Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہ ہم ضرور نکال دیں گے تمہیں اپنی سرزمین سے ، یا تم پلٹ آؤ ہماری ملت میں پس وحی کی ان (رسولوں) کی طرف ان کے پروردگار نے کہ بیشک ہم ضرور ہلاک کریں گے ، ظلم کرنے والوں کو ۔
(ربط آیات) اس سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حقانیت ، اس کے کتاب ہدایت ہونے اور اس کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کا ذکر کیا ، پھر منکرین قرآن کے انجام کو بیان فرمایا ، اس کے بعد (آیت) ” وما ارسلنا من رسول “۔ سے رسالت کا سلسلہ شروع ہوا ، پھر قوم موسیٰ ، نوح ، عاد ، اور ثمود کا ذکر ہوا اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان اقوام کے مکالمے کا بیان آیا پھر نبیوں کے طریق کار کا تذکرہ ہوا کہ انہوں نے کس طرح خدا کی ذات پر بھروسہ کیا ، راہ حق پر گامزن رہے ، اور صبر و برداشت کا دامن تھامے رکھا۔ منکرین نے رسولوں کی بشریت پر بھی اعتراض کیا ، جس کے جواب میں رسولوں نے کہا کہ ہم نے کب کہا ہے کہ ہم انسان نہیں ہیں کبھی فرشتہ یا دیگر مخلوق ہونے کا دعوی نہیں کیا ، نیز یہ کہ تمہاری من مانی نشانیاں پیش کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے کسی بھی معجزے اور نشانی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے ، البتہ تم ہمیں جو کچھ تکالیف پہنچا رہے ہو ہم اس پر ضرور صبر کریں گے کیونکہ اللہ نے ہمارے لیے ہدایت کے راستے واضح کیے ہیں اور ہم پر احسان فرمائے ہیں ہم تو صرف اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (کفار کی دھمکی) انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کی اقوام کے لوگوں کے درمیان سلسلہ کلام جاری ہے جب اللہ کے نبیوں نے اپنی بات کی وضاحت دلیل کے ساتھ کی تو انکی اقوام تشدد پر اتر آئیں ، وہ دلیل سے تو کوئی جواب نہ دے سکے ، البتہ دھمکی دی (آیت) ” وقال الذین کفروا لرسلھم “۔ اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے یعنی اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے رسولوں کو ایک ہی طرح کی دھمکی دی (آیت) ” لنخرجنکم من ارضنا “۔ ہم ضرور نکال دیں گے تمہیں اپنی سرزمین سے (آیت) ” اولتعودن فی ملتنا “۔ یا واپس پلٹ آؤ ہماری ملت یعنی دین میں ، مطلب یہ کہ یا تو ہمارا دین قبول کرلو ، اپنا دین چھوڑ دو ، ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے ۔ زمین سے نکالنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں پہلی صورت یہی ہے کہ کسی کو ملک بدر کردیا جائے ، دوسری صورت یہ ہے کہ اسے قید میں ڈال دیا جائے اور اس طرح اس سرزمین میں چلنے پھرنے سے روک دیا جائے ، تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قتل کردیا جائے گویا اس سرزمین کی سطح سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دیا جائے ، اللہ کے اکثر نبیوں کے ساتھ ان کی قوموں نے ایسا ہی سلوک کیا ، چناچہ لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی کہا (آیت) ” اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون “۔ (الاعراف) یہ لوگ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں ، انہیں اپنی بستی سے نکال دو ، شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا (آیت) ” لنخرجنک یشعیب والذین امنوا معک من قریتنا اولتعودن فی ملتنا “۔ (الاعراف) اے شعیب (علیہ السلام) ! ہم آپ کو اور آپ کے ساتھی ایمانداروں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے ، یا ہماری ملت میں واپس آجاؤ غرضیکہ باطل پرستوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق بات سننے کی بجائے دھینگا مشتی اور تشدد پر اتر آتے ہیں ، مکہ کے مشرکین بھی ایسا ہی کرتے رہے ، اللہ نے قرآن میں بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا ہے جن کو بلاوجہ تکلیفیں دی گئیں ، اور بعض کو جان سے مار دیا گیا ، نبی تو معصوم ہوتا ہے مگر کافر جان بوجھ کر ان کو تنگ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے نئے دین کو چھوڑ کر ہمارے پرانے دین میں واپس آجاؤ ۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ کے نبی یہ پیش کش بھی کرتے تھے کہ اگر تمہیں ہماری بات پسند نہیں تو تم اپنے راستے پر کام کرتے رہو ، ہم اپنا کام جاری رکھیں گے ، پھر دیکھنا نتائج کس کے حق میں نکلتے ہیں ، مگر کافر لوگ یہ بات بھی نہیں مانتے تھے اور پیغمبروں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ اپنا مشن ترک کردیں ، حضور خاتم النبیین ﷺ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ، مگر خدا تعالیٰ نے اسے ناکام بنا دیا ، پھر آپ کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کردیا گیا ، ہزار کوشش کے باوجود کفار مکہ نے آپ کی بات کو برداشت نہ کیا بہرحال اللہ نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے مخالفین ان کو دہمکیاں دیتے رہے ، کہ ہمارے دین میں واپس جاؤ ورنہ ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے ۔ (ایک اشکال) اس آیت کریمہ میں (آیت) ” لتعودن “۔ کے لفظ سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے نبی ابتداء کفار کے دین پر ہوتے تھے اور پھر انہوں نے سچا دین اختیار کیا اور اس وجہ سے کفار انہیں پہلے دین پر واپس لانا چاہتے تھے ، مفسرین کرام اس کا جواب دیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نبی کبھی ایک لحظہ بھر کے لیے بھی کفر وشرک کے دین پر نہیں ہوتے بلکہ وہ ابتداء سے ہی کفر اور شرک سے بیزار ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا (آیت) ” ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل “۔ (الانبیائ) ہم نے براہیم کو ابتداء ہی سے ہدایت عطا فرمائی لفظ عود کا عام فہم معنی اگرچہ پلٹ آنا ہوتا ہے مگر یہ لفظ محض ہوجانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، سورة یسین میں موجود ہے کہ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں ، (آیت) ” حتی عاد کالعرجون القدیم “۔ یہاں تک کہ وہ پرانی شاخ کی طرح بالکل باریک اور ٹیڑھا ہوجاتا ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے اللہ کا نبی اگرچہ ایمان پر ہوتا ہے مگر فریضہ تبلیغ ادا نہ کرنے کی وجہ سے کافر لوگ انہیں اپنے دین پر ہی سمجھتے ہوں گے ، لہذا انہوں نے اپنے زعم باطل کے مطابق کہہ دیا کہ تم پہلے بھی ہمارے دین پر تھے اب پھر اسی میں پلٹ آؤ ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کافروں نے عود کا لفظ صرف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں کے لیے بھی استعمال کیا ہے اور ان کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نبی اور اس کے ماننے والے سارے کے سارے پرانے دین میں واپس آجائیں ، ان کی یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے ، کیونکہ نبی کے پیروکار تو بہرحال ابتدا باطل دین پر ہی تھے اور کافر لوگوں نے ان کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ پیغمبروں کو بھی شامل کرلیا ، حالانکہ اللہ کے نبی کبھی بھی باطل دین میں نہیں ہے ، اس طرح آیت کا معنی یہ ہوگا کہ کافروں نے نبی کے پیروکاروں سے کہا کہ تم ہمارے دین میں واپس لوٹ آؤ ، اور پیغمبروں سے کہا کہ تم ہمارا دین اختیار کرلو ، (اللہ کی طرف سے تسلی) کافروں کی اس دھمکی کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاوحی الیھم ربھم “۔ کہ ان کے رب نے وحی کی ان (رسولوں) کی طرف اور ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فکر نہ کرو کہ اگر یہ لوگ تمہیں تکالیف پہنچا رہے ہیں (آیت) ” لنھلکن الظلمین “ تو ہم بھی ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے کفر اور شرک سب سے بڑے ظلم ہیں ، اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “۔ (البقرہ) کافر لوگ ہی ظالم ہیں (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان) شرک بہت بڑا ظلم ہے منکرین رسول کفر وشرک کا ارتکاب کرکے ظالموں کی فہرست میں شامل ہوگئے تو اللہ نے فرمایا کہ ہم ان ظالموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ، تو اللہ نے فرمایا کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے ، ظلم حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھی ہوتا ہے مگر عقیدے میں کفر وشرک کی موجودگی ظلم عظیم ہے ، اور ظلم کی دوسری صورت یہ بھی تھی کہ کافر لوگ اہل ایمان پر تشدد کرتے تھے اور انہیں زبردستی اپنے دین میں لانا چاہتے تھے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کلمہ حق بلند کیا تو کہنے لگے (آیت) ” حرقوہ “ اس کو جلا ڈالو ، یہ تمہارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے ، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کو کہا کہ اے نوح ! اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے ، (آیت) ” لتکونن من المرجومین “۔ (الشعرآئ) تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے لوط (علیہ السلام) سے بھی یہی کہا گیا کہ اگر باز نہ آؤ گے (آیت) ” لتکونن من المخرجین “۔ تو تمہیں نکال دیا جائیگا ۔ اللہ نے فرمایا ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کرینگے (آیت) ” ولنسکننکم الارض من بعدھم “۔ اور ان کے بعد ہم تمہیں اس سرزمین میں آباد کریں گے ، چناچہ اکثر وبیشتر ایسا ہوا ہے کہ عنادی لوگ ہلاک ہوئے اور ان کے بعد اللہ کے نبی مع اپنے متبعین کے وہاں پر آباد ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین دب گئے ، وہ یا تو ایمان لے آئے ، یامارے گئے ، یا ملک بدر ہوئے اور بالآخر حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اس سرزمین پر غالب آئے فرمایا (آیت) ” ذلک لمن خاف مقامی “۔ یہ چیز اس شخص کو حاصل ہوگی جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا ، جس شخص کو محاسبہ اعمال کا خوف ہے ظاہر ہے کہ وہ اعلی اخلاق وکردار کا مالک ہوگا ، اور وہی اس زمین میں خلافت کا حق دار ہوگا ، فرمایا وہ شخص بھی حقدار ہے (آیت) ” وخاف وعید جو میری وعید سے ڈرتا ہے ، ہم ایسے شخصوں کو زمین میں نیابت عطا کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کو ہلاک کردیتے ہیں ، جب اس زمین پر تم آباد ہوجاؤ گے تو پھر تمہاری آزمائش بھی شروع ہوجائے گی (آیت) ” کیف تعملون “ کہ تم کس قسم کے کام انجام دیتے ہو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہی فرمایا تھا کہ وہ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرکے اس سرزمین میں تمہیں آباد کرے گا (آیت) ” فینظر کیف تعملون “۔ (الاعراف) پھر وہ آشکارا ا کردے گا کہ تم کیا کاروائی کرتے ہو ، بہرحال اللہ نے اپنے نبیوں کو تسلی دی کہ وہ ظالموں کو ہلاک کرکے ان کی جگہ اہل ایمان کو آباد کرے گا ۔ (فیصلے کا مطالبہ) آگے ارشاد فرمایا (آیت) ” واستفتحوا “۔ اور فیصلہ طلب کیا انہوں نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے مخالفین کا ذکر ہو رہا ہے تو فیصلہ کس نے طلب کیا ، انبیاء نے یا مخالفین نے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فیصلے کی ضمیر انبیاء کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور ان کے مخالفین کی طرف بھی ، مخالفین کی طرف اس طرح کہ جب بھی اللہ کے نبی انہیں خدا کا پیغام سناتے تھے تو وہ انکار کردیتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے فیصلہ طلب کرتے تھے (آیت) ” اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوائتنا بعذاب الیم “۔ (انفال) اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیری سچی کتاب ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دے ہم تو اس کتاب کو ماننے کے لیے تیار نہیں جو ہمارے معبودوں کی مذمت کرتی ہے ، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی کہا تھا ، (آیت) ’ فاتنا بما تعدنا “۔ (ھود) جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو ، اس کو لے آؤ ، حضرت شعیب (علیہ السلام) سے بھی اسی قسم کا فیصلہ طلب کیا گیا ۔ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا من السمآء “۔ (الشعرآئ) اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے ۔ (آیت) ” واستفتحوا “۔ کی ضمیر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف لوٹانا بھی درست ہے ، اکثر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے واقعات میں ملتا ہے کہ ان کی پوری سعی کے باوجود جب قوم راہ راست پر نہ آئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے آخری فیصلہ طلب کیا چناچہ نوح (علیہ السلام) نے تنگ آکر رب العزت سے دعا کی (آیت) ” فافتح بینی وبینھم فتحا “۔ پروردگار میرے اور ان کے درمیان اب فیصلہ کردے (آیت) ” ونجنی ومن معی من المؤمنین “۔ (الشعرآئ) اور مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو نجات دے دے لوط (علیہ السلام) نے بھی یہی عرض کیا تھا ، کہ مولا کریم ! میں ان ظالموں سے تنگ آچکا ہوں ، اب تو اپنا فیصلہ دے دے ، (آیت) ” رب نجنی واھلی ممایعملون “۔ مجھے اور میرے لواحقین گو ان کے گندے کاموں سے نجات دے یہ بھی فیصلے کی درخواست تھی ، شعیب (علیہ السلام) نے بھی ان الفاظ کے ساتھ فیصلہ طلب کیا (آیت) ” ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفتحین “۔ (الاعراف) پروردگار ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، سورة یونس میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی آتا ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں اس طرح دعا کی ، اے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے حواریوں کو مال و دولت دیا ہے یہ تو نعمت ہے ، کیا یہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے عطا کیا ہے (آیت) ” ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم “۔ پروردگار ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے اور پھر یہ عذاب الیم کا شکار بن جائیں ، بہرحال فیصلہ طلب کرنے والے انبیاء بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے مخالفین بھی ، حضرت مولنا شیخ الہند (رح) نے اس درخواست کو انبیاء کی طرف منسوب کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ (منکرین کے لیے سزا) فرمایا ، انہوں نے فیصلہ طلب کیا (آیت) ” وخاب کل جبار عنید “۔ اور ہر ضدی آدمی ذلیل و خوار ہوا ، عناد رکھنے والے ظالم لوگوں کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوتی بلکہ وہ تو سزا کے مستحق ہوتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” من ورآء ہ جھنم “۔ اس کے آگے جہنم ہے عنادی لوگ جب اگلے جہاں میں پہنچیں گے تو جہنم ان کے آگے پیش کردی جائے گی ، وراء کا لفظ ظرف ہے ، اور یہ آگے اور پیچھے دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ، تاہم یہاں پر آگے کا معنی زیادہ موزوں ہے ، اس معنی کی مثالیں دوسرے مقامات پر بھی موجود ہیں جیسے (آیت) ” من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون “ (المومنون) جب مرتے ہیں تو ان کے آگے برزخ ہوتا ہے ” من ورآء المرء مایعکم “۔ آدمی کے آگے وہی چیز ہوتی ہے جس کو وہ جانتا ہے ، فرمایا انسان کی زندگی دائمی نہیں ہے اور اس کے آگے جہنم ہے اس میں (آیت) ” ویسقی من مآء صدید “۔ پلایا جائے گا وہ شخص پیپ ملا ہوا پانی دوزخیوں کو زرد رنگ کا بدبو دار پانی پینے کے لیے دیا جائے گا جو جہنمیوں کے زخموں سے نکالے گا ، جب پیاس کی شدت محسوس ہوگی ” یتجرعہ “ تو اس پانی کو گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا (آیت) ” ولا یکاد لیسیغہ “۔ اور قریب نہیں کہ اس کو حلق سے نیچے اتار سکے ، سیاغت کا معنی خوشگواری کے ساتھ نگلنا ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ دوزخی آدمی اس پیپ ملے پانی کو آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے نہیں اتار سکے گا ، یہ پانی اس قدر گرم ہوگا کہ منہ کے قریب آکر اسے جلا ڈالے گا ، سورة محمد میں موجود ہے کہ پانی اتنا گرم ہوگا جس سے فقطع امعآء ھم ان کی آنتیں کٹ کر نیچے گر پڑیں گی ، اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی جگہ پر آجائیں گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا ، اس طرح جہنمی اس پانی کی آسانی سے نہیں پی سکے گا یہ اس کو دی جانے سزا کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ایسے شخص کے متعلق اللہ نے مزید فرمایا (آیت) ” ویاتیہ الموت من کل مکان “۔ اس کو ہر طرف سے موت آئے گی ، موت سے مراد اسباب موت ہیں ، یعنی ایسی کڑی سزائیں ملیں گی کہ ہر سزا موت کا پیشہ خیمہ ہوسکتی ہے مگر وہ شخص مریگا نہیں وہاں تو امر ربی ہوگا ، (آیت) ” کلمانضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا “۔ (النسائ) جب جسم کی کھال آگ کی تپش سے جل جائے گی تو کی جگہ فورا دوسری کھال پہننادی جائے گی ، (آیت) ” وما ھو بمیت “۔ اور اس شخص کو موت نہیں آئیگی بلکہ وہ ہمیشہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہی رہے گا ، (آیت) ” ومن ورآئہ عذاب غلیظ اور اس کے آگے سخت قسم کا عذاب ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ جواب ہے ان لوگوں کو جو اللہ کے نبیوں کو دہمکیاں دیتے تھے کہ تم ہمارے دین کو قبول کرلو ، ورنہ ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے اللہ نے اپنے نبیوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا یہ انجام ہونے والا ہے ۔
Top