Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 12
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے کہ بیشک ہم آتے ہیں زمین پر ہٹاتے ہیں اس کو اس کے اطراف سے ، اور اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کوئی نہیں ہے پیچھے ہٹانے والا اس کے حکم کو ، اور وہ جلد حساب لینے والا ہے ۔
(ربط آیات) سورة ہذا کی ابتدا میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر تھا پھر مسئلہ توحید اور قیامت کا ذکر آیا اور اب آخر میں اس سورة کا اختتام رسالت کے بیان پر ہو رہا ہے مشرکین مکہ حضور خاتم النبیین ﷺ پر جو مختلف قسم کے اعتراضات کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے اور پیغمبر خدا کی رسالت اور نبوت کی تصدیق کی گئی ہے ، درمیان میں محو اور اثبات کا ذکر بھی ہوا ، شرائع کی منسوخی اور نئے احکام کا اجرا قضا وقدر میں تغیر وتبدل کسی چیز کو مٹا دینا اور کسی کو باقی رکھنا ، یہ سب اللہ کی قدرت تامہ کے تحت بیان ہوچکا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی بھی دی ، فرمایا ہم نے جن چیزوں کا آپ سے وعدہ کر رکھا ہے وہ یا تو آپ کی حین حیات میں ہی آپ کو دکھا دیں گے ، یا ان کا ظہور آپ کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد ہوگا ، بہرحال اللہ کا وعدہ حرف بحرف پورا ہوا ۔ (کفار کے پے درپے ناکامی) آج کی آیات مسلمانوں اور ان کے پیغمبر سے کئے گئے اس وعدے ہی سے متعلق ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کے پے درپے شکست اور اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کیا ہے مشرکین سمجھتے تھے کہ یہ نیا دین ہے تھوڑے عرصہ میں ہی ہم اسے ختم کر کے اس کے ماننے والوں کو مغلوب کرلیں گے مگر اللہ تعالیٰ کا پروگرام اس دین کو غالب کرنے کا تھا اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “۔ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں اس میں مشرکین کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم مٹھی بھر اہل ایمان کو ختم کردیں گے اور خود غالب آجائیں گے مگر یہ لوگ اپنے گردوپیش کے حالات کی طرف دیکھ رہے ہیں یعنی ان کے قبضے سے عرب کے مختلف خطے نکلتے جا رہے ہیں اور وہاں پر اہل اسلام غالب آرہے ہیں ، چناچہ 8 ھ ؁ میں جب مکہ فتح ہوگیا تو وہ سرزمین بھی مشرکین کے قبضہ سے نکل گئی اور دارلکفر داراسلام میں تبدیل ہوگیا ، اس سے پہلے مسلمانوں کو مدینہ پر غلبہ حاصل ہوا اور یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا ، پھر وہ خیبر کے مقام پر جمع ہوگئے اور بالآخر انہیں وہاں سے بھی نکلنا پڑا اور وہ سارا علاقہ اہل ایمان کے تسلط میں آگیا ، مدینہ کے گردوپیش کی صفائی کے ساتھ ساتھ نجران اور یمن والے لوگ خود بخود ایمان لے آئے ، کفار ومشرکین کی شکست اور اسلام کا غلبہ حضور ﷺ کی وفات تک مسلسل جاری رہا اور پھر آپ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی دین پھیلتا چلا گیا حتی کہ پورے ملک عرب پر مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگیا ، دوسرے مقام پر اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا کہ ہم کافروں کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکالتے چلے جا رہے تھے (آیت) ” افھم الغلبون “ کیا اب بھی انہیں امید ہے کہ وہ ایمان والوں پر غالب آجائیں گے ؟ بہرحال اکثر مفسرین کرام نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے اور یہ اہل ایمان کے لیے تسلی کا مضمون ہے ۔ (عبداللہ ابن عباس ؓ کی توجیہہ) حضرت ابن عباس ؓ مختلف تفسیر بیان کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر اطراف طرف یعنی کنارے کی جمع نہیں بلکہ طرف کی جمع ہے اور اس کا معنی عمدہ گھوڑا یا کوئی دوسری نفیس چیز ہوتا ہے ، آپ کی توجیہہ کے مطابق اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین سے اچھے لوگوں کو اٹھا رہے ہیں یعنی باکمال اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تغیرات اللہ تعالیٰ کے حکم سے واقع ہو رہے ہیں جب اللہ کے پسندیدہ بندے اس دنیا میں باقی نہیں رہتے تو یہ کفار ومشرکین کس خیال میں پڑے ہوئے ہیں کیا یہ لوگ حق وصداقت کی مخالفت کرکے کفر کے پروگرام کو غالب کرسکیں گے ؟ ہرگز نہیں ان کو غور کرنا چاہیے کہ جب اچھے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے تو پھر یہ کفار ومشرکین کس گنتی میں ہیں ، یہ لوگ دنیا میں کیسے باقی رہ سکتے ہیں اور کفر کا پروگرام کیسے مسلط کرسکتے ہیں ؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ زمانے میں ایسا تغیر آئے گا کہ اچھے لوگ ختم ہوجائیں گے اور ردی لوگ باقی رہ جائیں گے ، وہ لوگ نفسانی خواہشات کی پیروی کریں گے جس کی وجہ سے تمام نظام مختل ہوجائیں گے اور نتیجتا تباہی و بربادی آئے گی ، بہرحال فرمایا کہ جب علماء حکما ، عارف ، سالک ، عابد اور زاہد لوگ باقی نہیں رہیں گے تو کافر ومشرک بھی نہیں رہیں گے ، لہذا انہیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ وہ ایمان والوں پر غالب آجائیں گے ، بہرحال اس آیت کریمہ سے مراد کفار ومشرکین کے لیے زمین کی تنگی ہو یا صاحب فضیلت لوگوں کا دنیا سے اٹھ جانا ، یہ سارا تغیر وتبدل اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے (آیت) ” واللہ یحکم “ اللہ تعالیٰ ہی ہر معاملے کا حکم اور فیصلہ کرتا ہے (آیت) ” لا معقب لحکمہ “ اس کے حکم کو پیچھے ہٹانے والا کوئی نہیں ، اس کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے ، جب اس نے غلبہ اسلام کا فیصلہ کر رکھا ہے تو اب منکرین اس فیصلے میں کیسے حائل ہو سکتے ہیں انہیں یہ فیصلہ طوعا وکرہا قبول کرنا ہوگا ۔ (مسلمانوں کا تنزل) کبھی وہ وقت تھا کہ کافروں کے قدموں تلے سے زمین کو نکال کر اللہ نے مسلمانوں کو عروج عطا کیا ، اور آج کے دور میں اس کا الٹ ہو رہا ہے ، اللہ کی زمین مسلمانوں کے تسلط سے نکل کر دہریوں ، کافروں ، مشرکوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے تسلط میں جا رہی ہے ، یہ برصغیر پورے کا پورا دارالاسلام تھا کابل سے لے کر برہما تک اور نگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی ، لاہور کی شاہی مسجد اور حیدر آباد دکن کی مکہ مسجد اسی کے کارنامے ہیں ، مگر اس کے بعد اس کے جانشین سخت نالایق ثابت ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا برصغیر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اور دو سو سال کی جدوجہد کے بعد جب برطانیہ کی غلامی کا جواء اترا تو اس سرزمین کا بیشتر حصہ ہندوؤں کے تسلط میں چلا گیا اور ایک تھوڑے سے حصے کو پاکستان کا نام دیا گیا مگر اس قوم کی نفس پرستی اور حب مال وجاہ کی وجہ سے پاکستان بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ، پوری دنیا میں مسلمانوں کی تاریخ ایسے ہی سانحات سے بھری پڑی ہے ، بلخ ، بخارا ، ختن ، تاشقند وغیرہ مسلمانوں کے قبضے سے نکل گئے ، سنکیانگ صوبے میں سات کروڑ مسلمان آباد تھے مگر آج وہاں ایک کروڑ بھی نظر نہیں آتے ، بخارا میں میں چالیس ہزار مساجد اور چار ہزار سے زیادہ مدارس تھے ، مگر آج وہاں دو ہزار مسجدیں بھی موجود نہیں ، البانیہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا ملک تھا جو اشتراکیوں کے قبضہ میں چلا گیا ، چیکو سلاواکیہ کے مسلمان بھی نہایت تنگی میں گزر اوقات کر رہے ہیں ، ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل چکی ہے ، اور وہ بےیارو مددگار مظلومانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ، فلسطین کا سانحہ آپ کے سامنے ہے مسلمانوں کا تاریخی خطہ اور انبیاء کی سرزمین یہودیوں کے قبضہ میں جا چکی ہے ، شکیب ارسلان نے لکھا ہے کہ ہم سال ہا سال تک مسلمان حکومتوں سے اپیل کرتے رہے کہ اس مقدس سرزمین کی طرف توجہ دو یہودی اس خطے میں دھڑا دھڑ غیر منقولہ جائیدادیں خرید رہے ہیں اور ان کی یہ سکیم خطرناک ثابت ہو سکتی ہے مگر کسی نے توجہ نہ دی یہودیوں نے مسلمانوں سے ستے داموں زمینیں اور مکانات خرید لیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطین پر مسلمانوں کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور یہودیوں کے پاؤں جمتے گئے اور بالآخر وہ یہاں پر ایک خالص یہودی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے آج فلسطینی مہاجر دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ، بیت المقدس ان کے قبضے سے نکل چکا ہے ، بچے بوڑھے اور عورتیں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، اس شیطانی منصوبے میں برطانیہ ، فرانس ، امریکہ اور روس چاروں طاقتیں شامل ہیں جنہوں نے فلسطین کے اصل باشندوں کو بےوطن کرکے طاغوتی طاقت کو وہاں مسلط کردیا ہے بہرحال اب مسلمانوں کا معاملہ الٹا ہوگیا ہے ، کبھی ان کا تسلط اغیار پر قائم ہوتا تھا ، مگر اب اغیار ان پر مسلط ہو رہے ہیں ۔ (حب مال وجاہ) مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو حب مال وجاہ ، ذاتی اقتدار اور چوہدراہٹ نے تباہ کیا ہے ملوکیت کی ساری لعنت مال کی محبت کا نتیجہ ہے جب تک لوگ ذاتی خواہشات کی تکمیل کرتے رہیں گے ، ملی مفاد پس پشت ڈالا جاتا رہیے گا ، مسلمان من حیث القوم تنزل میں رہیں گے ، مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ مفاد پرست لوگ قومی دولت کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر استعمال کرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، ایوب کے زمانے میں ناچنے اور گانے والوں ، فلم ایکٹروں اور ایکٹریسوں کو بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا گیا ، بنگال کی بلبل چوہدری کو پچاس ہزار روپے کا انعام ملا ، نام نہاد ملکہ ترنم کو مربعے الاٹ ہوئے ، یہ کانسا کارنامہ ہے جس کی پذیرائی ہوتی ہے قوم کا سرمایہ کھیل کود اور لہو ولہب میں صرف کیا جاتا ہے کبھی فلک بوس عمارتوں پر کروڑوں روپیہ خرچ کردیا جاتا ہے جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ، لاہور میں تعمیر ہونے والا مینار پاکستان ستر لاکھ روپے میں بنا مسٹر جناح کے مقبرے پر سات کروڑ روپیہ خرچ ہوا ان عمارات سے قوم کی کون سی ضرورت پوری ہوئی ہے اس میں فضول خرچی ، نمود ونمائش اور ذہنی عیاشی کے سوا کیا رکھا ہے ۔ دوسری تباہ کن چیز ذاتی چوہدراہٹ ہے ، عراق اور ایران کے درمیان یہی وجہ متنازعہ ہے ، تین چار سال کی جنگ میں دو مسلمان ملکوں کے دو لاکھ آدمی لقمہ اجل بن چکے ہیں ، جب کہ مالی نقصان کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا ، دونوں فریق مسلمان کہلاتے ہیں ، شیعہ ہوں یاسنی نام تو اسلام ہی کا لیتے ہیں مگر باہم برسرپیکار ہیں ، یہی ہماری نالائقی کی علامت ہے ہم میں اسلام کی انقلابی روح باقی نہیں رہی ، ہم ذاتی خواہشات کے غلام بن چکے ہیں ، اور معمولی ذاتی مفاد کی خاطر بڑے بڑے ملی مفاد قربان کردیتے ہیں ، بہرحال اس آیت میں حضور ﷺ اور اہل ایمان کے لیے تسلی کا مضمون بھی ہے اور تغیر وتبدل سے کافروں پر دلیل بھی قائم کی گئی ہے کہ اگر وہ اپنے زعم میں مسلمانوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ عبث ہے کیونکہ اللہ کے فیصلے کو کوئی نہیں بدل سکتا (آیت) ” وھو سریع الحساب “۔ اور وہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے ، جب وہ پکڑے گا تو پھر اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکے گا ، (خدائی تدبیر کی کامیابی) آگے ارشاد فرمایا (آیت) ” وقد مکر الذین من قبلھم “۔ اور تحقیق مخفی تدبیر کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے ، عربی میں مکر مخفی چال کو کہا جاتا ہے ، اس کے برخلاف اردو اور پنجابی میں یہ لفظ دھوکہ اور فریب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، فرمایا حق کو مٹانے کے لیے پہلے لوگوں نے بھی مخفی چال چلی اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ (آیت) ” فللہ المکر جمیعا “۔ ساری کی ساری مخفی تدبیر اللہ ہی کے قبضے میں ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے دشمن کی کسی تدبیر کو کامیاب نہیں ہونے دیگا ، وجہ یہ ہے (آیت) ” یعلم ما تکسب کل نفس “۔ وہ جانتا ہے ہر اس چیز کو جو کوئی نفس کماتا گویا ہر شخص کا ہر کام اس کی نگاہوں میں ہے جب خدا تعالیٰ ہر ایک کے ہر کام سے واقف ہے تو اس کی مخفی تدبیروں سے بھی واقف ہے ، مخفی تدبیر جبھی کامیاب ہو سکتی ہے ، جب کوئی دوسرا اس کے لیے لاعلم ہو مگر اللہ تعالیٰ تو ذرے ذرے سے واقف ہے لہذا اس کے سامنے کسی کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی ، اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق جزا اور سزا دے گا فرمایا (آیت) ” وسیعکم الکفر لمن عقبی الدار “۔ اور کافر لوگ عنقریب جان لیں گے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے ہے جلدی ہی انہیں پتہ چل جائے گا کہ آخرت کا آرام و آسائش کافروں کے حصے میں آتا ہے یا ایمان والوں کے حصے میں یہ معاملہ تو گذشتہ آیات میں ہی حل ہوچکا ہے ، اللہ نے فرمایا کہ جنہوں نے خدا کی رضا کے لیے صبر کیا ، نماز قائم کی اور خفیہ اور اعلانیہ مال خرچ کیا اور برائی کو نیکی کے ذریعے دور کرتے رہے (آیت) ” لھم عقبی الدار “۔ آخرت کا گھر تو ایسے لوگوں کے لیے ہوگا ، یہ تو ایمانداروں کی صفات ہیں اور وہی آخرت کے حقدار ہیں ، اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” تلک عقبی الذین اتقوا “ آخرت کا گھر ان کے لیے ہے جنہوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا (آیت) ” وعقبی الکفرین النار “ اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہوگا ۔ (رسالت کا انکار) فرمایا (آیت) ” ویقول الذین کفروا “ کہتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (آیت) ” لست مرسلا “ آپ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہیں ، ان لوگوں نے حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا کہنے لگے یہ شخص رسول کیسے ہو سکتا ہے جو (آیت) ” یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق “۔ (الفرقان) جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چل پھر کر سودا سلف خریدتا اور کاروبار کرتا ہے کبھی کہتے کہ ہم اس کو رسول تسلیم نہیں کرتے کیونکر یہ ہماری مطلوبہ نشانیاں پیش نہیں کرتا ، کوئی کہتا ، یہ خزانوں کا مالک نہیں ہے ، اس کے پاس نوکر چاکر ، باڈی گارڈ اور فوج نہیں ہے ، مکہ والے کہتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو رسول بناتا تو مکہ اور طائف کے کسی آسودہ حال شخص کو یہ منصب عطا کرتا وہاں بڑے بڑے سردار موجود ہیں ، ان کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے کمزور آدمی کو اپنا رسول کیسے منتخب کرلیا کوئی آپ کو شاعر کہتا ، کوئی کاہن اور جادوگر ، اور اس طرح آپ کی رسالت کا انکار کردیا ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا قل آپ کہہ دیجئے (آیت) ” کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم “ میرے اور تمہارے درمیان خدا تعالیٰ ہی گواہ کافی ہے ، اگر تم انکار کرتے ہو تو کرتے رہو ۔ خود اللہ تعالیٰ جو مجھے مبعوث کرنے والا ہیں ، وہ گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کے علاوہ بھی اگر گواہی چاہتے ہو تو (آیت) ” ومن عندہ علم الکتب “ میرا گواہ وہ بھی ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔ کتاب سے مراد سابقہ کتب تورات ، انجیل وغیرہ مراد ہیں ، اور جو شخص ان کتابوں کا صحیح علم رکھتا ہے ، وہ بھی گواہی دے گا کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں کیونکہ سابقہ کتب میں میری تمام نشانیاں موجود ہیں ، جنہیں دیکھ کر صاحب علم لوگ میری صداقت کی گواہی دیں گے چناچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جو یہودی عالم تھے انہوں نے پہلی نشست میں حضور علیہ اسلام کو اپنی کتاب کے علم سے پہچان لیا اور آپ پر ایمان لے آئے ، آپ کہتے تھے کہ مجھے اپنے بیٹے کے حق میں اتنا یقین نہیں ہے جتنا حضور ﷺ کی رسالت ونبوت پر یقین ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے اور مفہوم یہ ہے کہ اے کفار ومشرکین تم بیشک انکار کرتے رہو مگر کائنات کا خالق تو گواہ ہے جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے ، لوح محفوظ میں درج ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں میرے لیے وہی گواہی کافی ہے ، لہذا تمہاری گواہی کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ، دوسری جگہ بھی موجود ہے (آیت) ” قل ای شیء اکبر شہادۃ “ (الانعام) آپ کہہ دیں اللہ سے بڑھ کر کس کی گواہی ہو سکتی ہے اللہ نے اپنے نبی سے یہ بھی کہلوایا (آیت) ” قل اللہ شھید بینی وبینکم “ (الانعام) آپ کہہ دیں کے میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ ہے ، اس سب سے بڑی گواہی کے بعد اگر تم پھر بھی انکار کرتے ہو تو اس سے میری رسالت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، اس انکار کا مواخذہ تم سے آخرت میں ہوگا ۔
Top