Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 32
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَۚ
اَللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو
خَلَقَ
: اس نے پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
وَاَنْزَلَ
: اور اتارا
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مَآءً
: پانی
فَاَخْرَجَ
: پھر نکالا
بِهٖ
: اس سے
مِنَ
: سے
الثَّمَرٰتِ
: پھل (جمع)
رِزْقًا
: رزق
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَسَخَّرَ
: اور مسخر کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْفُلْكَ
: کشتی
لِتَجْرِيَ
: تاکہ چلے
فِي الْبَحْرِ
: دریا میں
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
وَسَخَّرَ
: اور مسخر کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاَنْهٰرَ
: نہریں (ندیاں)
اللہ جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو اور اتارا ہے آسمان کی طرف سے پانی ، پس نکالا ہے اس کے لیے پھلوں سے رزق تمہارے لیے اور اس نے مسخر کیا ہے تمہارے لیے کشتیوں کو تاکہ چلیں وہ دریا میں اس کے حکم سے اور مسخر کیا ہے تمہارے لیے نہروں کو ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا اثبات اور کفر وشرک کا رد فرمایا تھا ، اس سلسلہ میں کلمہ توحید کی مثال پاکیزہ درخت کے ساتھ اور کلمہ کفر وشرک کی مثال ایک گندے درخت کے ساتھ بیان فرمائی فرمایا کہ دنیا وآخرت میں ایمان والوں کی ثابت قدمی کلمہ توحید کے ساتھ منسلک ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منکرین نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کی جس کی وجہ سے کود بھی جہنم میں پہنچے اور دوسروں کو بھی ساتھ لے گئے ، خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ، فرمایا ، یہ لوگ چند دن تک فائدہ اٹھالیں ، بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ایمان کے تقاضے میں دو باتوں کو پورا کرتے رہیں ، نماز ادا کریں اور انفاق فی سبیل اللہ بھی کرتے رہیں تاکہ اپنے لیے اس دن سے پہلے کوئی سامان پیدا کرلیں ، جس دن نہ کوئی سوداگری ہوگی ، اور نہ کوئی دوستی کام آئیگی ، گویا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اشقیا اور سعدا دونوں کا ذکر فرمایا ہے ، اشقیا وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ، اور سعدا وہ ہیں جو ایمان لانے کے بعد نماز قائم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی روزی میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں ۔ (خدا تعالیٰ کی پہچان) اب اس درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کے دلائل ذکر فرمائے ہیں ان دلائل کو قرآن کریم کے مختلف مقامات پر بتکرار بیان کیا گیا ہے تاکہ یہ باتیں لوگوں کے اذہان میں بیٹھ جائیں اور وہ ان سے نصیحت حاصل کریں جو شخص خدا تعالیٰ کو پہچان کر اس کی وحدانیت کر تسلیم کریگا وہ سعدا میں شامل ہو کر فلاح پا جائے گا ، ورنہ ناشکرگزاروں کے ٹولے میں شامل ہو کر جہنم میں کا شکار بنے گا ، حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا کہ نجران کے نصاری کو سب سے پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا واذا عرفوا اللہ “۔ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کو صحیح طریقے سے پہچان لیں تو پھر انہیں کہنا کہ اللہ نے دن میں پانچ نمازیں ، ایک ماہ کے روزے اور اگر استطاعت ہو تو زکوۃ اور حج بھی فرض کیا ہے ، دین اسلام میں خدا کی پہچان سب سے پہلا مرحلہ ہے جب تک صحیح پہچان نہیں ہوگی ، انسان اپنے دل میں توحید کو جگہ نہیں دے سکے گا اور نہ ہی کوئی عبادت مقبول ہوگئی ، (آیت) ” ما قدروا اللہ حق قدرہ “۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کو کما حقہ پہچانا ہی نہیں ، اگر پہچان صحیح ہوجاتی تو پھر نہ شرک میں مبتلا ہوتے اور نہ رسالت کا انکار کرتے ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حجابات میں سے تیسرا حجاب سوء معرفت ہے ، لوگوں کی اکثریت ایس حجاب میں مبتلا ہے ، یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان نہیں ہوتی ، وہ یا تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ قرار دے کر عقیدہ تشبیہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی صفات مخلوق میں مان کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں ، توحید کو وہی سمجھے گا ، جسے اللہ کی صحیح پہچان ہوگی جب توحید کو سمجھ لے گا تو فکر پاک ہوجائے گی اور اس کی عبادت بھی ٹھکانے لگے گی ، اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کو اس کی ذات سے پہچاننا چاہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ وہاں تک کسی مخلوق کی رسائی نہیں ، اللہ تعالیٰ وراء الوراء ہے ، اس کی صفات کو بھی انسان براہ راست نہیں پہچان سکتا ، اس کی پہچان اس کی مخلوق پر غور کرنے سے ہوتی ہے جب اللہ کی صفت سمجھ میں آجائے تو پھر انسان اللہ ذات کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ (آسمان و زمین کی تخلیق) اپنی پہچان ہی کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” اللہ الذی خلق السموت والارض “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے پیدا کیے ہیں آسمان اور زمین ، تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ (آیت) ” اللہ خالق کل شیئ “۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے آسمان اور زمین ہمیں نظر آتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارا تعلق ہے آسمانی چیزوں سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں اور زمین پر چلتے پھرتے اور اس سے ضروریات زندگی حاصل کرتے ہیں ، ان کو پیدا کرنا خدا کام اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کو ابداع اور فاطر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جیسے فرمایا (آیت) ” بدیع السموت والارض “۔ یا ” فاطر السموت والاض “۔ دونوں کا معنی ایک ہے کہ آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فقط اللہ ہے ۔ اللہ کی ان صفات میں ابداع یعنی ایجاد کرنا پہلے نمبر پر ہے اس نے آسمان اور زمین کو بغیر کسی مادے ، آلے اور نمونے کے پیدا فرمایا پھر دوسری صفت خلق ہے ، اس نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے اور جنات کو آگ کے مادے سے پیدا کیا ، آگے تیسرے نمبر پر صفت تدبیر ہے (آیت) ” یدبرالامر من السمآء الی الارض “۔ (الم سجدہ) عالم بالا سے لے کر عالم زیریں تک تمام چیزوں کی تدبیر وہ خود کرتا ہے اللہ کی یہ تینوں صفات آگے پیچھے آتی ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ نے اسی حصہ آیت میں اپنی صفت ابداع کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعے اس کی پہچان ممکن ہوتی ہے ۔ (بارش اور اس کے فوائد) اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کی یہ دلیل بھی دی ہے (آیت) ” وانزل من السمآء مآء “۔ اس نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا سماء بلندی اور فضا کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، سمندروں سے بخارات اٹھتے ہیں ، ہوائیں انہیں فضا میں چلاتی ہیں اور بادلوں میں پانی کے قطرات منجمند ہو کر زمین پر برسنے لگتے ہیں بارش کے پورے نظام میں محض بخارات سے اٹھنے والی مون سون ہواؤں ہی کا دخل نہیں بلکہ اس میں عالم بالا کا حکم بھی شامل ہوتا ہے تب جا کر بارش برستی ہے ۔ فرمایا آسمان کی طرف سے پانی نازل کیا (آیت) ” فاخرج بہ من الثمرت رزقا لکم “۔ پھر اس پانی کے ذریعے پھل اگائے جو تمہارے لیے روزی کا سامان ہے ، اللہ تعالیٰ پانی ہی کے ذریعے زمین میں نشونما پیدا کرتا ہے اور پھر اناج اور پھل پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر موسم کے لیے حسب ضرورت مختلف رنگ ، ذائقے ، اور تاثیر کے پھل پیدا کرتا ہے کسی پھل کی تاثیر سرد ہوتی ہے کسی کی گرم ، کسی کی خشک اور کسی کی مرطوب ، انسانی غذا کے طور پر یہ اللہ تعالیی کا بہت بڑا انعام ہے لوگ ہر موسم میں بےدریغ پھل استعمال کرتے ہیں مگر جیسا کہ آگے آرہا ہے اس مالک ارض وسما کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔ (دیگر انعامات الہیہ) پانی کی اور بھی بہت سی حکمت بیان کی گئی ہے پچھلی سورة میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہاڑوں پر بارش برسا کر پانی کو ندی نالوں کی صورت میں بہاتا ہے ، جس سے دور دور تک آبپاشی ہوتی ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں اور حیوانوں کی غذائی ضرورت پوری کرتا ہے ، اسی طرح زمین بھی بڑی ضروری چیز ہے ، اگر زمین نہ ہو تو انسانوں اور حیوانوں کے قدم کہاں ٹکیں ، انکی خوراک کا انتظام کہاں سے ہو ، مع دنیات کہاں سے حاصل ہوں ، اسی طرح آسمان کے بغیر چاند ، ستارے اور سورج کہاں چلیں ، ان سے روشنی اور حرارت کیسے حاصل ہو ، اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنیادی ضرویات کو فری رکھا ہے ، ذی روح مخلوق کو سب سے زیادہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بالکل مفت عطا کیا ہے ، اس کے بعد انسانی ضروریات میں پانی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ نے وافر مقدار میں پیدا فرمایا ہے اس کے ذرائع میں بارش ، ندی نالے اور کنوئیں وغیرہ ہیں جہاں سے یہ بآسانی دستیاب ہے اس کے بعد خوراک لازمی چیز ہے جس کے لیے محنت کی ضرورت ہے ، یہ خدا تعالیٰ کی عام نعمتیں ہیں جو اس نے انسان پر کی ہیں حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا پروردگار ! تیری ادنی سے ادنی نعمت کون سی ہے ، فرمایا ، سانس لو ، جب آپ نے سانس لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میری ادنی سی نعمت ہے جو مدار حیات ہے ، ہر سانس کے ذریعے انسان کو خدا تعالیٰ کے دو انعامات حاصل ہوتے ہیں ، ہر چوبیس گھنٹے میں انسان چوبیس ہزار سانس لیتا ہے تو اندازہ لگائیے کہ صرف سانس کے ذریعے انسان کو کتنے انعامات حاصل ہوتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں انسان کی طرف سے شکریہ کی ادائیگی صفر کے برابر ہے ۔ (کشتیوں کی تسخیر) تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” وسخرلکم الفلک “۔ اور تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا (آیت) ” لتجری فی البحر بامرہ “۔ تاکہ وہ اس کے حکم سے دریاؤں میں چلیں ، پانی پرچھوٹی چھوٹی کشتیوں سے لے کر بڑے بڑے جہازوں تک کا تیرنا اللہ تعالیٰ کے خاص قانون کے مطابق ہے ، اگر قدرت کا یہ قانون موجود نہ ہوتا تو کوئی چیز پانی میں نہ تیر سکتی ، آبی شاہراہوں کے ذریعے انسانوں کے علاوہ لاکھوں ٹن وزنی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں ، بڑے بڑے مال بردار جہاز ایک ایک ماہ تک ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک محو سفر رہتے ہیں ، ابھی چند سال کی بات ہے کہ فیصل آباد کے ایک شخص نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ، کہنے لگا ہم پچھتر ہزار ٹن لوہا بذریعہ بحری جہاز لے کر جا رہے تھے ، خدا کی قدرت سمندر میں زبردست طوفان آیا جس میں جہاز پھنس گیا اور اس کے بچ نکلنے کی کوئی امید باقی نہ رہی بعض انگریز ملازمین نے شراب پی کر سمندر میں چھلانگ لگا دی جب کہ میں نے ایک چھوٹی کشتی کے ذریعہ جان بچائی ، جہاز ڈوب گیا ، میں ہسپتال میں بیہوشی کی حالت میں پڑا رہا اور کئی روز بعد ہوش آیا غرضیکہ پانی بڑی زبردست طاقت ہے مگر قانون خداوندی کے تحت اس پر جہاز اور کشتیاں تیرتی رہتی ہیں اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ڈوب بھی جاتی ہیں ، فرمایا (آیت) ” وسخرلکم الانھار “۔ اور تمہارے لیے ندی ، نالوں اور نہروں کو بھی مسخر کردیا ، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق ندی نالوں کو زمین کے اندر چلاتا ہے جن سے وہ لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں ، جہاں بارش نہیں ہوتی ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے دلائل توحید میں سے ہے ۔ (تسخیر شمس وقمر) آگے فرمایا (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمر “۔ اور تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا (آیت) ” دآئبین “۔ جو دستور کے مطابق چل رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو راستے مقرر کردیے ہیں ، ان پر بلا کم وکاست رواں دواں ہیں اور اس میں منٹ سیکنڈ تک کا فرق بھی نہیں آتا ، تسخیر کا ایک معنی تو کسی چیز کا کسی کے قابو میں آنا ہوتا ہے جیسے جانور نوکر غلام وغیرہ انسان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور وہ ان سے حسب منشا کام لیتے ہیں ، مگر تسخیر کا دوسرا معنی فائدہ اٹھانا بھی ہے شمس وقمر کی تسخیر کا یہی معنی ہے ، اللہ نے انہیں انسان کے فائدے کے لیے کام پر لگا دیا ہے ، سورج انسانوں کی روشنی اور حرارت فراہم کرتا ہے ، جب کہ چاند کے ذریعے دہیمی روشنی اور پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے اسی طرح ستارے ، سیارے اور ہوائیں بھی انسان کی خدمت پر مامور ہیں ، اسی لیے فرمایا کہ ہم نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے (آیت) ” دآئبین “۔ کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند مسلسل حرکت کر رہے ہیں ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اور امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ ان سیاروں کی دو حرکتیں ہیں ، سورج کی یومیہ حرکت مشرق سے مغرب کی طرف ہوتی ہے ، اور پھر ’ لیلی ‘ حرکت مغرب سے مشرق کی طرف ہوتی ہے ، شمس وقمر کسی مکان یا احاطہ میں جا کر چھپ نہیں جاتے بلکہ یہ مسلسل چلتے رہتے ہیں ، ان کا طلوع و غروب باعتبار ایک افق کے ہوتا ہے ، لیکن ان کی حرکت بند نہیں ہوتی ، ان مختلف منزلوں کی تبدیلی سے موسم بدلتے ہیں اور یہ بھی انسانی ضرورت میں سے ایک اہم ضرورت ہے ، اگر سارا سال ایک ہی موسم رہے تو ایک ہی قسم کے اناج یا پھل پیدا ہوں گے جس سے انسانی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوں گے ۔ فرمایا (آیت) ” وسخرلکم الیل والنھار “۔ اور مسخر کیے تمہارے لیے رات اور دن ، رات دن کی ادلا بدلی بھی انسانی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے دن لوگوں کو کام کاج فراہم کرتا ہے جب کہ رات کو سکون حاصل ہوتا ہے اور پھر انسان تازہ دم ہو کر اگلے دن دوبارہ کام میں لگ جاتا ہے غرضیکہ اللہ نے رات اور دن کو بھی انسانی خدمت پر مامور کردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان چند نعمتوں کا ذکر کرکے اپنی پہچان کی دلیل قائم کی ہے ۔ (مطلوبہ نعمت کی عطائیگی) پھر اللہ نے بطور قانون فرمایا (آیت) ” واتکم من کل ما سالتموہ “۔ اور دیا تم کو جو کچھ تم نے مانگا ، انسان کی طلب کبھی زبان قال سے ہوتی ہے کہ انسان زبان سے بول کر کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے ، اور کبھی یہ طلب زبان حال سے ہوتی ہے یعنی انسان کی حالت جس چیز کا تقاضا کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ اسے بغیر مانگے ہی عطا کردیتا ہے ، یہ عطا کرنے کا قانون اللہ نے بیان کردیا ہے اس مقام پر من تبعیضیہ ہے یعنی تم نے جو کچھ مانگا ، وہ سارا نہیں بلکہ اس میں سے کچھ دے دیا ، دعا کے بارے میں یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ، اس کی عبادت کے مترادف ہے ، اس سے مانگنا چاہیے وہ کسی کی دعا رد نہیں کرتا ، البتہ یہ ہے کہ انسان کی مصلحت کے مطابق کبھی مطلوبہ چیز فورا عطا کردیتا ہے اور اگر مصلحت میں مفید نہیں ہوتی تو اس کے بدلے میں کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے ، اگر ایسا بھی نہ ہو تو دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا لیتا ہے ، وہ اس مانگنے والے کے لیے آخرت میں مفید ہوگی ، چونکہ انسان کا علم محدود ہے اس لیے بعض اوقات وہ ایسی چیز طلب کرلیتا ہے جو اس کے لیے مضر ہوتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز مفید اور کون سی مضر ہے لہذا وہ اس کے مطابق ہی عطا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ (شماری نعمت پر عدم قدرت) آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا “۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ، ہر نعمت مخلوق ہے اور ہر مخلوق محدود ہوتی ہے ، جو کہ شمار کی جاسکتی ہے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ میری نعمتیں شمار نہیں کی جا سکتیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا کہنا باعتبار انسان کے ہے کیونکہ بوجہ ضعف وہ ان نعمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا ، سورة النسآء میں موجود ہے (آیت) ” وخلق الانسان ضعیفا “۔ انسان کو بالطبع کمزور پیدا کیا گیا ہے ، لہذا اس کا محدود چیزوں پر حاوی ہونا ، بھی ضروری نہیں ہے ، اسی لیے فرمایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار بھی نہیں کرسکتے ، جب شمار نہیں کرسکتے تو حق شکریہ کیسے ادا ہو سکتا ہے ؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کے تین دفتر پیش ہوں گے ، ایک میں نیکیاں ، دوسرے میں گناہ اور تیسرے میں نعمتیں درج ہوں گی ، پھر نعمتوں میں سے ایک نعمت کھڑی ہو کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کریگی ، پروردگار ! مجھے اس شخص کی نیکیوں میں سے بدلہ دیا جائے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے اپنا حق وصول کرلو ، جب وہ ایک نعمت اپنا حق لینا شروع کریگی تو اس آدمی کی تمام نیکیاں ختم ہو کر صرف گناہ باقی رہ جائیں گے ، وہ پھر عرض کریگی ” وعزتک ما استوفیت “۔ تیری عزت کی قسم مجھے پورا حق ابھی تک نہیں ملا اگر اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم نہیں فرمانا چاہے گا تو کہے گا کہ اے بندے ! تیری نیکیاں تو ایک نعمت ہی کھا گئی ، اب تیرے پاس کچھ نہیں بچا جب ایک نعمت کا پورا حق ادا نہیں ہوسکا تو باقیوں کا کیسے ہوگا ، اور اللہ اس شخص پر رحم کرنا چاہے گا تو کہے گا ، جاؤ ! ہم نے تمہاری نیکیاں دگنی چوگنی کردی ہیں اور تمہاری غلطیاں معاف کردیں اور وہ شخص بچ جائے گا ، بصورت دیگر اسے ایک نعمت ہی پکڑ کر بیٹھ جائے گی اور وہ شخص جان نہیں چھڑا سکے گا ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اس قدر زیادہ ہیں مگر انسان اس کی ایک ادنی سے ادنی نعمت کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کے منہ میں جانے والے ایک لقمہ میں اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات پوشیدہ ہیں ، ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر محنت کروا کے اور بارش کا انتظام کرکے گندم کو کس طرح پیدا کیا ، پھر اس کے آٹا بننے تک اسے کتنے مراحل سے گزرنا پڑا گندم کے اگنے ، پکنے ، برداشت کرنے پیسنے اور روٹی پکنے تک کتنے ہاتھوں اور مشینوں نے کام کیا ، تب جا کر انسان کو ایک لقمہ نصیب ہوا ، اگر کسی کل کا ایک پرزہ بھی خراب ہوجائے تو سارا کام ادھورا رہ جاتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے گندم کے دانے کو تمام مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزارنے کے بعد انسان کے منہ تک ایک لقمہ پہنچایا ، یہ اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں ہیں جو واقعی شمار سے باہر ہیں ، یہ تو ایک لقمے جیسی نعمت کی بات ہے ، اس کے علاوہ انسان کو لاکھوں کروڑوں نعمتیں میسر ہیں جن کو نہ شمار کرسکتا ہے اور نہ ان کا حق ادا کرسکتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہ کرسکو گے ۔ (انسانی کمزوریاں) فرمایا (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ بیشک انسان البتہ بہت ہی بےانصاف اور ناشکر گزار ہے ، شب وروز خدا تعالیٰ کے انعامات میں غرق ہے مگر اس مالک کا شکر ادا نہیں کرتا ، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے سورة سبا میں فرمایا (آیت) ” قلیل من عبادی الشکور “۔ میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہیں ، جب کہ ناشکر گزار بہت زیادہ میں ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کرائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے یہ تمام نعمتیں مہیا کی ہیں ، اگر انسان ان میں غور وفکر کرے تو اسے معرفت الہی حاصل ہو سکتی ہے ، اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان تمام نعمتوں کو مہیا کرنے والا صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے جب یہ بات سمجھ میں آجائے تو توحید کا مسئلہ خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے یہ تو اللہ نے عام نعمتوں کا ذکر کیا ہے آگے خصوصی نعمتوں کا ذکر بھی آرہا ہے ۔
Top