Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 90
كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ
كَمَآ : جیسے اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَي : پر الْمُقْتَسِمِيْنَ : تقسیم کرنے والے
جس طرح کہ ہم نے نازل کیا تقسیم کرنے والوں پر ۔
(ربط آیات) پہلے اللہ تعالیٰ کی دونوں شانوں یعنی اس کے غفور اور رحیم ہونے اور غضبناک ہونے کی شان کا ذکر ہوا پھر اللہ نے دونوں قسم کے لوگوں کی مثالیں بیان فرمائی جن پر اللہ کا انعام ہوا اور جن پر غضب نازل ہوا پھر آخر میں حضور خاتم النبیین ﷺ اور آپ کے متبعین کے لیے تسلی کا مضمون نازل ہوا ، مشرکین آپ کے اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ نہایت غلط قسم کا سلوک کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ دل برداشتہ ہوتے تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی بھی دی ، اور ساتھ یہ بھی اشارہ کردیا کہ نافرمان لوگ بالآخر ناکام ہوں گے ، اس ضمن میں قوم لوط کی ناہنجاری کا ذکر فرمایا ، اہل حجر کی بات کی کہ کس طرح انہوں نے اللہ کے سچے نبی اور سچے دین کی مخالفت کی ، اہل ایمان کو اذیت پہنچائی تو اللہ نے انکو سزا میں مبتلا کیا ، مطلب یہ کہ جس طرح سابقہ انبیاء کے مخالفین تباہ وبرباد ہوئے اسی طرح آپ کے مخالفین بھی اللہ کے غضب سے بچ نہ سکیں گے ۔ (کتب الہیہ کی تقسیم) اب اللہ نے اس بات کو ایک مثال یا تشبیہ کے طور پر سمجھایا ہے (آیت) ” کما انزلنا علی المقتسمین “۔ جیسا کہ ہم نے اتارا (عذاب) تقسیم کرنے والوں پر مقتسیم تقسیم کے مادے سے بھی ہو سکتا ہے اور قسم کے مادے سے بھی اور ا س مقام پر دونوں معنی درست ہیں البتہ تقسیم والا معنی زیادہ معروف ہے (آیت) ” الذین جعلوا القرآن عضین “۔ وہ تقسیم کرنے والے جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ، اگر قرآن سے اللہ کی یہی کتاب مراد لی جائے جیسا کہ متبادر ہے تو تقسیم کرنے والے مشرکین مکہ ہیں جنہوں نے قرآن کو تقسیم کردیا تھا یعنی وہ کتاب الہی کے ساتھ غلط باتیں منسوب کرتے تھے ، کوئی کہتا یہ شاعری ہے ، کوئی اسے سحر بتاتا اور کوئی اسے (آیت) ” اساطیر الاولین “۔ (الانفال) پرانے لوگوں کی قصے کہانیاں کہتا ، بعض لوگوں نے قرآن کو تمسخر کے طور پر اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ سورة بقرہ کو میں سنبھال لوں گا تم ذرا سورة الفیل سے نپٹ لو ، کوئی کہتا مائدہ میرے ذمے رہنے دو اور انعام فلاں کے ذمے لگا دو ، علی ہذا القیاس انہوں نے قرآن پاک کی سورتوں کو مذاق کے طور پر تقسیم کردیا تھا ، تقسیم کی ایک صورت یہ بھی اللہ نے سورة مائدہ میں ذکر کی ہے کہ بعض اوقات مشرکین اپنے مقدمات حضور ﷺ کی خدمت میں فیصلہ کے لیے بھیج دیتے اور ساتھ ہی فریق مقدمہ کو کہہ دیتے کہ اگر فیصلہ تمہاری مرضی کے مطابق ہوا تو قبول کرلینا ورنہ چھوڑ دینا ، ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم “۔ (المائدہ) یعنی ایسا شخص دنیا میں بھی ذلیل ہوگا اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب عظیم ہوگا ، بڑے بڑے صنادید قریش تھے جنہیں اللہ نے اسی دنیا میں ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مشرکین نے آپس میں درے اور راستے تقسیم کر رکھے تھے تاکہ حضور ﷺ کے پاس جانے والے لوگوں کو راستے میں ہی روک دیا جائے ، آپ کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ، آپ کو نعوذ باللہ ساحر اور دیوانہ کہہ کر لوگوں کو آپ کی ملاقات سے روکتے ، ایک دفعہ عربوں کا مشہور شاعر اعشی حضور کی خدمت میں حاضری کے لیے مکہ آیا یہ شخص سناجۃ العرب یعنی عربوں کا باجہ کہلاتا تھا ، اس کی زبان سے نکلی ہوئی بات ضرب المثل بن جاتی تھی ، قریش مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر اس نے حضور ﷺ کی شان میں کوئی قصیدہ کہ دیا تو پھر آپ کا راستہ روکنا ناممکن ہوجائے گا لہذا انہوں نے تدبیر کی کہ کس طرح اغشی حضور ﷺ سے ملاقات نہ کرسکے ، چناچہ انہوں نے اناج سے لدا ہوا ایک سو اونٹ اسے رشوت میں اس لیے پیش کیا کہ وہ حضور ﷺ سے ملاقات نہ کرے ، وہ شخص اونٹ لے کر اپنے وطن یمن چلا گیا اور آپ سے ملاقات نہ کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے آئمۃ الکفر کو دنیا میں ہی سزا دی چناچہ بعض جنگ بدر میں مارے گئے کوئی آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر جہنم واصل ہوا کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا جس کا زہر سارے جسم میں سرایت کر گیا اور وہ شخص ہلاک ہوگیا ، بہرحال جن لوگوں نے قرآن پاک کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ، اللہ نے ان پر طرح طرح کا عذاب نازل فرمایا ۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس مقام پر قرآن سے مراد اللہ کی آخری کتاب نہیں بلکہ اس سے مراد پہلی کتابیں تورات انجیل وغیرہ ہیں اور ان کو تقسیم کرنے والے ان کے حاملین یہود اور نصاری ہیں ، ان لوگوں نے اپنی مذہبی کتابوں کو اس طرح تقسیم کردیا کہ ان کے کسی حکم کو مان لیا اور کسی کا انکار کردیا جیسا کہ سورة بقرہ میں موجود ہے (آیت) ” افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض “۔ کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو ، ایسے لوگوں کے عذاب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار ذکر کیا ہے کہیں فرمایا کہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے ، کہیں فرمایا کہ چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتے رہے ، کبھی یہ باہمی عداوت وپیکار میں مبتلا ہوئے اور کبھی ان کو دوسری اقوام نے پامال کیا ۔ اگر مقتسم قسم کے مادے سے ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جس طرح ہم نے قسمیں اٹھانے والے لوگوں پر عذاب نازل فرمایا ایسے لوگوں کا ذکر بھی اللہ نے مختلف سورتوں میں کیا ہے ، اصحاب حجر یعنی قوم ثمود کے لوگ بھی قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ ہم صالح (علیہ السلام) کو زندہ نہیں چھوڑیں گے سورة النحل میں موجود ہے (آیت) ” قالو تقاسموا باللہ لنبیتنہ واھلہ “۔ شہر کے نوفسادی آدمیوں نے کہا کہ خدا کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو صالح (علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے یعنی ان سب کو ہلاک کردیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے خود انہیں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ، تو اللہ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے قسمیں اٹھانے والوں پر عذاب نازل کیا ، اسی طرح ان لوگوں پر نازل کریں گے جو خاتم النبیین ﷺ کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ (لازمی باز پرس) قرآن پاک کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرنے والے ہوں یا دین حق کی قسمیں اٹھا کر مخالفت کرنے والے اللہ نے فرمایا (آیت) ” فوربک “ تیرے پروردگار کی قسم (آیت) ” لنسئلنھم اجمعین “۔ ہم ان سب سے ضرور باز پرس کرینگے ، (آیت) ” عما کانوا یعملون “ اس بارے میں جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ، اس مقام پر تو منکرین ومکذبین سے سوال جواب کا ذکر ہے مگر بعض مقامات پر بغیر باز پرس ہی جہنم رسیدگی کی وعید سنائی گئی ہے جیسے سورة الرحمن میں ہے (آیت) ” فیومئذ لا یسئل عن ذنبہ انس ولا جآن “۔ اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائیگا بلکہ (آیت) ” یعرف المجرمون بسیمھم فیؤخذ بالنواصی والاقدام “۔ مجرم لوگ اپنے چہروں سے ہی پہچانے جائیں گے اور انہیں سر کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹ کرلے جایا جائے گا ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے حشر کے میدان میں کئی واقعات پیش آئیں گے بعض مواقع پر انسان سے شدید باز پرس ہوگی اور بعض مواقع پر بغیر پوچھے مجرمین کو پکڑ کرلے جایا جائیگا امام ابوبکر رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر سوال کرنے سے مراد محض باز پرس نہیں بلکہ سخت ڈانٹ ڈپٹ مراد ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی شخص کو قدم نہیں اٹھانے دیا جائے گا جب تک وہ ان سوالوں کا جواب نہ دے لے کہ اس نے عمر کے شباب کے حصے کو کہاں خرچ کیا دنیا میں مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا وغیرہ ، اسی طرح یہاں پر بھی فرمایا ہے کہ ان سب سے ہم ضرور سوال کریں گے ان تمام کاموں کے متعلق جو وہ دنیا میں انجام دیتے رہے ۔ (حضور ﷺ کے لیے تسلی) آگے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے خطاب فرمایا ہے (آیت) ” فاصدع بما تؤمر “۔ پس آپ واضح طور پر پہنا دیں جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے صدع دراصل اس برتن کو کہتے ہیں جو ٹوٹ جائے اور اس کے دوبارہ جڑنے کا امکان نہ ہو ، تو یہاں پر مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کی توحید کا واضح طور پر دو ٹوک اعلان کردیں اور اس میں کسی قسم کی رورعایت نہ رکھیں (آیت) ” واعرض عن المشرکین “ اور مشرکوں سے اعراض کریں ، آپ انکی پروا نہ کریں کہ وہ کیا کرتے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ، وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ (آیت) ” انا کفینک المستھزئین “۔ ہم آپ کو کفایت کریں گے ٹھٹا کرنے والوں کے شر سے یعنی ان کے شر کے اثرات آپ تک نہیں پہنچنے دیں گے سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے ، (آیت) ” فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم “۔ اللہ تعالیٰ ہی آپ کی کفایت کریگا کیونکہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے آپ ٹھٹا کرنے والوں کی بالکل پرواہ نہ کریں۔ اور استہزاء کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ (آیت) ” الذین یجعلون مع اللہ الھا اخر “۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے ۔ کوئی ان کا سفارشی ہے ، کوئی معبود ، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ، فرمایا (آیت) ” فسوف یعلمون “۔ وہ عنقریب جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی ہذ ہے نہ شریک اور نہ ہی اس کے سوا کوئی معبود ہے فرمایا (آیت) ” ولقد نعلم انک یضیق صدرک بمایقولون “۔ البتہ تحقیق ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو یہ مشرکین کرتے ہیں ، یہ لوگ کفر شرک کی باتیں کرتے ہیں ، آپ پر طعن اور استہزاء کرتے ہیں ، آپ کی شان میں بےادبی کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کے قلب مبارک کو بہت اذیت پہنچتی ہے ، آپ کو رنج ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ہے کہ آپ زیادہ فکر نہ کریں ، جب آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے اور وہ اسے شدت سے رد کردیتے تو پھر بھی آپ کی طبع پر بہت گراں گزرتا آپ بنی نوع انسان کے لیے سب سے زیادہ خیرخواہ تھے اور لوگوں کو بےلوث ایمان اور فلاح کی دعوت دیتے تھے (آیت) ” یایھا الناس قولوا لا الہ اللہ تفلحوا “۔ لوگو ! کہہ دو ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، فلاح پاجاؤ گے ، یہ تو تمہارے ہی فائدے کی بات ہے مگر اتنی خیر خواہی کا جواب جب شروفساد سے ملتا تو حضور ﷺ کا دل بڑا تنگ ہوتا ، اسی لیے تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا “۔ (الکہف) اے پیغمبر ﷺ ! اگر یہ لوگ اس کلام الہی پر ایمان نہ لائیں تو شائد آپ گلا گھونٹ کر ہلاک ہوجائیں ۔ فرمایا اس قدر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ کا فرض یہ ہے (آیت) ” بلغ ما انزل الیک من ربک “۔ (المائدۃ) جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے آپ اسے بلاکم وکاست آگے پہنچا دیں کیونکہ (آیت) ” فانما علیک البلغ وعلینا الحساب “۔ (الرعد) خدا کا پیغام پہنچا دینا اور لوگوں کو سمجھا دینا آپ کا کام ہے ، اور ان سے حساب لینا ہمارا ذمہ ہے (آیت) ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “۔ (البقرہ) اہل دوزخ کے متعلق آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیوں دوزخ میں گئے ، بلکہ اپنی کارکردگی کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے اور اس بارے میں انہی سے سوال ہوگا آپ صرف اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے چلے جائیں ۔ بہرحال مشرکین کی بدسلوکی پر حضور ﷺ کے دل کی تنگی قدرتی بات تھی ہر نبی امت کا خیر خواہ ہوتا ہے حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم عاد سے یہی کہا تھا (آیت) ” ابلغکم رسلت ربی وانا لکم ناصح امین “۔ (الاعراف) میں تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ اور امانتدار بھی ہوں ، اس میں میرا ذاتی کوئی مفاد نہیں بلکہ تمہاری خیر خواہی مقصود ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی قوم کو اس طرح خطاب فرمایا اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے (آیت) ” ونصحت لکم “ اور تمہاری خیر خواہی کردی ہے ، (آیت) ” فکیف اسی علی قوم کافرین “۔ (الاعراف) اب میں تمہاری ہلاکت پر کیسے افسوس کا اظہار کروں ۔ ؟ (تسبیح وتحمید) آگے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ان کے قلب وصدر کی تنگی کا علاج بھی بتایا ہے آپ پریشان نہ ہوں (آیت) ” فسبح بحمد ربک بلکہ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید بیان کریں ، اس کی پاکی اور حمد بیان کریں (آیت) ” وکن من السجدین “۔ اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں یعنی آپ کثرت سے نماز پڑھیں ، چناچہ ترمذی اور ابوداؤد کی روایت میں آتا ہے کہ جب کبھی حضور ﷺ کو سخت پریشانی لاحق ہوتی تو آپ فورا نماز کی طرف رجوع کرتے ، پریشانی کا علاج نماز ہے کیونکہ اس کے ذریعہ تعلق باللہ قائم ہوتا ہے اور جس قدر تعلق باللہ مضبوط ہوگا اسی قدر مصائب کم ہوجائیں گے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوگی اور دل میں تسکین پیدا ہوگی کہ دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہی ہے تو فرمایا آپ اللہ کی تسبیح یعنی پاکی بیان کریں اس کی تعریف کریں اور نماز کی کثرت رکھیں ، (آخر دم تک عبادت) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ فرمائی ہے (آیت) ” واعبد ربک “۔ اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیں مسلسل بندگی میں لگے رہیں (آیت) ” حتی یاتیک الیقین “۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین آجائے عربی زبان میں یقین کا اطلاق موت پر بھی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ آپ آخر دم تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں ، موت ایک یقینی امر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد بھی ہے (آیت) ” کل نفس ذائقۃ الموت “۔ (آل عمران) ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس سے اللہ کا نبی بھی مستثنی نہیں ہے ، ہر جاندار کو اس کھٹن گھاٹی سے گزرنا ہے ، متبی شاعر کہتا ہے کہ ہر چیز میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر موت ایک ایسی چیز ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں ، اس پر سب کو یقین ہے ” الموت اصدق والحیوۃ غرور “۔ موت یقینی چیز ہے اور زندگی محض دھوکا ہے انسان کے گلے میں زندگی کا جو دھاگا لٹک رہا ہے یہ بالکل کمزور ہے اور کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے ، لہذا فرمایا کہ زندگی کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں یہ تسلی کا مضمون بھی ہوگیا ۔ سورة کی ابتداء میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا مضمون تھا پھر توحید اور اس کے دلائل بیان ہوئے اس کے بعد خدا تعالیٰ کی شان رحمت اور شان غضب کا ذکر ہوا پھر نافرمان قوموں کی سزا کی طرف اشارہ کیا اور آخر میں تسلی کے مضمون پر اس سورة کو ختم کیا ہے ۔
Top