بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے دور والی مسجد تک ، وہ کہ برکتیں رکھی ہیں ہم نے آل کے اردگرد ، تاکہ ہم دکھائیں ، اس کو اپنی نشانیوں میں سے ، بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
(نام اور کوائف) اس کا نام سورة بنی اسرائیل ہے ، اس میں بنی اسرائیل کا تھوڑا سا حال بیان ہوا ہے اور اسی مناسبت سے سورة کا یہ نام رکھا گیا ہے یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی اس کی ایک سو گیارہ آیات اور بارہ رکوع ہیں ، یہ سورة 1533 کلمات اور 6400 حروف پر مشتمل ہے ۔ (فضائل سورة ) اس سورة مبارکہ کی بڑی فضیلت آئی ہے بخاری شریف میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا سورة بنی اسرائیل ، کا سورة بنی اسرائیل ، سورة کہف اور سورة مریم کے متعلق بیان (1) (بخاری ص 683 ج 2 (فیاض) ہے ” انھن من العقاق الاول “ یہ عمدہ سورتیں میرا پرانا مال ہیں یعنی میں نے انہیں بہت پہلے یاد کرلیا تھا ، ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ تقریبا ہر رات سورة زمر اور سورة بنی اسرائیل کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ، بعض اور سورتوں کی تلاوت کا ذکر بھی ملتا ہے تاہم ان دوسورتوں کو خصوصیت حاصل ہے ، (مضامین سورة ) دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی زیادہ تر بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ، رسالت بطور جزو ایمان قرآن پاک کی حقانیت وصداقت اور معاد یعنی قیامت کا ذکر اس سورة کے مضا میں ہیں اس سورة میں اخلاقی تعلیم کا ذکر بھی ہے جو کہ انسان کی ترقی کے لیے ضروری ہے سورة ہذا کا ایک اہم مضمون واقعہ معراج ہے جس کا ذکر اسکی پہلی آیت میں کیا گیا ہے اور پھر کچھ ضمنا تذکرہ ساٹھویں آیت میں ہے ۔ اس سورة مبارکہ کی آیات بائیس تا چالیس میں اسلامی ریاست کا منشور (MANIFESTO مینی فسیٹو) پیش کیا گیا ہے اگرچہ اسلامی ریاست کی داغ بیل تو مدنی زندگی میں جا کر پڑی مگر یہ امر واقع ہے کہ حکومتیں یا باجماعتیں اپنا منشور اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شائع کردیتی ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کا آئندہ پروگرام کیا ہے اسی طریقے پر اسلامی سلطنت کا منشور بھی ریاست کے قیام سے پہلے ہی نازل کردیا گیا ۔ اس سورة کا ربط پہلی سورة کے ساتھ بھی ہے ، سورة النحل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کفار کی ناپسندیدہ حرکات پر صبر کرنے کا درس دیا تھا تو اب اس سورة مبارکہ میں حضور ﷺ کا واقعہ معراج بیان کرکے اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ آپ کس قدر بلند مرتبت ہیں جو کہ صبر ہی کا نتیجہ ہے ۔ (زمانہ واقعہ معراج) واقعہ معراج یقینا مکی زندگی میں پیش آیا ، مگر سنہ کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض مفسرین 4 نبوی کا ذکر کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل پیش آیا تاہم راجح بات یہ ہے کہ واقعہ معراج نبوت کے دسویں سال یا گیارہویں سال میں پیش آیا ، اس لحاظ سے یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل کا ہے ۔ اس سال کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے مثلا حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات اسی سال میں ہوئی ، آپ کے چچا ابو طالب بھی اسی برس فوت ہوئے اگرچہ وہ ایمان نہیں لائے مگر انہوں نے حضور کی ہمیشہ حمایت کی مشرکین کی طرف سے تکالیف حد سے بڑھ گئیں ، تو آپ کو طائف کا سفر بھی اسی سال اختیار کرنا پڑا ، حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ چونکہ نماز پنجگانہ واقعہ معراج میں فرض ہوئیں ، اس لیے حضرت خدیجہ ؓ پانچ نمازیں ادا نہیں کرسکیں ، اس زمانے میں صرف تین نمازیں تھیں ، رات کی نماز صرف حضور ﷺ پر فرض تھی اور باق صرف دو نمازیں فجر اور عصر فرض تھیں جیسا کہ سورة طہ میں ہے (آیت) ” قبل طلوع الشمس وقل غروبھا “۔ یعنی ایک طلوع سورج سے پہلے اور ایک سورج کے غروب ہونے سے پہلے ۔ (مکمل واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل سنت والجماعت کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ واقعہ معراج محض خواب کا واقعہ نہیں جسے روحانی معراج تسلیم کرلیا جائے بلکہ آپ کو یہ معراج روح اور جسم دونوں کے ساتھ ہوا خواب میں دیکھا جانے والا کوئی بھی واقعہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے ، مگر معراج النبی ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے جسے سن کر مشرکین نے فورا اعتراضات شروع کردیے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص رات کے تھوڑے سے حصے میں زمین وآسمان کے درمیان پچاس ہزار سال کی مسافت طے کرے ، اس زمانے میں بھی جسمانی معراج کا انکار کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ، بعض لوگ ملحد ہیں جو کہ نافرمانوں کی بدتر قسم ہے اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو غلط فہمی کی بناء پر جسمانی معراج کا انکار کرتے ہیں اس کی بنیاد احادیث کے بعض الفاظ میں جن سے شبہ پیدا ہوتا ہے تاہم جمہور کے نزدیک یہ جسمانی اور روحانی مکمل معراج تھا جس کی تفصیلات خود حضور ﷺ نے مختلف اوقات میں بیان فرمائیں اس واقعہ کے راوی چالیس پینتالیس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں جنہوں نے اس واقعہ کے مختلف حصے بیان کئے ہیں اور اب محدثین کرام نے تمام تفصیلات کو یکجا کردیا ہے ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، مسنداحمد وغیرہ ساری معتبر کتابوں میں اس واقعہ کا باب باندھا گیا ہے اور حضور ﷺ کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔ (آغاز واقعہ معراج) جس رات واقعہ معراج پیش آیا ، اس رات حضور ﷺ اپنی چچا زاد بہن ام ہانی ؓ کے ہاں مقیم تھے ان کا مکان خانہ کعبہ کے بالکل قریب تھا ، اور آپ اکثر وہاں تشریف لایا کرتے تھے ، چونکہ آپ کا گھر وہاں سے ذرا دور تھا ، اس لیے آپ بعض اوقات اپنی بہن کے ہاں ٹھہر جاتے ، تاکہ رات کو خانہ کعبہ میں عبادت کرسکیں ، بعض روایات میں آپ کے اپنے گھر کا ذکر بھی آتا ہے کہ آپ وہاں مقیم تھے مگر محدثین کرام فرماتے ہیں کہ ام ہانی کے گھر والی روایت صحیح ہے ، اور آپ نے چچا کے گھر کو اپنے ہی گھر پر محمول کیا ہے بعض روایات میں حطیم کے قیام کا ذکر بھی آتا ہے ، یہ بھی درست ہے کیونکہ آپ کے بیان کے مطابق فرشتے آپ کو ام ہانی کے گھر سے بیدار کرکے حطیم میں لے آئے تھے وہیں شق صدر ہوا اور پھر وہیں سے آپ سفر معراج پر روانہ ہوئے ۔ (شق صدر) حضور ﷺ کا بیان ہے کہ فرشتوں نے ام ہانی کے مکان کی چھت پھاڑ کر مجھے وہاں سے نکالا اور پھر خانہ کعبہ کے حطیم والے حصہ میں لے آئے ، پھر میرے سینہ کو چاک کیا ، قلب مبارک کو نکالا ، اسے سونے کے طشت میں رکھ کر آب زم زم سے دھویا ، اسے علم و حکمت سے بھر دیا اور پھر اپنے ٹھکانے پر واپس رکھ دیا مسلم شریف کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آپ کا شق صدر کیا گیا اس وقت آپ زمین پر نہیں تھے بلکہ فرشتوں نے آپ کو ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا ، (آیت) ” ثم انزلت “ پھر جب وہ اپنا کام مکمل کرچکے تو مجھے نیچے اتار دیا گیا ۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں شق صدر کا واقعہ چار دفعہ پیش آیا ہے پہلا واقعہ چار پانچ سال کی عمر میں پیش آیا جب کہ آپ اپنی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ ؓ کے ہاں زیر پرورش تھے اس عمر میں بچہ عام طور پر لہو ولعب کی طرف مائل ہوتا ہے مگر آپ کو چونکہ منصب نبوت عطا ہونے والا تھا اس لیے ابتداء ہی سے آپ کی تربیت مقصود تھی تاکہ آپ کھیل کود کی طرف زیادہ توجہ نہ دیں پھر دوسری دفعہ شق صدر اس وقت پیش آیا جب آپ کی عمر مبارک بارہ تیرہ سال کی تھی آغاز شباب میں اکثرنوجوانوں کے خیالات منتشر ہوجاتے ہیں مگر آپ ﷺ کو چونکہ ایک عظیم ذمہ داری سونپی جارہی تھی ، لہذا شق صدر کے ذریعے آپ کے قلب مبارک سے وہ تمام چیزیں دور کردی گئیں جن سے لغزش پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے ۔ منصب نبوت بڑا بوجھل معاملہ ہے ، اللہ نے سورة مزمل میں فرمایا (آیت) ” انا سنلقی علیک قولا ثقیلا “۔ ہم آپ پر ایک بوجھل بات ڈالنے والے ہیں یعنی وحی الہی کا بوجھ اتنا شدید ہوتا تھا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ شدید سردی میں حضور ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے ، تو اس بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے آپ کا تیسری دفعہ سینہ چاک کیا گیا اور پھر چوتھا شق صدر سفر معراج پر روانہ ہونے سے قبل حطیم میں کیا گیا تاکہ آپ پیش آمدہ عجیب و غریب واقعات کو برداشت کرسکیں ۔ (مسجد حرام سے مسجد اقصی تک) حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ شق صدر کے بعد میرے پاس حطیم کے مقام پر ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا یہ سفید رنگ کا جانور اتنا تیز رفتا رتھا کہ اس کا ایک ایک قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا ، مجھے اس جانور پر سوار کرایا گیا ، جبرائیل ﷺ ہمراہ تھے ہمارا سفر مسجد اقصے کی طرف شروع ہوا جب مدینہ طیبہ کے مقام پر پہنچے تو مجھے سواری سے نیچے اترنے کا حکم ہوا چناچہ جس جگہ اس وقت مسجد نبوی ہے وہاں میں نے دو رکعت نماز پڑھی ، پھر میرا گذر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر پر ہوا ، آپ کی قبر سرخ ٹیلے کے پاس ہے مجھے دکھایا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) قبر میں کھڑے ہو کر نماز ادا کر رہے ہیں ، حدیث (مسلم 268 ج 2 ونسائی ص 242 ج 1 ومسند احمد 148 ج 3 (فیاض) میں یہ الفاظ آتے ہیں ” رایت موسیٰ قائما یصلی فی قبرہ “۔ فرماتے ہیں کہ پھر میرا گذر طور کے مقام پر ہوا ، جہاں اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تکلم فرمایا تھا میں نے وہاں پر دو رکعت نماز پڑھی ، پھر مدین کا مقام آیا جہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ڈر سے مصر سے نکل کر قیام کیا تھا وہاں بھی دو رکعت نماز ادا کی ، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جائے ولادت بیت اللحم پہنچے اور دور رکعت نماز ادا کی پھر بیت المقدس پہنچے اور میں نے جانور کو پتھر کے اس کڑے کے ساتھ باندھ دیا جہاں دیگر انبیاء اپنی سواری کے جانور باندھا کرتے تھے ، اس مقام پر بھی میں نے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی ۔ فرماتے ہیں کہ اس وقت وہاں مسجد کی شکل و صورت نہ تھی کیونکہ اصل مسجد اور ہیکل سلیمانی کو بخت نصر نے تباہ وبرباد کردیا تھا اور اب وہاں اجڑھی ہوئی مسجد کے صرف کھنڈرات باقی تھے ، فتنہ بخت نصر کے سو سال بعد بنی اسرائیل پھر وہاں پہنچے اور وہ جگہ آباد کی ، اس کے بعد رومیوں نے اس مسجد کو تہس نہس کردیا ، مسجد کی تعمیر کی سہ بارہ کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوسکی اور واقعہ معراج کے وقت عمارت کی بجائے محض ایک ٹیلہ سا باقی رہ گیا تھا بیت اللہ شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آتا رہا ہے ، اس کی اصل عمارت کی تعمیر حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیث (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئی ۔ پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی تجدید کی بہرحال مسیح (علیہ السلام) کے زمانہ میں بیت المقدس کے ارد گرد عمارات موجود تھیں مگر خود مسجد ویران ہوچکی تھی ، تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت عمر ؓ کے زمانے میں فلسطین فتح ہوا تو ہیکل سلیمانی کی از سر نو تعمیر کی گئی ، بیت اللہ کے قبلہ مقرر ہونے سے پہلے بیت المقدس ہی قبلہ تھا اور اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی ، (آسمانوں کی سیر) مسجد اقصی میں کچھ دیر قیام کے بعد آسمانوں کا سفر شروع ہوا ، پہلے آسمان پر حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل نے تعارف کرایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، میں نے سلام کیا ، انہوں نے مرحبا کہہ کر جواب دیا پھر دوسرے آسمان پر پہنچے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اور چوتھے پر حضرت ادریس (علیہ السلام) ملے پھر پانچویں آسمان پر حضرت ہارون (علیہ السلام) اور چھٹے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور آخر میں ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ملے تمام نبیوں کے ساتھ سلام و جواب کا تبادلہ ہوا ، اور پھر وہیں مجھے بیت المعمور بھی دکھایا گیا ، جس طرح زمین پر انسانوں کے لیے خانہ کعبہ ہے ، اسی طرح آسمانوں پر فرشتوں کا قبلہ بیت المعمور ہے ، وہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں مگر کسی فرشتے کو ایک سے زیادہ مرتبہ طواف کا موقع نہیں ملتا اس کے بعد حضور ﷺ کو سدرۃ المنتہی کے مقام تک لے جایا گیا ، جس کے پاس ہی جنت الماوی ہے ، پھر اسی مقام پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا ظہور ہوا جسے روئیت باری تعالیٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے آپ ﷺ نے جنت اور دوزخ کی سیر کی جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا اس کے علاوہ ہزاروں خارق عادت واقعات پیش آئے ۔ اسی مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تین خاص چیزیں عطا فرمائیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اور آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ سے آپ ان میں تخفیف کی درخواست کرتے رہے اور پھر آخر میں پانچ نمازیں رہ گئیں اس کے متعلق کہا گیا ہے ” ذلک خمس وذلک خمسین “۔ یعنی ادا کرنے میں تو پانچ نمازیں ہیں مگر درجے کے اعتبار سے پچاس ہی ہیں ، بہرحال آپ کو پہلا تحفہ پانچ نمازوں کا ملا ، دوسرا تحفہ سورة بقرہ کی آخری دو آیات (آیت) ” امن الرسول “۔ سے لیکر (آیت) ” علی القوم الکفرین “۔ تک اور تیسری خاص چیز اللہ کا یہ فرمان ہے کہ حضور ﷺ کی امت کا جو شخص شرک میں ملوث نہیں ہوگا میں اس کی غلطیاں معاف فرما دوں گا ۔ (تعجب انگیز واقعات) اس تعجب انگیز واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ “۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت لیے گئے ، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ خود بخود تو معراج کے سفر پر نہیں گئے بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اس کا انتظام فرمایا وہ تمام قوتوں کا مالک اور قادر مطلق ہے ، تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ، لہذا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنے بندے کو روح اور جسم دونوں کے ساتھ بلند سے بلند تر مقام تک لے جائے ، اب منکرین اور ملحدین جو بھی تاویلیں کریں ، اللہ تعالیٰ نے لفظ سبحان کے ذریعے سب کا قلع قمع کردیا ہے ، اتنا تیز رفتار جانور بھی اللہ تعالیٰ ہی مہیا کرسکتا ہے اور پھر خاص بات یہ ہے کہ اتنے طویل سفر کے لیے لمبے چوڑے وقت کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ فرمایا ” لیلا “ یہ سب کچھ رات بھر میں ہوگیا اور ” لیلا “ کو نکرہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ پوری رات میں بھی نہیں ، بلکہ رات کے تھوڑے سے حصے میں یہ سارا واقعہ پیش آیا لفظ اسرای خود باب افعال ہے جو متعدی ہے ، پھر اس کے آگے ب لگا کر معیت کا معنی لیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے حصے میں لے گیا (آیت) ” من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی “۔ مسجد حرام سے مسجد اقصے یعنی دور والی مسجد کی طرف اقصی کا معنی دور ہوتا ہے چونکہ بیت المقدس خطہ عرب سے دور ہے اس لیے اسے مسجد اقصے کا نام دیا گیا ہے ۔ (بابرکت ماحول) فرمایا مسجد اقصی وہ مسجد ہے (آیت) ” الذی برکنا حولہ “۔ جس کے اردگرد ہم نے برکات رکھی ہیں اس میں ظاہری اور باطنی دو قسم کی برکات شامل ہیں ، ظاہری طور پر یہ خطہ سرسبز و شاداب ہے ، یہاں پر نہریں ، چشمے اور باغات ہیں ، نیز یہ مقام ہزاروں انبیاء کا قبلہ رہا ہے اور ان کی وہاں قبریں بھی موجود ہیں ، یہاں پر خدا تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، لہذا یہ ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے بابرکت مقام ہے ، مفسرین یہ نکتہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لیجانے میں یہ حکمت بھی ہے کہ حشر کا میدان اسی مقام پر قائم ہوگا ، اس لیے حضور ﷺ کو سب چیزوں سے متعارف کرا دیا گیا ، پھر آپ کے توسط سے آپ کی امت کو بھی ان چیزوں سے آگاہ کیا گیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے ایک مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا (آیت) ” لنریہ من ایتنا تاکہ ہم اپنے نبی کو اپنی قدرت کی نشانیاں اور کمالات دکھائیں ، ظاہر ہے کہ اللہ نے آپ کو عالم بالا اور عالم ملکوت کی بہت سی جگہوں کی سیر کرائی اور اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں دکھائیں (آیت) ” انہ ھو السمیع البصیر “۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے ، اس نے اس واقعہ کے ذریعے اپنے نبی کا مرتبہ بلند فرمایا اور اس ایک آیت میں آپ کے فضائل حمیدہ کا تذکرہ کردیا گیا ، اگلی دو آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور پھر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہوجاتا ہے ۔
Top