Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب خبردار کیا تمہارے پروردگار نے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور زیادہ دوں گا تمہیں ، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بہت سخت ہے ۔
(ربط آیات) اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں قرآن کریم کی حقانیت کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد رسالت کا مسئلہ بیان فرمایا پہلے فرمایا کہ ہر نبی اور رسول اپنی قوم کی زبان میں مبعوث ہوتا ہے اور اسی زبان میں قوم کو خطاب کرتا ہے تاکہ کسی کا کوئی اشتباہ باقی نہ رہے ، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بطور خاص ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول بنا کر بھیجا اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کرکے کہا کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤں اور وہ تاریخی واقعات یاد دلاؤں جو باعث عبرت ونصیحت ہیں ، اللہ نے صبر اور شکر کرنے والوں کا ذکر کیا ، پھر بنی اسرائیل پر کیے گئے انعامات کا تذکرہ کیا کہ انہیں فرعون کی غلامی سے نجات دے کر صاحب اقتدار بنایا اور شریعت عطا فرمائی ۔ (مقام شکر) آج کی آیات بھی سابقہ آیات سے بسلسلہ شکر ہی مربوط ہیں ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا (آیت) ” واذ تاذن ربکم “۔ اور جب تمہارے پروردگار نے خبردار کیا (آیت) ” لئن شکرتم لازیدنکم “ اگر تم میرے انعامات کا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا ، گزشتہ آیت میں تھا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیں اور اب فرمایا کہ انعام پا کر اگر شکر گزاری کرو گے تو میں اس انعام میں مزید اضافہ کر دوں گا ، یہاں پر لام تاکیدی ہے اور ن ثقیلہ ہے یہ دونوں حروف عربی زبان میں تاکید کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا کہ شکر ادا کرنے کی صورت میں تمہیں ضرور برضرور زیادہ دونگا ، اس کسی قسم کا شک یا تردد نہیں ہونا چاہئیے ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں جسمانی روحانی ، دنیوی ، اخروی ، اندرونی ، اور بیرونی ہر قسم کی نعمتیں شامل ہیں ، انسان کا ایک ایک بال خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں گھرا ہوا ہے مگر ان میں سے کسی نعمت کا کما حقہ شکریہ ادا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ، مگر اللہ تعالیٰ کا یہ مزید انعام ہے کہ وہ انسان کے تھوڑے سے شکریہ پر راضی ہوجاتا ہے ، وگرنہ اس کے انعامات کے متعلق تو خود اس کا اپنا ارشاد ہے کہ (آیت) ” وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا “ (ابراہیم) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار ہی نہیں کرسکتے چہ جائیکہ ان سب کا شکر ادا کرسکو ، بہرحال اللہ تعالیٰ تھوڑی سی شکر گزاری پر بھی خوش ہوجاتا ہے اور انسان کو مزید انعام واکرام سے نوازتا ہے ، (انسان پر انعامات الہیہ) سعدی صاحب (رح) نے اپنی کتاب گلستان کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ہر ایک سانس کے ذریعے انسان کو اللہ کی دو نعمتیں میسر آتی ہیں جب انسان سانس کو باہر نکالتا ہے تو اس کے ذریعے جسم کے غلیظ بخارات خارج ہو کر انسان کے لیے آرام و راحت کا سبب بنتے ہیں اور جب سانس انسانی جسم کے اندر جاتا ہے تو باہر کی نسیم طیب (آکسیجن) اس کے جسم میں داخل ہو کر ممدحیات بنتی ہے ، امام ابن قیم (رح) فرماتے ہیں کہ ہر انسان چوبیس گھنٹے میں کم وبیش چوبیس ہزار سانس لیتا ہے ، انسان تو ایک سانس کا شکریہ بھی ادا نہیں کرسکتا چہ جائیکہ باقی لاکھوں اور کروڑوں انعامات الہیہ کی شکر گزاری کرے ، انسان کے ایک ایک بال میں بیشمار انعامات ہیں ، ایک گلاس پانی جو انسان پیتا ہے اس میں اللہ کی کروڑوں نعمتیں شامل ہیں جس کے نتیجے میں یہ پانی انسان کے لبوں تک پہنچتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ، وہ تھوڑے سے شکریہ پر بھی راضی ہوجاتا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے ” ان العبد اذا یا کل الاکل اویشرب شربا “۔ جب کوئی بندہ کھانا کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے اور پھر ” الحمد للہ “ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرا بندہ میری نعمت کا شکر ادا کر رہا ہے ، مگر کروڑوں انسان ہیں جو ہر وقت اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں مگر اس ذات کا شکر ادا نہیں کرتے ، انسان کی صحت کو ہی دیکھ لیں ، عافیت اور سلامتی کو دیکھیں یہ عظیم نعمتیں ہیں جن کی انسان قدر نہیں کرتا ، ان کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب ان میں سے کوئی چیز زائل ہوجائے ۔ حدیث شریف ۔ 1 (ترمذی ص 346) میں آتا ہے جس شخص کی آنکھیں ضائع ہوجائیں اور وہ اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس کی دو عزت والی چیزیں اٹھا لیں ، اس نے صبر کیا ، اب میں اسے جنت میں پہنچائے بغیر کسی چیز پر راضی نہ ہوں گا ، شرط یہ ہے کہ انسان اللہ کا شکر ادا کرتا رہے اور ناشکری کا کوئی کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے ، حضور ﷺ نے دعا ۔ 2 ( ترمذی ص 517 وابن ماجہ ص 272 وابن کثیر 167 ج 3) سکھلائی ہے ” الحمد للہ علی کل حال واعوذ باللہ من حال اھل نار “۔ ہر حالت میں اللہ رب العزت کا شکر ہے اور میں اہل دوزخ کے حال سے پناہ چاہتا ہوں ، غرضیکہ انسان کی سلامتی ، سماعت اور قوت شامہ وغیرہ ایسی نعمتیں ہیں کہ انسان کسی ایک کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا ، انسان کی عافیت کے متعلق مسند احمد کی روایت میں آتا ہے ” ما اوتی نعمۃ بعد الایمان مثل العافیۃ “۔ ایمان کے بعد کسی کو عافیت جیسی عظیم نعمت میسر نہیں ، مگر کوئی شخص اس کی قدر نہیں کرتا ، جسمانی اور مادی نعمتوں کے علاوہ اللہ نے انسان کو علم جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص کو سورة اخلاص یاد تھی حضور ﷺ نے اس سے فرمایا ، تم اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو ، اگر تمہارے پاس مال و دولت نہیں تو کوئی بات نہیں تمہیں تو سورة اخلاص جیسی عظیم نعمت حاصل ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے ” نعم الالہ علی العباد کثیر واجلھم نجابۃ الاولاد “۔ یعنی لوگوں کو اللہ کی بہت سی نعمتیں میسر ہیں اور ان میں سے بڑی نعمت یہ ہے کہ کسی کو فرمانبردار اولاد نصیب ہوجائے ، غرضیکہ ہر غریب و امیر کو لاتعداد نعمتیں حاصل ہیں اور ہر شخص پر ان کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ غرضیکہ علم ، دولت ، صحت ، اولاد اور پھر قدرتی انعام میں ہوا روشنی پانی گرمی اور سردی ، بارش ایسی نعمتیں ہیں جو اللہ نے بالکل فری عطا کر رکھی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا انتظام یہ ہے کہ جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان کو فری رکھا گیا ہے ، کھانے کے لیے توتگ ودو کرنا پڑتی ہے مگر یہ چیزیں ایسی ہیں جو مفت حاصل ہوجاتی ہیں مگر پھر بھی انسان شکر ادا نہیں کرتے ، انسان اپنے اعمال سے پانی کے ایک قطرے کی قیمت ادا نہیں کرسکتا ۔ (نعمت کا صحیح استعمال) بہرحال انسان کا فرض ہے کہ اسے نعمت میسر آئے تو زبان سے اللہ کا شکریہ ادا کرے اور شکریے کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ نے جو نعمت جس مقصد کے لیے عطا کی ہے اسے اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے ، اگر کوئی شخص نعمت کو برمحل استعمال نہیں کرنا تو یہ ناشکری کے مترادف ہوگا ، اللہ نے کانوں جیسی نعمت دی ہے ، تو ان سے اچھی باتیں سنو ، مواعظ حسنہ کی سماعت کرو ، تلاوت قرآن پاک سنو ، اگر ان کانوں سے بیہودہ گانے اور لچر باتیں سنو گے تو یہ ناشکری ہوگی ، ظاہری قواء اور جوارح ہاتھ ، پاؤں ، آنکھیں اور دماغ ہیں ، ان کا صحیح استعمال کرو گے ، تو شکر ادا ہوگا اور غلط استعمال کرو گے تو ناشکری ہوگی ، خدا نے قوت دی ہے حکومت دی ہے تو مخلوق خدا کی خدمت بجا لاؤ نہ کہ لوگوں پر ظلم کرو ، ناتوانوں کو تنگ کرو اور ضعیفوں کے مال غصب کرو ، اللہ نے مال دیا ہے تو بخل نہ کرو ، اس کی زکوۃ ادا کرو ، مستحقین کی اعانت کرو ، عدل و انصاف کو قائم کرو ، اللہ نے علم دیا ہے تو اس کو دوسروں تک پھیلاؤ یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں اور ان کا صحیح استعمال کرنے سے ان میں اضافہ ہوگا اور غلط استعمال آخرت میں وبال جان بن جائے گا ۔ (شکر بمقابلہ ناشکری) اللہ نے فرمایا کہ اگر میرا شکر ادا کرو گے تو مزید دوں گا (آیت) ” ولئن کفرتم “ اور اگر ناشکر گزاری کرو گے (آیت) ” ان عذابی لشدید “۔ تو میری گرفت بھی بہت سخت ہے ، یہاں پر کفر سے مراد کفران نعمت ہے کیونکہ یہ شکر کے مقابلے میں آیا ہے ، عام طور پر کفر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے جس کا مطلب اللہ کی وحدانیت رسولوں کی رسالت ، معاد ، اور تقدیر وغیرہ کا انکار ہوتا ہے ، تاہم یہاں پر کفران نعمت مراد ہے یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر ناقابل اعتبار نہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا ، اس وقت حضور کے پاس کھجور کا ایک دانہ تھا آپ نے وہی عطا فرما دیا ، اس شخص نے اسے قبول نہ کیا کہ ایسی معمولی چیز سے اس کی ضرورت پوری نہیں ہوگی ۔ اس شخص نے گویا کفران نعمت کیا ، اتنے میں ایک دوسرا سائل حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے اسے بھی کھجور کا ایک دانہ عطا فرمایا ، اس نے الحمد للہ کہہ کر وہ دانہ حضور ﷺ کے دست مبارک سے لے لیا ، آپ بڑے خوش ہوئے اور اپنے ایک آدمی کو بھیجا کہ ام سلمہ ؓ کے پاس جو چالیس درہم رکھے ہیں وہ اس سائل کو دے دیں ، کیونکہ یہ شخص شکر گزار ہے مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے شکر ادا کیا اس کو مزید مل گیا ، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا ، اس وقت آپ کے پاس اور تو کچھ نہیں تھا ، آپ نے پانی دم کر کے دیدیا وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اس پانی سے کون سی ضرورت پوری کریں گے کوئی روپیہ پیسہ ‘ غلہ وغیرہ مل جاتا تو ہمارا کچھ وقت گزر جاتا ، اتنے میں حضرت ابو موسیٰ اور آپ کے خاندان کے کچھ لوگ حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے بھی سوال کیا ، آپ نے فرمایا کہ فلاں لوگوں نے تو یہ پانی قبول نہ کیا تم ہی لے لو ، انہوں نے بصد شکریہ وہ پانی قبول کیا ، اس کو پیا اور جسم پر چھڑکا کہ یہ حضور کے دست مبارک سے عطا کردہ متبرک پانی ہے پیچھے خیمے میں حضرت ام سلمہ ؓ تشریف فرما تھیں ، انہوں نے کہا کہ اس پانی میں سے کچھ حصہ میرے لیے بھی رہنے دیا جائے ، بہرحال حضور ﷺ نے یہ پانی قبول کرنے والوں کو خیر و برکت کی خوشخبری بھی سنائی ، روزہ مرہ مشاہدہ میں آتا ہے ، ہم ہزاروں نعمتیں ہر وقت استعمال کرتے ہیں مگر الحمد للہ کہنے والے کتنے لوگ ہیں ؟ سورة سبا میں ، اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” وقلیل من عبادی الشکور “۔ (سبا) میرے شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں اور اکثر لوگ ناشکر گزار ہی ہیں ، نہ تو زبان سے شکر ادا کرتے ہیں اور نہ عملی طور پر حق شکر ادا کرتے ہیں ، آگے اسی سورة میں آرہا ہے (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ بیشک اکثر انسان بہت ظالم اور ناشکر گزار ہیں ۔ (ناشکری کی سزا) اللہ نے فرمایا اگر شکر ادا کرو گے تو میں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میری سزا بھی بڑی سخت ہے ، اللہ تعالیٰ کی سزا کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں ، بعض اوقات لوگوں پر سخت حاکم مقرر کردیتا ہے جو انہیں ہر وقت سزا میں مبتلا رکھتے ہیں آج مسلمان ساری دنیا میں ناشکر گزاری کی سزا بھگت رہے ہیں ، روس جیسی ظالم طاقت کا مسلمانوں کے علاقوں پر قابض ہونا سزا ہی تو ہے بلخ ، بخاری ، تاشقند اور کابل وغیرہ اسلامی ریاستیں تھیں جنہیں روس پامال کر رہا ہے ۔ 1 (اب 1991 ء سے روسی ریاستیں آزاد ہیں) مسلمانوں نے نہ تو مال و دولت کی قدر کی اور نہ ہی سلطنت کی ، یہ صرف چودھراہٹ کے لیے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے افغانستان میں ظاہر شاہ نے کیا کیا تیس پنتیس سال برباد کردیے اس کے بعد آنے والے بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں ہی کھینچتے رہے ، نہ خدا کا قانون جاری کیا اور نہ ہی مخلوق خدا کی خدمت کی ، اس کے نتیجے میں روس مسلط ہوگیا ، اور لاکھوں افغانی خانہ جنگی میں شہید ہوچکے ہیں ، یہ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمیں پاکستان پر بڑا فخر تھا کہ 13 کروڑ مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست ہے اغیار سمجھتے تھے کہ اتنی بڑی جمعیت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ، لہذا انہوں نے اس کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ، اب اس کا نام بھی ہندوانہ ہے بنگلہ دیش ، اسلامی جمہوریہ کا نام ہی ختم ہوچکا ہے ناشکری کا یہی نتیجہ ہوتا ہے ، اللہ نے دستور کے طور پر بتلا دیا کہ اگر شکر گزاری کروگے تو مزید دوں گا اور اگر ناقدری کرو گے تو سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ، نہ دین رہے گا اور نہ دنیا ، بےآبرو ہو کر رہ جاؤ گے ۔ (خدا تعالیٰ کی بےنیازی) فرمایا (آیت) ” وقال موسیٰ “ ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ان تکفروا انتم ومن فی الارض جمیعا “۔ اگر تم اور سارے اہل زمین مل کر بھی کفر کرو گے تو خدا تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے (آیت) ” فان اللہ لغنی حمید “۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے اور تعریفوں والا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے روئے زمین کے رہنے والے انسانو ! اگر تم میں سے اول آخر ، جن ، انسان سب مل کر ایک متقی آدمی کے دل کی طرح بن جائیں ، تو میری سلطنت میں ایک تنکا ، برابر بھی اضافہ نہیں کرسکتے ، اور اگر سب کے سب ایک بدترین آدمی کے دل کی طرح بن جاؤ ، تو میری سلطنت میں ایک تنکا بھر بھی بگاڑ پیدا نہیں کرسکتے ، خدا تعالیٰ تو ہر حالت میں بےنیاز اور تعریفوں والا ہے ، اگر ناشکری کرو گے تو خود ہی تباہی کے مستحق بنو گے ، تمہاری سلطنت ، سوسائٹی ، اجتماعیت ، تجارت ، سیاست ، معیشت ، غرضیکہ ہر چیز میں تباہی آئے گی اور اس کا نتیجہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔ (سابقہ اقوام کا حشر) اگلی آیت میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے کلام پر مشتمل سمجھنی چاہئے آپ نے یاد دہانی کے لیے قوم سے فرمایا (آیت) ” الم یاتکم نبؤا الذین من قبلکم “۔ کیا تمہارے پاس نہیں آئی خبر ان لوگوں کی جو تم سے پہلے گزرے ہیں ، انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناقدری کی تو ان کا کیا حشر ہوا فرمایا وہ لوگ کون ہیں (آیت) ” قوم نوح وعاد وثمود “۔ وہ قوم نوح ، عاد اور ثمود کے لوگ تھے ، قوم نوح کا حال سورة ہود میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے ، اللہ نے اپنے نبی کے ذریعے ایمان اور توحید کا پیغام بھیجا ، یہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھا ، مگر قوم نے اس کی ناقدری کی تو اس کے نتیجے میں غرق ہوگئے ، قوم عاد کے لوگوں کو اللہ نے بڑی جسمانی طاقت عطا کر رکھی تھی مگر یہ قوم کفر ، شرک ، سرکشی اور تکبر میں مبتلا تھی ، قوم ثمود کے سترہ سو شہر اور بستیاں تھیں ، یہ بڑے صناع اور کاریگر تھے ، ان کے باغات تھے ، انڈسٹری تھی ، ان کے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے مکانات لوگ آج بھی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ، ان اقوام کی تباہی کے حالات بھی سورة اعراف ، سورة یونس اور سورة ہود میں گزر چکے ہیں اللہ نے قوم عاد کو نرم ترین چیز ہوا کے ذریعہ تباہ کیا اور قوم ثمود کو چیخ اور زلزلے نے دبوچ لیا ، ان لوگوں نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی اور برے انجام کو پہنچے ، فرمایا ان کے علاوہ (آیت) ” والذین من بعدھم “۔ اور وہ لوگ اور اقوام بھی جو مذکورہ بالا قوم نوح ، عاد اور ثمود کے بعد آئے (آیت) ” لا یعلمھم الا اللہ “۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ تھے ، ان کی شخصیت کیسی تھی اور ان کے مراتب کیسے تھے یہ پوری تفصیل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، بعض اقوام کے اجمالی حالات کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے مگر تفصیلی حالات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، چناچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ یہ آیت پڑھ کر فرماتے تھے ” کذبت نسابون “۔ نسب نامے بیان کرنے والے جھوٹے ہیں ، بعض لوگ اپنا نسب نامہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ تواتر کے ساتھ ملاتے ہیں مگر ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ درمیان میں بعض اقوام ایسی گزر چکی ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا حضور ﷺ بھی اپنا نسب نامہ عدنان سے آگے نہیں لے جاتے تھے ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ عدنان سے لے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک کم از کم تیس قرن یا تیس نسلوں کا فاصلہ ہے جن کے تفصیلی حالات کوئی نہیں جانتا ، لہذا اگر کوئی شخص اپنا نسب نامہ ٹھیک ٹھیک آدم (علیہ السلام) تک پہنچانے کا دعوی کرتا ہے تو اس کی بات میں صداقت نہیں ہوگی ، امام مالک (رح) اس بات کو مکروہ خیال کرتے تھے کہ کوئی شخص اپنا نسب نامہ حضرت آدم (علیہ السلام) تک پہنچائے کیونکہ اللہ نے پوری تفصیلات کسی کو نہیں بتائیں اور نہ ہی تاریخ نے ان واقعات کو پوری طرح محفوظ کیا ہے ، بہرحال فرمایا ، کیا ان اقوام کے حالات آپ تک نہیں پہنچے کہ ان کا کیا حشر ہوا ؟ (انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے سلوک) فرمایا (آیت) ” جآء تھم رسلھم بالبینت “۔ پس آئے ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر (آیت) ” فردوا ایدیھم فی افواھھم “۔ پس لوٹائے انہوں نے ان کے ہاتھ ان کے مونہوں میں اس فعل کو کئی صورتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے ، اس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نافرمان لوگوں نے اپنے نبیوں کے ہاتھ انہی کے منہ میں ٹھونس دیے تاکہ وہ خاموش رہیں اور فریضہ تبلیغ ادا نہ کرسکیں۔ جب کسی کی زیادہ تحقیر مقصود ہوتی ہے تو پھر اسی قسم کا عمل کیا جاتا ہے کہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس کے منہ پر رکھ دیا جائے کہ خاموش رہو ، ہم تماہری بات نہیں سننا چاہتے ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے ہاتھ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے منہ پر رکھ کر ان کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہو ایک تیسرا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ڈال لیے اور ایسا کرنا دو وجوہ سے ہو سکتا ہے بعض اوقات نہایت غصے کی حالت میں کوئی شخص اپنے ہاتھ اپنے ہی منہ میں ڈال کر چباتا ہے ، منافقوں اور کافروں کے متعلق آتا ہے (آیت) ” واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ “۔ (آل عمران) وہ اپنی انگلیاں غصے کی وجہ سے چباتے تھے کہ مسلمان کیوں کامیاب ہو رہے ہیں ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان افسوس اور حسرت کی بنا پر اپنے منہ میں انگلی ڈال لیتا ہے یہ بھی درست ہے اور امام شاہ ولی اللہ اسی معنی کو ترجیح دیتے ہیں ، تاہم اس مقام پر مذکورہ سارے معنے ہی درست ہیں ۔ (خدائی پروگرام کا انکار) بالآخر ان نافرمان قوموں نے خدائی پروگرام کا صریحا انکار کردیا (آیت) ” وقالوا “۔ اور کہنے لگے (آیت) ” انا کفرنا بما ارسلتم بہ “۔ ہم اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ، تمہارا عقیدہ ، شریعت اور لائحہ عمل ہمیں ہرگز منظور نہیں ، ہم نے تمہاری توحید کو مانتے ہیں نہ رسالت کو اور نہ معاد کو (آیت) ” وانا لفی شک مما تدعوننا الیہ مریب “۔ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ، ہمیں اس میں ترددانگیز شک ہے ، ہمیں تمہاری باتوں پر یقین ہی نہیں آتا جن پرانی اقوام کا ذکر اللہ نے اس آیت میں کیا ہے انہوں نے اپنے اپنے انبیاء کو اس قسم کا جواب دیا کہ ان کے پورے پروگرام کا ہی انکار کردیا ، تاکہ اللہ کے نبی انہیں اس پروگرام کی طرف بار بار دعوت دینا بند کردیں ، یہ ان اقوام کے لوگوں کی بات بیان ہوئی ہے ، اب اگلی آیات میں اللہ کے نبیوں کا ذکر ہو رہا ہے ۔
Top