Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے پس وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے آخرت پر ، ان کے دل انکار کرنے والے ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں ۔
(ربط آیات) ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت اور وحی الہی کے نزول کا ذکر فرمایا ، اس کے بعد اپنے انعامات اور نشانات قدرت کا ذکر کای جو اس کی وحدانیت کی دلیل بنتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرک لوگ جن ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں وہ تو کوئی چیز پیدا کرنے پر قادر نہیں ، بلکہ پیدا شدہ ہیں ۔ اللہ نے ان کو اموات کے لفظ سے تعبیر کیا ، کہ یا تو وہ مٹی اور پتھر کے بےجان بت ہیں ، یا فی الحال وفات پاچکے ہیں ، اور یا بہرحال مرنے والے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی باقی رہنے والا نہیں ، ان کی اپنی زندگی بھی ذاتی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہے تو جو ہستی خود اپنی ذات کی مالک نہیں وہ معبود کیسے بن سکتی ہے ، انہوں نے تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے ۔ (مسئلہ الوہیت) اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ الوہیت بیان فرمایا ہے اور ضمنا تکبر کرنے والوں کا انجام ذکر کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الھکم الہ واحد “۔ تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے ، اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک بنانا انتہائی درجے کی بےادبی اور گستاخی ہے ، یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے سمجھایا ہے ، چناچہ سورة الانعام میں ارشاد ہوا (آیت) ” بدیع السموت والارض “۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ، اس کی اولاد اور بیوی کیسے ہوسکتی ہے (آیت) ” وخلق کل شیئ “۔ اس نے تو خود ہر چیز پیدا کی ہے (آیت) ” وھو بکل شیء علیم “۔ اور وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے یہ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” ذلکم اللہ ربکم “ یہی اللہ تمہارا رب ہے جس کی یہ صفات ہیں (آیت) ” لا الہ الا ھو “۔ اس کے سوا عبادت کے لائق کر ئی نہیں (آیت) ” خالق کل شیء فاعبدوہ “۔ وہی ہر چیز کا خالق ہے ، لہذا اسی کی عبادت کرو (آیت) ” وھو علی کل شیء وکیل “۔ اور ہر چیز کا کارساز بھی وہی ہے ۔ غرضیکہ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ اللہ وہی ہو سکتا ہے جو رب ہو ، خالق ہو ، علیم کل اور مختار مطلق ہو ، اگر یہ صفات اللہ کے سوا کسی دوسری ذات میں ناپید ہیں تو عبادت کے لائق بھی اس کے سوا کوئی نہیں مخلوق میں سے کوئی بھی کسی کا کام نہیں بنا سکتا ، نہ کسی کی فریاد رسی کرکے اس کی حاجت روائی کرسکتا ہے کو ن کہ نافع اور صنار صرف وحدہ لاشریک ذات ہی ہے ، اس کے باوجود ایسی ہستیوں کو پکارنا اور ان سے داد رسی چاہنا جن کا کچھ اختیار ہی نہیں ہے کتنی حماقت کی بات ہے غرضیکہ ہر قسم کی عبادت قولی ، فعلی یا اعتقادی سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو کوئی کسی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک بنائے گا وہ مشرک ٹھہرے گا اور خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے گا ۔ (لفظ الہ کی تحقیق) امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ لفظ ” الہ “ لفظ ” اللہ “ کی اصل ہے فرماتے ہیں کہ لغوی اعتبار سے الہ کا اطلاق ہر معبود پر کیا جاسکتا ہے مگر شرائع الہیہ ، کتب سماویہ اور انبیاء کی تعلیمات میں یہ لفظ صرف معبود برحق کے ساتھ مختص کیا گیا ہے ، لہذا اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ذات پر نہیں ہوسکتا ۔ بعض فرماتے ہیں کہ الہ کا اشتقاق (ROOT روٹ) الوہیت سے ہے جس کا معنی عبادت ہے ، تو اس لحاظ سے الہ وہی ذات ہوگی جس کی عبادت کی جاسکے اور وہ ذات صرف خدا تعالیٰ ہی کی ہے بعض دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ الہ کا مادہ اشتقاق الہ ہے جس کا معنی حیرانگی ہے چونکہ تمام عقول اللہ تعالیٰ کی معرفت میں حیران ہوجاتی ہیں اس لیے اس لفظ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیا گیا ہے بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا مادہ ولہ ہے جس کا معنی سکون پکڑنا ہوتا ہے ، عربی میں کہتے ہیں (آیت) ” الھت الی “ ، فلان یعنی میں نے فلاں کی طرف سکون پکڑا چونکہ انسانی ارواح قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ سکون پکڑتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں ، اس لیے الہ کا اطلاق خدا تعالیٰ کی ذات پر کیا گیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ الہ کا معنی گھبرا جانا اور الہ کا معنی پناہ دینا ہوتا ہے ، انسان گھبرا کر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہی ان کو پناہ دیتا ہے ، لہذا اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اطلاق کیا گیا ہے ، جب اونٹ کا بچہ اپنی ماں پر بہت زیادہ فریفتہ ہوتا ہے تو عربی محاورہ میں کہتے ہیں ” الہ الفصیل بامہ “۔ چونکہ بندے اپنی مشکلات اور شدائد میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی پر فریفتہ ہوئے ہیں اس لیے الہ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ لھا کا لفظ حجاب کے معنی میں بھی آتا ہے ، چونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز سے بلندو برتر ہے اس کے سامنے پردے پڑے ہوئے ہیں اور کوئی شخص اس کو دیکھ نہیں سکتا اس لحاظ سے بھی یہ لفظ اللہ تعالیٰ پر صادق آتا ہے ۔ (فکر آخرت) فرمایا تمہارا معبود برحق ایک ہی ہے (آیت) ” فالذین لا یؤمنون بالاخرۃ “۔ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے (آیت) ” قلوبھم منکرۃ “ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں ، (آیت) ” وھم مستکبروں “۔ اور وہ تکبر کرنے والے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی الوہیت کو ماننا اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرکے صرف اسی کی عبادت کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو فکر آخرت رکھتے ہیں ، اور جو لوگ فکر آخرت ہی کے منکر ہیں ، وقوع قیامت اور جزائے عمل پر ان کا یقین ہی نہیں ہے ، وہ خدا تعالیٰ کو الہ کیسے مانیں گے اور اس کی عبادت کیونکر کریں گے ، ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی عبادت سے تکبر کرنے والے اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں ۔ (تکبر کی بیماری) تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ، ایک فکر آخرت کا انکار اور دوسری تکبر کی بیماری ، فرمایا جب خدا کا نبی یا اس کا ماننے والا اللہ تعالیٰ کی الوہیت بیان کرتا ہے تو یہ لوگ اللہ کی وحدانیت کو تکبر اور خود پسندی کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اکثر لوگ تکبر ہی کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہتے ہیں ، حضور ﷺ نے ایک موقع پر تکبر کی مذمت بیان فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا ، حضور ﷺ اگر کوئی شخص اچھا لباس پہنتا ہے اور اچھی سواری استعمال کرتا ہے تو کیا یہ تکبر میں شامل ہے ؟ فرمایا نہیں بلکہ یہ تو جمال ہے ” اللہ جمیل ویحب الجمال “ یعنی اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے البتہ تکبر کی تعریف یہ ہے بطر الحق وغمط الناس “ کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کی تحقیر کی جائے ، کسی کو اس کی غربت کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا جسمانی کمزوری کی بنا پر حقیر جاننا تکبر میں شامل ہے کسی معمولی آدمی کی سچی بات کو ٹھکرا دینا بھی تکبر کی نشانی ہے دنیا میں اکثر مشرکین نے اللہ کے نبیوں کی معمولی حیثیت کے پیش نظر ہی ان کا انکار کیا ، کہتے تھے کہ تو تو ہمارے جیسا کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا انسان ہے ، تیرے پاس نوکر چاکر اور کوٹھی اور باغات نہیں ہیں ، تو ہمیں کیسے تبلیغ کرتا ہے ، کوئی بڑا آدمی ہم سے بات کرتا تو ہم توجہ بھی دیتے مگر تجھ جیسے معمولی حیثیت کے آدمی کی بات کو کیسے تسلیم کرلیں وہ لوگ اسی تکبر کی بیماری میں مبتلا تھے ، اور یہ بیماری اس زمانے میں بھی موجود ہے ، آج بھی کوئی جاگیردار کسی مزارع کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ، کوئی کارخانے دار کسی مزدور کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا اور کوئی افسر اپنے ماتحت کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا یہ سارا تکبر ہی کا شاخسانہ ہے ۔ تکبر ابلیسی بیماری ہے اور ہدایت سے اکثر حرمان اسی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے ، بزرگان دین جب لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں تو ان کو عبادت اور ریاضت کراتے ہیں ، ان کو اذکار سکھاتے ہیں اور ان کو رذائل سے پاک کرتے ہیں ، تکبر ایک قبیح چیز ہے کہ انسان کی تمام بداخلاقیوں میں سے سب سے آخر میں اس سے خلاصی ہوتی ہے بزرگان دین کا مقولہ ہے کہ ایک سوئی کے ذریعے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے مگر اس کے مقابلے میں دل سے تکبر کو نکالنا مشکل کام ہے ۔ فرمایا ” لاجرم “ یہ لازمی امر ہے (آیت) ” ان اللہ یعلم ما یسروں وما یعلنون “۔ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے وہ ہر شخص کے غرور ونیاز مندی اور اس کے اخلاص کو جانتا ہے اور یہ بھی کہ (آیت) ” انہ لا یحب المستکبرین “۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا ، کوئی متکبر آدمی خدا کا محبوب نہیں بن سکتا ، اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اور وہ اپنے عاجز بندے ہی کو پسند کرتا ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے ” لایبغی بعضکم علی بعض “ تم ایک دوسرے پر سرکشی اختیار نہ کرو بلکہ ” تواضعوا “ ایک دوسرے سے تواضع ، ہمدردی اور غمگساری کے ساتھ پیش آؤ ، تکبر بجائے خود مبغوض چیز ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مبغوض بنانتا ہے لہذا اس سے بچنا چاہئے کہ یہ بہت بری بیماری ہے ۔ (وحی الہی کا انکار) ان متکبرین کی ایک یہ خصلت بھی بیان کی گئی ہے (آیت) ” واذا قیل لھم ماذا انزل ربکم “۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل فرمائی ہے ، یعنی جب ان سے قرآن کریم ، وحی الہی اور شرائع الہیہ کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے ، (آیت) ” قالوا اساطیرالاولین “۔ تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ، مشرک اور جاہل لوگ ہمیشہ یہی بات کرتے ہیں ، یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور سائنسدان یہودی اور عیسائی بھی قرآن حکیم کے متعلق یہی کچھ کہتے ہیں ، ان کی طبیعتوں میں تکبر بھرا ہوا ہے اور وہ اسلام کو ایک رسمی مذہب خیال کرتے ہیں ، دنیا کی ناپائیدار اور حقیر تعلیم حاصل کرکے اپنے آپ کو بڑا صاحب کمال سمجھتے ہیں اور قرآن پاک اور نبی آخر الزمان کو اللہ کا کلام اور اس کا آخری نبی ماننے کے لیے تیار نہیں ، وہ بھی اللہ کے پاک کلام کو قصے کہانیوں پر محمول کرتے ہیں ، بعض مشرک کہتے تھے کہ محمد ﷺ تمہیں عاد اور ثمود کی کہانیاں سناتے ہیں ، آؤ ہم تمہیں رستم واسفند یار کے کارنامے سناتے ہیں ، جو محمد ﷺ کی کہانیوں سے بڑھ کر دلچسپ ہیں ، بہرحال وہ لوگ قرآن پاک اور وحی الہی کا انکار کرتے تھے اور اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے ۔ (دوہرا بوجھ) فرمایا اس انکار کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” لیحملوا اوزارھم کاملۃ یوم القیمۃ “۔ تاکہ اٹھائیں یہ لوگ اپنا بوجھ پورا پورا قیامت کے دن جب محاسبے کا وقت آئے گا تو منکرین پر ان کے گناہوں کا پورا پورا بوجھ لادا جائے گا ، وہ نہ صرف اپنی کارستانی کا بوجھ اٹھائیں گے بلکہ (آیت) ” ومن اوزار الذین یضلونھم بغیر علم “۔ بلکہ ان لوگوں کو بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا بلاتحقیق ، اس طرح گویا ان پر دوہرا بوجھ یعنی عذاب ڈالا جائے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو امام یا پیشوا برائی کا کوئی راستہ مقرر کرتا ہے اس کو اپنے گناہ کا بدلہ بھی ملے گا اور ان تمام لوگوں کے گناہ میں سے بھی حصہ ملے گا جو اس باطل راستے پر چل نکلے ، حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے ہر قتل ناحق کا ایک گناہ آدم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے ، جس نے سب سے پہلے قتل ناحق کی بنیاد رکھی ، نیکی کے متعلق بھی یہی اصول ہے ، ہر نیکی والے کی نیکی کا ایک اجر نیکی کا راستہ بتانے والے کو بھی ملے گا ، چونکہ دنیا میں نیکی کا راستہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے ایجاد کیا ، لہذا یہاں پر ہونے والی ہر نیکی کا ایک ایک اجر امت کے نبی کو بھی حاصل ہوتا ہے لہذا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اجر وثواب کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس آخری امت میں نیکی کے موجد حضور ﷺ ہیں ، اور وہ قیامت تک ہونے والے کار خیر میں برابر کے حصہ دار ہیں ۔ فرمایا ان لوگوں نے بلاسوچے سمجھے قرآن پاک کا انکار کردیا ہے حالانکہ خود قرآن انہیں غور وفکر کی دعوت دے رہا ہے (آیت) ” افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا “۔ (محمد) یہ لوگ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑگئے ہیں سورة ص میں ہے کہ ہم نے یہ مبارک کتاب آپ کی طرف نازل کی ہے (آیت) ” لیدبروا ایتہ “۔ تاکہ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں جن لوگوں نے اس کلام کو سمجھنے کی کوشش کی انہیں پتہ چل گیا کہ پوری دنیا کی تاریکیوں میں روشنی کا یہی ایک مینار ہے مگر انہوں نے انکار کرکے دوہرا بوجھ ٹھا لیا ہے فرمایا الا خبردار (آیت) ” سآء مایزرون “۔ بہت برا بوجھ ہے جس کو یہ لوگ اٹھا رہے ہیں ، اس کا احساس جزائے عمل کی منزل کے وقت ہوگا کہ انہوں نے کتنا برا بوجھ اٹھایا ، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ، اعاذنا اللہ منھا “۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔
Top