Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى
: اور ڈالے (رکھے)
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں۔ پر
رَوَاسِيَ
: پہاڑ
اَنْ تَمِيْدَ
: کہ جھک نہ پڑے
بِكُمْ
: تمہیں لے کر
وَاَنْهٰرًا
: اور نہریں دریا
وَّسُبُلًا
: اور راستے
لَّعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَهْتَدُوْنَ
: راہ پاؤ
اور رکھ دیے اس نے زمین میں بوجھل پہاڑ تاکہ زمین تمہارے مضطرب نہ ہو اور (اس نے چلا دیں) نہریں ، اور (بنا دیے ) راستے تاکہ تم راہ پاؤ ۔
(ربط آیات) سورة ہذا کی ابتداء میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر وحی نازل فرما کر انہیں انذار کا حکم دیا ، اور فرمایا (آیت) ” انذروا انہ لا الہ الا انا “۔ لوگوں کو ڈرا دو اور خبردار کر دو میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دلائل قدرت بیان فرمائے اور مخلوق کو عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کیا جن میں ہر نعمت اللہ کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہے ، دلائل قدرت میں سے ارض وسما کی پیدائش ، انسان کی قطرہ آب سے تخلیق ، جانوروں کی پیدائش اور ان کے فوائد بارش کا نزول ، باغات اور نباتات کی تخلیق ، لیل ونہار اور شمس وقمر کی تسخیر ، ستاروں کی تسخیر ، سمندروں سے حاصل ہونے والے موتی اور تازہ گوشت اور پھر ان میں ہونے والی جہاز رانی اور ان کے ذریعے انسانوں کو ملنے والی سہولتوں کا ذکر ہوچکا ہے ، (زمین کا توازن) دلائل قدرت اور انعامات الہی ہی کے سلسلے میں اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والقی فی الارض رواسی “۔ اور اللہ تعالیٰ نے زمین میں بوجھل پہاڑ رکھ دیے ، عربی زبان میں عام طور پر پہاڑ کے لیے جبل کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور پختہ اور جمے ہوئے پہاڑ کے لیے راسیہ کا لفظ آتا ہے جس کی جمع یہاں پر رواسی آیا ہے ، زمین کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ بوجھل پہاڑ اس لیے رکھ دیے ہیں ۔ (آیت) ” ان تمیدبکم “۔ تاکہ زمین تمہارے ساتھ حرکت نہ کرے ، اگر زمین مضطرب ہوجائے یعنی ڈولنے لگے تو انسانی زندگی کس قدر تلخ ہوجائے ، جب کبھی چند سیکنڈ کے لیے زلزے کے جھٹکے آتے ہیں تو انسان کس قدر پریشان ہوجاتے ہیں اور پوری زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے ، تو فرمایا ان بوجھل پہاڑوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پوری زمین مضطرب رہتی تو پوری نوع انسانی کے لیے زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر یہ احسان فرمایا ہے کہ اس نے زمین میں بڑے بڑے بوجھل پہاڑ نصب کردیے ہیں تاکہ زمین پر سکون رہے اور لوگوں کی زندگی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ پہاڑوں کے اس بنیادی فائدے کے علاوہ اللہ نے ان میں اور بھی بہت سے فوائد رکھے ہیں پہاڑوں میں موجود بیشمار قسم کی مع دنیات نمک ، لوہا تانبہ ، سونا ، چاندی ، تیل ، چشمے ، فلک بوس درخت ، اور لاتعداد جڑی بوٹیاں اور ایسی چیزیں جو انسان کی روز مرہ زندگی میں استعمال ہوتی ہیں اگر پہاڑ نہ ہوتے تو میدانی علاقوں کے باشندے ان چیزوں سے محروم رہتے اور خود انسانی زندگی مضطرب ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی خاطر ان پہاڑوں میں ہزاروں قسم کی چیزوں پیدا کرکے انسانی زندگی میں توازن پیدا فرما دیا ہے ۔ (سمندری اور زمینی راستے) آگے اللہ تعالیٰ نے ایک اور نعمت کا ذکر کیا ہے ” وانھرا “۔ اس نے تمہارے لیے نہریں ، دریا یا سمندر پیدا کردیے ، سمندروں اور ان کے فوائد کا ذکر گذشتہ درس میں بھی ہوچکا ہے ، وہاں پر (آیت) ” سخر البحر “ فرما کر اللہ نے ان میں چلنے والی کشیتوں کا ذکر کیا تھا اور یہاں پر ” انھرا “ کا لفظ آیا ہے اور مطلب وہی نہریں ، دریا یا سمندر ہیں جو انسانی خدمت پر مامور ہیں ، اس آیت کریمہ میں انہار کا ذکر آبی راستوں کی حیثیت سے کیا ہے کہ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلتے ہیں ، (آیت) ” وسبلا “۔ اور اللہ نے راستے بھی پیدا فرمائے ہیں ، اس سے مراد زمینی راستے ہیں جن پر چل کر لوگ دور دراز کا سفر اختیار کرتے ہیں اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں ، یہ راستے ہموار زمین میں بھی ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی جن کے ذریعے نقل وحمل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے تمہارے لیے نہریں اور راستے بنا دیے (آیت) ” لعلکم تھتدون “۔ تاکہ تم راہ پاؤ یعنی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکو۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” وعلمت “ ان راستوں پر اللہ تعالیٰ نے کئی نشانیاں بھی رکھ دیں تاکہ مسافر اپنی منزل کا تعین کرسکیں ، متمدن دنیا میں تو اب بڑی بڑی شاہراہیں ہیں اور ان پر جگہ جگہ میلوں کے نشانات ہیں جن سے مسافر راہنمائی حاصل کرتے ہیں ، تاہم قدرتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑوں ، درختوں دریاؤں اور عام نشیب و فراز کی صورت میں ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں جن کے ذریعے لوگ اپنی منزل کا تعین کرسکتے ہیں ، اس کے علاوہ (آیت) ” وبالنجم ھم یھتدون “۔ ستاروں کے ذریعے بھی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں اندھیری راتوں میں جب لق ودق صحرا کا سفر ہو یا سمندر کا تو پرانے زمانے میں لوگ ستاروں کی مدد سے ہی سمت معلوم کر کے راستوں کا تعین کرتے تھے اب تو سائنسی ترقی کی وجہ سے بہت سے آلات ایجاد ہوچکے ہیں اور سمندری یا ہوائی سفر میں منزل کے تعین میں کوئی دقت پیش نہیں آتی مگر پرانے زمانے میں ستارے ہی راستہ معلوم کرنے کا واحد ذریعہ تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور اپنے احسان کے کیا ہے ۔ (انعامات الہیہ) ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے ان پر اپنی وحدانیت کی دلیل قائم کی ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ ان نعمتوں کو پانے کے بعد ذرا یہ تو بتاؤ (آیت) ” افمن یخلق کمن لا یخلق “۔ بھلا پیدا کرنے والی ذات اس کی مانند ہوگی جو کچھ پیدا نہیں کرتا ، ایک طرف خالق ہے جس نے خود انسان کو قطرہ آب سے پیدا فرمایا ہے اور پھر اس کی مصلحت کے لیے تمام چیزیں پیدا کی ہیں اور دوسری طرف تم ایک ایسی ہستی کو معبود بنا رہے ہو جو ایک پتہ اور ایک قطرہ آب پیدا نہیں کرسکتی ، اس کا اپنا وجود ذتی نہیں ، بلکہ وہ خود مخلوق ہے تو کیا خالق اور مخلوق برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر نہیں ہو سکتے تو پھر تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کو کیسے الہ مانتے ہو ، کتنے افسوس کا مقام ہے (آیت) ” افلا تذکرون “۔ کیا تم ان تمام تر دلائل سے نصیحت نہیں پکڑتے ، تم غور وفکر کرکے صحیح نتیجے تک نہیں پہنچتے کہ خالق اور مخلوق اور عابد اور معبود میں کتنا فرق ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ (آیت) ” وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا “۔ اگر تم انہیں شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کرسکتے چہ جائیکہ اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرسکو ، فرمایا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ تم پر گرفت نہیں کرتا ، ان نعمتوں کو سلب نہیں کرتا کیونکہ (آیت) ” ان اللہ لغفور رحیم “۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشش کرنے والا اور از حد مہربان ہے ، یہ اس کی رافت ورحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کے علاوہ نافرمانوں ، مشرکوں اور کافروں کو بھی روزی دے رہا ہے ، اس کی لاتعداد نعمتوں سے وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ، وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ۔ فرمایا یاد رکھو (آیت) ” واللہ یعلم ما تسرون وما تعلنون وہ جانتا ہے جس چیز کو تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اس کی نگاہوں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہے ، وہ ظاہری اور باطنی احوال سے واقف ہے بلکہ تمہاری نیت اور ارادے کو بھی جانتا ہے اسے علم ہے کہ کون سا انسان اس کی عطا کردہ نعمتوں سے کس قدر مستفید ہو رہا ہے کون شخص اپنے قلب اور اعضاء جوارح سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کون ناشکر گزاروں میں شامل ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون شخص ایمان لا کر اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتا ہے اور کون ہے جو کفر اور شرک میں مبتلا رہتا ہے ، اس دنیا میں تو وہ بلالحاظ اطاعت ونافرمانی سب کو اپنی نعمتیں عطا کر رہا ہے مگر ایک وقت آنے والا ہے جب محاسبے کی منزل آئیگی اور پھر ہر ایک کو اس کی کارگزاری کی بنا پر سزا یا جزا بھگتنا ہوگی ۔ (شرک کی تردید) دلائل توحید بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے شرک کا رد فرمایا ہے (آیت) ” والذین یدعون من دون اللہ “۔ جو لوگ اپنی حاجات میں اللہ کے سوا دوسروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یا ان کی عبادت کرتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” لا یخلقون شیئا “۔ بلکہ وہ تو خود پیدا کیے جاتے ہیں مطلب یہ کہ جن کی زندگی خود مستعار ہے ، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ، وہ اپنی ذات کے بھی مالک نہیں ہیں ، ان کو معبود کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے یہ مضمون سورة رعد میں بھی گزر چکا ہے ، اللہ نے استفہامیہ انداز میں فرمایا ہے کیا انہوں نے اس لیے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی خدا تعالیٰ کی تخلیق کی طرح کوئی تخلیق کی ہے ، پھر خود ہی اپنے پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے (آیت) ” قل اللہ خالق کل شیء وھو الواحد القھار “۔ آپ کہہ دیں کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اکیلا بھی ہے اور غالب بھی ہے ، غرضیکہ ارض وسما کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں ، زمین ، آسمان ، شجر ، حجر ، جنت اور دوزخ سب مخلوق ہیں ، اور معبود وہی ہو سکتا ہے جو ان سب کا خالق ہے مگر انسان کی پستی کی انتہا ہے کہ وہ انسانوں کے علاوہ گائے کے گوبر ، بندر ، بلی ، پتھر ، اعضائے تناسل تک کی پوجا کررہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے اور جو خود مخلوق ہے ، وہ معبود کیسے ہو سکتی ہے لہذا عبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، جو ہر چیز کی خالق ہے ۔ فرمایا یہ لوگ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں (آیت) ” اموات غیر احیآئ “۔ وہ تو مردہ ہیں ، زندہ رہنے والے نہیں ، امام بیضاوی (رح) ، مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) ، حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اور دیگر مفسرین نے اموات کی یہ توجہیہ بیان فرمائی ہے کہ مشرک لوگ اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہیں ، وہ تین لحاظ سے مردہ ہیں ، یا تو وہ دواما مردہ ہیں یعنی لکڑی ، پتھر یا مٹی کے بت ہیں جو مستقلا مردہ ہیں ، اور ان میں زندگی کے کبھی کوئی آثار نہیں پائے گئے ، یا وہ فی الحال اموات ہیں یعنی وہ انسان ہیں جو وفات پاچکے ہیں اور لوگ ان کی پوجا کر رہے ہیں ، ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں اور ان کے نام کا وظیفہ کرتے ہیں اور یہ دو صورتیں نہ بھی ہوں تو تیسری صورت یہ ہے کہ ہر چیز انجام کے لحاظ سے مردہ ہے کہ اسے بہرحال موت کا مزہ چکھنا ہے (آیت) ” من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام “۔ (الرحمن) یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی صرف رب ذوالجلال کی ذات ہے بہرحال فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز مردہ ہے ۔ اور زندہ رہنے والی نہیں ، مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہو کر مردہ چیزوں کی پوجا کرتے ہیں ، بعض بدبخت تو ایسے ہیں جو جنوں اور شیطانوں کی عبادت کرتے ہیں ، شیاطین تو کجا ملاء اعلی کے فرشتے بھی فنا ہونے والے ہیں ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوا تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی اس دنیا سے جا چکے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنے وقت پر اس منزل سے گزرنا ہے ، تو فرمایا کہ ایسی ہستیوں کو معبود بنانا اور ان سے حاجات طلب کرنا کتنی پستی کی بات ہے ، انسان خود انسانوں کے آگے سربسجود ہو رہے ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کو الوہیت کے درجے پر پہنچا دیا ہے ، اولیاء اللہ کو مشکل کشا سمجھا جا رہا ہے ، مافوق الاسباب ان کو پکارا جا رہا ہے ، حالانکہ ان کی اپنی زندگی بھی مستعار ہے ، ذاتی نہیں ، وہ خدا کے عاجز بندے ہیں اور ان پر موت طاری ہوچکی ہے ، ایسی ہستیوں کو معبود بنانا کہاں کا انصاف ہے ، فرمایا جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ان کی حالت یہ ہے (آیت) ” وما یشعرون ایان یبعثون “۔ انہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے یہ تو خدائے عزوجل ہی کے علم میں ہے بعث بعدالموت کب ہوگی ، ان میں سے بعض ایسی ہستیاں ہیں جنھیں دوبارہ جی اٹھنے کا بالکل تصور اور شعور ہی نہیں ہے ، ان میں سے بعض تو پتھر اور مٹی کے بت ہیں جو نہ کبھی زندہ تھے اور نہ وہ دوبارہ زندہ ہونگے ۔ البتہ دنیا میں بعض انسان ایسے بھی گزرے ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت سے بیگانہ رہے ، ان کو دوبارہ زندگی کا کوئی تصور ہی نہ تھا مگر لوگ ان کی بھی پوجا کرتے رہے ، البتہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور اس کے اطاعت گزار بندوں کو قیامت اور دوبارہ بعث کا شعور ہے ، فرشتوں کو بھی معلوم ہے مگر بعث کے وقت سے کوئی بھی باخبر نہیں ہے ، یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے کہ کب قیامت برپا ہوگی اور وہ کب سب کو دوبارہ زندہ کرے گا ، تو فرمایا اللہ کے سوا ہر چیز اموات ہے جنھیں بعث بعد الموت کا بھی شعور نہیں ہے ۔
Top