Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اللہ نے بیان کی ہے مثال پاک کلمے کی جیسا کہ ایک پاکیزہ درخت ہوتا ہے اس کی جڑ بہت مضبوط اور اس کی شاخیں فضائے آسمانی میں ہوتی ہیں ۔
(ربط آیات) اس سے پہلے رسالت اور قیامت کے متعلق ذکر تھا اور اب توحید کا بیان آرہا ہے ، آج کی آیات کریمہ میں اللہ کی وحدانیت کی بنیاد ذکر کی جارہی ہے جبکہ اس کے دلائل اگلی آیات میں آرہے ہیں جیسا کہ گذشتہ دروس میں بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ مکی سورتوں میں دین کے بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے ، جن میں توحید ، رسالت ، قیامت اور جزائے عمل کے عقائد شامل ہیں ، ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے معترضین کا رد اچھے طریقے سے کیا ہے ۔ (کلمہ طیبہ کی مثال) آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا مسئلہ ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے ، بعض اوقات مثال کے ذریعے کسی چیز کی کما حقہ وضاحت ہو کر وہ چیز انسانی ذہن کے قریب تر آجاتی ہے ، اسی لیے اللہ نے قرآن میں بہت سے مسائل کو مثالوں کے ذریعے سمجھایا ہے ، اس درس میں کلمہ طیبہ کی مثال ایک پاک درخت سے اور کلمہ خبیثہ کی مثال گندے درخت کے ساتھ دی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم ترکیف ضرب اللہ مثلا “۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مثال بیان فرمائی ہے ، ضرب کا لغوی معنی مارنا اور سفر کرنا ہوتا ہے اور یہ بیان کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے ، اس مقام پر بیان کرنے والا معنی ہی موزوں ہے (آیت) ” الم تر “ کی ترکیب کسی بات کی طرف خصوصی توجہ دلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر بھی یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے کہ اے مخاطب ! کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مثال بیان فرمائی ہے (آیت) ” کلمۃ طیبۃ کشجرطیبۃ “۔ پاک کلمے کی مثال پاک درخت کی سی ہے اور اس درخت کی خصوصیات یہ ہیں (آیت) ” اصلھا ثابت “۔ اس کی جڑ مضبوط ہے (آیت) ” وفرعھا فی السمآء “ اور اس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں ، یہ ایسا سبز و شاداب اور بار آور درخت ہے (آیت) ” تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا “۔ کہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے ۔ اس مقام پر پاک کلمے سے مراد کلمہ توحید ہے جو کہ تمام شرائع الہیہ کی بنیاد ہے ، اللہ نے اس کی مثال ایک درخت کے ساتھ دی ہے ، درخت بھی مختلف الانواع ہوتے ہیں ، کوئی خوبصورت اور شیریں پھل والے جب کہ بعض دوسرے بدصورت اور ذائقہ میں کڑوے ، درخت اور دیگر نباتات کی اللہ نے اتنی قسمیں پیدا کی ہیں جو انسانی شمار سے باہر ہیں ، علم نباتات (BOTONY باٹنی) کے ماہرین نباتات کی دس لاکھ قسمیں بتاتے ہیں یہ سب انسان کی مصلحت کے لیے ہیں ، بعض درخت چھوٹے قد کے اور بعض بہت لمبے ہوتے ہیں ، بعض کے تنے باریک اور بعض کے بہت موٹے ہوجاتے ہیں ، بعض درختوں کی چھاؤں بہت کم ہوتی ہے اور بعض بڑے گھنے اور دور دور تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں ، ان کے پھل بھی مختلف ہوتے ہیں ، بعض نہایت شیریں اور ذائقہ دار جبکہ بعض دوسرے کڑوے کسیلے اور بدبودار ، فلسفے والے بھی مخلوق کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، یعنی جمادات ، نباتات اور حیوانات بہرحال اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ کلمے یعنی کلمہ توحید کو نباتات میں سے پاکیزہ درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ (درخت اور مسلم مرد) حضور ﷺ کا یہ معمول تھا کہ بعض اوقات کسی بات کو سمجھانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار فرماتے تھے ، چناچہ ایک مجلس میں آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو مخاطب کر کے فرمایا ” ان من شجرۃ کر جل مسلم حد ثونی ماھی “۔ درختوں میں سے ایک درخت مسلم مرد کی مانند ہے ، میرے صحابہ ! بتاؤ وہ کون سا درخت ہے ؟ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ اس مجلس میں بڑے بڑے اکابر صحابہ موجود تھے جن میں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے ۔ مگر کسی نے لب کشائی کی جرات نہ کی حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے سوال کا جواب میرے ذہن میں آچکا تھا ، مگر اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی موجودگی میں اپنی کم سنی کی بدولت میں نے جواب دینے کی ہمت نہ کی بالآخر حضور ﷺ نے خود ہی جواب دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے جسے مرد مسلم کے ساتھ مشابہت ہے حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بعد میں اپنے والد گرامی سے اس جواب کے متعلق ذکر کیا کہ یہ میرے ذہن میں آچکا تھا مگر آپ کی موجودگی میں خاموش رہا ، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اگر تم یہ جواب مجلس میں دے دیتے تو یہ میرے لیے نہایت خوشی کا مقام ہوتا اور مجھے تمہاری ذہانت پر فخر ہوتا ۔ (پاکیزہ درخت کی خصوصیات) امام بغوی (رح) ، امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ جس پاک کلمہ کی مثال اس مقام پر دی گئی ہے ، وہ کلمہ توحید ہے ، اور جس درخت کے ساتھ مثال دی گئی ہے ، وہ کھجور کا درخت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک پاک درخت کی تین خصوصیات ہوسکتی ہیں یعنی اس کی جڑ مضبوط ہو ، تنا قائم ہو اور شاخیں پھیلی ہوئی ہوں ، یہ تینوں خصوصیات کھجور کے درخت میں پائی جاتی ہیں ، کھجور کے درخت کی جڑ بہت مضبوط اور زمین کے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے ، صحرائی علاقوں میں جہاں پانی نایاب ہوتا ہے کھجور کی جڑ دور دور سے مادہ حیات جذب کرتی ہے ، ظاہر ہے کہ درختوں کو غذا تو زمین سے جڑ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے جب کہ تازہ ہوا پتوں کے ذریعے ملتی ہے ، چناچہ درختوں کی یہ خصوصیت ہے کہ رات کے وقت اپنا گندا بخار باہر نکالتے ہیں جب کہ دن کے وقت گندی ہوا پتوں کے ذریعے اپنے اندر جذب کرتے ہیں اسی لیے دن کے وقت درختوں کی ٹھنڈی ہوا انسانی صحت کے لیے مفید اور رات کو درختوں کے نیچے سونا مضر ہوتا ہے ۔ (کلمہ طیبہ کی خصوصیات) جس طرح پاکیزہ درخت کی تین خصوصیات ہیں ، اسی طرح پاکیزہ کلمہ بھی تین صفات کا حامل ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ “ کے لیے تصدیق قلبی کا ہونا ضروری ہے ، یہ تصدیق درخت کی جڑ کی مانند ہے ، جس طرح جڑ کے بغیر درخت قائم نہیں رہ سکتا ، اسی طرح تصدیق قلبی کے بغیر کلمے کا کچھ اعتبار نہیں ، مومن اور منافق میں یہی فرق ہے ، کہ منافق زبانی اقرار کے باوجود دل سے تصدیق نہیں کرتا ، لہذا وہ ایماندار نہیں ہوتا ، دوسری صفت یہ ہے کہ انسان زبان سے اس کا اقرار کرے ، امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی شخص زبان سے کلمہ توحید کا اقرار نہیں کرتا اسے مسلمان نہیں سمجھا جاتا ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے ، اور نہ اس پر اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں ، تو گویا اجرائے احکام کے لیے اقرار باللسان ضروری ہے جس طرح درخت کے لیے تنا ضروری ہے ، اسی طرح زبانی اقراء کے ساتھ کلمہ توحید کو ثبات حاصل ہوتا ہے ، زبانی اقرار کے ساتھ ہی کوئی شخص صاحب ایمان سمجھا جاتا ہے اس سے رشتے ناطے کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی کافر یا مشرک زبان سے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کا کلمہ ادا کر دے تو اس کی عزت وآبرو ، جان ومال محفوظ ہوجاتا ہے ، اور اس سے لڑائی ختم ہوجاتی ہے ، گویا زبانی اقرار درخت کے تنے کی مانند ہے کلمہ توحید کے لیے تیسری صفت عمل بالارکان ہے ، یعنی انسان تصدیق قلبی اور اقرار باللسان کے بعد کلمہ توحید کے احکام پر عمل بھی کرے ، ہر ایماندار پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اعضاء وجوارح کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کی طرف سے جاری ہونیوالے تمام احکام پر کما حقہ عمل کرے اس کی مثال درخت کی شاخوں کی مانند ہے جو فضا میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ، اسی طرح انسان کا عمل بھی دور دور تک ہر شعبہ زندگی میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ، یہ پاکیزہ درخت اور کلمہ طیبہ کی مثال کا ذکر ہوگیا ۔ (مرد مسلمان اور کھجور کا درخت) مفسرین فرماتے ہیں کہ کھجور کے درخت کو ایک مرد مسلمان سے اس لحاظ سے بھی متشابہت ہے کہ جس طرح کھجور کا درخت سدا بہار ہوتا ہے نہ اس کے پتے گرتے ہیں اور نہ شاخیں خشک ہوتی ہیں ، اسی طرح مرد مومن بھی ہمیشہ ایمان اور نیکی کے ساتھ متلبس ہوتا ہے ، اس کے دل میں نور ایمان اور نور توحید ہوتا ہے اور زبان سے اس کا اقرار ہوتا ہے ، اس کے اعضاوجوارح ہمیشہ اعمال صالحہ انجام دیتے رہتے ہیں اور ایسا شخص ہر آن بنی نوع انسان کے لیے مفید ہوتا ہے ۔ اس درخت کے ساتھ مرد مومن کی مشابہت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح انسان کا سرکٹ جانے سے کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا ، اسی طرح اگر کھجور کے درخت کا اوپر کا حصہ کاٹ دیا جائے تو وہ بھی خشک ہوجاتا ہے ، اسکی چوٹی دوبارہ پیدا نہیں ہوتی ، اسی طرح یہ بھی مقولہ ہے کہ اگر آدمی کے سرکے اوپر سے پانی گزر جائے تو جس طرح وہ زندہ نہیں رہ سکتا ، اسی طرح سیلاب میں اگر کھجور کے درخت کا سر ڈوب جائے تو وہ بھی مر جاتا ہے ، غرضیکہ کھجور کے درخت اور مرد مسلمان میں یہ بھی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ (سدا بار آور کھجور) کھجور کے درخت کے بار آور ہونے کے متعلق (آیت) ” کل حین “ کے الفاظ آئے ہیں حین کا اطلاق مطلق وقت پر ہوتا ہے ، مگر امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر حین سے مراد چھ ماہ ہیں کہ جن کے دوران کھجور میں تازہ پھل آجاتا ہے ، کھجوریں دیر تک ذخیرہ کی جاسکتی ہیں اور دیگر پھلوں کی طرح یہ جلدی گل سڑ کر خراب نہیں ہوتیں ابھی سابقہ فصل کی کھجوریں گھروں اور منڈیوں میں موجود ہوتی ہیں ، جب کہ تازہ پھل بھی اترنا شروع ہوجاتا ہے ، اس لیے اسے سدا بار آور درخت بھی کہا جاتا ہے مومن آدمی کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، وہ ہر وقت اعمال صالحہ انجام دیتا رہتا ہے جس سے دوسرے لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں ، ایسا آدمی تینوں شرائط پوری کرتا ہے ، اس کے ایمان کی جڑ مضبوط ہوتی ہے یعنی وہ دل سے تصدیق کرتا ہے ، زبان سے اقرار کرتا ہے اور اعمال صالحہ بھی انجام دیتا رہتا ہے ۔ (شاہ ولی اللہ کی توجیہہ) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مومن آدمی کا کلمہ توحید تمام شرائع الہیہ کی بنیاد ہے اور شرائع الہیہ کا منبع عالم ملکوت میں ہے اس کی شاخیں اور پھل اس جہان میں ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اس کے برخلاف کفر وشرک کا کلمہ ناپاک ہے ، عالم ملکوت میں اس کا کوئی استقرار نہیں ہوتا اگرچہ دنیا میں کسی وقت تھوڑا بہت پھیلاؤ ہوجاتا ہے تو پاک کلمہ سے کلمہ توحید مراد ہے ، اگر انسان زبان سے خدا کی تسبیح تنزیہہ ، تحمید اور تکبیر بیان کرتا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا ہے یا نصیحت کی کوئی بات کرتا ہے تو وہ سب کچھ کلمہ توحید کے ضمن میں آئے گا جس طرح درخت کی بنیاد اس کی جڑ ہوتی ہے اسی طرح تمام شرائع کی بنیاد عالم ملکوت میں قائم ہے جو ہر مومن کے دل میں راسخ ہے اور اس کا عمل دور دور تک پھیلا ہوتا ہے ، درخت کی شاخوں کے پھیلاؤ کے لیے (آیت) ” فی السمآء “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں السماء آسمان کے علاوہ چھت اور ہر اس بلند چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو سر پر سایہ فگن ہو چونکہ پاکیزہ اخلاق دور دور تک پھیل جاتے ہیں اس لیے اس کا اطلاق السماء پر بھی کیا گیا ہے اس کی جڑ تصدیق قلبی ، اس کا تنا زبانی اقرار اور اس کی شاخیں عمل بالارکان ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ویضرب اللہ الامثال للناس “۔ اللہ تعالیٰ مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں کے لیے (آیت) ” لعلھم یتذکرون “۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ، مثال بیان کرنے سے بعض اوقات بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ، لہذا اللہ نے جگہ جگہ مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ (کلمہ خبیثہ کی مثال) فرمایا (آیت) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ “۔ اور گندے کلمے کی مثال گندے درخت کی ہے (آیت) ” اجتثت من فوق الارض “۔ جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو ، اس درخت کی جڑ بھی مضبوط نہیں اور یہ بدبودار اور کڑوا بھی ہے ، مفسرین کرام نے خبیث درخت سے مختلف درخت مراد لیے ہیں ، تاہم زیادہ مشہور یہ ہے کہ اس سے اندر رائن یعنی تنبہ کا پودا مراد ہے ، اس کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہے ، جڑ بالکل کمزور جو ذرا سا کھینچنے سے اکھڑ جائے اور مزا کڑوا ، پہلے پارے میں گزر چکا ہے (آیت) ” خلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ اللہ نے زمین کی ہر چیز تمہارے فائدے کے لیے پیدا گی ہے ، چناچہ بعض کڑوی ، کسیلی اور زہریلی چیزیں بھی کارآمدبنائی جاسکتی ہیں ، اقبال نے جبھی تو کہا ہے ، میں وہ ہوں کہ زہر سے بھی شہدا اور تریاق بنا لیتا ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کمال عطا فرمایا ہے کہ وہ مضر چیزوں سے بھی مفید چیزیں بنا لیتے ہیں ، چناچہ طبیب لوگ تنبے جیسی کڑوی چیز سے اچار ، مربہ اور اسہال لانے والی دوائی تیار کرلیتے ہیں ، تاہم بنیادی طور پر یہ پودا ناپختہ ، بدبودار اور اس کا پھل کڑوا ہے ، کفر وشرک والا گندا کلمہ بھی اس پودے کی طرح بےبنیاد ، بدبودار اور بدذائقہ ہوتا ہے ، فرمایا یہ خبیث پودا ایسا ہے (آیت) ” مالھا من قرار “۔ جس کو ثبات حاصل نہیں ہے حق کو ثبات حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتائج تمام جہان والوں پر واضح ہوتے ہیں ، اس کے برخلاف کفر اور شرک وقتی طور پر دنیا میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے ، اس کی تہ میں بڑا شور وشر اور ہنگامہ ہوتا ہے ، مگر یہ ناپائیدار ہوتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی ، جب اگلا جہان آئے گا تو اس کی حقیقت معلوم ہوگی ، الغرض ! اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کی مثال پاک درخت سے دی ہے جب کہ کفر وشرک کو بدبودار اور بدذائقہ درخت کے مشابہ قرار دیا ہے ، دونوں کا فرق واضح کردیا ہے تاکہ لوگ ا سے نصیحت پکڑیں ۔
Top