Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 38
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ١ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو تَعْلَمُ : تو جانتا ہے مَا نُخْفِيْ : جو ہم چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو نُعْلِنُ : ہم ظاہر کرتے ہیں وَمَا : اور نہیں يَخْفٰى : چھپی ہوئی عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مِنْ : سے۔ کوئی شَيْءٍ : چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي : مین السَّمَآءِ : آسمان
اے ہمارے پروردگار ! بیشک تو جانتا ہے جس چیز کو ہم چھپاتے ہیں ، اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں اور نہیں ہے مخفی اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں ۔
(ربط آیات) گذشتہ درس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا تھی جس میں انہوں نے قریش مکہ پر ہونے والے خصوصی انعامات کا ذکر کیا تھا ، خود مکہ مکرمہ کے حق میں آپ کی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے پر امن شہر بنا دے ، پھر اپنے لیے اور اپنے متعلقین کے لیے شرک سے بچنے کی دعا کی کیونکہ اصنام پہلے ہی بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن چکے تھے ، پھر عرض کیا کہ میں اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے گھر کے قریب بےآب وگیاہ سرزمین میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ نماز قائم کریں کیونکہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس سے تعلق باللہ قائم ہوتا ہے ، پھر یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ ! لوگوں کے دلوں کو میری اولاد کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں سے روزی عطا کر تاکہ یہ خدا کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں ، ظاہر ہے کہ جب دل اس طرح مائل ہوں گے تو آمدورفت میں اضافہ ہو کر وسائل رزق میں توسیع ہوگی ، چناچہ آج سے تقریبا پانچ ہزار سال پہلے مانگی گئی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اب مکہ مکرمہ کی طرف مخلوق خدا کا سارا سال تنتا بندھا رہتا ہے اور موسم حج میں تو بےانتہا رش ہوجاتا ہے یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت کا صلہ ہے کہ اس سرزمین میں اچھے سے اچھا پھل اور ہر چیز دستیاب ہے ۔ (اللہ کا علم محیط) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا بھی کی (آیت) ” ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن “۔ اے ہمارے پروردگار ! بیشک تو جانتا ہے جس چیز کو ہم مخفی رکھتے ہیں اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں ارض وسما میں کوئی چیز تیری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے ، تو ہماری نیت ارادے اور عزائم کو بھی جانتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس اخلاص اور نفاق کو بھی جانتا ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں پنہاں ہوتے ہیں اور جو لوگ ریاکاری کے مرتکب ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے بھی واقف ہے ۔ اس دعا کے ذریعے ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور نہایت عاجزی اور انکساری کا اظہار کیا ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ چونکہ آگے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کا ذکر بھی آرہا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دعا میں حضور خاتم النبیین ﷺ کی طرف خاص اشارہ پایا جاتا ہے ، سورة بقرہ اور دیگر سورتوں میں آپ کی واضح دعا بھی موجود ہے (آیت) ” ربنا وابعث فیھم رسولا منھم “۔ یعنی اے اللہ ! ہماری اولاد میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما ، تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے چھپانے اور ظاہر کرنے میں آپ کا اشارہ حضور ﷺ کی بعثت کے متعلق ہی تھا ، بہرحال آگے پھر وضاحت کی (آیت) ” وما یخفی علی اللہ من شیء فی الارض ولا فی السمآء “۔ خدا تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز کائنات کے کسی گوشے میں موجود ہو ، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ۔ ّ (عطائے اولاد پر شکریہ) آگے ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی ، (آیت) ” الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسمعیل واسحق “۔ اس خدا تعالیٰ کا شکر ہے جس نے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) جیسے فرزند عطا فرمائے امام بیضاوی (رح) کی روایت کے مطابق جب ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ننانوے 99 برس کی ہوئی تو اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ، یہ آپ کی دوسری بیوی حضرت ہاجرہ ؓ کے بطن سے تھے جو کہ شاہ مصر نے آپ کو خادمہ کے طور پر دی تھی ، پھر جب آپ کی عمر مبارک 112 سال ہوئی تو پہلی بیوی حضرت سارہ ؓ کے بطن سے اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے ، یہ آپ کی چچا زاد تھی اور اس نے آپ کے ساتھ عراق سے ہجرت بھی کی تھی ، آپ کو ساری عمر اولاد کی خواہش رہی مگر اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا کہ اس نے جوانی کے بعد بڑھاپے میں بیٹا عطا فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی یہ بھی خاص مہربانی تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹے یعنی اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہوئے اور پھر انہی کی نسل سے انبیاء کا سلسلہ آگے بھی چلا ۔ اس ضمن میں بائیبل کی روایت قدرے مختلف ہے ، اس کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کا پہلا بیٹا 83 سال کی عمر میں اور دوسر بیٹا سو سال کی عمر میں پیدا ہوا جب کہ آپ مایوسی کی عمر کو پہنچ چکے تھے ، پھر اللہ نے بیٹے کے ساتھ پوتے کی بشارت بھی دی فرمایا (آیت) ” ومن ورآء اسحاق یعقوب “۔ (ھود) یعنی تم اپنی زندگی میں پوتے کو بھی پالو گے چناچہ آپکی زندگی میں ہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی پیدا ہوئے ، وہ بھی اللہ کے عظیم رسول تھے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے 175 برس عمر پائی ، آپ نے یہ بھی کہا (آیت) ” ان ربی لسمیع الدعآء “۔ بیشک میرا پروردگار البتہ دعا کو سننے والا ہے ، اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا (آیت) ” رب ھب لی من الصلحین “۔ (الصفت) اے پیغمبر ﷺ ! مجھے نیک اولاد عطا فرما ، اللہ نے اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) جیسی نیک اور صالح اولاد عطا فرمائی جس پر آپ نے پروردگار کا شکریہ ادا کیا ۔ (اقامت صلوۃ کی دعا) ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اقامت صلوۃ کی دعا بھی کی (آیت) ” رب اجعلنی مقیم الصلوۃ “۔ اے پیغمبر ﷺ ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے (آیت) ” ومن ذریتی “۔ اور میری اولاد میں سے بھی ایسے لوگ پیدا فرما جو نماز کو قائم کریں اقامت صلوۃ بہت بڑی حقیقت ہے جس کے ذریعے تعلق باللہ درست ہوتا ہے ، تو آپ نے اپنے اور اپنی اولاد کے حق میں یہی دعا کی کہ ہمیں مکمل شرائط اور اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے والے بنا دے اگر نماز درست ہوگئی تو ہر چیز درست ہو جائیگی اور اگر نماز ہی درست نہ ہوئی ، تو نہ دین درست ہوگا اور نہ دنیا انسان الحاد اور بدعملی کا شکار ہی رہے گا ۔ ہمارے بزرگوں میں سے حضرت مولانا انور شاہ صاحب کاش میری (رح) ایک دفعہ دیوبند سے مولانا رشیداحمد گنگوہی (رح) کی خدمت میں بارہ چودہ کوس کا سفر پیدل طے کر کے پہنچے ، حضرت گنگوہی (رح) نے آمد کا مقصد پوچھا تو عرض کیا کہ میرے حق میں دعا کریں کہ میں نماز ٹھیک طریقے پر ادا کرسکوں میرا یہاں آنے کا اور کوئی مقصد نہیں ، اس پر حضرت گنگوہی (رح) نے عجیب جملہ ارشاد فرمایا ، کہنے لگے اگر نماز ٹھیک طریقے پر آگئی تو سب کچھ آگیا پھر باقی کیا رہ گیا ، فرمایا یہی بات تو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے جس کام کی جڑ بنیاد صحیح ہوگئی اس کے سارے معاملات صحیح ہوگئے ، اللہ کے ساتھ تعلق بھی درست ہوجائے گا اور دنیا کے سارے معاملات بھی ٹھیک ہوجائیں گے ، سیاست ہو یا معیشت ، حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد نماز کی درستگی کے ساتھ ہی سب کچھ درست ہوجائے گا ، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی یہی دعا کی کہ مولا کریم ! مجھے اور میری اولاد کو نمازی بنا دے ۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب آدمی نماز پڑھ کر فارغ ہوتا ہے تو اس کی نماز کا صرف دسواں حصہ قبول ہوتا ہے جبکہ تو حصے ضائع ہوجاتے ہیں ، بعض لوگوں کا نواں حصہ ، بعض کا اٹھواں حصہ اور بعض کی نصف نماز قبول ہوتی ہے جس کی آدمی نماز قبول ہوجائے تو وہ بڑی شان والا آدمی ہوتا ہے اور جس کی پوری کی پوری نماز قبول ہوجائے وہ مقربین الہی میں شمار ہوتا ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص ، صلاحیت اور نیکی پر ہے نماز میں جس قدر ان چیزوں کا حصہ ہوگا ، اسی قدر نماز کی قبولیت بھی ہوگی ، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں عرض کیا (آیت) ” ربنا وتقبل دعاء “۔ اے پیغمبر ﷺ ! ہماری اس دعا کو قبول فرما لے پھر آخر میں عرض کیا (آیت) ” ربنا اغفرلی “۔ اے پیغمبر ﷺ ! مجھے معاف فرما دے ، مجھے بخش دے ، جو کوتاہی اور لغزش ہوئی ہے اس سے درگزر فرما نہ صرف مجھے معاف کر دے (آیت) ” ولوالدی “۔ بلکہ میرے والدین کو معاف فرما دے (آیت) ” وللمؤمنین یوم یقوم الحساب “۔ اور جس دن حساب قائم ہو ، تمام مومنوں کو بھی بخش دے ، سب کی خطاؤں کو معاف فرما دینا ۔ (مشرک کے لیے دعائے مغفرت) یہاں پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد تو کفر پر تھے اور اسی پر ان کا خاتمہ ہوا تو ایسی حالت میں ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے لیے مغفرت کی دعا کیسے کی جب کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ (آیت) ” ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ (النسآئ) وہ مشرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کر دے ، مفسرین کرام نے اس کی مختلف توجہیات کی ہیں بعض فرماتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کے لیے دعا ابتدائی دور میں کی تھی ، پھر جب ان کو علم ہوگیا کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہی ہے تو آپ نے اپنے والد سے بیزاری کا اعلان کردیا ، سورة توبہ میں موجود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی باپ کے لیے دعا ایک وعدہ کی بنا پر تھی (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ “۔ پھر جب آپ پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ دشمن خدا ہے تو آپ نے بیزاری کا اعلان کردیا غرضیکہ جب تک کسی کے کفر پر خاتمے کا یقین نہ ہوجائے اس کے لیے بخشش کی دعا کی جاسکتی ہے اور دعا کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ ! اس کو مغفرت کا اہل بنا دے یعنی اسے توبہ کی توفیق عطا کر دے ، ملت ابراہیمیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مومنین کے لیے دعائے مغفرت کرنی چاہئے خواہ وہ فاسق اور گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ بعض نے یہ توجیہہ بھی کی کہ جس شخص آذر کے حق میں اللہ نے مشرک ہونے کا ذکر کیا ہے ، وہ ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا بلکہ چچا تھا اور آپ کے والد کا نام تارخ تھا شیعہ حضرات کا یہ مسلک درست نہیں ہے سورة انعام میں صاف موجود ہے (آیت) ” واذ قال ابرھیم لابیہ ازر “۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا ، دراصل آزر اور تارخ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بڑے مندر کے پروہت تھے اس لیے ان کا لقب آزر تھا اور نام تارخ ہی تھا ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک نومسلم جس کے والدین کفر وشرک پر ہوں وہ بھی (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ کہہ کر اپنے والدین کے حق میں دعائے مغفرت کرسکتا ہے ، امام بیضاوی (رح) صاحب کشاف زمخشری اور صاحب تفسیر حسینی نے اس کی یہ توجیہہ کی ہے کہ اسے شخص کے والدین سے مراد اس کے حقیقی والدین نہیں ہوں گے جن کا خاتمہ کفر اور شرک پر ہوا ، بلکہ اس سے مراد اس کے اولین والدین حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا ہوں گے لہذا اس اصول کے تحت کوئی مسلمان اپنے غیر مسلم والدین ہونے کے باوجود دعائے مغفرت کرسکتا ہے اور اس سے مراد اولین والدین ہوں گے ، نہ کہ وہ والدین جن کے گھر میں اس کی پیدائش ہوئی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی اسی اصول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے ان کی والدہ کے متعلق تو یہ تفصیلات معلوم نہیں ، تاہم ان کے والد کے کفر وشرک میں کوئی شبہ نہیں ، تو ان کی دعائے مغفرت کی بھی یہی توجہیہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے اولین والدین حضرت آدم اور حوا کے حق میں دعا کی ۔ عرض کیا ، اے ہمارے پروردگار ! مجھے میرے والدین اور تمام ایمان والوں کی معاف کر دے جس دن قیامت برپا ہوگی اور حساب کتاب قائم ہوگا ، اس دعا میں ملت ابراہمیہ کا پورا تذکرہ آگیا ہے اس کے بنیادی اصولوں اور خصوصی نعمتوں کا تذکرہ ہوگیا ہے پہلے عام نعمتوں کا ذکر تھا ، پھر خصوصی انعامات کا ذکر ہوا ، اور محاسبہ اعمال کی بات ہوئی ، اب سورة کے آخر میں قرآن کی دعوت کو عام کرنے کا بیان ہوگا ۔
Top