Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 35
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے شرک کیا ، اگر چاہتا اللہ تعالیٰ تو نہ عبادت کرتے ہم اس کے سوا کسی چیز کی اور نہ ہمارے باپ دادا ، اور نہ ہم حرام ٹھہراتے کسی چیز کو اس کے حکم کے سوا ، اسی طرح کیا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے گزرے ہیں پس نہیں ہے رسولوں کے ذمہ مگر کھول کر پہنچا دنیا ۔
(ربط آیات) ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے وحی الہی کا ذکر کیا ، پھر اپنی وحدانیت کا تذکرہ کیا (آیت) ” الھکم الہ واحد “۔ اور اس کے دلائل بیان فرمائے ، اس کے بعد ان لوگوں کی دو بڑی بیماریوں کا ذکر کیا جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتے ایک تو وہ آخرت کے منکر ہیں اور دوسرے تکبر کرتے ہیں ، پھر اللہ نے مشرکوں اور متقیوں کے انجام سے آگاہ فرمایا شرک کی تردید اس سورة کا خاص موضوع ہے جو گذشتہ آیات میں بھی بیان ہوا ہے ، اس درس میں بھی آرہا ہے اور آگے مثالوں کے ذریعے بھی اس مسئلہ کی وضاحت کی جائے گی ، بہرحال آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے شرک کے حق میں مشرکین کی ایک نہایت ہی بھونڈی دلیل کا رد فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا ذکر بھی کیا ہے ۔ (شرک پرانی بیماری ہے) شرک ایک ایسی بیماری ہے جو تمام پرانی قوموں میں راسخ رہی ہے ، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر اللہ کے ہر نبی کی قوم میں شرک پایا گیا اور ہر نبی نے سب سے پہلے اسی بیماری کی طرف توجہ فرمائی ، قوم سے یہی فرمایا (آیت) ” یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ “۔ (ہود) اے میری قوم کے لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تم نے مٹی اور پتھر کے جتنے معبود بنا رکھے ہیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ، نہ یہ کچھ دے سکتے ہیں اور نہ چھین سکتے ہیں ، ان کی پوجا کرکے تم اپنے لیے تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہو ، یہ تو خدا تعالیٰ کی کھلی بغاوت اور سرکشی ہے مختلف اقوام میں اور بھی مختلف بیماریاں تھیں ، کسی میں تکبر کی بیماری تھی ، کوئی ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے ، کسی قوم میں معاملات کی خرابی تھی کسی میں ظلم حد سے بڑھا ہوا تھا اور کوئی قوم حد درجے کی بداخلاقی میں مبتلا تھی تاہم تمام اقوام میں شرک ایک ایسی بیماری تھی جو سب کی قدر مشترک تھی ، اس لیے اللہ کے نبیوں نے سب سے پہلے اسی بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کی ، (مشرکین کی دلیل) اس بیماری کی سنیگنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی اللہ کے نبیوں نے اس بیماری کا قلع قمع کرنا چاہا تو مشرکین نے اس کے حق میں دلائل دینے شروع کردیے اور برحق ثابت کرنے کی کوشش کی ، آج کے درس میں اللہ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وقال الذین اشرکوا “۔ اور کہا شرک کرنے والوں نے یعنی جب اللہ کے نبیوں نے شرک سے منع کیا تو کیا تو کہنے لگے (آیت) ” لو شآء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن “۔ اگر اللہ چاہتا تو ہم نہ عبادت کرتے اللہ کے سوا کسی کی (آیت) ” ولا ابآؤنا “۔ اور نہ ہی ہمارے باپ دادا ایسا کام کرتے (آیت) ” ولا حرمنا من دونہ من شیئ “۔ اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ، اس کے حکم کے سوا یہ ہے وہ دلیل جو مشرکین شرک کے حق میں پیش کرتے تھے ، گویا اپنے شرکیہ افعال کو خدا تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ منسلک کرکے خود بری الذمہ ہو رہے ہیں مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے یہ شرکیہ کام پسند نہ ہوتے تو وہ فورا ہمیں روک دیتا ، ہماری زبانوں کو بند کردیتا یا ہمارے ہاتھ پاؤں کی طاقت کو ہی سلب کرلیتا تاکہ ہم ایسا کام نہ کرسکتے ، اگر اس نے ہمیں ان کاموں سے نہیں روکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان امور پر راضی ہے ، لہذا ہم انہیں انجام دینے میں حق بجانب ہیں ، یہ تو بالکل ویسی بات ہے کہ کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اس کا اعتراف کرنے اور توبہ کرنے کی بجائے اسے تقدیر پر ڈال دیتا ہے کہ تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا ، لہذا ہوگیا ، اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ حلت و حرمت کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے ، مشرکین نے بعض چیزیں از خود اپنے آپ حرام ٹھہرا رکھی تھیں حالانکہ اللہ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ، انہوں نے بعض جانوروں کو بحرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا نام دے کر عام لوگوں کے لیے ان کا گوشت حرام قرار دے لیا تھا ، چناچہ جس مادہ کا دودھ نذر کے طور پر وقف کردیتے اسے کوئی عام مرد وزن نہیں پی سکتا تھا بلکہ وہ صرف گدی نشینوں کے لیے حلال ہوتا تھا ، اس طرح جس اونٹ یا بیل کو معبودان باطلہ کی نذر کردیتے تھے ، نہ اس پر سواری کرتے تھے اور نہ کسی دیگر کام میں لاتے تھے ، اسی طرح جو جانور مقررہ تعداد میں بچے دے دیتا تھا اسے کھلا چھوڑ دیتے تھے ، نہ اس کا دودھ پیتے نہ گوشت کھاتے اور نہ سواری کے لیے استعمال کرتے ، انہوں نے بعض چیزیں عورتوں پر اور بعض مردوں پر حرام کر رکھی تھیں ، اس کا جواز بھی وہ یہی پیش کرتے تھے کہ اگر اللہ کی ۔۔۔۔۔ نہ ہوتی تو ہم کوئی چیز حرام نہ کرتے ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کرنے سے نہیں روکا ، لہذا ہم ٹھیک کر رہے ہیں۔ سورة انعام میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تمام اقسام پر بحث کی ہے اور ان کی تردید فرمائی ہے ، یہ مضمون اسی قسم کی آیت میں وہاں بھی بیان ہوچکا ہے (آیت) ” سیقول الذین اشرکوا لوشآء اللہ ما اشرکنا ولا ابآؤنا ولا حرمنا من شیء فرمایا مشرک لوگ کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباؤ و اجداد شرک کا ارتکاب نہ کرتے اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ، اللہ نے اس کو جواب یہ دیا کہ پہلے لوگوں نے بھی اسی قسم کی بیہودہ دلیل پیش کی حتی کہ انہیں ہماری سزا کا مزا چکھنا پڑا ، فرمایا ، اس حرمت کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ تو محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں ، یہ تو حرمت کی بات تھی ، ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب مشرکین بیت اللہ شریف کا برہنہ طواف کرتے تھے اور اس کے لیے بھی انہوں نے خدا کی مشیت کو بہانہ بنا رکھا تھا ، مگر اللہ نے فرمایا کہ وہ کبھی بےحیائی اور برائی کا حکم نہیں دیتا تم تو شیطان کا اتباع کرکے اس فعل کو خدا کی طرف منسوب کر رہے ہو ، بہرحال شرک کے ارتکاب اور حلت و حرمت کے معاملہ میں مشرکوں نے نہایت ہی بیہودہ دلیل پیش کی جس کا اللہ نے رد فرمایا ہے ، یہاں پر اللہ نے اجمالی طور پر ذکر کیا ہے ، آگے عام قانون کی صورت میں بھی حلت و حرمت کا مسئلہ آئے گا ، تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس باطل دلیل کے جواب میں فرمایا (آیت) ” کذلک فعل الذین من قبلھم “۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا ، گویا یہ کوئی نئی بات ہے ، اس سے حضور ﷺ کو تسلی دلانا مقصود ہے کہ آپ مشرکین کے قبیح افعال سے گھبرائیں نہیں ، اس قسم کے واقعات آپ کے ساتھ ہی پیش نہیں آرہے ہیں بلکہ پہلی اقوام بھی اس طرح کرتی اور کہتی رہی ہیں ، وہ بھی کہتے تھے کہ اگر یہ برا کام ہوتا تو اللہ تعالیٰ روک دیتا ، لہذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں ، ٹھیک کر رہے ہیں ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ کتنی نادانی کی بات ہے ، بھلا یہ تو سوچو کہ ہر فرقے کے نزدیک بعض کام برے ہیں جن سے وہ انکار نہیں کرسکتے ، مگر لوگ انہیں انجام دے رہے ہیں ، اگر مشرکین کے فلسفے کو تسلیم کرلیا جائے تو دنیا میں کوئی بھی برائی نہیں رہتی کیونکہ ہر برائی انجام دی جا رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہاتھ پکڑ کر روکتا نہیں ، لہذا ہر برے سے برے کام میں بھی مشیت الہی شامل ہے معلوم ہوا کہ برا کام بہرحال برا ہے اور خدا تعالیٰ کے جبرا نہ روکنے سے کوئی برائی اچھائی میں تبدیل نہیں ہوجاتی ۔ (انسان کی فعل مختاری) حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی سے جبرا کوئی کام نہیں کراتا کیونکہ یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے ، اسی سورة کے پہلے روکوع میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تک تو سیدھا راستہ ہی پہنچتا ہے ، مگر کچھ ٹیڑھے راستے بھی موجود ہیں ، (آیت) ” ولوشآء اللہ لھدکم اجمعین “۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو سیدھی راہ پر لگا دیتا ، مگر وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا ، اس نے انسان کو پیدا کیا ، عقل ، شعور اور قوی عطا کرکے کچھ اختیارات بھی دیے ہیں جن کو بروئے کار لا کر انسان اچھے یا برے اعمال انجام دیتا ہے ، اگرچہ خالق سب کا خدا تعالیٰ ہے مگر کا سب خود انسان ہے اسے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر اچھے یا برے کام کرنے کی اجازت ہے سورة الکہف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ کہہ دیں ، حق تمہارے پروردگر کی طرف سے ہے (آیت) ” فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر “۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے ، یہ اس کی اپنی صوابدید پر ہے ، اس پر جبر نہیں ہے ، ہاں یہ ہے کہ کوئی جونسا راستہ اختیار کرے گا ، اسی کے مطابق جزایا سزا کا مستحق ہوگا ، اللہ نے صاف بتلا دیا (آیت) ” انا اعتدنا للظلمین نارا “۔ ہم نے ظالموں کے لیے جہنم بھی تیار کر رکھا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کسی کو اچھائی یا برائی پر مجبور نہیں کرتا ، نہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر غلط راستے پر جانے سے روکتا ہے (آیت) ” فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا “۔ (الروم) اللہ نے ہر انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے ” ان الامانۃ نزلت فی جزر قلوب الرجال “۔ اللہ تعالیٰ نے امانت یعنی صلاحیت اور استعداد ہر شخص کے دل میں رکھ دی ہے کسی کو اس سے محروم نہیں رکھا ، اس امانت کی تفصیل دنیا میں آکر کتاب وسنت سے معلوم کی جاسکتی ہے ، اب اگر کوئی شخص اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے خراب کرلیتا ہے تو اسکا نتیجہ اس کے حق میں سخت برا نکلے گا ، غرضیکہ فرمایا کہ مشرکین کی یہ دلیل ناقابل قبول ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک کا ارتکاب نہ کرتے ، اللہ تعالیٰ نے اسے شرک کرنے پر مجبور کیا ہے ، اور نہ ہی انہیں جبرا اس سے روکا ہے انہوں نے اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو برائے کار لاتے ہوئے جو راستہ اختیار کیا ہے ، وہ جہنم کا راستہ ہے اور اپنے شرک کی پاداش میں مشرک لوگ وہی پہنچیں گے ۔ (رسولوں کی ذمہ داری) جہاں تک اللہ کے رسولوں کی ذمہ داری ہے ، فرمایا (آیت) ” فھل علی الرسل الا البلغ المبین “۔ ان کا کام کھول کر بیان کردینا ہے ، رسولوں کا کام کسی کو جبرا منوانا نہیں ، اگر لوگ رسول کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں یا اس کی مخالفت پر اتر آئیں تو یہ ان کا عناد ہوگا اور مشرکین اسی بیماری میں مبتلا رہے ہیں ، اللہ نے اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر برائی سے روکنے کے سامان بہم پہنچا دیے ہیں اور اگر اب بھی کوئی کفر اور شرک سے باز نہیں آتا بلکہ اس بات کا انتظار کر رکھا ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کڑ روک دے تو یہ اس کی خام خیالی ہے ، اسے اس کارکردگی کا بھگتان کرنا ہوگا ۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا “۔ ہم نے ہر امت اور قوم میں اپنا رسول بھیجا جس نے ہمارا پیغام اپنی امت تک پہنچایا ، اور وہ پیغام یہ تھا (آیت) ” ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت “۔ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو اور طاغوت سے بچ جاؤ ، اللہ نے کفر وشرک سے روکنے کا یہی تو سامان پیدا کیا کہ اللہ کے ہر نبی نے اسی بات کی دعوت دی کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے ، کفر اور شرک مہلک بیماری ہے ، اس سے بچ جاؤ ، اگر اب بھی کوئی شخص اس سے اجتناب نہیں کرتا تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے ، اللہ کے نبی کام پہنچا دینا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں ، تو گویا اللہ نے قانون اور شریعت کے ذریعے لوگوں سے منع کیا ہے کسی کی قوت سلب کرکے اسے مجبور نہیں کیا ۔ (طاغوت کیا ہے ؟ ) طاغوت طغیان کے مادے سے ہے جس کا معنی سرکش اور بغاوت ہوتا ہے ، یہ لفظ شیطان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بت کے لیے بھی ، عام مفسرین فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا جن باطل قوتوں کی پرستش کی جائے وہ طاغوت ہیں ، مشہور مؤرخ ابن ہشام نے اپنی ” سیرت “ میں طاغوت کی تعریف یہ کی ہے ” کل ما اضل عن الحق فھو طاغوت “۔ جو چیز بھی حق کے راستے سے گمراہ کرے وہ طاغوت ہے ، شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) طاغوت کا ترجمہ ہڑبھنگا کرتے ہیں ، فرماتے ہیں ہڑبھنگا اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بلاسند سرداری کا ناحق دعوی کرے ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو حقیر لفظوں سے یاد کیا ، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مہین کہا ، حق کو ٹھکرانے والے طاغوت کی فہرست میں آتے ہیں ، ہر ظالم خواہ وہ فرعون ہو ، نمرود ہو ، طاغوت کی فہرست میں آتے ہیں ، ہر ظالم خواہ وہ فرعون ہو ، نمرود ہو ، چنگیز ہو یا ہلاکو سب طاغوت ہیں ، اکثر وبیشتر ملوک طاغوت ہیں مارشل لاء کا قانون بھی طاغوتی قانون ہے ، غرضیکہ حق سے گمراہ کرنے والا کوئی انسان ہو ، بت ہو یا شیطان ہو ، طاغوت کی تعریف میں آتا ہے ، خدا تعالیٰ کے قانون کو پس پشت ڈال کر من مانی کرنے والی ہر شخصیت طاغوت ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ طاغوتوں سے بھری پڑی ہے ، اکثر ملوک آج تک من مانی کرتے آئے ہیں ، انہوں نے حق و باطل میں تمیز کرنے کی بجائے اپنی مصلحت کو پیش نظر رکھا ، قوم اور ملک دولت لہو ولعب اور عیاشی وفحاشی پر خرچ کرتے آئے ہیں ، انہوں نے خدا کے قانون کے اجرا اور مخلوق خدا کے فائدے کے لیے کچھ نہیں کیا ، لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور یہ فلک بوس عمارتیں بنانے میں مصروف ہیں ، قوم کو تعلیم اور خوراک کی ضرورت ہے مگر یہ قوم کا پیسہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں گمراہی عام ہے ، برہنگی کی وبا پھیل رہی ہے ، لہو ولعب سے فرصت نہیں ملتی ، یہ سب طاغوتی کام ہیں جو انجام دیے جا رہے ہیں ہاں ہماری تاریخ میں بعض اچھے لوگوں کا نام بھی محفوظ ہے ، مگر یہ خال خال لوگ ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف اور مخلوق کی بھلائی کا جذبہ موجزن تھا خلفائے راشدین کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا ، یہاں برصغیر میں اور نگ زیب عالمگیر (رح) ، سلطان محمود (رح) ، ناصر الدین التمش (رح) اور ٹیپو شیہد جیسی ہستیاں ہوئی ہیں ، جن کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے تاہم باقی کلہم طاغوتی کی فہرست میں ہی آتے ہیں کوئی بڑا طاغوت ہے اور کوئی چھوٹا ۔ (ہدایت اور گمراہی) اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا جس نے لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت اور طاغوت سے بچنے کی نصیحت کی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” فمنھم من ھدی اللہ “ پس ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی جن میں انصاف اور حق طلبی تھی اور جو ضد اور عناد سے پاک تھے ، ان کو ہدایت نصیب ہوگئی (آیت) ” ومنھم من حقت علیہ الضللۃ “۔ اور ان میں سے بعض وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی ، حق طلبی اور انصاف سے عاری ، ضدی اور عنادی لوگ گمراہی میں غرق رہے ، ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم “۔ (البقرہ) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے ، ان پر کفر کے زنگ چڑھ چکے ہیں ، جیسے سورة المطففین میں موجود ہے (آیت) ” کلا بل ران علی قلوبھم “۔ ان پر گمراہی ثابت ہوگئی اور وہ جہنم کا شکار بنے ۔ فرمایا (آیت) ” فسیروا فی الارض “۔ پس زمین پر چل پھر کر دیکھو تمہیں بہت سی چیزیں نظر آئیں گی ، تاریخ کے اوراق اور اجڑی بستیوں کے کھنڈرات عبرت کا سامان پیش کر رہے ہیں آپ کو جگہ جگہ ایسے کتبے نظر آئیں گے کہ یہاں فلاں قوم آباد تھی مگر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے اس کے غضب کا شکار ہوگئی ، عادیوں اور ثمودیوں کی بستیاں ، الٹی بستی والوں کے نشانات آشوری ، مصری ، کلدانی ، اور بابلی تہذیبوں کے نشانات آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ آ کر دیکھو (آیت) ” فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ، ان کی بستیاں تباہ وبرباد ہوئیں اور یہ سب لقمہ اجل بن گئے ،
Top