Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ
: اور کہا
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر)
لِرُسُلِهِمْ
: اپنے رسولوں کو
لَنُخْرِجَنَّكُمْ
: ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے
مِّنْ
: سے
اَرْضِنَآ
: اپنی زمین
اَوْ
: یا
لَتَعُوْدُنَّ
: تم لوٹ آؤ
فِيْ مِلَّتِنَا
: ہمارے دین میں
فَاَوْحٰٓى
: تو وحی بھیجی
اِلَيْهِمْ
: ان کی طرف
رَبُّهُمْ
: ان کا رب
لَنُهْلِكَنَّ
: ضرور ہم ہلاک کردینگے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہ ہم ضرور نکال دیں گے تمہیں اپنی سرزمین سے ، یا تم پلٹ آؤ ہماری ملت میں پس وحی کی ان (رسولوں) کی طرف ان کے پروردگار نے کہ بیشک ہم ضرور ہلاک کریں گے ، ظلم کرنے والوں کو ۔
(ربط آیات) اس سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حقانیت ، اس کے کتاب ہدایت ہونے اور اس کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کا ذکر کیا ، پھر منکرین قرآن کے انجام کو بیان فرمایا ، اس کے بعد (آیت) ” وما ارسلنا من رسول “۔ سے رسالت کا سلسلہ شروع ہوا ، پھر قوم موسیٰ ، نوح ، عاد ، اور ثمود کا ذکر ہوا اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان اقوام کے مکالمے کا بیان آیا پھر نبیوں کے طریق کار کا تذکرہ ہوا کہ انہوں نے کس طرح خدا کی ذات پر بھروسہ کیا ، راہ حق پر گامزن رہے ، اور صبر و برداشت کا دامن تھامے رکھا۔ منکرین نے رسولوں کی بشریت پر بھی اعتراض کیا ، جس کے جواب میں رسولوں نے کہا کہ ہم نے کب کہا ہے کہ ہم انسان نہیں ہیں کبھی فرشتہ یا دیگر مخلوق ہونے کا دعوی نہیں کیا ، نیز یہ کہ تمہاری من مانی نشانیاں پیش کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے کسی بھی معجزے اور نشانی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے ، البتہ تم ہمیں جو کچھ تکالیف پہنچا رہے ہو ہم اس پر ضرور صبر کریں گے کیونکہ اللہ نے ہمارے لیے ہدایت کے راستے واضح کیے ہیں اور ہم پر احسان فرمائے ہیں ہم تو صرف اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (کفار کی دھمکی) انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کی اقوام کے لوگوں کے درمیان سلسلہ کلام جاری ہے جب اللہ کے نبیوں نے اپنی بات کی وضاحت دلیل کے ساتھ کی تو انکی اقوام تشدد پر اتر آئیں ، وہ دلیل سے تو کوئی جواب نہ دے سکے ، البتہ دھمکی دی (آیت) ” وقال الذین کفروا لرسلھم “۔ اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے یعنی اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے رسولوں کو ایک ہی طرح کی دھمکی دی (آیت) ” لنخرجنکم من ارضنا “۔ ہم ضرور نکال دیں گے تمہیں اپنی سرزمین سے (آیت) ” اولتعودن فی ملتنا “۔ یا واپس پلٹ آؤ ہماری ملت یعنی دین میں ، مطلب یہ کہ یا تو ہمارا دین قبول کرلو ، اپنا دین چھوڑ دو ، ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے ۔ زمین سے نکالنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں پہلی صورت یہی ہے کہ کسی کو ملک بدر کردیا جائے ، دوسری صورت یہ ہے کہ اسے قید میں ڈال دیا جائے اور اس طرح اس سرزمین میں چلنے پھرنے سے روک دیا جائے ، تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قتل کردیا جائے گویا اس سرزمین کی سطح سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دیا جائے ، اللہ کے اکثر نبیوں کے ساتھ ان کی قوموں نے ایسا ہی سلوک کیا ، چناچہ لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی کہا (آیت) ” اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون “۔ (الاعراف) یہ لوگ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں ، انہیں اپنی بستی سے نکال دو ، شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا (آیت) ” لنخرجنک یشعیب والذین امنوا معک من قریتنا اولتعودن فی ملتنا “۔ (الاعراف) اے شعیب (علیہ السلام) ! ہم آپ کو اور آپ کے ساتھی ایمانداروں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے ، یا ہماری ملت میں واپس آجاؤ غرضیکہ باطل پرستوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق بات سننے کی بجائے دھینگا مشتی اور تشدد پر اتر آتے ہیں ، مکہ کے مشرکین بھی ایسا ہی کرتے رہے ، اللہ نے قرآن میں بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا ہے جن کو بلاوجہ تکلیفیں دی گئیں ، اور بعض کو جان سے مار دیا گیا ، نبی تو معصوم ہوتا ہے مگر کافر جان بوجھ کر ان کو تنگ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے نئے دین کو چھوڑ کر ہمارے پرانے دین میں واپس آجاؤ ۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ کے نبی یہ پیش کش بھی کرتے تھے کہ اگر تمہیں ہماری بات پسند نہیں تو تم اپنے راستے پر کام کرتے رہو ، ہم اپنا کام جاری رکھیں گے ، پھر دیکھنا نتائج کس کے حق میں نکلتے ہیں ، مگر کافر لوگ یہ بات بھی نہیں مانتے تھے اور پیغمبروں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ اپنا مشن ترک کردیں ، حضور خاتم النبیین ﷺ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ، مگر خدا تعالیٰ نے اسے ناکام بنا دیا ، پھر آپ کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کردیا گیا ، ہزار کوشش کے باوجود کفار مکہ نے آپ کی بات کو برداشت نہ کیا بہرحال اللہ نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے مخالفین ان کو دہمکیاں دیتے رہے ، کہ ہمارے دین میں واپس جاؤ ورنہ ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے ۔ (ایک اشکال) اس آیت کریمہ میں (آیت) ” لتعودن “۔ کے لفظ سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے نبی ابتداء کفار کے دین پر ہوتے تھے اور پھر انہوں نے سچا دین اختیار کیا اور اس وجہ سے کفار انہیں پہلے دین پر واپس لانا چاہتے تھے ، مفسرین کرام اس کا جواب دیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نبی کبھی ایک لحظہ بھر کے لیے بھی کفر وشرک کے دین پر نہیں ہوتے بلکہ وہ ابتداء سے ہی کفر اور شرک سے بیزار ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا (آیت) ” ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل “۔ (الانبیائ) ہم نے براہیم کو ابتداء ہی سے ہدایت عطا فرمائی لفظ عود کا عام فہم معنی اگرچہ پلٹ آنا ہوتا ہے مگر یہ لفظ محض ہوجانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، سورة یسین میں موجود ہے کہ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں ، (آیت) ” حتی عاد کالعرجون القدیم “۔ یہاں تک کہ وہ پرانی شاخ کی طرح بالکل باریک اور ٹیڑھا ہوجاتا ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے اللہ کا نبی اگرچہ ایمان پر ہوتا ہے مگر فریضہ تبلیغ ادا نہ کرنے کی وجہ سے کافر لوگ انہیں اپنے دین پر ہی سمجھتے ہوں گے ، لہذا انہوں نے اپنے زعم باطل کے مطابق کہہ دیا کہ تم پہلے بھی ہمارے دین پر تھے اب پھر اسی میں پلٹ آؤ ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کافروں نے عود کا لفظ صرف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں کے لیے بھی استعمال کیا ہے اور ان کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نبی اور اس کے ماننے والے سارے کے سارے پرانے دین میں واپس آجائیں ، ان کی یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے ، کیونکہ نبی کے پیروکار تو بہرحال ابتدا باطل دین پر ہی تھے اور کافر لوگوں نے ان کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ پیغمبروں کو بھی شامل کرلیا ، حالانکہ اللہ کے نبی کبھی بھی باطل دین میں نہیں ہے ، اس طرح آیت کا معنی یہ ہوگا کہ کافروں نے نبی کے پیروکاروں سے کہا کہ تم ہمارے دین میں واپس لوٹ آؤ ، اور پیغمبروں سے کہا کہ تم ہمارا دین اختیار کرلو ، (اللہ کی طرف سے تسلی) کافروں کی اس دھمکی کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاوحی الیھم ربھم “۔ کہ ان کے رب نے وحی کی ان (رسولوں) کی طرف اور ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فکر نہ کرو کہ اگر یہ لوگ تمہیں تکالیف پہنچا رہے ہیں (آیت) ” لنھلکن الظلمین “ تو ہم بھی ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے کفر اور شرک سب سے بڑے ظلم ہیں ، اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “۔ (البقرہ) کافر لوگ ہی ظالم ہیں (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان) شرک بہت بڑا ظلم ہے منکرین رسول کفر وشرک کا ارتکاب کرکے ظالموں کی فہرست میں شامل ہوگئے تو اللہ نے فرمایا کہ ہم ان ظالموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ، تو اللہ نے فرمایا کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے ، ظلم حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھی ہوتا ہے مگر عقیدے میں کفر وشرک کی موجودگی ظلم عظیم ہے ، اور ظلم کی دوسری صورت یہ بھی تھی کہ کافر لوگ اہل ایمان پر تشدد کرتے تھے اور انہیں زبردستی اپنے دین میں لانا چاہتے تھے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کلمہ حق بلند کیا تو کہنے لگے (آیت) ” حرقوہ “ اس کو جلا ڈالو ، یہ تمہارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے ، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کو کہا کہ اے نوح ! اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے ، (آیت) ” لتکونن من المرجومین “۔ (الشعرآئ) تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے لوط (علیہ السلام) سے بھی یہی کہا گیا کہ اگر باز نہ آؤ گے (آیت) ” لتکونن من المخرجین “۔ تو تمہیں نکال دیا جائیگا ۔ اللہ نے فرمایا ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کرینگے (آیت) ” ولنسکننکم الارض من بعدھم “۔ اور ان کے بعد ہم تمہیں اس سرزمین میں آباد کریں گے ، چناچہ اکثر وبیشتر ایسا ہوا ہے کہ عنادی لوگ ہلاک ہوئے اور ان کے بعد اللہ کے نبی مع اپنے متبعین کے وہاں پر آباد ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین دب گئے ، وہ یا تو ایمان لے آئے ، یامارے گئے ، یا ملک بدر ہوئے اور بالآخر حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اس سرزمین پر غالب آئے فرمایا (آیت) ” ذلک لمن خاف مقامی “۔ یہ چیز اس شخص کو حاصل ہوگی جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا ، جس شخص کو محاسبہ اعمال کا خوف ہے ظاہر ہے کہ وہ اعلی اخلاق وکردار کا مالک ہوگا ، اور وہی اس زمین میں خلافت کا حق دار ہوگا ، فرمایا وہ شخص بھی حقدار ہے (آیت) ” وخاف وعید جو میری وعید سے ڈرتا ہے ، ہم ایسے شخصوں کو زمین میں نیابت عطا کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کو ہلاک کردیتے ہیں ، جب اس زمین پر تم آباد ہوجاؤ گے تو پھر تمہاری آزمائش بھی شروع ہوجائے گی (آیت) ” کیف تعملون “ کہ تم کس قسم کے کام انجام دیتے ہو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہی فرمایا تھا کہ وہ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرکے اس سرزمین میں تمہیں آباد کرے گا (آیت) ” فینظر کیف تعملون “۔ (الاعراف) پھر وہ آشکارا ا کردے گا کہ تم کیا کاروائی کرتے ہو ، بہرحال اللہ نے اپنے نبیوں کو تسلی دی کہ وہ ظالموں کو ہلاک کرکے ان کی جگہ اہل ایمان کو آباد کرے گا ۔ (فیصلے کا مطالبہ) آگے ارشاد فرمایا (آیت) ” واستفتحوا “۔ اور فیصلہ طلب کیا انہوں نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے مخالفین کا ذکر ہو رہا ہے تو فیصلہ کس نے طلب کیا ، انبیاء نے یا مخالفین نے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فیصلے کی ضمیر انبیاء کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور ان کے مخالفین کی طرف بھی ، مخالفین کی طرف اس طرح کہ جب بھی اللہ کے نبی انہیں خدا کا پیغام سناتے تھے تو وہ انکار کردیتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے فیصلہ طلب کرتے تھے (آیت) ” اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوائتنا بعذاب الیم “۔ (انفال) اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیری سچی کتاب ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دے ہم تو اس کتاب کو ماننے کے لیے تیار نہیں جو ہمارے معبودوں کی مذمت کرتی ہے ، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی کہا تھا ، (آیت) ’ فاتنا بما تعدنا “۔ (ھود) جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو ، اس کو لے آؤ ، حضرت شعیب (علیہ السلام) سے بھی اسی قسم کا فیصلہ طلب کیا گیا ۔ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا من السمآء “۔ (الشعرآئ) اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے ۔ (آیت) ” واستفتحوا “۔ کی ضمیر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف لوٹانا بھی درست ہے ، اکثر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے واقعات میں ملتا ہے کہ ان کی پوری سعی کے باوجود جب قوم راہ راست پر نہ آئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے آخری فیصلہ طلب کیا چناچہ نوح (علیہ السلام) نے تنگ آکر رب العزت سے دعا کی (آیت) ” فافتح بینی وبینھم فتحا “۔ پروردگار میرے اور ان کے درمیان اب فیصلہ کردے (آیت) ” ونجنی ومن معی من المؤمنین “۔ (الشعرآئ) اور مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو نجات دے دے لوط (علیہ السلام) نے بھی یہی عرض کیا تھا ، کہ مولا کریم ! میں ان ظالموں سے تنگ آچکا ہوں ، اب تو اپنا فیصلہ دے دے ، (آیت) ” رب نجنی واھلی ممایعملون “۔ مجھے اور میرے لواحقین گو ان کے گندے کاموں سے نجات دے یہ بھی فیصلے کی درخواست تھی ، شعیب (علیہ السلام) نے بھی ان الفاظ کے ساتھ فیصلہ طلب کیا (آیت) ” ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفتحین “۔ (الاعراف) پروردگار ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، سورة یونس میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی آتا ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں اس طرح دعا کی ، اے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے حواریوں کو مال و دولت دیا ہے یہ تو نعمت ہے ، کیا یہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے عطا کیا ہے (آیت) ” ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم “۔ پروردگار ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے اور پھر یہ عذاب الیم کا شکار بن جائیں ، بہرحال فیصلہ طلب کرنے والے انبیاء بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے مخالفین بھی ، حضرت مولنا شیخ الہند (رح) نے اس درخواست کو انبیاء کی طرف منسوب کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ (منکرین کے لیے سزا) فرمایا ، انہوں نے فیصلہ طلب کیا (آیت) ” وخاب کل جبار عنید “۔ اور ہر ضدی آدمی ذلیل و خوار ہوا ، عناد رکھنے والے ظالم لوگوں کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوتی بلکہ وہ تو سزا کے مستحق ہوتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” من ورآء ہ جھنم “۔ اس کے آگے جہنم ہے عنادی لوگ جب اگلے جہاں میں پہنچیں گے تو جہنم ان کے آگے پیش کردی جائے گی ، وراء کا لفظ ظرف ہے ، اور یہ آگے اور پیچھے دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ، تاہم یہاں پر آگے کا معنی زیادہ موزوں ہے ، اس معنی کی مثالیں دوسرے مقامات پر بھی موجود ہیں جیسے (آیت) ” من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون “ (المومنون) جب مرتے ہیں تو ان کے آگے برزخ ہوتا ہے ” من ورآء المرء مایعکم “۔ آدمی کے آگے وہی چیز ہوتی ہے جس کو وہ جانتا ہے ، فرمایا انسان کی زندگی دائمی نہیں ہے اور اس کے آگے جہنم ہے اس میں (آیت) ” ویسقی من مآء صدید “۔ پلایا جائے گا وہ شخص پیپ ملا ہوا پانی دوزخیوں کو زرد رنگ کا بدبو دار پانی پینے کے لیے دیا جائے گا جو جہنمیوں کے زخموں سے نکالے گا ، جب پیاس کی شدت محسوس ہوگی ” یتجرعہ “ تو اس پانی کو گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا (آیت) ” ولا یکاد لیسیغہ “۔ اور قریب نہیں کہ اس کو حلق سے نیچے اتار سکے ، سیاغت کا معنی خوشگواری کے ساتھ نگلنا ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ دوزخی آدمی اس پیپ ملے پانی کو آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے نہیں اتار سکے گا ، یہ پانی اس قدر گرم ہوگا کہ منہ کے قریب آکر اسے جلا ڈالے گا ، سورة محمد میں موجود ہے کہ پانی اتنا گرم ہوگا جس سے فقطع امعآء ھم ان کی آنتیں کٹ کر نیچے گر پڑیں گی ، اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی جگہ پر آجائیں گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا ، اس طرح جہنمی اس پانی کی آسانی سے نہیں پی سکے گا یہ اس کو دی جانے سزا کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ایسے شخص کے متعلق اللہ نے مزید فرمایا (آیت) ” ویاتیہ الموت من کل مکان “۔ اس کو ہر طرف سے موت آئے گی ، موت سے مراد اسباب موت ہیں ، یعنی ایسی کڑی سزائیں ملیں گی کہ ہر سزا موت کا پیشہ خیمہ ہوسکتی ہے مگر وہ شخص مریگا نہیں وہاں تو امر ربی ہوگا ، (آیت) ” کلمانضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا “۔ (النسائ) جب جسم کی کھال آگ کی تپش سے جل جائے گی تو کی جگہ فورا دوسری کھال پہننادی جائے گی ، (آیت) ” وما ھو بمیت “۔ اور اس شخص کو موت نہیں آئیگی بلکہ وہ ہمیشہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہی رہے گا ، (آیت) ” ومن ورآئہ عذاب غلیظ اور اس کے آگے سخت قسم کا عذاب ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ جواب ہے ان لوگوں کو جو اللہ کے نبیوں کو دہمکیاں دیتے تھے کہ تم ہمارے دین کو قبول کرلو ، ورنہ ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے اللہ نے اپنے نبیوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا یہ انجام ہونے والا ہے ۔
Top