Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور نہ خیال کرو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہ وہ غافل ہے ان کاموں سے جو ظالم لوگ کرتے ہیں بیشک وہ انکو مہلت دیتا ہے اس دن کے لیے کہ جس دن اوپر اٹھی رہیں گی آنکھیں ۔
(ربط آیات) پہلے قرآن کریم کی حقانیت اور قیامت کا ذکر ہوا ، پھر رسالت اور توحید کا بیان آیا ، اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہوا جن میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے قریش مکہ وعرب پر ہونے والی خاص نعمتوں کا تذکرہ کیا اور اس ضمن میں شرک اور ان کی بدعقیدگی کا ذکر کیا پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر کیا جن میں توحید کی ترغیب اور شرک سے بیزاری کا سبق ملتا ہے ، ادھر انعامات الہی کے حصول پر اس کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے اور کفر وشرک سے بڑھ کر کوئی ناشکری نہیں ، لہذا اس سے بچنا چاہئے ، پھر اللہ نے قیامت کے محاسبے کا ذکر کیا اور پھر اس ضمن میں دعائے ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر ہوا کہ اے پیغمبر ﷺ ! ! مجھے میرے والدین اور سب مومنوں کو معاف کر دے ، کل بیان کیا تھا کہ یہاں پر والدین سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) کے حقیقی والدین نہیں ہیں بلکہ ان کے اولین ماں باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا مراد ہیں مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور امام زہری (رح) کی قرات کے مطابق ” والدی “ کو ولدی ، پڑھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے ، کہ مولا کریم مجھے اور میرے دونوں بیٹوں کو بخش دے ، وہ آپ کی آخری عمر کی اولاد حضرت اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) ہیں ، اب اس قرات میں یہ اعتراض باقی نہیں رہتا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک والدین کے لیے کیوں دعا کی ، اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے محاسبہ اعمال کی منزل کا ذکر کیا ہے ۔ (ظالموں کے لیے مہلت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون “۔ اللہ تعالیٰ کو ان کاموں سے غافل نہ سمجھو جو ظالم لوگ کرتے ہیں ، ظالم لوگ کون ہیں ؟ اس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ بیشک اکثر انسان ظالم اور ناشکر گزار ہیں ، جو منعم حقیقی اور مالک حقیقی کی توحید ہیں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ، ان کافر ، مشرک اور معاصی کے مرتکب لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کارگزاری سے غافل ہے ، بلکہ وہ علیم کل ہے اور سب کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہے ، البتہ اس کا قانون یہ ہے (آیت) ” انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار “۔ وہ ان کو مہلت دیتا ہے اس دن کے لیے جب آنکھیں پتھرا جائیں گی یعنی اوپر اٹھی رہیں گی ، وہ سرکشوں کو فوری طور پر گرفت نہیں کرتا ، یہ مضمون سورة اعراف میں بھی گزر چکا ہے کہ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں (آیت) ” سنستدرجھم من حیث لا یعلمون “۔ ہم انہیں بتدریج ایسے طریقے سے پکڑیں گے جہاں سے انہیں علم ہی نہ وہ (آیت) ” واملی لھم “ میں انہیں مہلت دیتا ہوں (آیت) ” ان کیدی متین “۔ میری تدبیر بڑی مضبوط ہے لوگ قدرت کے قانون امہال و تدریج سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور گرفت کے موخر ہونے کی وجہ سے مغرور ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے ہیں ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ انہیں اس دن تک کے لیے مہلت دیتا ہے جب ان کی آنکھیں پتھرا جائیں گی اور ” مھطعین “۔ وہ دوڑنے والے ہونگے (آیت) ” مقنعی رء وسھم “۔ اپنے سروں کو اوپر اٹھائے ہوں گے ، اس حالت میں (آیت) ” لا یرتد الیھم طرفھم “۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف واپس نہیں پلٹیں گی یعنی اوپر ہی لگی رہیں گی اور نیچے کی طرف آہی نہیں سکیں گی ، اتنی تکلیف دہ حالت ہوگی ، اس کے علاوہ (آیت) ” وافدتھم ھوآئ “۔ دہشت کے مارے ان کے دل اڑے جا رہے ہوں گے ، یہ قیامت والے دن کے مناظر ہیں ، سورة فرقان میں ہے (آیت) ” ویوم تشقق السمآء بالغمام ونزل الملئکۃ تنزیلا “۔ اس دن آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے نیچے اترتے ہوئے نظر آئیں گے ، سورة النبا میں ” (آیت) ” وفتحت السمآء فکانت ابوابا “۔ اس دن آسمان کو کھول دیا جائیگا ، اور اس میں دروازے دروازے بن جائیں گے ، جہاں تک قیامت کے دن لوگوں کے دوڑنے کا ذکر ہے تو سورة القمر میں ہے (آیت) ” مھطعین الی الداع “۔ بلانے والے کی طرف دوڑتے ہوئے جائیں گے ، سورة المعارج میں ہے (آیت) ” یوم یخرجون من الاجداث سراعا “۔ اس دن قبروں سے نکل کر تیزی کے ساتھ دوڑیں گے (آیت) ” کانھم الی نصب یوفضون “۔ گویا کہ وہ شکار کے جال کی طرف دوڑتے ہیں ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ ظالموں کو اسی دن کے لیے مؤخر کیا گیا ہے یعنی اس وقت تک مہلت دیدی گئی ہے ۔ (دنیا میں واپسی کی خواہش) آگے اللہ نے حکم دیا (آیت) ” وانذر الناس یوم یاتیھم العذاب “۔ لوگوں کو اس دن سے ڈرا دیں کہ جس دن ان کے پاس عذاب آجائے گا ، اس وقت یہ لوگ حیلے بہانے کریں گے مگر وہ کچھ مفید نہیں ہوں گے ، (آیت) ” فیقول الذین ظلموا “۔ پھر کہیں گے ظالم لوگ (آیت) ” ربنا اخرنا الی اجل قریب “۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں تھوڑی دیر کیلئے مہلت دے کر دنیا میں واپس بھیج دے (آیت) ” نجب دعوتک “۔ اب ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں گے (آیت) ” ونتبع الرسل “۔ اور رسولوں کا اتباع کریں گے ، سورة المنافقون میں ہے کہ جب کسی کو موت سامنے نظر آجاتی ہے (آیت) ” فیقول رب لولا اخرتنی الی اجل قریب “۔ پھر وہ کہتا ہے کہ پروردگار ! مجھے تھوڑی دیر کیلئے مہلت دے دے (آیت) ” فاصدق واکن من الصلحین “۔ اب میں صدقہ خیرات اور نیکی کے کام کروں گا اور نیکو کاروں میں ہوجاؤں گا ، مگر ادھر سے جواب آتا ہے (آیت) ” ولن یؤخر اللہ نفسا اذا جآء اجلھا “۔ جب وقت آجاتا ہے تو پھر ایک سیکنڈ کی مہلت بھی نہیں دی جاتی اور فوری طور پر کام تمام کردیا جاتا ہے ۔ جہاں تک دعوت قبول کرنے کا تعلق ہے تو وہی دعوت ایمان ہے جو اللہ نے اپنے انبیاء کے ذریعے اپنے بندوں کو بھیجی ، جب یہ دعوت اس کے بندوں کو پہنچتی ہے تو وہ پکار اٹھتے ہیں (آیت) ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا ربکم فامنا “۔ (آل عمران) ہم نے ایمان کی دعوت دینے والے منادی کنندہ کو سن لیا اور اس کو قبول کرلیا ، اس کے بجائے ظالم لوگ کہیں گے کہ دنیا میں ہم دعوت کو قبول نہ کرسکے ، اب ہمیں ایک اور موقع دے کر دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی پیروی کرلیں ، اللہ نے بعض دوسرے مقامات پر بھی قیامت کے دن پیش آنے والے ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے مثلا سورة الم سجدہ میں ہے کہ مجرم لوگ سرجھکائے اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے اور عرض کریں گے (آیت) ” ربنا ابصرنا وسمعنا فارجعنا نعمل صالحا “۔ اے اللہ ہم نے سب کچھ دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے ، ہم نیک اعمال انجام دیں گے ، (خدا تعالیٰ کا جواب) ادھر سے اللہ تعالیٰ کا جواب آئے گا (آیت) ” اولم تکونوا اقسمتم من قبل “۔ کیا تم نے اس سے پہلے دنیا میں قسمیں نہیں اٹھائی تھیں (آیت) ” مالکم من زوال “۔ کہ تمہیں کبھی زوال نہیں آئے گا ، دنیا میں تم غرور میں مبتلا تھے اور کہتے تھے کہ ہم اسی طرح شان و شوکت کے ساتھ ہی رہیں گے ، ہمارے اقتدار کو کبھی زوال نہیں آسکتا (آیت) ” وما نحن بمعذبین “۔ ہمیں کون سزا دیگا ، سورة النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واقسموا باللہ جھد ایمانھم لا یبعث اللہ من یموت “۔ اللہ کی پختہ قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ مرنے والے کو اللہ دوبارہ نہیں اٹھائیگا اللہ فرمائے گا کیا تم وہی لوگ نہیں جو دنیا کی زندگی پر مغرور ومفتون تھے ، اور پھر جن لوگوں نے زبانی قسمیں نہیں اٹھائی تھیں ، ان کی حالت بتلا رہی تھی گویا کہ وہ اسی شان و شوکت کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مزید یہ بھی فرمائے گا کہ تم وہی لوگ ہو (آیت) ” وسکنتم فی مسکن الذین ظلموا انفسھم “۔ تم نے قوم عاد اور ثمود جیسی بڑی بڑی قوموں کی عالیشان عمارات میں رہائش اختیار کی (آیت) ” وتبین لکم “۔ اور تمہیں واضح ہوچکا تھا (آیت) ” کیف فعلنا بھم “۔ کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ، سابقہ اقوام کے انجام سے تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ قوم عاد ، ثمود ‘ قوم لوط ، قوم صالح اور قوم فرعون کے ساتھ ہم نے کیا معاملہ کیا ، یہ لوگ بڑی بڑی تہذیبوں کے وارث تھے ، بڑے کاریگر اور انجنیئر تھے مگر جب ہماری گرفت آئی تو ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا ، آج تم انہیں کے بنائے ہوئے عالیشان محلات میں رہ کر بھی ان سے عبرت نہیں پکڑتے فرمایا (آیت) ” وضربنا لکم الامثال “۔ ہم نے تمہارے سامنے ان لوگوں کو بطور مثال پیش کردیا ہے ، یہ نافرمان قومیں تھیں جنہیں اللہ نے نیست ونابود کردیا تھا کردیا ہے ، پھر تم کس بات پر مغرور ہو ، اگر تم بھی نافرمانی اور ظلم سے باز نہ آئے تو تمہارا حشر بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرما دی ۔ (کفار کی مخفی تدبیریں) فرمایا (آیت) ” وقد مکروا مکرھم “۔ انہوں نے مخفی تدبریں کر کے دیکھ لیا (آیت) ” وعنداللہ مکرھم “۔ اور ان کی تدبیریں تو اللہ کے پاس تھیں وہ جو کچھ بھی مخفی طور پر تدبیر کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا پنجابی زبان میں مکر کا معنی فریب اور دھوکہ ہوتا ہے جب کہ عربی زبان میں یہ لفظ پوشیدہ تدبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر بھی ہوتا ہے ، جیسے فرمایا (آیت) ” ویمکرون ویمکر اللہ “۔ وہ بھی مخفی تدبیر اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی تدبیر کرتا ہے ، ظالموں کی یہ مخفی تدبیریں اللہ کے انبیاء کی مخالفت میں اور قرآن پاک کے پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ سے ہوتی آئی ہیں اور آج بھی دنیا میں ہو رہی ہیں ۔ غیر مسلم اقوام نہیں چاہتیں کہ دنیا میں اللہ کا دین اور قرآن کا پروگرام غالب آئے پرانی اقوام میں سے فرعون ، نمرود ، اہل تبوک اور اہل حجر نے کیا کیا تدبیریں اختیار کیں ؟ یمن کے باشندوں اور مصریوں نے اللہ کے دین کے خلاف کیسے کیسے پروگرام بنائے ، جسمانی اور ذہنی تکالیف پہنچائیں اور لوگوں کو دین کے راستے سے روکنے کے لیے بڑے بڑے لالچ دیے اور مال صرف کیا ۔ آج بھی دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے ، یہود ، نصاری ، ہنود ، دہریے ، قرآن پاک کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں کہیں ہسپتال کھول کر لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ، اور کہیں سکول وکالج جاری کرکے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ، عورتوں اور ایڈ کی پیش کش کر کے اہل ایمان کو دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، کیا یہ بہت بڑا سانحہ نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اس سرزمین میں تیس چالیس لاکھ لوگوں کو عیسائی بنایا گیا ہے ، یہ سب ان کی مخفی تدابیر کا نتیجہ ہے مگر مسلمان اس سے بالکل غافل پڑے ہیں اور اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے مغربی ممالک میں مستشرقین کے نام پر اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں مغربی باشندوں کو مشرقی علوم کی تربیت دی جاتی ہے ، ان کی یونیورسٹیوں میں قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے ، انہیں ڈگریاں دی جاتی ہیں اور پھر انہی سے اسلام کے خلاف کتابیں اور مضامین لکھائے جاتے ہیں تاکہ لوگ دین اسلام سے محروم ہوجائیں ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ دین کا فتوی علمائے حقہ سے لینے کی بجائے یہودی اور عیسائی ماہرین علوم شرقیہ کی طرف رجوع کرنے لگیں اور اس طرح اسلام کا پروگرام تہ وبالا ہوجائے ۔ ّ (مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ) کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہندو ، عیسائی اور یہودی تو اپنے مذہب پر کاربند ہیں مگر مسلمان اپنے سچے دین سے غافل ہیں ہندوؤں نے اپنے مبلغ مغربی ممالک میں بھیج رکھے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے امریکن ہندومت قبول کرچکے ہیں مگر مسلمان اپنے حال میں مست ہیں ۔ انہیں اپنے دین کی کوئی فکر نہیں ، اگر تبلیغ کے نام پر کوئی بیرون ملک جاتا ہے تو وہ انہی کے رنگ میں رنگ کر رہ جاتا ہے ، اور اپنی بات کو بھول جاتا ہے ، امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے وضائف پانے والے مسلمان کتنے ہیں جو اپنا ایمان سلامت لے کر واپس آتے ہیں مسلمانوں کے پاس وسائل موجود ہیں مگر صلاحیت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج ساری دنیا میں انحطاط کا شکار ہیں ، یہ سب کافروں کی باریک تدبیروں کا نتیجہ ہے ۔ فرمایا ان کافر کی تدبیریں اتنی بڑی بڑی تھیں (آیت) ” ان کان مکرھم لتزول منہ الجبال “۔ کہ ان کی وجہ سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائینگے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بقاء کی خاطر انہیں ناکام کیا ، پہاڑون کو سرکا دینے والی محض تدابیر بھی کارگر نہ ہو سکیں ، انگریزوں نے قرآن پاک کے متن میں تغیر وتبدل کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے ، انہیں بعد میں پتہ چلا کہ قرآن ایک معجزہ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ، ایک اندازے کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی ایک ارب کی آبادی میں کم وبیش ایک کروڑ حافظ قرآن موجود ہیں اگرچہ مسلمان قومی اور اخلاقی لحاظ سے تنزل کا شکار ہیں مگر پھر بھی قرآن کو کوئی نہیں ہٹا سکتا حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ تو وہ کتاب ہے جس کو نہ پانی دھو سکتا ہے اور نہ آگ جلا سکتی ہے ، یہ مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے ، آج ساری دنیا میں انجیل کا ایک بھی حافظ موجود نہیں مگر قرآن کے حافظ آپ کو چپے چپے میں ملیں گے ، لہذا اغیار کی مخفی تدبیریں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔
Top