Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور رکھ دیے اس نے زمین میں بوجھل پہاڑ تاکہ زمین تمہارے مضطرب نہ ہو اور (اس نے چلا دیں) نہریں ، اور (بنا دیے ) راستے تاکہ تم راہ پاؤ ۔
(ربط آیات) سورة ہذا کی ابتداء میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر وحی نازل فرما کر انہیں انذار کا حکم دیا ، اور فرمایا (آیت) ” انذروا انہ لا الہ الا انا “۔ لوگوں کو ڈرا دو اور خبردار کر دو میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دلائل قدرت بیان فرمائے اور مخلوق کو عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کیا جن میں ہر نعمت اللہ کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہے ، دلائل قدرت میں سے ارض وسما کی پیدائش ، انسان کی قطرہ آب سے تخلیق ، جانوروں کی پیدائش اور ان کے فوائد بارش کا نزول ، باغات اور نباتات کی تخلیق ، لیل ونہار اور شمس وقمر کی تسخیر ، ستاروں کی تسخیر ، سمندروں سے حاصل ہونے والے موتی اور تازہ گوشت اور پھر ان میں ہونے والی جہاز رانی اور ان کے ذریعے انسانوں کو ملنے والی سہولتوں کا ذکر ہوچکا ہے ، (زمین کا توازن) دلائل قدرت اور انعامات الہی ہی کے سلسلے میں اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والقی فی الارض رواسی “۔ اور اللہ تعالیٰ نے زمین میں بوجھل پہاڑ رکھ دیے ، عربی زبان میں عام طور پر پہاڑ کے لیے جبل کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور پختہ اور جمے ہوئے پہاڑ کے لیے راسیہ کا لفظ آتا ہے جس کی جمع یہاں پر رواسی آیا ہے ، زمین کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ بوجھل پہاڑ اس لیے رکھ دیے ہیں ۔ (آیت) ” ان تمیدبکم “۔ تاکہ زمین تمہارے ساتھ حرکت نہ کرے ، اگر زمین مضطرب ہوجائے یعنی ڈولنے لگے تو انسانی زندگی کس قدر تلخ ہوجائے ، جب کبھی چند سیکنڈ کے لیے زلزے کے جھٹکے آتے ہیں تو انسان کس قدر پریشان ہوجاتے ہیں اور پوری زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے ، تو فرمایا ان بوجھل پہاڑوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پوری زمین مضطرب رہتی تو پوری نوع انسانی کے لیے زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر یہ احسان فرمایا ہے کہ اس نے زمین میں بڑے بڑے بوجھل پہاڑ نصب کردیے ہیں تاکہ زمین پر سکون رہے اور لوگوں کی زندگی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ پہاڑوں کے اس بنیادی فائدے کے علاوہ اللہ نے ان میں اور بھی بہت سے فوائد رکھے ہیں پہاڑوں میں موجود بیشمار قسم کی مع دنیات نمک ، لوہا تانبہ ، سونا ، چاندی ، تیل ، چشمے ، فلک بوس درخت ، اور لاتعداد جڑی بوٹیاں اور ایسی چیزیں جو انسان کی روز مرہ زندگی میں استعمال ہوتی ہیں اگر پہاڑ نہ ہوتے تو میدانی علاقوں کے باشندے ان چیزوں سے محروم رہتے اور خود انسانی زندگی مضطرب ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی خاطر ان پہاڑوں میں ہزاروں قسم کی چیزوں پیدا کرکے انسانی زندگی میں توازن پیدا فرما دیا ہے ۔ (سمندری اور زمینی راستے) آگے اللہ تعالیٰ نے ایک اور نعمت کا ذکر کیا ہے ” وانھرا “۔ اس نے تمہارے لیے نہریں ، دریا یا سمندر پیدا کردیے ، سمندروں اور ان کے فوائد کا ذکر گذشتہ درس میں بھی ہوچکا ہے ، وہاں پر (آیت) ” سخر البحر “ فرما کر اللہ نے ان میں چلنے والی کشیتوں کا ذکر کیا تھا اور یہاں پر ” انھرا “ کا لفظ آیا ہے اور مطلب وہی نہریں ، دریا یا سمندر ہیں جو انسانی خدمت پر مامور ہیں ، اس آیت کریمہ میں انہار کا ذکر آبی راستوں کی حیثیت سے کیا ہے کہ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلتے ہیں ، (آیت) ” وسبلا “۔ اور اللہ نے راستے بھی پیدا فرمائے ہیں ، اس سے مراد زمینی راستے ہیں جن پر چل کر لوگ دور دراز کا سفر اختیار کرتے ہیں اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں ، یہ راستے ہموار زمین میں بھی ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی جن کے ذریعے نقل وحمل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے تمہارے لیے نہریں اور راستے بنا دیے (آیت) ” لعلکم تھتدون “۔ تاکہ تم راہ پاؤ یعنی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکو۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” وعلمت “ ان راستوں پر اللہ تعالیٰ نے کئی نشانیاں بھی رکھ دیں تاکہ مسافر اپنی منزل کا تعین کرسکیں ، متمدن دنیا میں تو اب بڑی بڑی شاہراہیں ہیں اور ان پر جگہ جگہ میلوں کے نشانات ہیں جن سے مسافر راہنمائی حاصل کرتے ہیں ، تاہم قدرتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑوں ، درختوں دریاؤں اور عام نشیب و فراز کی صورت میں ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں جن کے ذریعے لوگ اپنی منزل کا تعین کرسکتے ہیں ، اس کے علاوہ (آیت) ” وبالنجم ھم یھتدون “۔ ستاروں کے ذریعے بھی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں اندھیری راتوں میں جب لق ودق صحرا کا سفر ہو یا سمندر کا تو پرانے زمانے میں لوگ ستاروں کی مدد سے ہی سمت معلوم کر کے راستوں کا تعین کرتے تھے اب تو سائنسی ترقی کی وجہ سے بہت سے آلات ایجاد ہوچکے ہیں اور سمندری یا ہوائی سفر میں منزل کے تعین میں کوئی دقت پیش نہیں آتی مگر پرانے زمانے میں ستارے ہی راستہ معلوم کرنے کا واحد ذریعہ تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور اپنے احسان کے کیا ہے ۔ (انعامات الہیہ) ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے ان پر اپنی وحدانیت کی دلیل قائم کی ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ ان نعمتوں کو پانے کے بعد ذرا یہ تو بتاؤ (آیت) ” افمن یخلق کمن لا یخلق “۔ بھلا پیدا کرنے والی ذات اس کی مانند ہوگی جو کچھ پیدا نہیں کرتا ، ایک طرف خالق ہے جس نے خود انسان کو قطرہ آب سے پیدا فرمایا ہے اور پھر اس کی مصلحت کے لیے تمام چیزیں پیدا کی ہیں اور دوسری طرف تم ایک ایسی ہستی کو معبود بنا رہے ہو جو ایک پتہ اور ایک قطرہ آب پیدا نہیں کرسکتی ، اس کا اپنا وجود ذتی نہیں ، بلکہ وہ خود مخلوق ہے تو کیا خالق اور مخلوق برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر نہیں ہو سکتے تو پھر تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کو کیسے الہ مانتے ہو ، کتنے افسوس کا مقام ہے (آیت) ” افلا تذکرون “۔ کیا تم ان تمام تر دلائل سے نصیحت نہیں پکڑتے ، تم غور وفکر کرکے صحیح نتیجے تک نہیں پہنچتے کہ خالق اور مخلوق اور عابد اور معبود میں کتنا فرق ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ (آیت) ” وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا “۔ اگر تم انہیں شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کرسکتے چہ جائیکہ اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرسکو ، فرمایا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ تم پر گرفت نہیں کرتا ، ان نعمتوں کو سلب نہیں کرتا کیونکہ (آیت) ” ان اللہ لغفور رحیم “۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشش کرنے والا اور از حد مہربان ہے ، یہ اس کی رافت ورحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کے علاوہ نافرمانوں ، مشرکوں اور کافروں کو بھی روزی دے رہا ہے ، اس کی لاتعداد نعمتوں سے وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ، وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ۔ فرمایا یاد رکھو (آیت) ” واللہ یعلم ما تسرون وما تعلنون وہ جانتا ہے جس چیز کو تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اس کی نگاہوں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہے ، وہ ظاہری اور باطنی احوال سے واقف ہے بلکہ تمہاری نیت اور ارادے کو بھی جانتا ہے اسے علم ہے کہ کون سا انسان اس کی عطا کردہ نعمتوں سے کس قدر مستفید ہو رہا ہے کون شخص اپنے قلب اور اعضاء جوارح سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کون ناشکر گزاروں میں شامل ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون شخص ایمان لا کر اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتا ہے اور کون ہے جو کفر اور شرک میں مبتلا رہتا ہے ، اس دنیا میں تو وہ بلالحاظ اطاعت ونافرمانی سب کو اپنی نعمتیں عطا کر رہا ہے مگر ایک وقت آنے والا ہے جب محاسبے کی منزل آئیگی اور پھر ہر ایک کو اس کی کارگزاری کی بنا پر سزا یا جزا بھگتنا ہوگی ۔ (شرک کی تردید) دلائل توحید بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے شرک کا رد فرمایا ہے (آیت) ” والذین یدعون من دون اللہ “۔ جو لوگ اپنی حاجات میں اللہ کے سوا دوسروں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یا ان کی عبادت کرتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” لا یخلقون شیئا “۔ بلکہ وہ تو خود پیدا کیے جاتے ہیں مطلب یہ کہ جن کی زندگی خود مستعار ہے ، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ، وہ اپنی ذات کے بھی مالک نہیں ہیں ، ان کو معبود کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے یہ مضمون سورة رعد میں بھی گزر چکا ہے ، اللہ نے استفہامیہ انداز میں فرمایا ہے کیا انہوں نے اس لیے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی خدا تعالیٰ کی تخلیق کی طرح کوئی تخلیق کی ہے ، پھر خود ہی اپنے پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے (آیت) ” قل اللہ خالق کل شیء وھو الواحد القھار “۔ آپ کہہ دیں کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اکیلا بھی ہے اور غالب بھی ہے ، غرضیکہ ارض وسما کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں ، زمین ، آسمان ، شجر ، حجر ، جنت اور دوزخ سب مخلوق ہیں ، اور معبود وہی ہو سکتا ہے جو ان سب کا خالق ہے مگر انسان کی پستی کی انتہا ہے کہ وہ انسانوں کے علاوہ گائے کے گوبر ، بندر ، بلی ، پتھر ، اعضائے تناسل تک کی پوجا کررہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے اور جو خود مخلوق ہے ، وہ معبود کیسے ہو سکتی ہے لہذا عبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، جو ہر چیز کی خالق ہے ۔ فرمایا یہ لوگ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں (آیت) ” اموات غیر احیآئ “۔ وہ تو مردہ ہیں ، زندہ رہنے والے نہیں ، امام بیضاوی (رح) ، مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) ، حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اور دیگر مفسرین نے اموات کی یہ توجہیہ بیان فرمائی ہے کہ مشرک لوگ اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہیں ، وہ تین لحاظ سے مردہ ہیں ، یا تو وہ دواما مردہ ہیں یعنی لکڑی ، پتھر یا مٹی کے بت ہیں جو مستقلا مردہ ہیں ، اور ان میں زندگی کے کبھی کوئی آثار نہیں پائے گئے ، یا وہ فی الحال اموات ہیں یعنی وہ انسان ہیں جو وفات پاچکے ہیں اور لوگ ان کی پوجا کر رہے ہیں ، ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں اور ان کے نام کا وظیفہ کرتے ہیں اور یہ دو صورتیں نہ بھی ہوں تو تیسری صورت یہ ہے کہ ہر چیز انجام کے لحاظ سے مردہ ہے کہ اسے بہرحال موت کا مزہ چکھنا ہے (آیت) ” من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام “۔ (الرحمن) یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی صرف رب ذوالجلال کی ذات ہے بہرحال فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز مردہ ہے ۔ اور زندہ رہنے والی نہیں ، مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہو کر مردہ چیزوں کی پوجا کرتے ہیں ، بعض بدبخت تو ایسے ہیں جو جنوں اور شیطانوں کی عبادت کرتے ہیں ، شیاطین تو کجا ملاء اعلی کے فرشتے بھی فنا ہونے والے ہیں ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوا تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی اس دنیا سے جا چکے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنے وقت پر اس منزل سے گزرنا ہے ، تو فرمایا کہ ایسی ہستیوں کو معبود بنانا اور ان سے حاجات طلب کرنا کتنی پستی کی بات ہے ، انسان خود انسانوں کے آگے سربسجود ہو رہے ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کو الوہیت کے درجے پر پہنچا دیا ہے ، اولیاء اللہ کو مشکل کشا سمجھا جا رہا ہے ، مافوق الاسباب ان کو پکارا جا رہا ہے ، حالانکہ ان کی اپنی زندگی بھی مستعار ہے ، ذاتی نہیں ، وہ خدا کے عاجز بندے ہیں اور ان پر موت طاری ہوچکی ہے ، ایسی ہستیوں کو معبود بنانا کہاں کا انصاف ہے ، فرمایا جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ان کی حالت یہ ہے (آیت) ” وما یشعرون ایان یبعثون “۔ انہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے یہ تو خدائے عزوجل ہی کے علم میں ہے بعث بعدالموت کب ہوگی ، ان میں سے بعض ایسی ہستیاں ہیں جنھیں دوبارہ جی اٹھنے کا بالکل تصور اور شعور ہی نہیں ہے ، ان میں سے بعض تو پتھر اور مٹی کے بت ہیں جو نہ کبھی زندہ تھے اور نہ وہ دوبارہ زندہ ہونگے ۔ البتہ دنیا میں بعض انسان ایسے بھی گزرے ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت سے بیگانہ رہے ، ان کو دوبارہ زندگی کا کوئی تصور ہی نہ تھا مگر لوگ ان کی بھی پوجا کرتے رہے ، البتہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور اس کے اطاعت گزار بندوں کو قیامت اور دوبارہ بعث کا شعور ہے ، فرشتوں کو بھی معلوم ہے مگر بعث کے وقت سے کوئی بھی باخبر نہیں ہے ، یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے کہ کب قیامت برپا ہوگی اور وہ کب سب کو دوبارہ زندہ کرے گا ، تو فرمایا اللہ کے سوا ہر چیز اموات ہے جنھیں بعث بعد الموت کا بھی شعور نہیں ہے ۔
Top