Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 10
قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یَدْعُوْكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرَكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ قَالُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا١ؕ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
قَالَتْ : کہا رُسُلُهُمْ : ان کے رسول اَفِي اللّٰهِ : کیا اللہ میں شَكٌّ : شبہ۔ شک فَاطِرِ : بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يَدْعُوْكُمْ : وہ تمہیں بلاتا ہے لِيَغْفِرَ لَكُمْ : تاکہ بخشدے تمہیں مِّنْ : سے (کچھ) ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہ وَيُؤَخِّرَكُمْ : اور مہلت دے تمہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ قَالُوْٓا : وہ بولے اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : صرف بَشَرٌ : بشر مِّثْلُنَا : ہم جیسے تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو اَنْ : کہ تَصُدُّوْنَا : ہمیں روک دے عَمَّا : اس سے جو كَانَ يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا فَاْتُوْنَا : پس لاؤ ہمارے پاس بِسُلْطٰنٍ : دلیل، معجزہ مُّبِيْنٍ : روشن
کہا ان کے رسولوں نے ، کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا وہ تم کو بلاتا ہے تاکہ معاف کرے تمہارے کچھ گناہ اور مہلت دے تم کو ایک مقررہ وقت تک تو کہا ان (کافر) لوگوں نے نہیں ہو تم مگر انسان ہمارے جیسے ، تم چاہتے ہو کہ ہمیں روک دو اس چیز سے کہ ہمارے آباؤ و اجداد عبادت کرتے تھے پس لاؤ ہمارے پاس کوئی کھلی دلیل ۔
(ربط آیات) رسالت کا بیان (آیت) ” ولقد ارسلنا سے شروع ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ وہ اپنی قوم کو تاریخی واقعات اور اللہ کے انعامات یاد دلائیں پھر اسی ضمن میں فرمایا کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مزید عطا کرے گا اور اگر ناقدری اور ناشکری کرو گے تو اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہے ، آپ نے قوم کو یہ بات بھی سمجھائی کہ اگر سارے روئے زمین والے مل کر بھی خدا تعالیٰ کا انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ کی سلطنت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی اور حمید ہے ، پھر آپ نے قوم کو یہ بھی یاد دلایا کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تمہارے پاس پہلی قوم کی خبریں آئیں ، انہوں نے ناشکر گزاری کی تو ان کا کیا حشر ہوا ، قوم نوح ، عاد اور ثمود کے بعد آنے والے لوگوں کا بھی یہی حال ہوا جن کی تفصیلات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، ان اقوام کے پاس ان کے رسول آئے مگر ان لوگوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اس چیز کا صریحا انکار کرتے ہیں ، جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اب آج کی آیات میں ان رسولوں کا جواب آرہا ہے ۔ ّ (دعوت الی اللہ) (آیت) ” قالت رسلھم کہا ان کے رسولوں نے جو نبی جس قوم کی طرف آیا ہے اس نے منکر قوم سے کہا (آیت) ” افی اللہ شک “ کیا تم اللہ کے بارے میں شک کرتے ہو ، کیا تمہیں اللہ کی ذات اور اس کی توحید کے متعلق کوئی تردد ہے اور خدا کی ذات وہ ہے جو کہ (آیت) ” فاطر السموت والارض “۔ جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، فاطر اور بدیع ہم معنی الفاظ ہیں یعنی وہ ذات جو بغیر کسی نمونے آلے اور مادے کے کسی چیز کو ایجاد کر دے ، کائنات کو مجموعی طور پر اللہ نے ہی پیدا کیا اور اس تخلیق کے لیے نہ تو پہلے کوئی نمونہ موجود تھا اور انہ اس کے لیے کسی آلے اور مادے کی ضرورت تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت کے ساتھ اس کائنات کو پیدا فرمایا تو اللہ کے رسولوں نے کہا کہ کیا تم اس خدا تعالیٰ کے بارے میں شک کرتے ہو جو ہر چیز کا موجد ہے (آیت) ” یاعوکم لیغفرلکم من ذنوبکم “ وہ تمہیں اپنی طرف سے اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے کچھ گناہ معاف کردے روز مرہ زندگی میں انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں اور اگر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا رہتا ہے تو وہ اس کی کوتاہیوں سے درگزر کرتا رہتا ہے اور اگر بندہ اپنے پروردگار کی طرف بالکل توجہ نہ کرے تو اس کے گناہ جمع ہو کر اس کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں۔ (آیت) ” من ذنوبکم سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے کے سارے گناہ معاف نہیں کرتا بلکہ بعض کو معاف فرما دیتا ہے ہر انسان سے دو قسم کے گناہ سرزد ہوتے ہیں ایک قسم کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے معاف کردیتا ہے بشرطیکہ بندہ اس کے دروازے پر آکر معافی طلب کرلے ، گناہوں کی دوسری قسم حقوق العباد سے متعلق ہے جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جب تک متعلقہ بندہ ان گناہوں کو معاف نہیں کرے گا ، اللہ تعالیٰ بھی ان کو معاف نہیں کریگا ، بعض مقامات پر مطلق گناہوں کی معافی کا ذکر بھی آتا ہے مگر ان سے بھی وہی گناہ مراد ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے بہرحال فرمایا کہ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے ، (آیت) ” ویؤخرکم الی اجل مسمی “۔ اور پھر تمہیں مہلت دے ایک مقررہ مدت تک اللہ تعالیٰ کے علم میں تمہاری جتنی عمر مقرر ہے ، اسے گزارنے کے لیے تمہیں مہلت دے تاکہ گناہوں کی معافی کے بعد تم اچھی زندگی بسر کرسکو ، اسی مضمون کو سورة یونس میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرلو گے اور اس کی طرف رجوع کرو گے ۔ (آیت) ” یمتعکم متاعا حسنا الی اجل مسمی “۔ تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اچھی زندگی بسر کر ائیگا ، دوسرے مقام پر (آیت) ” حیوۃ طیبۃ “۔ کے الفاظ بھی آتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ انہیں پاکیزہ زندگی نصیب کرے گا ، اور پاکیزہ زندگی وہ ہے جس کا تعلق ایمان نیکی اور اطاعت کے ساتھ ہے اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے کہلوایا ک کہ تم اللہ کی طرف آجاؤ وہ تمہارے گناہ معاف کر کے ایک مقررہ وقت تک پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ۔ (بشری رسالت کا انکار) اللہ کے نبیوں کی اس دعوت کے جواب میں ” قالوا “ کافر اور نافرمان لوگوں نے کہا (آیت) ” ان انتم الا بشر مثلنا “۔ نہیں ہو تم مگر ہمارے جیسے انسان ، ان لوگوں نے نبیوں کی بشریت کے پیش نظر ان کی رسالت کا انکار کردیا ، قرآن کریم میں اس بات کوئی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے کافر کہتے تھے کہ تم بھی تو ہمارے جیسے آدمی ہو تمہیں کون سے سرخاب کے پر لگ گئے ہیں جو تم رسول بن بیٹھے ہو ، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو رسول بناتا ، اس پر وحی نازل کرتا تو وہ کوئی بڑا آدمی ہوتا ، تم جیسے غریب آدمی کو کیسے رسول بنالیا ہے جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ نوکر چاکر ہیں ، نہ باغات ہیں ، نہ فوج اور جتھہ ہے ، ہم تمہاری بات کو کیسے تسلیم کرلیں کہ تم اللہ کے رسول ہو کہنے لگے (آیت) ” تریدون ان تصدون عما کان یعبد ابآؤنا “۔ تم ہمیں ان چیزوں سے روک دینا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے آباؤاجداد کرتے آئے ہیں ، ہم تو اسی دین کی پیروی کریں گے جس پر ہمارے باپ دادا تھے ، تم ان سے زیادہ عقلمند نہیں ہو جو ان کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہو ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ، ہود (علیہ السلام) اور شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں نے بھی یہی کہا تھا کہ تم ہمیں ہمارے معبودوں سے دور رکھنا چاہتے ہو ، حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے تو خاص طور پر کہا تھا (آیت) ” لا تذرن الھتکم “۔ (نوح) لوگو ! نوح (علیہ السلام) کے کہنے پر اپنے معبودوں کو نہ چھوڑ بیٹھنا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مخاطبین نے بھی یہی کہا تھا ، (آیت) ” قالوا حرقوہ وانصروا الھتکم “۔ (الانبیائ) کہ ان کو زندہ جلا دو اپنے معبودوں پر جمے رہو ان کو ترک نہ کرنا۔ کہنے لگے اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو (آیت) ” فاتونا بسلطن مبین تو ہمارے پاس اپنی رسالت کی کوئی کھلی سند لے آؤ ، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہماری مرضی کی کوئی نشانی یا معجزہ پیش کرو تب ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کریں گے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، ہر نبی کے ہاتھ پر بیشمار معجزات ظاہر فرمائے مگر کافر لوگ محض ضد اور عناد کی وجہ سے انہیں تسلیم نہ کرتے تھے بلکہ ان کے مطالبات اس قسم کے ہوتے تھے کہ ہمارے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے لکھی لکھائی کتاب لے کر آؤ ، یا فرشتے آکر آپ کی رسالت کی گواہی دیں ، یا خود خدا تعالیٰ سامنے آکر کہے کہ ہاں ! میں نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کھلی سند سے وہ اس قسم کی نشانیاں مراد لیتے تھے کہ ان کے بغیر ہم آپ کو رسول نہیں مانیں گے ۔ ّ (بشری رسالت کی تصدیق) اس سوال کے جواب میں (آیت) ” قالت لھم رسلھم “ ان کے رسولوں نے انہیں کہا ، جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے (آیت) ” ان نحن الا بشر مثلکم “۔ نہیں ہیں ہم مگر تمہارے جیسے انسان تمام انبیاء ، اور رسل انسان ہوتے ہیں ، البتہ رسول ، انسانوں کے علاوہ فرشتے بھی ہوتے ہیں ، لیکن نبی ہمیشہ انسان ہی ہوتے ہیں ، علم عقائد والے نبی کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں ” ھوانسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما اوحی الیہ “۔ نبی ایک انسان ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس چیز کی تبلیغ کے لیے مبعوث فرماتا ہے جس کو وہ وحی سے نازل کرتا ہے ۔ جہان تک ماہیت انسانیہ کا تعلق ہے اس میں انسان ہونے کی حیثیت سے سب لوگ برابر ہیں ، سب کے سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں ، لیکن جہاں تک درجے اور مرتبے کا تعلق ہے ، اس میں عظیم تفاوت ہے ، نبی انسان ہوتے ہیں مگر صاحب کمال ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ کے کامل ترین انسان ہوتے ہیں جو ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور امت کے لیے بطور نمونہ باقی امت انہی کے نقش قدم پر چل کر کمال کو پہنچتی ہے اور پھر اولیاء اللہ میں بعض وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں تو کامل ہوتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ دوسروں کو بھی کامل بنا سکیں اور بعض خود بھی کامل ہوتے ہیں ، اور دوسروں کو بھی کامل بنانے والے ہوتے ہیں ان میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ بعض کاملین دو آدمیوں کو کامل بناتے ہیں اور بعض ایک جماعت کو کامل بناتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو سب سے زیادہ صلاحیت عطا فرمائی اور آپ نے ایک جہان کو کامل بنایا ، پھر جو لوگ گمراہ ہوتے ہیں وہ ناقص کہلاتے ہیں ، ان میں بھی دو گروہ ہوتے ہیں بعض آدمی وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں گمراہ ہوجاتے ہیں ، وہ ضال کہلاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص راہ راست سے ہٹا ہوا ہے اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں ، اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ، وہ مضل کہلاتے ہیں ، بہرحال نبیوں کا کمال بہت بلند درجے کا ہوتا ہے مگر وہ بھی نسل انسانی سے ہی تعلق رکھتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور خصوصا حضور ﷺ کے لیے منکم اور ” من انفسکم “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی آپ تمہاری ہی نسل اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، رسولوں نے فرمایا کہ ہم تمہاری طرح ہی انسان ہیں ، (آیت) ” ولکن اللہ یمن علی من یشآء من عبادہ “۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان فرماتا ہے اسے نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے ، اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ اس سے گناہ نہیں سرزد ہونے دیا جاتا ، یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے جو انبیاء کو حاصل ہوتا ہے ، باقی رہ گیا من مانی نشانی ظاہر کرنا تو اس کے متعلق رسولوں نے کہا (آیت) ” وما کان لنا ان ناتیکم بسلطن الا باذن اللہ “۔ اور ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم کوئی کھلی سند یا نشانی پیش کریں مگر اللہ کے حکم سے جب اللہ کی مشیت ہوتی ہے کوئی معجزہ ظاہر ہوجاتا ہے ہر مطالبے پر نشانی پیش کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے کسی کو ایسے مطالبات نہیں کرنے چاہئیں بلکہ (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون “۔ مومنوں کو چاہئے کہ اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھیں ۔ (توکل بر خدا) اب اگلی آیت میں اللہ کے نبیوں نے اپنی جماعت کے صبر ، توکل اور استقامت کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ، (آیت) ” وما لنا الا نتوکل علی اللہ “۔ اور کیا ہے ہمارے لیے کہ ہم نہ توکل کریں اللہ تعالیٰ کی ذات پر (آیت) ” وقد ھدنا سبلنا “۔ حالانکہ اس نے ہمارے لیے ہدایت کے راستے واضح کیے ہیں توکل کا معنی یہ ہے کہ تمام اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے نتیجہ کا اعتماد صرف خدا تعالیٰ پر رکھا جائے ، اس کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ ہو ، اگر کوئی شخص اسباب پر بھروسہ رکھے گا ، تو مشرک ہوجائے گا کیونکہ اس نے اسباب کو موثر حقیقی سمجھ لیا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص درجے تک اسباب میں اثر رکھا ہے جیسے غذا استعمال کرنے سے بھوک مٹتی ہے اور دوائی پینے سے صحت حاصل ہوئی ہے مگر ان کے متعلق یہی گمان رکھنا چاہے کہ اگر اللہ اثر پیدا کرے گا تو غذا کے استعمال سے بھوک مٹے گی ، اگر اللہ کی مشیت نہ ہو تو غذا کھانے کے باوجود ہضم نہ ہوتی اور انسان الٹا تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ، بعض لوگوں کو جوع الکلب کی بیماری ہوتی ہے ۔ اور زیادہ سے زیادہ کھانے کے باوجود ان کی بھوک نہیں مٹتی ، لہذا غذا ایک سبب ہے مگر اس میں اثر ڈالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اسی طرح بیماری میں دوا استعمال کی جاتی ہے مگر شفا اسی وقت ہوتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ اس دوا میں فائدہ ڈال دے تو گویا یا دوا موثر بالذات نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت مفید ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کرتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ کیا ہے ہمارے لیے کہ ہم اللہ کی ذات پر توکل نہ کریں ۔ (اسباب کی تین قسمیں) فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اسباب تین قسم کے ہوتے ہیں ، پہلی قسم اسباب مقطوعہ اور یہ ایک حد تک قطعی ہوتے ہیں ، ان کو ہر حالت میں اختیار کرنا ضروری ہے ، اور ترک کرنا حرام ہے مثلا کھانے اور پینے میں بقائے حیات مضمر ہے اگر کوئی شخص توکل کرتے ہوئے کھانا پینا چھوڑ کر بھوکوں مر جائے تو یہ توکل نہیں ہوگا ، بلکہ ایسا شخص حرام موت مرے گا ، یہ اسباب مقطوعہ ہیں جن کو ترک کرنا حرام ہے ، البتہ عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ خوراک اور پانی وغیرہ موثر بالذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ان میں تاثیر پیدا کرتا ہے ۔ دوسری قسم کے اسباب مظنونہ کہلاتے ہیں ، اگرچہ گمان غالب ہوتا ہے کہ ان اسباب میں تاثیر ہوگی مگر یہ بالکل ضروری بھی نہیں ہوتا ، اس کی مثال بیماری میں استعمال کی جانے والی دوائیں ہیں ، بعض اوقات ان کے استعمال سے شفا حاصل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتی ایک ہی بیماری میں ایک دوائی کسی شخص کے لیے موثر ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے نہیں ہوتی ، لہذا دوا استعمال کرنے کے بعد بھروسہ اللہ کی ذات پر ہی ہونا چاہیئے اگر کوئی شخص ان اسباب کو ترک کرکے محض خدا پر بھروسہ رکھے تو یہ کمال درجے کا توکل ہوگا ۔ حدیث شریف میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر آیا ہے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے یہ ایسے ہی کمال درجے کے متوکل لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اسباب مظنونہ کو اختیار نہیں کرتے ،۔ اسباب کی تیسری قسم اسباب موہومہ کہلاتی ہے ، یہ صرف وہم ہوتا ہے کہ ان اسباب کے اختیار کرنے سے ہو سکتا ہے کہ مقصد حاصل ہوجائے ان میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا وغیرہ آتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان اسباب کو ترک کر دے تو یہ ادنی درجے کا توکل سمجھا جائے گا ، بہرحال یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ کسی سبب میں تاثیر پیدا کردے یا اسے موقوف کر دے ۔ باقی رہی یہ بات کہ اللہ نے ہمارے لیے ہدایت کے راستے واضح کیے ہیں ، یہاں سبلنا ، جمع کا صیغہ آیا ہے یعنی ہدایت کے بہت سے راستے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں ہدایت کے راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، سب سے پہلے دین کے معاملے میں اللہ نے راہنمائی فرمائی ہے اور توحید کی طرف دعوت دی ہے ، کفر ، شرک ، نفاق تردد ، شک اور بداعتقادی کو واضح کیا ہے تجارت ، معیشت اور سیاست کے راستے واضح کیے ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی میں ان راستوں پر چل سکیں ، اخلاقیات ، صلح وجنگ ، لین دین ، آپس کے معاملات ، ایک دوسرے کے حقوق ، غرضیکہ تمام شعبوں میں ہدایت کے راستے واضح کیے ہیں ، لہذا ہمارے لیے کیا ہے کہ ہم اس ذات پر توکل نہ کریں ۔ (صبر کی دولت) اللہ کے رسولوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ بھی کہا (آیت) ” ولنصبرن علی ما اذیتمونا “۔ اور ہم ضرور صبر کریں گے اس پر جو تم ہمیں تکالیف پہنچاتے ہو نبی کے متعلق کہنا کہ اسے ہم پر کوئی فوقیت حاصل نہیں یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے یہ بیوی بچے رکھتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، کاروبار کرتا ہے ، یہ نعوذ باللہ مفتری اور کذاب ہے اس کے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ، یہ جادوگر ہے ، وغیرہ وغیرہ سب تکلیف وہ باتیں ہیں جن سے اللہ کے نبیوں کو ذہنی طور پر بڑی کوفت ہوتی تھی ، مگر انہوں نے ان سب باتوں پر صبر کیا جو کہ بہت بڑی حقیقت ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان تمام ترتکالیف کے باوجود (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون “۔ بھروسہ رکھنے والوں کو چاہیے کہ اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھیں ، تعلیم وتبلیغ کے مشن کو جاری رکھیں اور ان مصائب پر دل برداشتہ نہ ہوں ، ہر مومن کا یہی عقیدہ ہونا چاہیئے کہ موثر حقیقی صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور بھروسہ کرنے کے لائق صرف وہی ہے ۔
Top