Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں البتہ عبرت ہے ، پلاتے ہیں تم کو اس سے جو ان کے پیٹ میں ہے ، گوبر اور خون کے درمیان ہے دودھ خالص ، خوشگوار پینے والوں کے لیے ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے باطل عقائد کا رد فرمایا اور ان کے برے انجام کا ذکر کیا ، رسالت کے ضمن میں فرمایا کہ رسول کی امت کے برے اعمال کو شیطان نے انہیں مزین کرکے دکھایا وہ اپنے شرکیہ عقائد اور باطل رسومات پر ہی جمے رہے اور رسولوں کی بات کو نہ مانا پھر آخری دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخر الزمان پر کتاب یعنی قرآن نازل فرمائی تاکہ آپ اس کی اچھی طرح وضاحت کردیں اور وہ تمام چیزیں واضح ہوجائیں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، پھر فرمایا کہ یہ کتاب ہدایت اور رحمت ہے مگر اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر یہ کتاب نازل فرما کر انسان کی روحانی زندگی کا سامان کردیا اور آسمان کی طرف سے بارش برسا کر ان کی مادی زندگی کا بندوبست کردیا ، فرمایا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو کان لگا کر سنتے ہیں ۔ (مویشیوں میں سامان عبرت) آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مویشیوں اور بعض پھلوں کا ذکر کرکے ان کے فوائد کو بیان کیا ہے اور یہ بات سمجھائی ہے کہ اس میں دراصل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ کے دلائل ہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان لکم فی الانعام لعبرۃ “۔ اے لوگو ! بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں سامان عبرت بہمیۃ الانعام کا ذکر سورة انعام میں تفصیل کے ساتھ ہوچکا ہے ، ان سے مراد آٹھ قسم کے وہ نر اور مادہ جوڑے مراد ہیں جو انسانوں کے قریب رہتے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، دراصل اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسان کی خدمت پر مامور کر رکھا ہے چناچہ انسان انکی ہڈیاں گوشت دودھ ، کھال اور اون استعمال کرتے ہیں ، یہ آٹھ جوڑے ، اونٹ (نر اور مادہ) گائے بھینس (نر اور مادہ) بھیڑ (نر اور مادہ) بکری ( نر اور مادہ) ہیں ، اگرچہ یہ طاقت میں انسان سے بہت زیادہ ہیں ، مگر اللہ نے ان کی سرشت میں یہ چیز ڈال دی ہے کہ وہ انسان کا حکم مانیں اور اس کی خدمت کریں ، پھر بھی جب کسی جانور کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا انسان بلاوجہ تنگ کرتے ہیں تو وہ انہیں ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑتے ، اس سلسلہ میں اونٹ کی دشمنی تو ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے ، بہرحال فرمایا ان مویشیوں میں تمہارے لیے عبرت کا سامان ہے عبرت کا معنی ہوتا ہے کسی معلوم چیز سے کسی نامعلوم چیز کو دریافت کرنا یعنی مشاہدہ میں آنے والی چیزوں کو دیکھ کر مشاہدہ میں نہ آنے والی چیزوں پر یقین کرنا ، مذکورہ مویشی ہمیں نظر آ رہے ہیں ، ان سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ، قدرت اور اس کی توحید کو سمجھنا ہی عبرت ہے ۔ (دودھ کی نعمت) آگے اللہ تعالیٰ نے دودھ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” نسقیکم مما فی بطونہ “۔ ہم پلاتے ہیں تم کو اس چیز سے جو ان مویشیوں کے پیٹ میں ہے ، یہاں پر من تبعیضیہ ہے یعنی بعض جانوروں میں سے پلاتے ہیں ، سب کا ضروری نہیں اور کیا پلاتے ہیں ” لبنا خالصا “ خالص اور صاف ستھرا دودھ جب یہ مویشی کے تھنوں سے برآمد ہوتا ہے تو بالکل خالص ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوتی ، اور بالکل پاکیزہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی نجاست نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ نے تو اس دودھ کو خالص اور پاکیزہ بنایا ہے جب یہ انسانوں کے ہاتھوں میں آتا ہے تو یہ خالص نہیں رہتا بلکہ اس میں پانی یا دوسری چیزوں کی ملاوٹ ہوجاتی ہے اور اس کی پاکیزگی میں بھی فرق آتا ہے کہ بعض اوقات اس میں ظاہری یا باطنی نجاست شامل ہوجاتی ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو ناپاک چیزوں میں (آیت) ” بین فرث ودم “۔ یعنی گوبر اور خون کے درمیان پیدا فرمایا ہے جانور کے پیٹ میں ایک طرف گوبر کا ذخیرہ ہے جو خوراک کا فضلہ ، بدبودار اور نجس ہے اور دوسری طرف خون ہے جو بجائے خود حرام اور ناپاک ہے ، مگر انہی کے درمیان میں سے اللہ تعالیٰ نے دودھ جیسی نہایت ہی خالص اور صاف ستھری چیز کو پیدا فرمایا ہے تاکہ انسان اس کی لذت اور غذائیت سے مستفید ہوں ۔ فرمایا یہ دودھ نہ صرف خالص اور پاکیزہ ہے بلکہ ” سآئغا “۔ خوشگوار بھی ہے ، اس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور یہ آسانی سے حلق میں بھی اتر جاتا ہے یعنی اس کے استعمال کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی یہ لفظ سورة ابراہیم میں آچکا ہے ، جہاں دوزخیوں کو پیب ملا دیے جانے کا ذکر ہے وہاں فرمایا (آیت) ” ولا یکاد یسیغہ “۔ وہ اسے حلق سے نیچے نہیں اتار سکیں گے ، اس قدر بدبودار اور کڑوا ہوگا ، مگر یہاں پر دودھ کے متعلق فرمایا کہ یہ خوشگوار ہے جو آسانی کے ساتھ حلق سے اتارا جاسکتا اور ایک بہت بڑی نعمت ہے (آیت) ” للشربین “ پینے والوں کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ ، حکمت بالغہ ، اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ، فرمایا ان مویشیوں میں تمہارے لیے عبرت کا سامان ہے تمہیں غور کرنا چاہئے کہ اس نے اپنی ربوبیت کا کس طریقے سے اظہار فرمایا ہے ، اس آیت کریمہ میں آمدہ لفظ ” بطونہ “ غور طلب ہے اور اس میں مفسرین کرام نے بحث کی ہے ، اس میں ہ کی ضمیر انعام یعنی جانوروں کی طرف لوٹتی ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے مگر یہاں پر ضمیر مفرد لائی گئی ہے ۔ اس ضمن میں لغت کے امام کہتے ہیں کہ اگرچہ لفظ انعام جمع کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر لفظ تو بہرحال مفرد ہی ہے ، جیسے بعض حضرات لفظ اخلاق کو بھی مفرد شمار کرتے ہیں اگرچہ اس کا معنی جمع والا ہے ، اسی طرح اخبار عام لفظ ہے ، اگرچہ یہ خبر کی جمع ہے ، مگر یہ استعمال واحد ہوتا ہے اور اس کی جمع اخبارات آتی ہے ، لہذا لفظ مفرد ہونے کی بناء پر انعام کی ضمیر بھی واحد ہی لائی گئی ہے ، امام بیضاوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ ہ کی ضمیر انعام کی طرف نہیں بلکہ یہ محذوف لفظ مذکور کی طرف راجع ہے جو کہ واضح طور پر مفرد لفظ ہے ، اس لحاظ سے بھی ضمیر کا مفرد آنا درست ہے پہلے سے مذکور چیز بھی انعام ہی اور وہ بھی مفرد لفظ ہے ، ضمیر کے مفرد آنے میں کوئی اشکال نہیں ، ویسے سورة مومن میں انعام ہی سے متعلق مؤنث اور مفرد ضمیر ھا بھی لائی گئی ہے (آیت) ” لترکبوا منھا ومنھا تاکلون “۔ دودھ ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جس شخص کو اللہ دودھ عطا فرمائے اسے یوں دعا کرنی چاہئے (1) (ترمذی ص 498) اللھم زدنا منہ “ اے اللہ اس نعمت میں مزید اضافہ فرما اس کے علاوہ اگر کوئی دوسری نعمت حاصل ہو تو کہنا چاہئے ” اللھم اطعمنا خیرا منہ “۔ اے اللہ ! ہمیں اس سے بہتر نعمت عطا کر مگر دودھ چونکہ بہترین نعمت ہے ، اس لیے اس میں اضافہ کی درخواست کی جاتی ہے حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد مبارک ہے کہ اکل وشرب کی تمام اشیاء میں سے دودھ ہی ایک ایسی چیز ہے جو کھانے اور پینے دونوں کے کام آتی ہے یہ ایک بہترین اور لذیذ مشروب بھی ہے اور غذائیت کے اعتبار سے بہترین غذا بھی ہے اللہ تعالیٰ نے دودھ میں غذائیت کے تمام اجزاء نمکیات ، لحمیات ، پانی ، چربی ، روغن شامل کردیے ہیں جو انسان کی جسمانی ساخت اور توانائی کے لیے ضروری ہیں اسی لیے دو سال تک بچہ صرف دودھ پر گزارا کرتا ہے ، دودھ کے علاوہ اگر کوئی دوسری چیز نہ بھی ملے تو یہی اس کی نشونما کے لیے کافی ہوتا ہے ، ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد موجود ہے کہ دودھ سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے لہذا اس میں اضافہ کی دعا کی گئی ہے پھر یہ ہے کہ دودھ جنت کی نعمتوں میں بھی سرفہرست ہے ، جہاں اللہ نے پانی شہد ، شراب طہور کی نہروں کا ذکر کیا ہے وہاں دودھ کی نہروں کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔ دودھ کی طہارت کے متعلق فقہائے کرام بحث کرتے ہیں امام ابوبکر جصاص (رح) نے بھی ” احکام القرآن “ میں لکھا ہے کہ اللہ نے دودھ کو اس قدر قوی طہارت عطا کی ہے کہ مردہ جانور کے تھنوں میں موجود دودھ بھی پاک ہی ہوگا اگرچہ مرنے کے بعد جانور خود ناپاک ہوچکا ہے بزرگان دین میں ابو طالب مکی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال کو بھی دودھ پر قیاس کیا جاسکتا ہے ، جس طرح دودھ میں گوبر یا خون کی ملاوٹ سے دودھ ناپاک ہوجاتا ہے ، اسی طرح اگر انسانی اعمال میں ریا اور ہوی کی ملاوٹ ہوگئی تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے ، ریاکاری بھی اعمال کو ضائع کردیتی ہے اور خواہشات نفسانیہ اور بدعات بھی اعمال کے قاطع ہیں ، لہذا انسان کے اعمال کو ان دو چیزوں سے پاک ہونا چاہئے ۔ (دودھ کا کارخانہ) دودھ کی فراہمی کے لیے اللہ تعالیٰ نے جانور کے جسم میں عجیب و غریب کارخانہ قائم کر رکھا ہے ، جانور کی خوردہ غذا اس کے معدے میں جاتی ہے ، پھر اس غذا کے تمام لطیف اجزاء باریک باریک رگوں کے ذریعے کھینچ کر جگر میں آجاتے ہیں ، جگر ان کو خون میں تبدیل کرتا ہے جو کہ پورے جسم میں گردش کرتا ہے ، چونکہ اس خون میں انسانی ساخت کے تمام اجزا شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ خون جس جس ساخت میں پہنچتا ہے وہ اپنی مطلوبہ غذا حاصل کرلیتا ہے اور باقی دوسری ساختوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، اسی اصول کے مطابق جب خون جانور کے تھنوں کے قریب پہنچتا ہے تو وہ اس سے دودھ پیدا کرنے والے اجزاء حاصل کرکے انہیں دودھ میں تبدیل کردیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم میں بہت بڑی فیکٹری لگا رکھی ہے ، جہاں اللہ کے لاکھوں فرشتے کام کر رہے ہیں اور ہر جاندار کی ضروریات کی چیزیں تیار کرتے رہتے ہیں بہرحال اللہ نے دودھ کو اپنی قدرت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ یہ رنگت ، ذائقے اور غذائیت کے لحاظ سے بہترین چیز ہے اور انسانوں کے لیے عبرت کا سامان بھی ہے ۔ (مشروب اور اچھی روزی) دودھ کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کارآمدہ پھلوں کا ذکر فرمایا ہے اور انہیں اپنی قدرت تامہ اور وحدانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومن ثمرت النخیل والاعناب “۔ کھجوروں کے پھل اور انگوروں سے (آیت) ” تتخذون منہ سکرا “۔ تم نشے والی چیز بناتے ہو (آیت) ” ورزقا حسنا “۔ اور اچھی روزی بھی تیار کرتے ہو۔ کھجور اور انگور ایسی چیزیں ہیں جن سے شراب بھی بن سکتی ہے اور اچار ، مربے ، چٹنی اور غذائیت کی دوسری چیزیں بھی تیار ہوتی ہیں یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے شراب جیسی حرام چیز کا ذکر کیسے فرمایا ہے ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی ہے جب کہ ابھی شراب کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوتا تھا ، تاہم اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر شراب کا ذکر اس انداز میں کیا ہے کہ اس کو (آیت) ” رزقا حسنا “ (حلال اور پاکیزہ روزی) سے بالکل علیحدہ کردیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تمہارے لیے کھجور اور انگور پیدا فرما دیے ہیں ، اب تم اپنی صوابدید کے مطابق خواہ ناپسندیدہ نشہ آور چیز شراب تیار کرلو یا اسے مشروب اور سرکے کی صورت میں حلال طور پر استعمال کرلو ۔ اس بات میں کلام نہیں کہ حرمت شراب کے سلسلہ میں جن مراحل سے گزرنے کے بعد قطعی حرمت کا حکم آیا ، ان میں یہ آیت پہلا مرحلہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لطیف پیرایہ میں اس کی ناپسندیدگی کا ذکر کردیا ہے اس کے بعد دوسرے مرحلے میں سورة بقرہ کی آیت (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر “ نازل ہوئی لوگ حضور ﷺ سے اس کی حرمت وحلت کے متعلق دریافت کرتے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ شراب اور جوئے میں نقصانات بھی ہیں اور فوائد بھی مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے ، اس طرح گویا شراب کی قباحت سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے ، پھر تیسرا مرحلہ وہ آیا جب شراب کے نشے میں مخمور ایک صحابی نے امامت کرائی تو قرآن پاک غلط پڑھ دیا ، اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم آیا (آیت) ” لا تقربوالصلوۃ وانتم سکری “۔ (النسآئ) یعنی نشے کی حالت میں نمازے کے قریب نہ جاؤ لوگ پھر بھی گاہے بگاہے شراب استعمال کرتے رہے اور بالآخر چوتھے مرحلے میں جا کر حرمت کا قطعی حکم آیا (آیت) ” انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون “۔ (المائدہ) بہرحال اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر بطور احسان یاد دلایا ہے کہ اس نے تمہارے لئے کھجور اور انگور پیدا کیے جس سے تم شراب بھی کشید کرتے ہو اور طیب روزی کے طور بھی مستفید ہوتے ہیں ۔ (لفظ سکر کی تحقیق) امام ابو عبیدہ (رح) اور بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر ” سکر “ سے مراد نشے والی چیز نہیں بلکہ ” خوراک “ مراد ہے ، امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ لفظ خوراک یا غذا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، وہ اس کی مثال بیان کرتے ہیں کہ کسی نے کہا ہے ” جعلت اعراض الکرام سکر “ تو نے شرفا کی عزتوں کو خوراک بنا لیا ہے کثیر شاعر نے بھی کہا ہے ” لعزۃ من اعراضنا مستحلق “۔ خوشگوار ہو غری کے لیے کہ اس نے تمہاری آبروؤں کو کھالیا ہے یعنی ہماری غیبت کر کے ہماری عزتوں کو کھالیا ہے ، خدا کرے کہ اس سے بچ جائیں ” ھنیئا مریئا غیر دآئن مخابر “۔ بالکل خوشگوار ہو اور بدہضمی نہ ہو ، تو گویا سکر کا معنی خوراک بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ (رح) کے استاد امام شعبی (رح) جنہوں نے پانچ سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی زیارت کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ سکر سے مراد پینے کی چیز ہے نہ کہ نشہ آور چیز حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ حبشی زبان میں سرکے کو سکر کہا جاتا ہے جو کہ حلال چیز ہے ، بہرحال مفسرین کرام نے سکر کا معنی خوراک بھی کیا ہے اور محض مشروب بھی اور سرکہ بھی ، اگر معانی کو پیش نظر رکھا جائے تو نشہ آور چیز والا اشکال رفع ہوجاتا ہے ، شراب ہماری شریعت میں بہرحال حرام ہے اور اسکا کشید کرنا ، بیچنا ، خریدنا اور پینا پلانا سب حرام ہے ، فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ لقوم یعقلون “۔ بیشک اس میں صاحب عقل لوگوں کے لیے نشانی ہے ، شراب کو خامر العقل اسی لیے کہا گیا ہے کہ یہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے شرابی آدمی تو اس کے نشے میں ہی مخمور رہے گا ، البتہ جو اس کے قریب نہی جاتا ، اس کی عقل وخرد قائم رہے گی اور وہی اس نشانی سے مستفید ہو سکے گا ، ایسا شخص اللہ کی قدرت تامہ کو خوب سمجھ جائے گا اور پھر اسے وحدانیت خداوندی اور معاد پر یقین آجائے گا ، بہرحال مذکورہ اشیاء قدرت الہی کے نمونے ہیں جو روز مرہ ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں اور ہم ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
Top