Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 12
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اٰيَتَيْنِ : دو نشانیاں فَمَحَوْنَآ : پھر ہم نے مٹا دیا اٰيَةَ الَّيْلِ : رات کی نشانی وَجَعَلْنَآ : اور ہم نے بنایا اٰيَةَ النَّهَارِ : دن کی نشانی مُبْصِرَةً : دکھانے والی لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّكُمْ : اپنے رب سے (کا) وَلِتَعْلَمُوْا : اور تاکہ تم معلوم کرو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب وَ : اور كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز فَصَّلْنٰهُ : ہم نے بیان کیا ہے تَفْصِيْلًا : تفصیل کے ساتھ
اور بنایا ہے ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں پس ہم نے دھیما کردیا ہے رات کی نشانی کو اور بنایا ہے دن کی نشانی کو روشن تاکہ تلاش کرو تم فضل اپنے رب سے اور تاکہ تم جان لو گنتی سالوں کی اور حساب ، اور ہر ایک چیز ہم نے تفصیل کی ہے اس کی تفصیل کرنا ۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں قرآن پاک کی ہدایت اور راہنمائی کا ذکر ہوا کہ یہ سب سے سیدھے راستے اور سب سے درست ملت کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، یہ قرآن اہل ایمان کو بشارت دیتا ہے اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کو عذاب کی وعید سناتا ہے پھر فرمایا انسان جلد بازی میں آکر شر کی دعا کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کے لیے مناسب نہیں ، آج کے درس میں اللہ نے اپنی پہچان ، توحید اور وقوع قیامت کے سلسلے میں اپنی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا ہے ، اگر ان میں تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ کو سمجھ سکتا ہے ، انہی نشانیوں سے قیامت پر یقین بھی پختہ ہو سکتا ہے ۔ (لیل ونہار کا نظام) نشانات قدرت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی دونشانیوں کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وجعلنا الیل والنھار ایتین “۔ اور بنایا ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں ، ان نشانیوں کی دو خصوصیات یہ بیان فرمائیں (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “۔ پھر ہم نے محو کردیا ، مٹا دیا ، دھیما کردیا ، رات کی نشانی کو ، یعنی رات کے وقت وہ آب وتاب نہیں ہوتی جو دن کے وقت ہوتی ہے اور دن کی نشانی کے متعلق فرمایا (آیت) ” وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ “۔ اور بنایا ہم نے دن کی نشانی کو روشن ، دن کے وقت سورج کی روشنی خوب ہوتی ہے رات کو دھیمی سی روشنی چاند اور ستاروں کی ہوتی ہے جب کہ دن کے وقت سورج دنیا کو منور کردیتا ہے ۔ رات اور دن کی مصروفیت بھی الگ الگ ہیں اور ان میں تفاوت ہی کاروبار کی تقسیم اور اوقات کار کے تعین کا ذریعہ ہے کہ سورة الانعام میں ہے (آیت) ” وجعل الیل سکنا “۔ رات انسانوں اور حیوانوں کے آرام کے لیے بنائی ہے تاکہ اس دروان میں وہ تھکاوٹ کر دور کرکے اپنی قومی کو بحال کرسکیں ، اللہ تعالیٰ نے رات کو اسی لیے دھیما بنایا ہے کہ آرام و سکون میں تیز روشنی موزوں نہیں ہوتی ، اسی طرح دن کے متعلق سورة النباء میں فرمایا (آیت) ” وجعلنا النھار معاشا “۔ اور ہم نے دن کو ذریعہ معاش بنایا ، رات کے آرام کے ہے انسان دن کے وقت کاروبار میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یہ کام سورج کی تیز روشنی میں ہی انجام دیا جاسکتا ہے ، چناچہ لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں دوکانداری کرتے ہیں ، کوئی مزدوری کرتا ہے ملازمت اختیار کرتا ہے ، یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا ہے جس سے انسان روزی کماتے ہیں ، جانور اور پرندے بھی اپنے اپنے ٹھکانوں سے روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا یہ نظام انسانوں اور حیوانوں کی مصلحت اور ضروریات کے مطابق رکھا ہے ۔ (روحانی کمال اور زوال) جس طرح رات اور دن کا نظام مختلف اغراض ومقاصد کے لیے قائم ہے ، اسی طرح اللہ نے روحانیت کا نظام بھی قائم کیا ہے بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسان کی روح میں روشنی پیدا ہوتی ہے جو اسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے ، اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو روح انسانی کو تاریک بنا دیتی ہیں اور انسان خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے ، چناچہ ایمان اور کفر اسی نظام کا حصہ ہیں ، ایمان کی بدولت انسان میں روشنی پیدا ہوتی ہے اور اسے کمال حاصل ہوتا ہے جب کہ کفر اختیار کرنے سے تاریکی جنم لیتی ہے جس طرح رات کی تاریکی دن کی روشنی میں تبدیل ہوتی ہے تو انسان کو معیشت کے اسباب حاصل ہوتے ہیں ، اسی طرح کفر وشرک کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ انبیاء کو مبعوث کرکے اور کتابیں نازل فرما کر روحانی روشنی کا بندوبست کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ (رزق حلال کی تلاش) فرمایا ہم نے دن کو روشن نشانی بنایا (آیت) ” لتبتغوا فضلا من ربکم تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو لفظ فضل اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے ، اس میں رزق حلال بھی داخل ہے اور انسان کا ہر کمال فضل ہی کا حصہ ہے ، اس کے علاوہ عبادت ، ریاضت ، علم ، اچھا اخلاق وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو دن کی روشنی میں حاصل ہوتا ہے اور اللہ نے دن کو اپنی نشانی کے طور پر متعارف کرایا ہے ۔ (ماہ وسال کی گنتی) فرمایا دن رات کے تغیر وتبدل کا ایک مقصد یہ بھی ہے (آیت) ” ولتعلموا عددالسنین والحساب “۔ تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو ظاہر ہے کہ ماہ وسال کی شناخت دن رات کے تغیر وتبدل سے ہی ہوتی ہے پہلے ایک دن بنتا ہے ، پھر ہفتہ ، پھر مہینہ اور پھر سال ، مختلف امور کی انجام دی کے لیے اللہ نے جو نظام الاوقات مقرر کیا ہے وہ سورج کے حساب سے ہوگا یا چاند کے حساب اسے اور پھر اس کے مطابق روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ امور انجام دیے جاتے ہیں ، گویا دن رات کا ایک مقصد ماہ وسال کی گنتی کا حساب قائم کرنا بھی ہے ۔ اس کے ساتھ اللہ نے یہ بھی فرما دیا (آیت) ” وکل شیء فصلنہ تفصیلا “۔ اور ہم نے ہر چیز کی تفصیل کھول کر بیان کردی تاکہ انسان اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اور سمجھ کر حقیقت کو معلوم کرسکیں ، ایمان کی دولت حاصل کرسکیں اور نیکیاں کما سکیں ، لیل ونہار کا جو وقفہ انسان کو مل رہا ہے ، اسے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے سورة الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وھو الذی جعل الیل والنھار خلفۃ لمن اراد ان یذکر او اراد شکورا “ جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے یا اللہ کا شکر گزار بندہ بننا چاہتا ہے اس کے لیے اللہ نے رات اور دن کو آگے پیچھے آنے والا بنا دیا ہے دن رات کا تغیر وتبدل عقلمندوں کے لیے بہت بڑا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان میں غور وفکر کرکے صحیح نتیجے پر پہنچ جائے حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ رات کے وقت میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے دن کے وقت موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں ، اس طرح دن میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے رات کو معافی مانگتے اور تلافی کرنے کا موقع ہوتا ہے اور اس طرح انسان اپنی حالت کو درست کرسکتا ہے ۔ (انسان کا نامہ اعمال) دن رات کی نشانیوں کے تذکرے اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بیان کے بعد اللہ نے انسان کی توجہ اس کی آخرت کی طرف دلائی ہے اور بتا دیا ہے کہ دنیا کی کارگزاری یہیں پر ختم نہیں ہوجائے گی ، بلکہ اس کا حتمی نتیجہ آخرت میں نکلنے والا ہے ، اس دنیا میں انجام دیا جانے والا ہر اچھا یا برا عمل محفوظ کیا جارہا ہے اور اس کی صورت یہ ہے (آیت) ” وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “۔ ہم نے ہر انسان کے ساتھ اس کا طاہر یعنی اعمال نامہ اس کی گردن میں لازم کردیا ہے ، لغوی طور پر طائر کا معنی پرندہ اور شگون بھی ہوتا ہے ، تاہم یہاں پر اس سے مراد ہر انسان کانامہ اعمال ہے جو اس کی زندگی پھر مرتب ہوتا ہے اور پھر موت کے وقت اس کی گردن میں لٹکا دیا جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ونخرج لہ یوم القیمۃ کتبا “۔ جسے ہم قیامت کے دن ایک نوشتے کی صورت میں نکالیں گے (آیت) ” یلقہ منشورا “۔ جسے وہ کھلاہوا پائے گا ، اس کتاب میں ہر انسان اپنی سعادت یا شقاوت کی ہر چیز موجود پائے گا ، یہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے یا اس کی شومئی قسمت کہ اس کا ہر عمل اس کے گلے کا ہار بن چکا ہوگا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت ہر خواندہ اور ناخواندہ آدمی اس کو خود پڑھ سکے گا اور پھر حیرت کے ساتھ کہے گا (آیت) ” مالھذا الکتب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا “۔ (الکہف) یہ عجیب کتاب ہے جس نے ہر چھوٹی بڑی چیز کو شمار کر رکھا ہے ، حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت فرمائے گا اے ابن آدم ! ” انما ھی اعمالکم احصیھا لکم “۔ یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں نے تمہارے لیے شمار اور محفوظ کر کے رکھا ہوا ہے ، اگر اس نامہ اعمال کو اچھا پاؤ تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اگر اسے اپنے خلاف پاؤ تو اپنے آپ کو ملامت کرو کہ یہ تمہاری اپنی ہی کمائی ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل نکلتا بھی اس کے نفس سے ہی ہے اور پھر لوٹ کر نفس کی طرف ہی چلا جاتا ہے اور پھر اس کو شمار کرکے محفوظ کرلیا جاتا ہے ۔ بہرحال قیامت کے دن جب انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن سے نکال کر اس کے سامنے کیا جائے گا تو حکم ہوگا (آیت) ” اقرا کتبک “۔ اپنا نوشتہ خود پڑھ لو کفی بنفسک الیوم علیک حسبیبا “۔ آج کے دن تمہار اپنا نفس ہی تمہارے محاسبے کے لیے کافی ہے اس اعمالنامہ کو پڑھنے کے لیے کسی منشی کی ضرورت نہیں تم خود اسے پڑھو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب دجال کا ظہور ہوگا تو اس کی پیشانی پر لفظ ” کافر “ لکھا ہوگا ، ہر ایماندار اس کو پڑھ لے گا مگر کوئی بےایمان کافر ، مشرک اسے نہیں پڑھ سکے گا ، اسی طرح ہر آدمی اپنا اعمالنامہ خود پڑھے گا جس میں اس کا ہر نیک و بدعمل درج ہوگا ، اور وہ اسی سے اپنی جزا یا سزا کو معلوم کرسکے گا ، فرمایا ، ہمارا اصول یہ ہے (آیت) ” من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ “۔ جس نے ہدایت پائی تو اس نے اپنے ہی نفس کے لیے ہدایت پائی اس سے اسی کو فائدہ ہوگا (آیت) ” ومن ضل فانما یضل علیھا “۔ اور جو کوئی گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی اسی کے نفس پر پڑتی ہے ، اس کا نقصان خود اس کو ہوتا ہے (آیت) ” ولا تزروازرۃ وزر اخری “۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا نیکی یا بدی جو بھی کی ہے اس کا بوجھ خود ہی اپنی گردن پر اٹھانا پڑے گا اس وقت نہ کوئی رشتہ دار مدد کرسکے گا نہ کوئی مزدور ہوگا جو کسی کا بوجھ اٹھا لے ۔ (اتمام حجت) اللہ نے ایک اور بھی اہم بات یہاں بیان فرمائی ہے (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ ہم کسی قوم کو سزا نہیں دیتے جب تک کہ ہم رسول نہ بھیج دیں کسی مجرم کو سزا دینے سے پہلے اتمام حجت ضروری ہے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے ، کتابیں نازل فرمائیں اور پھر مبلغین کے ذریعے اپنا پیغام تمام لوگوں تک پہنچایا ، اگر اب بھی کوئی شخص ایمان کی بجائے کفر اور نیکی کی بجائے برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے اس پر حجت تمام ہوچکی ہے ، سورة النسآء میں اللہ کا فرمان موجود ہے کہ ہم نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے رسول مبعوث فرمائے (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل “۔ تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے ، اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے ، رسول کے آنے کے بعد عذر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی فرمایا کل کو کوئی یہ نہ کہے (آیت) ” ما جاء نا من بشیر ولا نذیر “۔ (المائدہ) کہ ہمارے پاس بشارت دینے والا اور ڈرانے والا کوئی نہیں آیا اللہ نے فرمایا (آیت) ” فقد جآء کم بشرونذیر “۔ (المائدہ) تمہارے پاس بشیر اور نذیر آچکے ہیں ، اگر اب بھی کفر ، شرک ، معاصی سے باز نہیں آؤ گے تو پھر کوئی عذر قابل قبول اور مسموع نہیں ہوگا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی صورت نوعیہ کا تقاضا ہے کہ اس کی ہر نیکی اور بدی کی جزا یا سزا ملے اس کے علاوہ فرشتوں کی دعا یا بدعا بھی انسان کے حق میں موثر ہوتی ہے کیونکہ فرشتے نیکی کرنے والے کے لیے دعا اور برائی کے مرتکب کے لیے لعنت بھیجتے ہیں ۔ نیک عمل کرنے والوں کے حق میں قرآن بھی شہادت دیتا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کی بعثت اور شرائع کے نزول کے بعد حجت تمام ہوگئی ہے ، لہذا اب ہر شخص کو جزا یا سزا ضرور ملے گی ۔ (مکلف کی بحث) مفسرین کرام اس بارے میں بحث کرتے ہیں کہ جو لوگ فترت کے زمانے میں فوت ہوجاتے ہیں ، یعنی وہ زمانہ جب کوئی رسول نہیں آیا جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور ﷺ کا درمیانی زمانہ اسی طرح کافروں اور مشرکوں کے فوت ہونے والے چھوٹے بچوں کے متعلق کیا حکم ہے کہ ان کی گرفت ہوگی یا نہیں ، اگرچہ اس ضمن میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم صحیح بات یہی ہے کہ رسول سے مراد ایک تو باہر کا رسول ہے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور ایک انسان کے اندر کا رسول اس کی عقل ہے ، اگر کسی قوم یا فرد کے پاس باہر کا رسول نہیں تو اس کے پاس اندر کا رسول یعنی عقل تو موجود ہے جسے بروئے کار لا کر نیکی وبدی اور حق و باطل میں تمیز کی جاسکتی ہے ، اگر کوئی شخص عقلمند ہے تو وہ مکلف ہے اور نیکی یا بدی کی جزا یا سزا کا مستحق ہے ، البتہ اگر کوئی شخص عقل و شعور سے ہی محروم ہے تو وہ مکلف نہیں ، چناچہ دیوانے احمق اور بےعقل آدمی عذاب کے مستحق نہیں ، چھوٹے بچے جو سن شعور کو پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں ، وہ بھی غیر مکلف ہیں اور سزا کے حقدار نہیں ہیں ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں عذر پیش کریں گے ، مثلا بہرہ آدمی کہے گا مولا کریم ! تو نے مجھے سماعت کی نعمت سے محروم رکھا ، تیرے انبیاء اور کتابیں آئیں مگر بہرہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکا ، لہذا اس مجبوری کی بناء پر مجھے سزا نہیں ملنی چاہئے ، دیوانہ آدمی عذر پیش کرے گا کہ مولا کریم ! تیرا دین آیا مگر میری حالت یہ تھی کہ لوگ مجھے پتھر مارتے تھے ، میں شعور سے خالی تھا بوڑھا آدمی کہے گا کہ میرے قوی مضمحل ہوچکے تھے اور میں تیرے احکام پر عمل کرنے سے قاصر تھا ، فترت کے زمانے کے لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی رسول آیا ہی نہیں لہذا ہمیں راہ ہدایت کیسے معلوم ہوتی ، روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اسی وقت آزمائش کرے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارے پاس ایک فرشتہ بطور رسول بھیجتا ہوں ، پھر ایک فرشتہ آکر ان کو کہے گا کہ میں خدا کی جانب سے تمہارے پاس قاصد آیا ہوں تمہارے لیے حکم یہ ہے ہے کہ تم اس جہنم میں چھلانگ لگا دو پھر جو شخص اس حکم کی تعمیل میں جہنم میں کود جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دے گا ، اور جو حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ، وہ ناکام ونامراد ٹھہرے گا ۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک عاقل بالغ شخص کسی ایسی جگہ پر ہے جہاں کوئی دوسرا انسان نہیں پہنچ سکا کسی پہاڑ کی چوٹی ہے یا صحرا کا کوئی گوشہ ہے جہاں اس کی ہدایت کے لیے کوئی سامان نہیں پہنچا تو فرماتے ہیں کہ اگر ایسا شخص کفر یا شرک کا ارتکاب کرے گا تو ماخوذ ہو کر جہنم رسید ہوگا ، کیونکہ اللہ نے اسے عقل و شعور جیس نعمت عطا کی ہے ، وہ قدرت کی نشانیاں دیکھ کر اس کی وحدانیت کو پہچان سکتا ہے ، لہذا اس کا کفر وشرک قابل مواخذہ ہوگا ، البتہ حلال و حرام کی تمیز میں یا نماز ، روزہ ، حج زکوۃ وغیرہ کی عدم ادائیگی میں وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ چیزیں بتانے والا اس کے پاس کوئی نہیں پہنچ سکا ، مطلب یہ کہ عقل و شعور بھی انسان کو مکلف بنانے کے لیے کافی ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو فرمایا ، آگے آؤ ، وہ آگے آگئی ، پھر فرمایا پیچھے ہٹ جاؤ تو وہ پیچھے ہٹ گئی اللہ نے فرمایا ” بک اخذوبک امنع “ میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا ، اور تیری وجہ سے روکوں گا ، گویا جس شخص میں عقل نہیں وہ ناقابل مؤاخذہ ہے ، چھوٹے بچوں کا بھی یہی معاملہ ہے ، شعور کے تین درجے ہوتے ہیں ، سات سال ، دس سال اور پھر بارہ چودہ سال ، لیکن جب تک اس میں پوری عقل نہیں آتی ، وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہوتا ، ایسے لوگوں سے مؤاخذہ کرنا اللہ تعالیٰ کے قانون عدل کیخلاف ہے کیونکہ وہ ابھی تک مؤاخذے والی شرط پوری نہیں کرتے ، غرضیکہ جب دنیا میں رسولوں کے ذریعے حجت تمام ہوجائے اور انسان کے داخلی نظام میں عقل بھی مکمل ہو تو پھر انسان قابل مؤاخذہ ہوجاتا ہے ، اور اسی بات کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اس وقت تک کسی کو سزا نہیں دیتے جب تک رسول مبعوث کرکے اپنی حجت تمام نہیں کرلیتے ۔
Top