Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 37
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اِنْ : اگر تَحْرِصْ : تم حرص کرو (للچاؤ) عَلٰي هُدٰىهُمْ : ان کی ہدایت کے لیے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ لَا يَهْدِيْ : ہدایت نہیں دیتا مَنْ : جسے يُّضِلُّ : وہ گمراہ کرتا ہے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
اگر آپ بہت خواہش کریں ان کی ہدایت کی پس بیشک اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا ان کو جن کو گمراہ کرتا ہے ، اور نہیں ان کے لیے کوئی مددگار ۔
(ربط آیات) مشرکین نے اپنے کفر اور شرک کے جواز میں یہ دلیل قائم کی تھی کہ اگر یہ برے افعال ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے روکتا کیوں نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ خیال کا رد فرمایا کہ اللہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو برائی سے نہیں روکتا نہ اس سے برائی کرنے کی طاقت ہی سلب کرلیتا ہے بلکہ اس نے برائی کی رکاوٹ کے لیے ایک نظام قائم کر رکھا ہے اس نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے جنہوں نے لوگوں کو حکم دیا (آیت) ” ان عبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت “۔ عبادت صرف اللہ کی کرو ، اور طاغوت کی پرستش سے بچ جاؤ ، گویا اللہ تعالیٰ نے قانون کے ذریعے لوگوں کو شرک سے روک دیا اس کے بعد لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے ، بعض کو تو ہدایت نصیب ہوگئی ، انہوں نے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیا اور طاغوت کی پرستش سے بچ گئے البتہ جس گروہ نے ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا اور کفر وشرک پر اڑے رہے ، ان پر گمراہی ثابت ہوگئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ذرا زمین میں چل پھر کر مشاہدہ کرو ، جگہ جگہ اجڑی بستیوں کے کھنڈرات اور تاریخ کے اوراق بتائیں گے کہ جن لوگوں نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کفر وشرک کو ترک نہ کیا ، ان کا کیا حشر ہوا ، ان لوگوں پر اللہ کا سخت عذاب آیا ، ان کی بستیاں تباہ وبرباد ہوگئیں ، اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا وہ اس دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آخرت میں بھی وہ نامراد ہی رہیں گے ۔ (ہدایت سے محرومی) اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور اس کے ماننے والوں کو تسلی دی ہے کہ اگر آج آپ کے مخالفین بھی ضد اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کی مخالفت کر رہے ہیں ، آپ کو تکالیف پہنچا رہے ہیں ، حق بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو آپ گھبرائیں نہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان تحرص علی ھدھم “۔ اگر آپ بہت طمع کریں اس بات کا کہ یہ لوگ ہدایت پاجائیں ، اللہ کے دین کو قبول کرلیں ، تو یاد رکھیں (آیت) ” فان اللہ لا یھدی من یضل “۔ تو بیشک اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا جس کو گمراہ کرتا ہے ، آپ کتنی بھی تمنا کریں کہ یہ لوگ ہدایت پاجائیں ، مگر جنہیں اللہ نے ان کی ضد عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر گمراہ کردیا ہے ، وہ راہ راست پر نہیں آسکتے ، لہذا آپ زیادہ فکر مند نہ ہوں ، حرص کا عام فہم معنی طمع اور لالچ ہوتا ہے جو کہ اخلاقی بیماری ہے اور یہ چیز ایک مومن آدمی میں پیدا نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ یہ چیز اللہ کے نبی کی طرف منسوب کی جائے تو یہاں پر حرص کا لغوی معنی مراد نہیں بلکہ اس مقام پر حرص سے مراد خواہش اور تمنا ہے جو اپنی قوم کی ہدایت کے لیے نبی کے دل میں پیدا ہوتی تھی ۔ اللہ کے تمام نبیوں کا یہی حال رہا ہے ، اپنی قوم کو کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر انہیں سخت کوفت ہوتی تھی اور وہ ہر طریقے سے لوگوں کو اس بیماری سے پاک کرنا چاہتے تھے ، پھر پوری کوشش کے باوجود جب قوم نہیں مانتی تھی تو خود ان سے علیحدگی کا اعلان فرما دیتے تھے ، سورة الممتحنہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ پڑھ لیں ، جب آپ اور آپ کے مٹھی بھر ماننے والے قوم سے بالکل مایوس ہوگئے (آیت) ” اذ قالوا لقومھم “ تو اپنی قوم سے کہنے لگے (آیت) ” انا برء ؤا منکم ومما تعبدون من دون اللہ “۔ ہم تم سے اور تمہارے معبودان باطلہ سے متنفر ہیں (آیت) ” کفرنا بکم “۔ ہم تمہارے منکر ہیں ۔ (آیت) ” وبدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضاء ابدا “۔ ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بعض کی دیوار حائل ہوچکی ہے (آیت) ” حتی تؤمنوا باللہ وحدہ “ یہاں تک کہ تم اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لے آؤ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تمام تر خواہش اور تمنا کے باوجود کہ سارے لوگ ایمان لے آئیں ، اللہ نے سورة یوسف میں فرمایا ہے (آیت) ” وما اکثر الناس ولوحرصت بمؤمنین “۔ آپ کتنی بھی خواہش کریں مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور وہ ہدایت سے محروم ہی رہیں گے آگے اللہ نے اس محرومی کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” فان اللہ لایھدی من یضل “۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا ان کو جن کو گمراہ کردیتا ہے ، اور گمراہ اسی کو کرتا ہے جو ضدی اور عنادی ہوتا ، اس بات کو اللہ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر بیان فرمایا کہ جو شخص ظلم اور فسق پر اڑا رہتا ہے ، اس کے دل میں تعصب اور عناد راسخ ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہدایت حاصل کرنے کی صلاحیت اور استعداد ہی خراب کر بیٹھتا ہے ، پھر ایسے لوگوں کو ایمان قبول کرنے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوتی ، البتہ جس کے دل میں ہدایت کے لیے طلب پیدا ہوجائے ، اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ضرور راہ راست واضح کردیتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا (آیت) ” ولکن کانوا انفسھم یظلمون “۔ (النحل) بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ، مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بلاوجہ گمراہ نہیں کرتا بلکہ ان کی اپنی نفرت ، ہٹ دھرمی ، تعصب اور تکبر انہیں ہدایت سے محروم رکھتے ہیں ، یہود ونصاری کی مثال دیکھ لیں ان بدبختوں کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں وہ اپنی ضد پر اڑے بیٹھے ہیں ، اور حضور ﷺ کی رسالت سے شدید ترین عداوت رکھتے ہیں کفر اور شرک میں مبتلا ہیں مگر اپنے آپ پر حق پرستی کا لیبل لگا رکھا ہے ، کہتے ہیں کہ ہم آسمانی کتابوں اور اللہ کے رسولوں کو ماننے والے ہیں مگر نہ اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ پیغمبر آخرالزمان پر ایمان ہے بلکہ آپ سے شدید دشمنی ہے دنیا کی اڑھائی تین ارب کی آبادی عیسائیوں کی ہے ، یہ اپنی ضد سے اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر نازل ہو کر ان کو ختم نہیں کردیتے ۔ فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ ضد اور عناد کی بناء پر گمراہ کردے ، آپ کتنی بھی خواہش کریں ، وہ راہ راست پر نہیں آئے گا ، آپ ان کے متعلق زیادہ فکر مند نہ ہوں ، یہ لوگ عذاب کے مستحق ہوں گے (آیت) ” ومالھم من نصرین “۔ اور پر ان کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا ، محاسبے کی منزل اور جزائے عمل کے وقت یہ لوگ بالکل اکیلے ہوں گے اور انہیں کسی طرح سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہوگی ۔ (تسلی کا مضمون) اس میں حضور ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون بھی ہے ، اللہ نے یہ مضمون قرآن پاک میں مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے جب بھی پیغمبر (علیہ السلام) قوم کی طرف سے دل برداشتہ ہوتے ، اللہ تعالیٰ کا پیغام آجاتا ، سورة الکہف میں جہاں جہاں اللہ نے کفار کے اس دعوے کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) اولاد رکھتا ہے وہاں فرمایا (آیت) ” فلعلک باخع نفسک “ کیا آپ اپنا گلا گھونٹ کر ہلاک ہوجائیں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے فرمایا آپ ان کو چھوڑ دیں کہ ان کی ہٹ دھرمی میں قصور انہی کا ہے آپ کا نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے (آیت) ” وانک لتھدی الی صراط مستقیم “۔ (الشوری) آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ان کے سامنے راہ راست پیش کردیں اور گذشتہ درس میں یہ بھی گزر چکا ہے (آیت) ” فھل علی الرسل الا البلغ المبین “ رسولوں کا کام تو یہ ہے کہ وہ احکام الہی کھول کر بیان کردیں لوگوں کو آگاہ کردیں اور انہیں ان کے برے انجام سے ڈرا دیں ، لیکن کسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا نبی کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، حضرت علی ؓ کا باپ ابو طالب جب بستر مرگ پر پڑا تھا تو حضور ﷺ کو بڑا صدمہ ہو رہا تھا کہ آپ کا چچا ایمان سے خالی جا رہا ہے آپ نے ہر چند کوشش کی کہ وہ مرنے سے قبل کلمہ توحید پڑھ لے مگر اس وقت بھی اس کا تکبر اس کے اڑے آیا اور کہنے لگا کہ اگر اس وقت میں نے کلمہ پڑھ لیا تو لوگ کیا کہیں گے کہ مرتے وقت اپنے آباؤ اجداد کا دین چھوڑ گیا ، لہذا میں اپنے بڑوں کے دین پر ہی مروں گا ، حضور ﷺ کی اس انتہائی خواہش کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “۔ اے نبی ! آپ کسی کو اپنی خواہش پر ہدایت نہیں دے سکتے ، ہدایت تو اسے ملتی ہے جسے اللہ منزل مقصود تک پہنچانا چاہئے ۔ (آیت) ” وھو اعلم بالمھتدین “۔ (القصص) اور یہ اسی کے علم میں ہے کہ ہدایت کی استعداد رکھنے والے کون ہیں تو آیت زیر درس میں حضور ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون ہے کہ نبی مومن ، یا مبلغ کا کام تو پیغام کو پہنچا دینا ہے ، وہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کی حتی الامکان کوشش کریں اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں کیونکہ کسی کے انجام کے متعلق ان سے نہیں پوچھا جائے گا ، بلکہ اللہ خود ان سے نپٹ لے گا اور خود پوچھ لے گا کہ اس نے صحیح راستہ کیوں نہ اختیار کیا ، ہاں اگر اللہ کا نبی یا دوسرا مبلغ دین کو پہنچانے میں کوشش نہیں کرے گا تو پر ذمہ دار ہوگا اور ماخوذ ہوگا ۔ (اچھی اور بری حرص) اس آیت کریمہ میں آمدہ لفظ حرص قابل توجہ ہے ، جیسا کہ پہلے عرض کیا ، حرص کا عام فہم معنی طمع اور لالچ ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز ہمارے پاس آجائے اور ہم زیادہ صاحب مال و آسائش بن جائیں خواہ دوسرے حقدار اس سے محروم ہی رہ جائیں ، ان معافی میں بخل کی طرح حرص بھی نہایت ہی قبیح چیز ہے ، تاہم اس مقام پر حرص کا لفظ ان معانی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ اس سے مراد خواہش اور تمنا ہے ، ظاہر ہے کہ کسی چیز کی خواہش معیوب نہیں اور اگر یہ نیکی کے کام کے لیے ہو تو اچھی چیز ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ مسجد نبوی میں نماز باجماعت ادا ہو رہی تھی ، جب حضور ﷺ رکوع میں تھے تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور وہ جماعت میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع میں چلا گیا اور پھر اسی حالت میں گھسٹتا ہوا جماعت کے ساتھ مل گیا ، اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کا رکوع جماعت سے نہ رہ جائے جب نماز ختم ہوئی تو حضور ﷺ نے اس شخص سے فرمایا ” زادک اللہ حرصا ولا تعد “ اللہ تیری اس حرص کو زیادہ کرے ، مگر دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنا ، پہلے صف میں شریک ہوجاؤ ، پھر تکبیر کہو اور پھر رکوع میں جاؤ ، جماعت کے ساتھ جتنا حصہ مل جائے شامل ہوجاؤ اور باقی نماز بعد میں ادا کرلو ، شریعت نے دوڑ کر نماز میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی بلکہ اپنی طبعی چال سے چل کر آؤ ، اور جتنا حصہ ملے حاصل کرلو بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اے پیغمبر ﷺ ! آپ لوگوں کی ہدایت کے لیے کتنی بھی تمنا کریں ، مگر اللہ تعالیٰ گمراہ ہونے والوں کو ہدایت سے نہیں نوازتا ۔ (بعث بعد الموت کا انکار) آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے تعصب کی ایک مثال بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” واقسموا باللہ جھد ایمانھم “۔ یہ اللہ کے نام کی سخت قسمیں اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں ” لا یبعث اللہ من یموت “ کہ جو مر چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ نہیں اٹھائے گا ، کہتے ہیں یہ مسلمانوں کے دھکوسلے ہیں کہ مرنے کے بعد لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے اور حساب کتاب ہوگا ، یہ سب جھوٹ ہے ، اس کی شان نزول میں امام ابن جریر (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ایک مسلمان نے کسی مشرک سے قرض لینا تھا ، وہ اس کے ہاں پہنچا تو باتوں باتوں میں قیامت کا ذکر بھی آگیا ، اس پر مشرک قسمیں اٹھا کر کہنے لگا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان مر کر مٹی ہوجائے اور پھر دوبارہ زندہ ہوجائے ، یہ ناممکن ہے اور مسلمانوں کا دعوی درست نہیں ہے ، اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی تردید میں فرمایا ” بلی “ کیوں نہیں ، یہ حرف ایجاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ ضرور مرنے کے بعد اٹھائے گا (آیت) ” وعدا علیہ حقا “ وعدہ ہے اس کا سچا مگر بات یہ ہے (آیت) ” ولکن اکثر الناس لا یعلمون “۔ کہ اکثرلوگ بےعلم اور بےسمجھ ہیں جس کی وجہ سے بعث بعد الموت کا انکار کر رہے ہیں ، حالانکہ عقل بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ جب تک انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہ ہو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے ، دنیا کی ہر حکومت مجرموں کو سزا دیتی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ملک میں اندھیر نگری مچ جائے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوجائے ، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں بعض لوگ جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجو کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ تو کسی انفرادی مالک یا حکومت کی بات ہو سکتی ہے مگر پوری کائنات پر تمام عارضی حکومتوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ایک حکومت بھی ہے ، دنیا کی کسی حکومت کا مجرم لامحالہ اللہ تعالیٰ کی حکومت کا مجرم ہوتا ہے کوئی شخص اس دنیا کی کسی حکومت یا کسی عدالت کی آنکھوں میں دھول ڈال کر ، یا سفارش اور رشوت کی بنا پر سزا سے بچ سکتا ہے ، مگر اللہ احکم الحاکمین کی عدالت کو دھوکا نہیں دے سکتا ، ایک دن آنے والا ہے جس دن اس کا بھی میزان عدل قائم ہوگا ، اور اس عدالت میں کسی جرم کی پردہ پوشی نہیں ہو سکے گی ، اس لیے تو اللہ نے اس دن کا نام یوم الدین رکھا ہے اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا نہ کوئی نیکی کرنے والا محروم رہے گا اور نہ کوئی مجرم بچ سکے گا ، اس دن ہر ایک کی پوری پوری داد رسی ہوگی اور ہر ایک کو اس کا حق دلایا جائے گا ، لہذا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا دن مقرر کرے جب سب کو اپنے دو بار میں حاضر کر کے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرے ، تو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بعث بعد الموت ضروری ہے ، جس کا اللہ نے وعدہ بھی کر رکھا ہے ۔ (قیامت کی ضرورت) فرمایا وقوع قیامت اور بعث بعد الموت اس لیے بھی ضروری ہے (آیت) ” لیبین لھم الذی یختلفون فیہ “۔ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے وہ بات ظاہر کردے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے وہ لوگ اسی بات میں اختلاف کرتے تھے اور قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ کوئی قیامت نہیں آئے گی ، اللہ کا نبی سچ نہیں کہتا اور ہمارے معبود بالکل برحق ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے متنازعہ مسائل کو حل کرنے اور ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کے لیے وقوع قیامت ضروری ہے ، پھر فرمایا قیامت کا آنا اس لیے بھی ضروری ہے ، (آیت) ” ولیعلم الذین کفروا “۔ تاکہ کافر جان لیں ، ان پر واضح ہوجائے (آیت) ” انھم کانوا کذبین “۔ کہ وہ جھوٹے تھے ، قیامت برپا کرکے اللہ تعالیٰ عملی طور پر ثابت کر دے گا کہ کافر جھوٹے ہیں جو قیامت کا انکار کر رہے ہیں۔ اس مضمون کو سورة التغابن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کافر لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ دو بار نہیں اٹھائے جائیں گے ، اس کے جواب میں اللہ نے اپنے پیغمبر کو فرمایا (آیت) ” قل بلی وربی “۔ آپ کہہ دیں میرے رب کی قسم لتبعثن “۔ تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے (آیت) ” ثم لتنبؤن بما عملتم “۔ پھر تمہیں بتلا دیا جائے گا جو عمل تم کرتے تھے ، اس وقت ان کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا وگرنہ عقل کی بات یہ ہے کہ انصاف کا ایک دن ہونا چاہئے جب ہر ایک کو پورا پورا انصاف ملے ۔ بخاری شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ انسان مجھے جھٹلاتا ہے اور گالی دیتا ہے حالانکہ اس کے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں ، فرمایا خدا تعالیٰ کو گالی دنیا یوں ہے کہ وہ کہتا ہے (آیت) ” قالوا اتخذ اللہ ولدا “۔ (الکہف) یعنی اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے ، حالانکہ خدا تعالیٰ کا نہ کوئی حقیقی بیٹا ہے اور نہ مجازی ‘ وہ تو کہتا ہے ” انا الاحد الصمد “ کہ میں یگانہ اور بےنیاز ہوں ، میری نہ بیوی ہے اور نہ بچے جہاں تک عقل کا تعلق ہے ، یہ بھی دوبارہ اٹھائے جانے کو تسلیم کرتی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان کو پہلی دفعہ پیدا کرنا تو آسان ہو مگر دوسری دفعہ پیدا کرنا مشکل ہوجائے ، عقلی انداز سے دیکھا جائے تو پہلی پیدائش زیادہ مشکل تھی جب کہ نہ کوئی مادہ تھا ، نہ نمونہ اور نہ آلہ ، جب ایک دفعہ تخلیق معرض وجود میں آگئی تو اب اس کا اعادہ کرنا کیسے مشکل ہو سکتا ہے اور دوسری بات اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا اس طرح ہے کہ وہ کہتا ہے ، اللہ دوبارہ نہیں اٹھائیگا حالانکہ میرا یہ پکا وعدہ ہے کہ سب کو دوبارہ اٹھاؤں گا اور پھر حساب کتاب کی منزل بھی آئے گی ۔ (خدا کا اٹل فیصلہ) فرمایا (آیت) ” انما قولنا لشیء “۔ بیشک کسی چیز کے متعلق ہماری بات بالکل فیصلہ کن اور اٹل ہوتی ہے (آیت) ” اذا اردنہ “ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں نہ کسی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ مادے اور آلے کی ، بلکہ جب بھی ہماری مشیت ہوتی ہے (آیت) ” ان نقول لہ کن “۔ تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں ، ہوجاؤ (آیت) ” فیکون “ پس وہ فورا ہوجاتی ہے ، ہم کسی بھی کام کو کر گزرنے پر قادر ہیں اور ایسا کرنے میں ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ، جس طرح ہم ہر چیز کو کر گزرنے پر قادر ہیں ، اسی طرح قیامت برپا کرنے اور لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہیں ، ہمیں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آتی ، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے قیامت بھی برپا کرے گا اور لوگوں کو زندہ کرکے اپنے سامنے کھڑا بھی کرے گا یہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے ، اللہ تعالیٰ ان پر ہر چیز ظاہر کرے گا ، اور پھر ان کا جھوٹ کھل جائے گا ۔
Top