں کوئی دوائی دیتا ہے جب کہ دوسرے وقت میں وہ دوائی تبدیل کرکے اس کی جگہ کوئی اور تجویز کردیتا ہے ، ایسا کرنا مریض کے مزاج اور بیماری کی کیفیت پر موقوف ہوتا ہے ، اب اگر کوئی کہے کہ ڈاکٹر نے پہلی دوائی تبدیل کیوں کی ہے تو اس کی نادانی ہوگئی اس طرح نسخ شرائع کا معاملہ بھی انسانی سوسائٹی کے احوال کے ساتھ متعلق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں تغیر وتبدل کرتا رہتا ہے ، ہر چیز کی حکمت اور مصلحت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہی مختلف شرائع اور احکام جاری فرماتا ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مذکور محو اور اثابت سے مراد تقدیر کی تمام چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ جس تقدیر کو چاہے مٹا دے اور جس کو چاہے باقی رکھے ، البتہ فرماتے ہیں کہ تقدیر کی چار چیزوں کے مٹنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور وہ ہیں عمر ، روزی ، سعادت اور شقاوت ، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اور استقرار حمل سے چار ماہ کے بعد ایک خاص منزل آتی ہے جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھ لو کہ اس کی عمر یہ ہوگی ، اس کو روزی اس قدر نصیب ہوگی ، اور یہ سعادت مند ہوگا یا شقی ، تو گویا ان چار چیزوں میں تغیر وتبدل نہیں ہوتا ، بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ، یعنی معلق اور مبرم ، تقدیر معلق میں تغیر وتبدل ہوجاتا ہے جب کہ مبرم یعنی قطعی تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ (شاہ ولی اللہ کا فلسفہ) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ تقدیر کے پانچ درجے ہوتے ہیں ، پہلا درجہ ازلی ہوتا ہے اور اس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوتا ، دوسرا درجہ فرشتوں یعنی جبرائیل میکائیل وغیرہ کی پیدائش کا دور ہے جو انسان کی پیدائش سے اربوں سال پہلے پیش آیا ، نوع انسانی کی مصلحت ان فرشتوں پر موقوف ہے ، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ تقدیر کا تیسرا درجہ وہ ہے جب احکام وشرائع میں تغیر وتبدل ہوتا ہے ، یہ تغیرات ہزاروں سال کے بعد آتے ہیں چوتھا درجہ وہ ہے جب انسان کے اس مادی جہان میں آنے سے پہلے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے اور پانچواں درجہ وہ ہے جب انسان اس مادی جہان میں آجاتا ہے اور اپنی طبعی عمر گزارتا ہے ، بہرحال یہ پانچ درجات ہیں اور ہر ایک کا الگ الگ حکم ہے بعض تقدیریں بدل جاتی ہیں اور بعض قائم رہتی ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوتا ہے ، انسان کی دعا کی وجہ سے اس کی مصیبتیں مٹ جاتی ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان کی دعا اور مصیبت آپس میں الجھتی ہیں اور انسان کی دعا مصیبت کو انسان کی طرف آنے سے روکتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، بعض تغیرات نیکیوں کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں اور گناہ مٹتے رہتے ہیں ، حضور ﷺ کا فرمان ہے ” ان العبد لیحرم الرزق بالذنب “۔ گناہ کی وجہ سے بندہ روزی سے محروم کردیا جاتا ہے کوئی ایسا گناہ کرتا ہے جس سے ملنے والی روزی موقوف ہوجاتی ہے ، یہ سارے تغیرات ازلی درجہ کے بعد والے درجات میں واقع ہوتے ہیں ۔ ازلی درجہ اللہ کے علم والا درجہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اسی کو مبرم سمجھ لیں ۔ (غلبہ اسلام کی پیشن گوئی) آگے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی دی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان مانرینک بعض الذی نعدھم “۔ اور اگر ہم دکھادیں آپ کو وہ چیزیں جن کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ آپ کی زندگی میں ہی پورا ہوجائے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرکین کو آپ کی زندگی میں مغلوب کردیا ، سورة قمر میں ہے (آیت) ” سیھزم الجمع ویولون الدبر “۔ آج یہ مشرکین بڑے جتھے اور طاقت کے مالک ہیں ، مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے ، اللہ کے نبی اور اس کے پیروکاروں کے جانی دشمن ہیں مگر ایک وقت عنقریب آنے والا ہے جب یہ پشت پھیر کر بھاگیں گے ، یہ وعدہ اللہ نے حضور کی زندگی میں بدر کے موقع پر ہی پورا کردیا ، مشرکین کی جمعیت تتربتر ہوگئی اور وہ مغلوب ہوگئے ۔ فرمایا (آیت) ” اونتوفینک “ یا ہم آپ کو وفات دے دیں گے اگر اسلام کا مجموعی غلبہ آپ کی زندگی میں نہ ہوا تو آپ کے بعد یہ وعدہ پورا ہوجائے گا ، چناچہ اسلام کا مجموعی غلبہ خلفائے راشدین کے زمانے میں ہوا ، صفین کے واقعہ تک مسلمان نصف دینا پر غالب آچکے تھے اور ان کے سامنے سر اٹھانے والی کوئی طاقت نہیں تھی ، یہ کیفیت تقریبا ساڑھے چھ سو سال تک قائم رہی ، پھر مسلمانوں کا تنزل شروع ہوگیا ، تاتاریوں کے حملے نے مسلمانوں کا من حیث القوم درہم برہم کردیا ، اس وقت کا پھسلا ہوا قدم آج تک نہیں سنبھل سکا ، ہوسکتا ہے کہ نزول مسیح کے وقت سابقہ پوزیشن پھر بحال ہوجائے ، ورنہ اس وقت تو حالات سخت مخدوش ہیں اور بہتری میں کوئی رمق نظر نہیں آتی خلافت راشدہ کے زمانے میں اللہ نے مسلمانوں کی کیفیت اس طرح بیان فرمائی (آیت) ” ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا “۔ (النور) اللہ تعالیٰ ان کے پسندیدہ دین کو پختہ اور مضبوط کر دے گا اور ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جس نے کفران نعمت کیا وہ گرفت میں آئے گا یہ ساری باتیں حضور کے بعد واقع ہوئیں ، خلفائے راشدین کے زمانہ کو خلافت علی منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے نبوت کے کام کو مکمل کیا اس میں چاروں خلفاء کا زمانہ شامل ہے ، البتہ چوتھے خلیفہ کے زمانے میں آپس کے اختلاف کی وجہ سے اجتماعی حرکت میں فرق پڑگیا ، تاہم اسلام کا غلبہ صدیوں تک قائم رہا ۔ حضور ﷺ کی زندگی میں جب بدر کا معرکہ ہوا تو بڑے بڑے ائمہ کفر جہنم واصل ہوئے ، ان کی لاشوں کو گھسیٹ کر قریبی کنوئیں میں پھینک دیا گیا اور حضور ﷺ نے انکو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو فتح ونصرت کا وعدہ کیا تھا ، اس کو ہم نے سچا پا لیا اے مشرکین کے گروہ ! تم سے اللہ نے جو مغلوب کرنے کا وعدہ کیا تھا کیا تم نے بھی اس کو سچ پایا ہے یا نہیں ؟ کسی کہنے والے نے کہا ، حضور ! آپ ان مردار لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، یہ مردار اس وقت تم سے زیادہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے ۔ تو فرمایا ہم آپ کو دکھا دیں گے وہ چیزیں جن کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں ‘ یا آپ کو وفات دے دینگے (آیت) ” فانما علیک البلغ “۔ پس آپ کے ذمے پہنچا دینا ہے ، آپ ان لوگوں کر دین اور شریعت کے احکام پہنچا دیں ، آپ کا فریضہ یہی ہے (آیت) ” وعلینا الحساب “۔ اور حساب لینا ہمارے ذمے ہے ہم ایک ایک عمل کا حساب لیں گے ، گرفت کریں گے اور پھر ان کے اعمال کی ان کو سزا بھی دینگے آپ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہیں اور نتیجہ ہم پر چھوڑ دیں ۔
Top