Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ : جو كَفَرَ : منکر ہوا بِاللّٰهِ : اللہ کا مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِيْمَانِهٖٓ : اس کے ایمان اِلَّا : سوائے مَنْ : جو اُكْرِهَ : مجبور کیا گیا وَقَلْبُهٗ : جبکہ اس کا دل مُطْمَئِنٌّۢ : مطمئن بِالْاِيْمَانِ : ایمان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّنْ : جو شَرَحَ : کشادہ کرے بِالْكُفْرِ : کفر کے لیے صَدْرًا : سینہ فَعَلَيْهِمْ : تو ان پر غَضَبٌ : غضب مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيْمٌ : بڑا عذاب
جس شخص نے کفر کیا اللہ کے ساتھ بعد ایمان لانے کے مگر وہ شخص کہ جس کو مجبور کیا گیا اور اس کا دل مطمئن تھا ایمان کے ساتھ لیکن (گناہ اس پر ہے) جس نے دل کھول کر کفر کیا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے
ربط آیات : گذشتہ آیات میں رسالت کے علاوہ قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا ذکر تھا ، یہ اللہ کا کلام ہے ، جسے جبرائیل امین نے اللہ کی جانب سے پیغمبر ﷺ پر نازل فرمایا مشرکین بہتان لگاتے تھے کہ قرآن پاک منجانب اللہ نہیں بلکہ ایک عجمی شخص سے سیکھ کر آپ اسے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، اللہ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن حکیم تو فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہے بھلا ایک عجمی آدمی یہ کیونکر پیش کرسکتا ہے حالانکہ وہ تو اپنا مافی الضمیر بھی عربی زبان میں پوری طرح بیان نہیں کرسکتا ، اللہ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ایسا افتراء وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اکراہ واضطرار کی حالت کے مسائل کا تذکرہ کیا ہے ، اگرچہ کلمہ کفر کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں ہے ، تاہم اگر کوئی شخص مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کی خاطر اپنی زبان پر کلمہ کفر لاتا ہے تو وہ شخص کافر یا مرتد نہیں ہوجاتا بشرطیکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو ، ایسے شخص کو کفر کا کلمہ کہنے کی وقتی طور پر رخصت ہوگئی ۔ (وقتی طور پر رخصت) تاریخ اسلام ان واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں مشاہیر اسلام نے بیشمار ذاتی قربانیاں دے کر کلمہ حق کو بلند رکھا حضرت عمار بن یاسر ؓ کا واقعہ مشہور ہے ، کفار نے آپ کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا ، حتی کہ جان سے مار دینے کی دھمکی دی آپ نے مجبور کی حالت میں کفار کی بات مان لی جان چھڑا کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا ماجرا کہہ سنایا ، آپ نے فرمایا (آیت) ” کیف تجد قلبک “۔ تمہارے دل کی کیفیت کیسی ہے زبان سے کلمہ کفر ادا کرنے کے باوجود دل دین پر مطمئن ہے یا نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا حضور ! دل تو بالکل مطمئن ہے ، فرمایا کوئی بات نہیں (آیت) ” ان عادوا فعد “۔ اگر دوبارہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے گا اور کافر تمہیں مجبور کردیں تو تم اسی طریقے سے اپنی جان بچا سکتے ہو ، امام ابوبکر جصاص (رح) اپنی تفسیر ” احکام القرآن “ میں رقم طراز ہیں کہ خواہ جان کا خطرہ ہو یا جسم کے کسی عضو کے کٹ جانے کا ڈر ہو ، متعلقہ شخص کو کفار کی بات ماننے کی صرف رخصت ہے ، البتہ بلند درجہ یہ ہے کہ انسان حق کی بات پر ڈٹ جائے خواہ اس کے لیے شہادت ہی کیوں نہ قبول کرنی پڑے ۔ (دین کی خاطر قربانیاں) حضور ﷺ کے صاحب عزیمت صحابہ میں سے حضرت بلال ؓ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ، آپ کو کفار نے مجبور کیا ” ارجع “ یعنی اسلام کو چھوڑ کر پرانے دین میں واپس آجاؤ ، آپ نے جواب دیا ” لا ارجع “ یعنی میں واپس نہیں پلٹوں گا ، کفار کفر کا کلمہ کہلوانا چاہتے تھے مگر آپ احد احد ہی پکارتے رہے ، آپ کو گرم ریت پر لٹا کر اوپر پتھر رکھا تھا گیا ، آپ کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا گیا ، مگر آپ اللہ اللہ کا ورد ہی کرتے رہے اور کلمہ کفر زبان پر نہ لائے آپ نے فرمایا کہ کفار اللہ کے نام سے چڑتے ہیں ، اگر مجھے کوئی کلمہ بھی معلوم ہو جس سے یہ چڑتے ہیں تو میں وہ بھی زبان پر لانے سے نہیں رکوں گا ، حضرت بلال ؓ نے کمال عزیمت کا مظاہرہ کیا ، سخت ترین جسمانی سزائیں برداشت کیں مگر کفر کا کلمہ نہ کہا ، اگرچہ آپ شہید نہیں ہوئے مگر آپ نے دین کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دی ، حضرت عمار ؓ کے والد حضرت یاسر ؓ کا بھی یہی حال تھا ، وہ سخت ترین سزائیں برداشت کرتے ہوئے شہید ہوگئے ، مگر کفر کا کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے ، آپ کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کی دونوں ٹانگیں دو مختلف اونٹوں کے ساتھ باندھ دی گئیں ، پھر ابوجہل نے ان کے مقام مخصوصہ میں نیزہ مار کر آپ کو ہلاک کردیا اور اللہ نے انہیں بلند ترین مرتبہ عطا فرمایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت خبیب ابن زید انصاری ؓ کسی طرح مسیلمہ کذاب کے ہاتھ آگئے مسیلمہ کذاب کہنے لگا کیا تم محمد ﷺ کی رسالت کو مانتے ہو ؟ آپ نے فرمایا ، وہ اللہ کے رسول ہیں اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں ، پھر مسیلمہ کذاب نے پوچھا کہ میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کیا مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو ؟ حضرت خبیب ؓ نے فرمایا کہ یہ بات تو میں سننے کے لیے بھی تیار نہیں چہ جائیکہ تمہاری رسالت کا اقرار کروں کہنے لگا میں تمہارا ایک ایک عضو کاٹ کر ہلاک کر دوں گا ، فرمایا تو جو چاہے کر ، غرضیکہ آپ کا جوڑ جوڑ کاٹ کر آپ کو شہید کردیا گیا ، مگر آپ کلمہ کفر زبان پر نہ لائیے ۔ حضرت خبیب ؓ کا واقعہ بھی بڑا مشہور ہے ، کافروں نے کفر کا کلمہ کہلوانا چاہا سولی پر چڑھانے کی دہمکی دی مگر آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور فرمایا اللہ کے راستے میں اسی کی عطا کردہ جان قربان کردینا کوئی بڑی بات نہیں ، میں اس کے لیے تیار ہوں ، چناچہ آپ کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا گیا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت خبیب ؓ اور حضرت زید ابن دسنہ ؓ کو کافروں نے ایک ہی دن شہید کیا شہادت سے پہلے انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں سلام بھیجا کہ اے اللہ ! ہمارا سلام ہمارے پیارے نبی ﷺ تک پہنچا دے جب یہ پیغام حضور ﷺ کو ملا تو آپ نے دونوں کے لیے وعلیکم السلام کہا ۔ (عبداللہ بن حذیفہ ؓ کا ایمان) امام ابن کثیر (رح) نے حافظ ابن عساکر (رح) کے حوالہ سے اپنی تفسیر میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذیفہ سہمی ؓ اور آپ کے بعض ساتھی رومیوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے ان کے قیدی بن گئے ، انہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا ، تو اس نے آپ کو دین سے پھیرنے کے لیے لالچ دینے کی کوشش کی ، کہنے لگا اگر دین اسلام چھوڑ کر عیسائیت قبول کرلو تو میں تمہیں نہ صرف اپنی حکومت میں شریک کرلوں گا ، بلکہ ” ازوج بنتی “۔ اپنی بیٹی کا نکاح بھی تجھ سے کر دوں گا ، آپ نے فرمایا اگر تم اپنا سارا ملک اور پورا عرب بھی مجھے دیدو تو میں آنکھ جھپکنے کی مقدار بھی محمد ﷺ کے دین سے پلٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں ، بادشاہ نے حکم دیا کہ آپ کو سولی پر چڑھا کر ہلاک کردیا جائے ، آپ نے فرمایا ، اللہ کے راستے میں ہلاک ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ، میں اس کے لیے تیار ہوں ، پھر بادشاہ نے تانبے کی ایک بہت بڑی دیکھ منگوائی بعض روایات میں تانبے کا بنا ہوا گائے کا بہت بڑا مجسمہ بھی آتا ہے ، بہرحال اس دیگ یا گائے میں تیل یا کوئی اور چیز ڈال کر اسے خوب گرم کیا گیا ، پھر آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو اس تیل میں پھینک دیا گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم جل کر کوئلہ بن گیا اور اس کی ہڈیاں زائل ہونے لگیں ، اس کے بعد پھر حضرت عبداللہ ؓ سے کہا کہ مان جاؤ ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہونے والا ہے آپ نے فرمایا کہ میں ایک لحظہ بھر کے لیے بھی دین حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں بادشاہ نے پھر حکم دیا کہ اسے سولی پر چڑھا کر اسکے دائیں بائیں تیر چلاؤ ، مگر آپ پھر بھی اپنے ایمان پر قائم رہے ، بادشاہ نے سولی سے اتروا لیا اور کہا کہ اسے تپتی ہوئی دیگ میں پھینک دو آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بادشاہ نے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا کہ شاید تم اپنا دین چھوڑ کر نصرانی بننے پر تیار ہوگئے ہو ، حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا میں اپنی جان کے اتلاف کے تصور سے نہیں روتا ، بلکہ اس لیے رو رہا ہوں کہ اللہ نے مجھے ایک ہی جان دی ہے جو میں اس کے راستے میں قربان کررہا ہوں اگر میری ہزار جانیں بھی ہوتیں تو ایک ایک کرکے اللہ کے نام پر قربان کردیتا ، اس پر بادشاہ نے اپنے قریب بلا کر کہا کہ اگر تم میری پیشانی کو بوسہ دے دو تو تمہیں رہا کر دوں گا ، ۔ فرمایا اس کام کے عوض میں اپنے سارے ساتھیوں کی رہائی چاہتا ہوں ، بادشاہ نے یہ شرط قبول کرلی ، حضرت عبداللہ ؓ نے بادشاہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور پھر اپنے لشکر کے ہمراہ رہائی پاکر واپس آگئے حضرت عمر ؓ کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! سب سے پہلے میں عبداللہ ؓ کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہوں تم بھی ایسا کرو ، پھر سب لوگوں نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا ۔ (اضطراری حالت کے مسائل) اب مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ عزیمت تو اسی میں ہے کہ انسان کفر کا کلمہ کہنے کی بجائے شہادت قبول کرے ، مگر مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی ” تفسیر مظہری “ میں لکھتے ہیں کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب جان جانے کا خطرہ ہو تو انسان کلمہ کفر زبان سے ادا کرسکتے ہے بشرطیکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو ، یہ اجازت ہے اگرچہ عزیمت اس کے خلاف ہے ، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو مجبور کیا جائے کہ دوسرے مسلمان کا مال تلف کر دو ورنہ جان سے مار دیے جاؤ گے یا تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے ، تو ایسے شخص کے لیے گنجائش ہے کہ وہ دوسرے بھائی کا مال تلف کر کے اپنی جان بچا لے ، ایسی صورت میں اگر انصاف والی حکومت ہوگی تو مجبور کرنے والے شخص سے ضمانت لی جائیگی ، اگر یہ ممکن نہ ہو تو مال تلف کرنے والا مسلمان بھی مال کا ازالہ کرسکتا ہے مگر اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالے ، ہاں اگر کوئی دوسرے مسلمان کی جان تلف کرنے پر مجبور کرے تو پھر مسئلہ یہ ہے کہ مجبور آدمی اپنی جان کو دوسرے کی جان پر ترجیح نہ دے بلکہ خود ہلاک ہوجائے اور دوسرے مسلمان کی جان کے درپے نہ ہو ، اسی طرح اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ فلاں عورت سے زنا کرو ورنہ تمہاری جان مار دی جائے گی تو اس کی بھی اجازت نہیں ، اللہ کے نزدیک مسلمان عورت کی عزت وآبرو بڑی اہم ہے ، لہذا ایسا شخص اپنی جان پر کھیل کر مسلمان عورت کی عزت کو بچا لے ۔ (عزیمت اور رخصت) ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” من کفر باللہ من بعد ایمانہ “۔ جس ن کفر کیا اللہ کے ساتھ ایمان لانے کے بعد (آیت) ” الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان “۔ مگر وہ جس کو مجبور کیا گیا حالانکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن تھا (آیت) ” ولکن من شرح بالکفر صدرا “۔ لیکن گناہ اس پر ہے جس نے سینہ کھول کر کفر کیا (آیت) ” فعلیھم غضب من اللہ “۔ ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے (آیت) ” ولھم عذاب عظیم “۔ اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے مطلب یہ ہے کہ مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے تو کلمہ کفر کہا جاسکتا ہے بشرطیکہ دل مطمئن ہو مگر جو کوئی دل کی گہرائی سے کلمہ کفر ادا کرے ، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت سزا کا مستوجب ہوگا ۔ فرمایا (آیت) ” ذلک بانھم استحبوا الحیوۃ الدنیا علی الاخرۃ “۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا اور کفر کا کلمہ زبان سے ادا کیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے (آیت) ” وان اللہ لا یھدی القوم الکفرین “۔ کہ اللہ تعالیٰ کافر قوم کو راہ نہیں دکھاتا صراط مستقیم اسی کے حصے میں آتا ہے جس میں طلب اور خواہش ہو ، اور جو کوئی کفر پر مصر ہو اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی ، ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم “۔ ان کے دلوں پر اللہ نے مہر کردی ہے ، ان کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، (آیت) ” وسمعھم “۔ اور ان کے کان بندہو چکے ہیں کہ حق بات کو سنتے ہی نہیں ، سنتے ہیں تو گوارا نہیں کرتے (آیت) ” وابصارھم “۔ اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑچکے ہیں سورة بقرہ میں ہے (آیت) ” وعلی ابصارھم غشاوۃ غرضیکہ وہ حق بات کو دیکھنے سے قاصر ہیں ، یہ ان کے کلمہ کفر کہنے کی وجہ سے ہے فرمایا (آیت) ” واولئک ھم الغفلون “۔ اور یہی لوگ غافل ہیں دنیا کی زندگی کو پسند کرکے خواہشات نفسانیہ پر چلنے والے لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (آیت) ” لاجرم انھم فی الاخرۃ ھم الخسرون “۔ ضرور برضرور یعنی یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ یہ لوگ آخرت کی زندگی میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ثم ان ربک للذین ھاجروا من بعدھا فتنوا “۔ پھر بیشک تمہارا پروردگار فتنے میں ڈالے گئے مہاجرین (آیت) ” ثم جھدوا وصبروا “۔ پھر جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور مصائب وآلام پر صبر کیا (آیت) ” ان ربک من بعدھا لغفور رحیم “۔ بیشک تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لیے البتہ بہت بخشش کرنے والا اور از حد مہربان ہے ، اگر ان سے کوئی معمولی لغزش ہو بھی گئی ، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور وسیع رحمت سے ان کو معاف فرما دیگا ، ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کمزور لوگوں کو تسلی بھی دیدی ہے ۔
Top